سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : اگست 2012

قسط ۹۲

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نسا

آیات ۸۵۔۷۷

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ج فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْق‘’ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً ج وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ ج لَوْ لَا ٓ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ط قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْل‘’ ج وَالْاٰخِرَۃُ خَیْر‘’ لِّمَنِ اتَّقٰی قف وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ہ۷۷ اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ط وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَنَۃ‘’ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃ‘’ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ط قُلْ کُلّ‘’ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط فَمَالِ ھٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا ہ۷۸ مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ز وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ط وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا ہ۷۹ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ہط ۸۰ وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃ‘’ ز فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃ‘’ مِّنْھُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ ط وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ج فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً ہ۸۱ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ہ۸۲ وَاِذَا جَآءَ ھُمْ اَمْر‘’ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَا تَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلاً ہ۸۳ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلاً ہ۸۴ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْب‘’ مِّنْھَا ج وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْل‘’ مِّنْھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا ہ۸۵

تراجم

                ۱۔ تو نے نہ دیکھے؟ وہ لوگ جن کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ہاتھ بند رکھو، اور قائم کرو نماز، اور دیتے رہو زکوٰۃ۔ پھر جب حکم ہوا ان پر لڑائی کا، اُسی وقت ان میں ایک جماعت ڈرنے لگی لوگوں سے، جیسا ڈر ہو اللہ کا، یا اس سے زیادہ ڈر۔ اور کہنے لگے: اے رب ہمارے! کیوں فرض کی ہم پر لڑائی؟ کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر؟ تو کہہ: فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے، اور آخرت کا بہتر ہے پرہیزگار کو۔ اور تمھارا حق نہ رہے گا ایک تاگا(۷۷) جہاں تم ہو گے موت تم کو آ پکڑے گی، اگرچہ تم ہو مضبوط برجوں میں۔ اور اگر پہنچے لوگوں کو کچھ بھلائی، کہیں یہ اللہ کی طرف سے۔ اور اگر ان کو پہنچے کچھ برائی تو کہیں یہ تیری طرف سے۔ تو کہہ، سب اللہ کی طرف سے ہے۔ سو کیا حال ہے ان لوگوں کا؟ لگتے نہیں کہ سمجھیں ایک بات(۷۸) جو تجھ کو بھلائی پہنچے، سو اللہ کی طرف سے۔ اور جو تجھ کو برائی پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے۔ اور ہم نے تجھ کو بھیجا، پیغام پہنچانے والا لوگوں کو۔ اور اللہ بس ہے سامنے دیکھتا(۷۹) جن نے حکم مانا رسول کا، اس نے حکم مانا اللہ کا۔ اور جو الٹا پھرا، تو ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا ان پر نگہبان(۸۰) اور کہتے ہیں کہ قبول۔ پھر جب باہر گئے تیرے پاس سے، مشورت کرتے ہیں بعضے بعضے ان میں رات کو، سوا تیری بات کے۔ اور اللہ لکھتا ہے جو ٹھہراتے ہیں۔ سو تو تغافل کر ان سے، اور بھروسا کر اللہ پر اور اللہ بس ہے کام بنانے والا(۸۱) کیا غور نہیں کرتے قرآن میں؟ اور اگر یہ ہوتا کسی اور کا سوا اللہ کے، تو پاتے اُس میں بہت تفاوت(۸۲) اور جب ان پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی، یا ڈر کی، اس کو مشہور کرتے ہیں۔ اور اگر اس کو پہنچاتے رسول تک، اور اپنے اختیار والوں تک، تو تحقیق کرتے اس کو، جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی۔ اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر، اور اس کی مہر، تو تم شیطان کے پیچھے جاتے مگر تھوڑے(۸۳) سو تو لڑ اللہ کی راہ میں، تجھ پر ذمہ نہیں مگر اپنی جان سے اور تاکید کر مسلمانوں کو۔ قریب ہے کہ اللہ بند کرے لڑائی کافروں کی۔ اور اللہ سخت ہے لڑائی والا، اور سخت سزا دینے والا(۸۴) جو کوئی سفارش کرے نیک بات میں، اس کو بھی ملے اس میں سے ایک حصہ۔ اور جو کوئی سفارش کرتے بری بات میں، اُس پر بھی ہے ایک بوجھ اس میں سے۔ اور اللہ ہے ہر چیز کا حصہ بانٹنے والا(۸۵) (شاہ عبدالقادرؒ)

                ۲۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ ان کو یہ کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو تھامے رہو اور نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو پھر جب ان پر جہاد کرنا فرض کر دیا گیا تو قصہ کیا ہوا کہ ان میں سے بعض بعض آدمی لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسا کہ کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور یوں کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار، آپ نے ہم پر جہاد کیوں فرض فرما دیا ، ہم کو اور تھوڑی مدت مہلت دے دی ہوتی۔ آپ فرما دیجیے کہ دنیا کا تمتمع محض چند روزہ ہے اور آخرت ہر طرح سے بہتر ہے اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچے اور تم پر تاگے برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا(۷۷) تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں ہی تم کو موت آ دبا وے گی اگرچہ تم قلعی چونہ کے قلعوں ہی میں ہو اور اگر ان کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ منجانب اللہ (اتفاقاً) ہو گئی اور اگر ان کو کوئی بری حالت پیش آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کے سبب سے ہے۔ آپ فرما دیجیے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ تو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ بات سمجھنے کے پاس کو بھی نہیں نکلتے(۷۸) اے انسان تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔ اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہیں(۷۹) جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو شخص روگردانی کرے سو ہم نے آپ کو ان کا نگراں کر کے نہیں بھیجا(۸۰) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا کام اطاعت کرنا ہے۔ جب آپ کے پاس سے باہر جاتے ہیں تو شب کے وقت مشورہ کرتی ہے ان میں کی ایک جماعت برخلاف اس کے جو کچھ کہ زبان سے کہہ چکے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ لکھتے جاتے ہیں جو کچھ وہ راتوں کو مشورے کیا کرتے ہیں سو آپ ان کی طرف التفات نہ کیجیے اور اللہ تعالیٰ کے حوالے کیجیے اور اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہیں(۸۱) تو کیا پھر قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بکثرت تفاوت پاتے(۸۲) اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جو ان میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے حوالے پر رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کر لیا کرتے اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم سب کے سب شیطان کے پیرو ہو جاتے بجز تھوڑے آدمیوں کے(۸۳) پس آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجیے آپ کو بجز آپ کے ذاتی فعل کے کوئی حکم نہیں اور مسلمانوں کو ترغیب دے دیجئے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ کافروں کے زور جنگ کو روک دیں اور اللہ تعالیٰ زور جنگ میں زیادہ شدید ہیں اور سخت سزا دیتے ہیں(۸۴) جو شخص اچھی سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں(۸۵) (مولانا تھانویؒ)

                ۳۔ کیا تم نے انھیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں بعضے لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرے یا اسے سے بھی زائد اور بولے اے رب ہمارے، تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا۔ تھوڑی مدت تک ہمیں اور جینے دیا ہوتا تم فرما دو کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے اور ڈر والوں کے لیے آخرت اچھی اور تم پر تاگے برابر ظلم نہ ہو گا(۷۷) تم جہاں کہیں ہو موت تمھیں آ لے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو اور انھیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انھیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی۔ تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے(۷۸) اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔ اور اے محبوب ہم نے تمھیں سب لوگوں کے لیے رسول بھیجا اور اللہ کافی ہے گواہ(۷۹) جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمھیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا(۸۰) اور کہتے ہیں ہم نے حکم مانا پھر جب تمھارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ جو کہہ گیا تھا اس کے خلاف رات کو منصوبے گانٹھتا ہے اور اللہ لکھ رکھتا ہے ان کے رات کے منصوبے۔ تو اے محبوب تم ان سے چشم پوشی کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو اور اللہ کافی ہے کام بنانے کو(۸۱) تو کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے(۸۲) اور جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں اور اگر اس میں رسول اور اپنے ذی اختیار لوگوں کی طرف رجوع لاتے تو ضرور ان سے اس کی حقیقت جان لیتے یہ جو بعد میں کاوش کرتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے مگر تھوڑے(۸۳) تو اے محبوب اللہ کی راہ میں لڑو، تم تکلیف نہ دیئے جاؤ گے مگر اپنے دم کی اور مسلمانوں کو آمادہ کرو قریب ہے کہ اللہ کافروں کی سختی روک دے اور اللہ کی آنچ (جنگی طاقت) سب سے سخت تر ہے اور اس کا عذاب سب سے کرّا (زبردست)(۸۴) جو اچھی سفارش کرے اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو بری سفارش کرے اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے(۸۵) (مولانا احمد ر ضا خانؒ)

                ۴۔ کیا تم نے انھیں نہیں دیکھا جنھیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب انھیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے، اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی۔ آپ کہہ دیجیے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیز گاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے۔ تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا(۷۷) تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمھیں آ پکڑے گی۔ گو تم مضبوط برجوں میں ہو، اور اگر انھیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ انھیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انھیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں(۷۸) تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔ ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے(۷۹) اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا(۸۰) یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں کی ایک جماعت جو بات (آپ نے یا اس نے ) کی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورے کرتی ہے، ان کی راتوں کی بات چیت اللہ تعالیٰ لکھ رہا ہے۔ تو آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھیں، اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے(۸۱) کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے(۸۲) جہاں انھیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی کہ انھوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو تحقیق کا مادہ رکھتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے(۸۳) تُو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا رہ تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے۔ ہاں اہل ایمان والوں کو رغبت دلاتا رہ، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے، اور اللہ تعالیٰ سخت لڑائی والا ہے اور سزا دینے میں بھی سخت ہے(۸۴) جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا اور جو برائی اور بدی کی سفارش کرے اس کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے(۸۵) (مولاناجوناگڑھیؒ)

                ۵۔ تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو او رزکوٰۃ دو؟ اب جو انھیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا(۷۷) رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمھیں آ کر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ اگر انھیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمھاری بدولت ہے۔ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی(۷۸)اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔ اے محمدؐ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے(۷۹) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے(۸۰)وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں۔ مگر جب تمھارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمھاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پروا نہ کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو، وہی بھروسا کے لیے کافی ہے(۸۱) کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی(۸۲)یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے عمل میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمھاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے(۸۳)پس اے نبی! تم اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سواکسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے اکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے(۸۴) جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے(۸۵)(مولانامودودیؒ)

                ۶۔ تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو تو جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کر دی، کچھ اور مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی(۷۷) اور موت تم کو پا لے گی تم جہاں کہیں بھی ہو گے، اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی ہو۔ اور اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں یہ تمھارے سبب سے ہے۔ کہہ دو ان میں سے ہر ایک اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کا نام ہی نہیں لیتے(۷۸) تمھیں جو سکھ بھی پہنچتا ہے خدا کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ تمھارے اپنے نفس کی طرف سے پہنچتا ہے اور اے رسول، ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کی گواہی کافی ہے(۷۹) اور جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے اس پر تم کو نگران نہیں مقرر کیا (۸۰)اور یہ کہتے ہیں کہ سر ِ تسلیم خم ہے، پھر جب تمھارے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ بالکل اپنے قول کے برخلاف مشورت کرتا ہے اور اللہ لکھ رہا ہے جو سرگوشیاں وہ کر رہے ہیں۔ تو ان سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو اور اللہ بھروسا کے لیے کافی ہے(۸۱) اور کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور طرف سے ہوتا تو اس میں وہ بڑا اختلاف پاتے (۸۲)اور جب ان کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر یہ اس کو رسول اور اپنے الوا الامر کے سامنے پیش کرتے تو جو لوگ ان میں سے بات کی تہہ کو پہنچنے والے ہیں وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے(۸۳)پس اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنی جان کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے اور مومنوں کو اس کے لیے ابھارو۔ توقع ہے کہ اللہ کافروں کے دباؤ کو روک دے اور اللہ بڑے زور والا اور عبرت انگیز سزا دینے والا ہے(۸۴) جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے(۸۵) (اصلاحیؒ)

                ۷۔ تم نے دیکھا نہیں اِن لوگوں کو جن سے کہا جاتا تھا کہ (ابھی لڑنے کا وقت نہیں ہے، اِس لیے) اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو (تو یہ نماز اور زکوٰۃ سے جی چراتے اور جنگ کے لیے بے تاب ہوتے تھے)، لیکن جب اِن پر جنگ فرض کر دی گئی تو اب اِن کی حالت یہ ہے کہ اِن میں سے ایک گروہ لوگوں سے اُسی طرح ڈرتا ہے، جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اُس سے بھی زیادہ۔ کہتے ہیں کہ پروردگار، تو نے یہ لڑائی ہم پر کیوں فرض کر دی ہے؟ ہمیں کچھ تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہیں دی؟ اِن سے کہہ دو: دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے اور جو لوگ پرہیز گاری اختیار کریں، اُن کے لیے آخرت اُس سے کہیں بڑھ کر ہے اور (وہاں) تمھاری ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی(۷۷) رہی موت تو تم جہاں کہیں بھی ہو، وہ ہرحال میں تمھیں آکر رہے گی، خواہ تم کیسے ہی مضبوط اور بلند و بالا قلعوں میں ہو۔(زبان سے یہ تمھاری رسالت کا اقرار کرتے ہیں) اور اگر اِنھیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں: یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں: یہ تمھاری وجہ سے ہے۔ کہہ دو: ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے، (اِس لیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اُسی کے اذن سے ہوتا ہے)۔ آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے(۷۸)۔ (یہ حقیقت ہے کہ) تمھیں جو بھلائی بھی پہنچتی ہے، اللہ کی عنایت سے پہنچتی ہے اور جو مصیبت آتی ہے، وہ تمھارے اپنے نفس کی طرف سے آتی ہے۔ (اِن کی اصل بیماری یہ ہے کہ یہ تمھاری رسالت کے بارے میں متردد ہیں۔ اِن کی پروا نہ کرو)، ہم نے تمھیں لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اِس کے لیے )اللہ کی گواہی کافی ہے(۷۹)۔ (اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو رسول کی اطاعت کرتا ہے، اُس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ موڑ لیا (تو اُس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے)، اِس لیے کہ ہم نے تمھیں اِن پر نگران بنا کر تو نہیں بھیجا ہے(۸۰)کہتے ہیں کہ سرتسلیم خم ہے، پھر جب تمھارے پاس سے ہٹتے ہیں تو اِن میں سے ایک گروہ اپنی اِس بات کے بالکل برخلاف مشورے کرتا ہے۔ اِن کی یہ تمام سرگوشیاں اللہ لکھ رہا ہے۔سو اِن سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو اور (جان لو کہ) اللہ بھروسے کے لیے کافی ہے(۸۱)۔ (تمھاری رسالت کے بارے میں اِنھیں تردد کیوں ہے)؟ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے( ۸۲)(ایمان والو، یہ تمھارے خیرخواہ نہیں ہیں، اِس لیے) اِنھیں جب امن یا خطرے کی کوئی بات پہنچتی ہے تو یہ اُسے پھیلا دیتے ہیں، دراں حالیکہ اگر یہ (اللہ کے) رسول اور اُن لوگوں کے سامنے اُسے پیش کرتے جو اُن میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں تو جو لوگ اُن میں سے بات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اُس کو سمجھ لیتے۔ (مگر اِنھوں نے شیطان کی راہ اختیار کی ہے) اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر تم سب شیطان کی پیروی کرتے(۸۳)سو (اِنھیں چھوڑو اور) اللہ کی راہ میں جنگ کرو تم پر اپنی ذات کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے ــــ ــــــــ اور ایمان والوں کو (جنگ کے لیے) ابھارو۔ بعید نہیں کہ اللہ اُن لوگوں کا زور توڑ دے جو منکر ہو گئے ہیں۔ اللہ کا زور سب سے زیادہ ہے اور (اِس طرح کے منکروں کو) وہ بڑی عبرت انگیز سزا دینے والا ہے(۸۴)۔ (یہ جہاد سے گریز کے مشورے دیتے ہیں۔ اِنھیں بتاؤ کہ) جو اچھی بات کے حق میں کہے گا، وہ اُس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کے لیے کہے گا، وہ اُس میں سے حصہ پائے گا۔ (یہ اللہ کا فیصلہ ہے) اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے(۸۵) (محترم جاویدغامدی)

تفاسیر

نظم کلام

‘‘ان آیات میں منافقین کی مزید کمزوریاں اور شرارتیں واضح کی جارہی ہیں تاکہ مسلمان ان کے فتنوں سے آگاہ ہوجائیں اور ان کی وسوسہ اندازیوں سے مسلمانوں کے اندر جو غلط اور منافی ٔ توحید و اسلام رجحانات اُبھر سکتے ہیں ان کا اچھی طرح ازالہ ہوجائے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۳۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

الم تر الی الذین ……………… ولا تظلمون فتیلا

گفتار کے غازی عمل کے بودے

‘‘ جس کا عمل کمزور ہو وہ ایک قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے سبب سے اسے لاف زنی کا سہارا لینا پڑتا ہے تاکہ اس کی بزدلی کا راز دوسروں پر کھلنے نہ پائے۔ چنانچہ منافقین بھی زبان سے بڑے ولولے کا اظہار کرتے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں روکتے کہ ابھی جہاد کا انتظار کرو اور نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کے ذریعے سے اپنے تعلق باللہ، اپنی تنظیم اور اپنے جذبۂ انفاق کو ترقی دو۔ لیکن جب اس کا وقت آگیا اور جنگ کا حکم دیا گیا تو زبان کے ان غازیوں کا سارا جوش سرد پڑ گیا، اب یہ چھپنے کی کوشش کرتے اور دل میں جو رُعب اور خشیت خدا کے لیے ہونی چاہیے اس سے زیادہ دہشت ان کے دلوں پر انسانوں کے لیے طاری تھی۔ یہ دل ہی دل میں کہتے کہ اے خدا اتنی جلدی تو نے یہ جنگ کا حکم کیوں دے دیا، کچھ اور مہلت کیوں نہ دی۔ قَالُوا کا لفظ یہاں ان کی ذہنی حالت کی تعبیر کر رہا ہے۔ عربی زبان اور قرآن میں اس کی مثالیں بہت ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ایک مفہُوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے، ہمیں ستایا جا تا ہے ، مارا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، آخر ہم کب تک صبر کریں، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا ۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے۔دوسرا مفہُوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکّے دیندار تھے۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا۔تیسرا مفہُوم یہ ہے کہ پہلے تو لُوٹ کھسُوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا۔ اس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اُٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے، خدا کی خاطر لڑنے میں بُزدل بنے جاتے ہیں۔ وہ دستِ شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے۔یہ تینوں مفہُوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۳۷۳، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

مسلمانوں کی طرف سے اس اظہار کا مطلب

‘‘ مسلمان جب مکہ میں تھے تو اس وقت کفار کی ایذاؤں سے تنگ آ کر جہادکے حکم کی تمنا کر رہے تھے ، لیکن مدینہ میں آ کر جب ان کو سکون و آرام نصیب ہوا تو ایسی صور ت میں جب قتال کا حکم ہوا تو اس وقت ان کا پرانا جذبہ کم ہو چکا تھا اور ان کے دلوں میں وہ جوش و خروش باقی نہیں رہا تھا، اس لیے انہوں نے محض ایک تمنا کی کہ اگر اس وقت جہاد کا حکم نہ ہوتا تو بہتر تھا، اس تمنا کو اعتراض پر محمول کر کے ان مسلمانوں کی طرف معصیت کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے ، یہ تقریر اس صورت میں ہے جب کہ انہوں نے شکایت کا اطہار زبان سے بھی کیا ہو ، لیکن اگر زبان سے نہیں کیا محض ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا تو وساوس قلبی کو شریعت نے معصیت ہی شمار نہیں کیا، یہاں یہ دونوں احتمال ہیں، اور آیت کے لفظ قالوا سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ انہوں نے زبان سے اظہار کر دیا تھا ، کیونکہ اس کے یہ معنی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دل میں کہا ہو ۔ بعض مفسرین کے نزدیک آیات کا تعلق مومنین سے نہیں ہے بلکہ منافقین سے ہے ، اس صورت میں کسی قسم کا اشکال نہیں۔ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۸۱ ، ادارۃ المعارف کراچی)

 ‘‘یہ آیت منافقین کے حق میں نازل ہوئی کہ جب تک نماز و روزہ کا حکم تھا اس وقت تک تو پکے مومن بنے رہے۔ اب جب اسلام کی سربلندی کے لیے سر کٹانے کا موقع آیا تو اوسان خطا ہونے لگے۔ ،علامہ مذکور فرماتے ہیں کہ ربنا لم کتبت…… کا جملہ صحابہ کرام کی زبان سے نہیں نکل سکتا۔ وہ تو اس دارِفنا کو الوداع کہہ کر آخرت کی ابدی نعمتوں سے ہمکنار ہونے کے لیے ہروقت بے تاب رہا کرتے تھے۔ ومعاذ اللّٰہ ان یصدر ھذا القول من صحابی کریم…… (قرطبی) پناہ بُخدا کسی پاکباز صحابی کی زبان سے یہ جملہ صادر نہیں ہوسکتا۔ (ضیاء القرآن، جلد ۱ ، ص۳۶۷، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

جہاد اور نماز و زکوٰۃ میں گہری مناسبت

‘‘اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی جنگ کی روح اور نماز و زکوٰۃ میں نہایت گہری مناسبت ہے۔ جو لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کیلیے تیار ہو رہے ہوں ان کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ سے زیادہ ضروری اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ ہے۔ جہاد میں جو للہیت، اخلاص اور نظم و طاعت کی جو پابندی مطلوب ہے اس کی بہترین تربیت نماز سے ہوتی ہے اور اس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کا جو جذبہ درکار ہے وہ ایتائے زکوٰۃ کی پختہ عادت سے نشوونما پاتا ہے۔ ان صفات کے بغیر اگر کوئی گروہ جنگ کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اس جنگ سے کوئی اصلاح وجود میں نہیں آسکتی، اس سے صرف فساد فی الارض میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہی حکمت ہے کہ اسلامی جنگ کے سخت سے سخت حالات میں بھی نماز کے اہتمام و التزام کی تاکید ہوئی۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

این ما تکونوا…… یفقہون حدیثا

‘‘بروج’ برج کی جمع ہے۔ اپنے ابتدائی مفہوم میں تو یہ کسی نمایاں اور واضح چیز کے لیے استعمال ہوا، لیکن پھر یہ بلند عمارتوں اور قلعوں کے لیے معروف ہوگیا۔ اس کے ساتھ مشیدۃ کی صفت بلندی اور استحکام دونوں مفہوم پر مشتمل ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

خوفِ موت کی علّت اور اس کا علاج

‘‘ آدمی پر جو فرض جس وقت عائد ہوتا ہے اس کو عزم و ہمت سے ادا کرے اور موت کے مسئلے کو خدا پر چھوڑے۔ آدمی کے لیے یہ بات تو جائز نہیں ہے کہ وہ تدابیر اور احتیاطوں سے گریز اختیار کرے اس لیے کہ اس کویہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کو آزمائے، لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ وہ یہ گمان رکھے کہ وہ اپنی تدابیر سے اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ایک عبرت ناک واقعہ

‘‘این ما تکو نو ا یدرککم الموت ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت جہاد سے رکنے والوں کے اس شبہ کا ازالہ کر دیا کہ شاید جہاد سے جان بچا کر موت سے بھی بچ سکتے ہیں ، اس لیے فرمایا کہ موت ایک دن آ کر رہے گی ، خواہ تم جہاں کہیں بھی ہو وہیں موت آئے گی ، جب یہ بات ہے تو تمہارا جہاد سے منہ پھیرنا بیکار ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے اس آیت کے ذیل میں ایک عبرت ناک واقعہ بروایت ابن جریر و ابن ابی حاتم عن مجاہد لکھا ہے ، کہ پہلی امتوں میں ایک عورت تھی ، اس کو جب وضع حمل کا وقت شروع ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیدا ہوا ، تو اس نے اپنے ملازم کو آگ لینے کے لیے بھیجا ، وہ دروازہ سے نکل ہی رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی ظاہر ہوا اور اس نے پوچھا کہ یہ عورت کیا جنی ہے ؟ ملازم نے جواب دیا کہ ایک لڑکی ہے ، تو اس آدمی نے کہا کہ آپ یاد رکھئے ! یہ لڑکی سو مردوں سے زنا کرے گی اور آخر ایک مکڑی سے مرے گی ، ملازم یہ سن کر واپس ہوا ، اور فوراً ایک چھری لے کر اس لڑکی کا پیٹ چاک کر دیا ، اور سوچا کہ اب یہ مر گئی ہے تو بھاگ گیا، مگر پیچھے لڑکی کی ماں نے ٹانکے لگا کر اس کا پیٹ جوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ لڑکی جوان ہو گئی ، اور خوب صورت اتنی تھی کہ اس شہر میں وہ بے مثال تھی ۔اس ملازم نے بھاگ کر سمندر کی راہ لی،اور کافی عرصہ تک مال و دولت کماتا رہا ، اور پھر شادی کرنے کے لیے واپس شہر آیا اور یہاں اس کو ایک بڑھیا ملی ، تو اس سے ذکر کیا کہ میں ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوـں جس سے زیادہ خوب صورت اس شہر میں اور کوئی نہ ہو ، اس عورت نے کہا کہ فلاں لڑکی سے زیادہ خوبصورت نہیں ہے ، آپ اسی سے شادی کر لیں ،ا ٓخر کار کوشش کی اور اس سے شادی کر لی ، تو اس لڑکی نے مرد سے دریافت کیا کہ تم کون ہو ؟ اور کہاں رہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں ، لیکن ایک لڑکی کا پیٹ چاک کر کے بھاگ گیا تھا ، پھر اس نے پورا واقعہ سنایا ، یہ سن کر وہ بولی کہ وہ لڑکی میں ہی ہوں ، یہ کہہ کر اس نے اپنا پیٹ دکھایا ، جس پر نشان موجود تھا ، یہ دیکھ کر اس مرد نے کہا کہ اگر تو وہی عورت ہے تو تیرے متعلق دو باتیں بتلاتا ہوں ، ایک یہ کہ تو سو مردوں سے زنا کرے گی ، اس پر عورت نے اقرار کیا کہ ہاں مجھ سے ایسا ہوا ہے ، لیکن تعداد یاد نہیں ، مرد نے کہا تعداد سو ۱۰۰ ہے ، دوسری بات یہ کہ تو مکڑی سے مرے گی۔ مرد نے اس کے لیے ایک عالی شان محل تیار کرایا ، جس میں مکڑی کے جالے کا نام تک نہ تھا، ایک دن اسی میں لیٹے ہوئے تھے کہ دیوار پر ایک مکڑی نظر آئی ، عورت بولی کیا مکڑی یہی ہے جس سے تو مجھے ڈراتا ہے ؟ مرد نے کہاہاں ! اس پر وہ فوراً اٹھی ، اور کہا کہ اس کو تو میں فوراً مار دوں گی ، یہ کہہ کر اس کو نیچے گرا یا اور پاؤں سے مسل کر ہلاک کر دیا۔مکڑی تو ہلاک ہو گئی لیکن اس کی زہر کی چھینٹیں اس کے پاؤں اور ناخنوں پر پڑ گئیں، جو اس کی موت کا پیغام بن گئیں۔یہ عورت صاف ستھرے شاندار محل میں اچانک ایک مکڑی کے ذریعہ ہلاک ہو گئی ، اس کے بالمقابل کتنے ایسے آدمی ہیں کہ عمر بھر جنگوں اور معرکوں میں گذار دی وہاں موت نہ آئی ، حضرت خالد بن ولید جو اسلام کے سپاہی اور جرنیل معروف و مشہور ہیں، اور سیف اللہ ان کا لقب ہے پوری عمر شہادت کی تمنا میں جہاد میں مصروف رہے اور ہزاروں کافروں کو تہہ تیغ کیا، ہر خطرے کی وادی کو بے خوف و خطر عبور کیا، اور ہمیشہ یہی دعا کرتے تھے کہ میری موت عورتوں کی طرح چار پائی پر نہ ہو ، بلکہ ایک نڈر سپاہی کی طرح میدان جہاد میں ہو، لیکن آخر کار ان کی موت بستر پر ہی ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ زندگی اور موت کا نظام قادر مطلق نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے ، جب وہ چاہے تو آرام کے بستر پر ایک مکڑی کے ذریعہ مار دے اور بچانا چاہے تو تلواروں کی چھاؤں میں بچا لے۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۸۳، ادارۃ المعارف کراچی)

رسولﷺ کا ہر کام خدا کی رہنمائی میں ہوتا ہے

‘‘یہاں منافقین کی ایک اور حماقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا جس کو ان کی اس بزدلی کی پرورش میں بڑا دخل تھا وہ یہ کہ حق و باطل کی اس کش مکش کے دوران میں جو نرم و گرم حالات پیش آرہے تھے وہ ان سب کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے تھے بلکہ کامیابیوں کو تو خدا کی طرف سے سمجھتے، لیکن کوئی مشکل یا کوئی آزمائش پیش آ جاتی تو اسے پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے کہ یہ مدبر لیڈر نہیں ہیں اس وجہ سے کہ غلط اندازے اور غلط فیصلے کرتے ہیں جس کے نتائج غلط نکلتے ہیں (چنانچہ سورۂ آل عمران میں یہ بات گزر چکی ہے کہ منافقین نے اُحد کی شکست کی ساری ذمہ داری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالنے کی کوشش کی کہ انھی کی بے تدبیری سے یہ شکست پیش آئی) اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ لوگ نہ تو یہ مانتے تھے کہ کائنات میں صرف خدا ہی کی مشیت کارفرما ہے اور نہ یہ مانتے تھے کہ رسول کا ہر کام خدا کے حکم کے تحت ہوتا ہے۔ بظاہر تو آپ کی رسالت کا اقرار کرتے لیکن باطن میں ان کے یہی خیال چھپا ہوا تھا کہ آپ سارے کام اپنی رائے اور تدبیر سے کرتے ہیں۔ ان کے اس واہمے کی تردید کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی کہ ان پر واضح فرما دیجیے کہ کامیابی ہو یا ناکامی، دکھ ہو یا سُکھ، ان میں سے کوئی چیز بھی میری طرف سے نہیں ہے بلکہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس لیے بھی کہ میں کوئی کام خدا کے حکم کے بغیر نہیں کرتا، اور اس لیے بھی کہ مصرفِ حقیقی اس کائنات کا اللہ وحدہ لاشریک لہ ہی ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

پختہ مضبوط گھر تعمیر کرنا توکل کے خلاف نہیں

‘‘ولو کنتم فی بروج مشیدۃ ، اس آیت میں کہا گیا کہ موت تم کو بہر کیف پہنچ کر رہے گی ، اگرچہ تم مضبوط محلوں میں ہی کیوں نہ ہو ، اس سے معلوم ہوا کہ رہنے سہنے اور مال و اسباب کی حفاظت کے لیے مضبوط و عمدہ گھر تعمیر کرنا نہ خلاف توکل ہے اور نہ خلاف شرع ہے۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۴، ادارۃ المعارف کراچی)

ما اصابک من حسنۃ………… علیھم حفیظاً

خیرخدا کی رحمت کا اقتضا ہے اور شر انسان کے اپنے اعمال پر مترتب ہوتا ہے

‘‘یہ آیتیں اُوپر والی آیت ہی کے بعض اجمالات کو واضح کر رہی ہیں۔ پہلے ان لوگوں کو ، جو کامیابیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور ناکامیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے تھے، مخاطب کرکے فرمایا کہ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ خیروشر ہر چیز کا ظہور خدا ہی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم و اذن کے بغیر کوئی چیز بھی ظہور میں نہیں آسکتی۔ لیکن خیر اور شر میں یہ فرق ہے کہ خیرخدا کی رحمت کے اقتضا سے ظہور میں آتا ہے اور شر انسان کے اپنے اعمال پر مترتب ہوتا ہے۔ اس پہلو سے شر کا تعلق انسان کے اپنے نفس سے ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

اللہ کی طرف صرف خیر کی نسبت کی جائے

‘‘یہ حقیقت یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ خیرمطلق ہے۔ اس نے یہ دنیا اپنی رحمت کے لیے بنائی ہے۔ اس وجہ سے اس کی طرف کسی شر کی نسبت اس کی پاکیزہ صفات کے منافی ہے۔ شر جتنا کچھ بھی ظہور میں آتا ہے وہ صرف انسان کے اپنے اختیار کے سوء استعمال سے ظہور میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص دائرے کے اندر آزادی بخشی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان آخرت میں جزا و سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ لیکن اس آزادی کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ غیرمحدود اور غیرمقید نہیں ہے بلکہ، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، ایک خاص دائرے کے اندر محدود ہے۔ پھر اس دائرے کے اندر بھی یہ خدا کی مشیت اور اس کی حکمت کے تحت ہے۔ خدا کے اذن و مشیت کے بغیر انسان اپنے کسی ارادے کو پورا نہیں کرسکتا۔ نیک ارادے بھی اسی کی توفیق بخشی سے پورے ہوتے ہیں اور بُرا ارادے بھی اسی کے مہلت دینے سے بروئے کار آتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کے کسی بُرے ارادے کو بروئے کار آنے دیتا ہے تو اس پہلو سے تو وہ خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے کہ اس کا بروئے کار آنا خدا ہی کے اذن و مشیت سے ہُوا لیکن دوسرے پہلو سے وہ انسان کا فعل ہے کیونکہ اس کا ارادہ انسان نے خود کیا۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یعنی (شر یا مصیبت بھی )اللہ کے اذن سے آتی ہے، مگر نفس کی کسی غلطی کی وجہ سے یا اُس کی کوئی کمزوری دور کرنے کے لیے آتی ہے یا اِس لیے آتی ہے کہ طبیعت کے اندر جو خیروشر بھی دبا ہوا ہے، وہ ابھر کر سامنے آجائے۔’’ (البیان ،از غامدی)

شر کو مہلت دینے کی حکمت

‘‘جب اللہ تعالیٰ کسی فرد یا جماعت کے کسی شر کو سر اُٹھانے کی مہلت دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ اس میں بحیثیت مجموعی اس کی خلق کے لیے کوئی حکمت و مصلحت مدنظر ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس ڈھیل سے اہلِ حق کی آزمائش ہوتی ہے کہ اس سے ان کی کمزوریاں دُور ہوں اور ان کی خوبیاں نشوونما پائیں۔ بعض اوقات اس سے اہلِ باطل پر حجت تمام کرنا اور ان کے پیمانے کو لبریز کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات قدرت خود ایسے حالات پیدا کرتی ہے جن سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ طبائع کے اندر جو کچھ دبا ہوا ہے وہ اُبھرے۔ اس سے نیکیاں بھی اُبھرتی ہیں اور جن کے اندر بدیاں مضمر ہوتی ہیں، ان کی بدیاں بھی اُبھرتی ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۳۴۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

من اللہ اور ومن عنداللہ

‘‘من اللّٰہِ ومن عنداللّٰہ، یہ دو محاورے الگ الگ ہیں، زبان و ادب کے ماہرین نے دونوں میں فرق یہ بتایا ہے کہ دوسرا محاورہ بُرے بھلے سارے افعالِ تکوینی کے لیے عام ہے بہ خلاف اس کے پہلے محاورے کا استعمال صرف محلِّ رضا پر ہوتا ہے۔’’(تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۶۶، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ

رسولﷺ کی کسی بات پر اعتراض اس کی رسالت کے انکار کو مستلزم ہے

‘‘خدا کی اطاعت رسول ہی کی اطاعت کے واسطے سے ہوتی ہے۔ جو لوگ رسول سے اعراض کریں رسول ان کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں۔رسول اللہﷺ سے کہا گیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ اب ذمہ داری تمہاری نہیں بلکہ خود ان کی ہے۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘کتنا کھول کر بتا دیا کہ اللہ کا مطیع وہی ہے جو اس کے رسول کا مطیع ہو۔ لاکھ کوئی دعویٰ کرے اطاعتِ الٰہی اور اتباعِ قرآن کا وہ جھوٹا ہے جب تک اللہ کے رسولِ کریم کی سنت کا پابند ہو۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۷۰، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘شان نزول: رسُولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبّت کی اس پر آج کل کے گستاخ بددینوں کی طرح اس زمانہ کے بعض منافقوں نے کہا کہ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں رب مان لیں جیسا نصارٰی نے عیسٰی بن مریم کو رب مانا اس پر اللہ تعالیٰ نے اِن کے رَدّ میں یہ آیت نازل فرما کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی تصدیق فرمادی کہ بیشک رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے،’’(خزائن العرفان ،ص ۱۶۳، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

اگر التباس نہ ہو تو ضمیروں کے انتشار میں کوئی قباحت نہیں

‘‘یہاں خطاب ایک ہی سیاق میں منافقین سے بھی ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی۔ لیکن ایسے مواقع میں اس طرح کے خطاب میں کوئی حرج نہیں ہے جہاں التباس کا اندیشہ نہ ہو۔ چونکہ پہلی بات واضح طور پر منافقین ہی کو مخاطب کرکے کہی جاسکتی تھی اس لیے کہ یہ انھی کے شبہے کا جواب ہے اس وجہ سے یہاں کسی التباس کا اندیشہ نہیں تھا۔ پھر دوسرے ٹکڑے میں آنحضرت صلعم کو مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے اس میں بھی غور کیجیے تو رُوئے سخن درحقیقت منافقین ہی کی طرف ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے اعراض کے اظہار کے طور پر ان کو مخاطب کرنے کے بجائے اپنے رسول کو مخاطب کرلیا۔ گویا ان کی طرف سے رسولؐ کی اس ناقدری کے بعد اب وہ اس بات کے اہل نہیں رہے کہ ان کو خطاب کرکے ان سے رسول کے باب میں کوئی بات کہی جائے۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ویقولون طاعۃ فاذا………… اختلافا کثیرا

مبتدا کے حذف کا فائدہ

‘‘طاعۃ’ خبر ہے، مبتدا اس کا محذوف ہے اور یہ بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ جب مبتدا کو حذف کر دیا جائے تو مقصود سارا زور خبر پر دینا ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ پیغمبرؐ کی مجلس میں ہوتے ہیں اور پیغمبر ان کو خدا کا کلام اور اس کے احکام سناتے ہیں تو وہ ہر بات پر کہتے ہیں کہ ‘‘سرِتسلیم خم ہے’’۔ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

بیّتَ یُبیّتُ کا مفہوم

‘‘بَیَّت یُبَیتُ کے معنی اصلاً تو کوئی عمل رات میں کرنے کے آتے ہیں لیکن اپنے عام استعمال میں یہ لفظ رات کی قید سے مجرد ہوکر چھپ کر کوئی کام، کوئی مشورہ،کوئی رائے کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ الفاظ کے اس طرح اپنے ابتدائی مفہوم سے مجرد ہوجانے کی مثالیں عربی زبان میں بہت ہیں۔ اضحٰی اور بات بھی اپنے عام استعمال میں دن اور رات کی قید سے مجرد ہوکر استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ نبی کی مجلس میں تو یہ ہر بات پر سرتسلیم خم کرتے ہیں لیکن جب وہاں سے ہٹتے ہیں تو اپنی مجلسوں میں ان آیات و احکام کے خلاف مشورے کرتے ہیں جن کو اپنی خواہشات اور اپنے مفاد ذاتی کے خلاف پاتے ہیں۔ان کے اس رویے پر قرآن نے پہلے تو ان کو دھمکی دی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی یہ ساری باتیں نوٹ ہو رہی ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ اگر وہ چھپ کر یہ سرگوشیاں کر رہے ہیں تو خدا سے بھی یہ چھپی ہوئی ہیں، ایک دن یہ سارا ریکارڈ ان کے سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی کہ آپؐ ان سے اعراض فرمایئے اور خدا پر بھروسہ کیجیے، خدا کا بھروسہ کافی ہے، یہ شامت زدہ لوگ ان سرگوشیوں سے دین حق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے، جو بگاڑیں گے، اپنا ہی بگاڑیں گے۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

پیشوا کے لیے ایک اہم ہدایت

‘‘فاعرض عنھم و توکل علی اللہ و کفی باللہ و کیلا o جب منافقین آپؐ کے سامنے آتے تو کہتے کہ ہم نے آپ کا حکم قبول کیا اور جب واپس جاتے تو آپ ؐ کی نافرمانی کرنے کے لیے مشورے کرتے ، اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت کوفت ہوتی ، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ہدایت دی کہ ان کی پروا نہ کیجئے، آپؐ اپنا کام اللہ کے بھروسے پر کرتے رہیں ، کیونکہ وہ آپؐ کے لیے کافی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص لوگوں کا پیشوا اور رہنما ہواسے طرح طرح کی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ، لوگ طرح طرح کے الٹے سیدھے الزامات اس کے سر ڈالیں گے ، دوستی کے روپ میں دشمن بھی ہوں گے ، ان سب چیزوں کے باوجود اس رہنما کو عزم و استقلال کے ساتھ اللہ کے بھروسہ پر اپنے کام سے لگن ہونی چاہیے ، اگر اس کا رخ اور نصب العین صحیح ہو گا تو انشاءاللہ ضرور کامیاب ہو گا۔’’(معارف القرآن ،ج۲،ص۴۸۷، ادارۃ المعارف کراچی)

افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیراللہ

‘‘افلا یتد برون القران ، اس آیت سے اللہ تعالیٰ قرآن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں، اس میں چند چیزیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے افلا یتد برون القران ،فرمایا افلا یقرؤن، نہیں فرمایا ، اس سے بظاہر ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ وہ اگر گہری نظر سے قرآن کو دیکھیں تو ان کو اس کے معانی و مضامین میں کوئی اختلاف نظر نہیں آئے گا اور یہ مفہوم تدبر کے عنوان سے ہی ادا ہو سکتا ہے ، صرف تلاوت اور قرأت جس میں تدبر اور غور و فکر نہ ہو اس سے بہت سے اختلافات نظر آنے لگتے ہیں ، جو حقیقت کے خلاف ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۸۸، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دُوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں ، مختلف مواقع پر، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اوّل سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار، یک رنگ ، متناسب مجمُوعہ بن جائیں جس کا کوئی جز دُوسرے جز سے متصادم نہ ہو ، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے، جس میں متکلّم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں ، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۳۷۷ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘یتدبرون القرآن سے صحتِ قیاس پر بھی دلیل نکل آئی اور اُن فرقوں کا بھی رد ہوگیا جو سمجھتے ہیں کہ تفسیر قرآن کا حق صرف رسولؐ اور امام معصوم کے ساتھ مخصوص ہے۔’’(تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص۷۶۹، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

قرآن میں تدبر کرنا کسی خاص گرو ہ سے خاص نہیں

‘‘ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے ، لہذا یہ سمجھنا کہ قرآن میں تدبر کرنا صرف اماموں اور مجتہدوں ہی کے لیے ہے، صحیح نہیں ہے ۔ البتہ تدبر اور تفکر کے درجات علم و فہم کے درجات کی طرح مختلف ہوں گے ، ائمۃ مجتہدین کا تفکر ایک ایک آیت سے ہزاروں مسائل نکالے گا عام علماء کا تفکر ان مسائل کے سمجھنے تک پہنچے گا ، عوام اگر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر تدبر کریں تو اس اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی ، جو کلید کامیابی ہے ، البتہ عوام کے لیے غلط فہمی اور مغالطوں سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً پڑھیں، یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند و معتبر تفسیر کا مطالعہ کریں، اور جہاں کوئی شبہ پیش آئے اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں اور ماہر علماء سے رجوع کریں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۸ ، ادارۃ المعارف کراچی)

قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح پر کسی جماعت یا فرد کی اجارہ داری نہیں ہے لیکن اس کے لیے شرائط ہیں

‘‘آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ قرآن میں تدبر و تفکر کرے ، لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ تدبر کے درجات متفادت اور ہر ایک کا حکم الگ ہے، مجتہدانہ تدبر جس کے ذریعہ قرآن حکیم سے دوسرے مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی مبادیات کو حاصل کرے تا کہ وہ نتائج کا استخراج صحیح کر سکے ، اور اگر اس نے مقدمات کو بالکل حاصل نہ کیا یا اس نے ناقص حاصل کیا، جن اوصاف و شرائط کی ایک مجتہد کو ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس کے پاس نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ نتائج غلط نکالے گا ، اب اگر علماء اس پر نکیر کریں تو حق ہے اگر ایک شخص جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کی شکل تک نہ دیکھی ہو یہ اعتراض کرنے لگے کہ ملک میں علاج و معالجہ پر سند یافتہ ڈاکٹروں کی اجارہ داری کیوں قائم کر دی گئی ہے ؟ مجھے بھی بحیثیت ایک انسان کے یہ حق ملنا چاہیے ۔یا کوئی عقل سے کورا انسان یہ کہنے لگے کہ ملک میں نہریں ، پل اور بند تعمیر کرنے کا ٹھیکہ صرف ماہر انجینئروں ہی کو کیوں دیا جاتا ہے ؟ میں بھی بحیثیت شہری کے یہ خدمت انجام دینے کا حقد ار ہوں۔ یا کوئی عقل سے معذور آدمی یہ اعتراض اٹھانے لگے کہ قانون ملک کی تشریح و تعبیر پر صرف ماہرین قانون ہی کی اجارہ داری کیوں قائم کر دی گئی؟ میں بھی عاقل و بالغ ہونے کی حیثیت سے یہ کام کر سکتا ہوں، اس آدمی سے یہی کہا جاتا ہے کہ بلا شبہ بحیثیت شہری کے تمہیں ان تمام کاموں کا حق حاصل ہے ، لیکن ان کاموں کی اہلیت پید اکرنے کے لیے سالہا سال دیدہ ریزی کرنی پڑتی ہے ، ماہر اساتذہ سے ان علوم و فنون کو سیکھنا پڑتا ہے ، اس کے لیے ڈگریاں حاصل کرنی پڑتی ہے ،پہلے یہ زحمت تو اٹھا ؤ ، پھر بلا شبہ تم بھی یہ تمام خدمتیں انجام دے سکتے ہو، لیکن یہی بات اگر قرآن و سنت کی تشریح کے دقیق اور نازک کام کے لیے کہی جائے تو اس پر علماء کی اجارہ داری کے آوازے کسے جاتے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کرنے کے لیے کوئی اہلیت اور کوئی قابلیت درکار نہیں؟ کیا پوری دنیا میں ایک قرآن و سنت ہی کا علم ایسا لا وارث رہ گیا ہے کہ اس کے معاملہ میں ہر شخص کو اپنی تشریح و تعبیر کرنے کا حق حاصل ہے ، خواہ اس نے قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کے لیے چندمہینے بھی خرچ نہ کیے ہوں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲،ص ۴۸۹، ادارۃ المعارف کراچی)

قیاس کا ثبوت

‘‘اس آیت سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی مسئلہ کی تصریح قرآن و سنت میں نہ ملے تو انہی میں غور و فکر کر کے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے اور اسی عمل کو اصطلاح میں قیاس کہتے ہیں۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۸۹، ادارۃ المعارف کراچی)

اختلاف کثیر کی تشریح

‘‘لو کان من عند غیر اللہ لو جد و افیہ اختلافا کثیرۃ ، اختلاف کثیرہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مضمون میں اختلاف ہوتا تو مضامین کثیرہ کا اختلاف بھی کثیر ہو جاتا ۔ لیکن یہاں کسی ایک مضمون میں بھی اختلاف نہیں ، لہذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی بشر کے کلام میں یہ یکسانیت کہا، نہ کسی جگہ فصاحت و بلاغت میں کمی ، نہ توحید و کفر اور حلال و حرام کے بیان میں تنا قض اور تفاوت ، پھر غیب کی اطلاعات میں بھی نہ کوئی خبر ایسی ہے جو واقع کے مطابق نہ ہو ، نہ نظم قرآن میں کہیں یہ فرق کہ بعض فصیح ہو اور بعض رکیک ، ہر بشر کی تقریر و تحریر پر ماحول کا اثر ہوتا ہے ، اطمینان کے وقت کلام اور طرح کا ہوتا ہے پریشانی کے وقت دوسری طرح کا ہے ، مسرت کے وقت اور رنگ ہوتا ہے اور رنج کے وقت دوسرا اور ، لیکن قرآن ہر قسم کے تفاوت اور تناقض سے پاک ہے اور بالا تر ہے ، اور یہی کلام الٰہی ہونے کی واضح دلیل ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۹۰،ادارۃ المعارف کراچی)

قرآن میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے ارادے کا کوئی دخل نہیں

‘‘جس طرح اس کائنات کے اجزائے مختلفہ کا باہمی توافق اور ان کی سازگاری اس بات کی نہایت واضح شہادت ہے کہ اس کے اندر ایک خدائے حی و قیوم کا ارادہ کارفرما ہے، کوئی اور اس میں شریک نہیں ہے۔ اسی طرح اس کتابِ عزیز کے مختلف اجزا کی باہمی سازگاری و ہم آہنگی اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ یہ ایک ہی خدائے علیم و حکیم کی وحی ہے۔ اس میں کسی اور جن یا بشر کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔ اس کائنات میں اگر مختلف ارادے کارفرما ہوتے تو یہ درہم برہم ہوکر رہ جاتی۔ اسی طرح اس کتابِ عزیز میں بھی اگر کسی اور فکر کی دراندازی ہوتی تو یہ تناقضات اور اختلافات کا ایک پراگندہ دفتر بن کے رہ جاتی۔یہ آیت اس زمانے کے ان لوگوں کے لیے اپنے اندر بڑی تنبیہہ کا سامان رکھتی ہے جو ایک طرف تو قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں، دوسری طرف اس کی ان تمام تعلیمات کو ہدفِ تنقید بھی بناتے ہیں جو ان کی خواہشات یا ان کے مزعومہ مصالح کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ طرزِعمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ بھی ان منافقین ہی کی طرح اس کتاب میں خدا کے ساتھ غیرخدا کا ہاتھ بھی شریک مانتے ہیں، ورنہ آخر اس کے کیا معنی کہ اس کو خدا ئی کتاب بھی مانا جائے اور پھر اس کی بہت سی باتوں کو اعتراض، تنقید، تہتک اور استہزا کا نشانہ بھی بنایا جائے۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

واذا جآء ھم امر من الامن …… الشیطن الا قلیلا

افواہوں کے بارے میں صحیح طرزِعمل

‘‘فرمایا کہ اگر یہ منافقین اللہ، رسول اور ملت کے خیرخواہ ہوتے تو ان کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ اس طرح کی جو باتیں ان کے علم میں آتیں ان کو عوام میں سنسنی پیدا کرنے کاذریعہ بنانے کے بجائے ان کو رسولؐ اور اُمت کے ارباب حل و عقد کے سامنے پیش کرتے تاکہ ان کے اندر جو لوگ معاملات کی گہری سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، ان کے موقع و محل کا تعین کرتے اور ان کے باب میں صحیح پالیسی اختیار کرتے۔ علم کے معنی کسی شے کے موقع و محل کے تعین کے بھی آتے ہیں۔ ہم بقرہ میں قدعلم کُل اُنَاسٍ مشربھم (اور بنی اسرائیل کے ہر قبیلہ نے اپنا اپنے گھاٹ متعین کرلیا) کے تحت لفظ کے اس مفہوم کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ولولا فضلُ اللّٰہ علیکم سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اب بھی ان کے لیے سنبھل جانے کا موقع ہے۔ یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ ابھی اس نے ان کو شیطان کے پیچھے بگ ٹٹ چل کھڑے ہونے کے لیے چھوڑ نہیں دیا ہے، ویسے ہے یہ بھی شیطان ہی کی راہ۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘و اذا جآ ء ھم امر من الامن ارالخوف اذا عوابہ ، ابن عباس ، ضحاک اور ابو معاذ رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ، اور حضرت حسن ؓ اور دوسرے اکثر حضرات کے نزدیک یہ آیت ضعیف اور کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے اس آیت سے متعلق واقعات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس آیت کے شان نزول میں حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کو ذکر کرنا چاہیے ، وہ یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے تو وہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف آ ئے جب دروازہ پر پہنچے تو آپؐ نے سنا کہ مسجد کے اندر لوگوں میں بھی یہی ذکر ہو رہا ہے ، یہ دیکھ کر آپ نے کہا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے ، چنانچہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں، حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ تحقیق کرنے کے بعد میں مسجد کی طرف واپس آ یا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ، جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں غلط ہے ، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: و اذا جا ء ھم امر ۔۔۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۹۱، ادارۃ معارف القرآن کراچی)

بے تحقیق باتوں کا اڑانا گناہ اور بڑا فتنہ ہے

‘‘اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان نہیں کرنا چاہیے ، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: کفی بالمر ء کذ با ان یحدث بکل ماسمع ، ‘‘یعنی کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کر دے ۔’’ ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا: من حدث بحدیث و ھویری انہ کذب فھواحد الکاذبین ‘‘ یعنی جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو ۔۔۔ دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۹۲، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک قوم کے یہاں زکوۃ لینے کو بھیجا وہ قوم اس کے استقبال کو باہر نکلی اس نے خیال کیا کہ میرے مارنے کو آئے ہیں لوٹ کر مدینہ میں آگیا اور مشہور کر دیا کہ فلاں قوم مرتد ہوگئی تمام شہر میں شہرت ہوگئی آخر کو غلط نکلی۔ ’’ (تفسیر عثمانی ،ص ۱۱۹، پاک کمپنی لاہور)

استنباط کا مفہوم

‘‘استنباط’ کا اصل مفہوم کنواں کھود کر اس سے پانی نکالنا اور کسی پوشیدہ چیز کو ظاہر کرنا ہے۔ اپنے اسی مفہوم سے ترقی کرکے کسی بات کی تہ کو پہنچنے اور اس کی حقیقت کو پانے کے معنی میں یہ استعمال ہوا۔ ’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

الذین یستنبطونہ منہم

‘‘آیت سے عقیدۂ امامت کا بھی رد نکل آیا ہے، اگر کسی امامِ معصوم کا وجود اُمت میں ہوتا تو استنباطِ احکام کی ضرورت کیا تھی، امام خود ہی الہاماً ان احکام سے واقف ہوتا۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۶۹، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

اسلام میں سیاسی نظام کی اہمیت اور اُولُو الامر کا درجہ

‘‘اس آیت سے اسلام میں سیاسی نظام کی اہمیت و عظمت واضح ہوتی ہے کہ عوام کواجتماعی نفع و ضرر کے معاملات میں مرجع و معتمد اپنے اُولُوالامر کو بنانا چاہیے۔ بطورِ خود اس طرح کی چیزوں کو عوام میں پھیلانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اسلام میں اُولُوالامر کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین اور دنیا دونوں کی ایسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ہوں کہ پیش آنے والے حالات و معاملات میں شریعت و مصلحت کے تقاضوں کے مطابق قدم اُٹھا سکیں۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اولو الامر کی تعین میں متعدد اقوال ہیں، حضرت حسن ، قتادہ اور ابن ابی لیلی رحمہم اللہ کے نزدیک علماء اور فقہاء مراد ہیں، حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امراء اور حکام مراد ہیں، ابو بکر جصاص ان دونوں اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ دونوں مراد ہیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۹۲ ، ادارۃ المعارف کراچی)

فقاتل فی سبیل اللہ

‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے رسولِؐ کریم و حکم دے رہے ہیں کہ جب باطل حق سے برسرِپیکار ہو تو آگے بڑھو خواہ آپ تنہا ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ حضور کریمؐ کے یہ الفاظ اسی حکم کی تعمیل معلوم ہوتے ہیں۔ واللّٰہ لا قاتلنھم حتٰی تنفرد سالفتی، یعنی بخدا میں کفار سے ضرور لڑوں گا خواہ میری گردن جدا ہی ہوجائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کارِخیر میں اس کا کوئی معاون بھی نہ ہو تو اسے اکیلے اس کام کو شروع کر دینا چاہیے۔ ساتھیوں کا نہ ہونا کوئی عذر نہیں ہے۔’’ (ضیا القرآن،ج۱ ،ص ۳۷۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘ شان نزول: بدرصغرٰی کی جنگ جو ابو سفیان سے ٹھہر چکی تھی جب اس کا وقت آپہنچا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں جانے کے لئے لوگوں کو دعوت دی بعضوں پر یہ گراں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ جہاد نہ چھوڑیں اگرچہ تنہاہوں اللہ آپ کا ناصر ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے یہ حکم پا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدرصغرٰی کی جنگ کے لئے روانہ ہوئے صرف ستّر سوار ہمراہ تھے۔’’ (خزائن العرفان ،ص ۱۶۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

وحرض المومنین

‘‘حرض،تحریض کے معنی ہیں: کسی شے کی خوبیاں بہ کثرت بیان کرکرکے اس کی جانب شوق و رغبت دلانا۔ گویا صحیح اور سچا پروپیگنڈا کرنا۔آیت ان ظالم اور بے درد پادریوں کا پول کھول رہی ہے جنھوں نے یہ جھوٹ اُچھال رکھا ہے کہ ‘‘پیروانِ محمدؐ لوٹ مار کے شوق میں جہاد پر ٹوٹے پڑتے تھے’’۔ کیا بار بار ترغیب دلانے اور آمادہ کرنے کی ضرورت لٹیروں کو ہوا کرتی ہے؟۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱،ص ۷۷۱، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

من یشفع شفاعۃ حسنۃ۔۔۔

‘شفع’ کا مفہوم

‘‘شفع’ کے معنی ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں واضح کرچکے ہیں کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ جوڑنے کے ہیں۔ اسی مفہوم سے ترقی کرکے کسی کی بات کی تائید و حمایت یا اس کے حق میں سفارش کرنے کے معنی میں یہ استعمال ہوا۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

شفاعت حسنہ اور شفاعتِ سیۂ

‘‘یہاں شفاعتِ حسنہ اور شفاعتِ سیۂ دو قسم کی شفاعتوں کا ذکر ہے۔ شفاعتِ حسنہ تو ظاہر ہے کہ یہ ہوگی کہ کسی مقصدِ حق کو اس سے تائید و تقویت حاصل ہو۔اس کے برعکس شفاعتِ سیۂ یہ ہے کہ اس سے تقویت و تائید کے بجائے اس مقصد کو نقصان پہنچے۔ منافقین، قرآن کی دعوتِ جہاد کے لیے لوگوں کو اُبھارنے کے بجائے، جیساکہ اُوپر اشارہ ہوا اور آگے تفصیل آرہی ہے، لوگوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وجہ سے قرآن نے ان کی اس کوشش کو شفاعتِ سیۂ سے تعبیر کیا۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 ‘‘سفارش کرنے والے کو سفارش کا ثواب ملے گا ، اگرچہ اس کی سفارش قبول نہ کی گئی ہو ، اور یہ بات صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص نہیں، کسی دوسرے انسان کے پاس جو سفارش کی جائے ، اس کا بھی یہی اصول ہونا چاہیے ، کہ سفارش کر کے آدمی فارغ ہو جائے اس کے قبول کرنے پر مجبور نہ کرے ، جیسا کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی آزاد کردہ کنیز سے یہ سفارش فرمائی کہ اس نے جو اپنے شوہر مغیث سے طلاق حاصل کر لی ہے اور وہ اس کی محبت میں پریشان پھرتے ہیں دوبارہ انہی سے نکاح کر لے ۔’’ بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ آپؐ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر سفارش ہے تو میری طبیعت اس پر بالکل آمادہ نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکم نہیں سفارش ہی ہے ، بریرہ ؓ جانتی تھیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو خلاف اصول کوئی ناگواری نہ ہو گی، اس لیے صاف عرض کر دیا کہ تو پھر میں یہ سفارش قبول نہیں کرتی ، آپ نے خوش دلی کے ساتھ ان کو ان کے حال پر رہنے دیا۔یہ تھی حقیقت سفارش کی جو شرعا باعث اجرو ثواب تھی ، آج کل لوگوں نے اس کا حلیہ بگاڑا ہے وہ درحقیقت سفارش نہیں ہوتی ، بلکہ تعلقات یا وجاہت کا اثر اور دباؤ ڈالنا ہوتا ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی سفارش نہ مانی جائے تو ناراض ہوتے ہیں، بلکہ دشمنی پر آمادہ ہو جاتے ہیں ، حالانکہ کسی ایسے شخص پر ایسا دباؤ ڈالنا کہ وہ ضمیر اور مرضی کے خلاف کرنے پر مجبور ہو جائے ، اکراہ و اجبار میں داخل اور سخت گناہ ہے ، اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کے اس کو مجبور کر کے اس کی آزاد سلب کر لی ، اس کی مثال تو ایسی ہو گی کہ کسی محتاج کی حاجت پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے کا مال چرا کر اس کو دیدیا جائے۔’’(معارف القرآن ،ج۲ ، ص۴۹۷، ادار ۃ المعارف کراچی)

سفارش پر کچھ معاوضہ لینا رشوت ہے اور حرام ہے

‘‘جس سفارش پر کوئی معاوضہ لیا جائے وہ رشوت ہے ، حدیث میں اس کو سُحت و حرام فرمایا ہے ، اس میں ہر طرح کی رشوت داخل ہے ، خواہ وہ مالی ہو یا یہ کہ ا س کا کام کر نے کے عوض اپنا کوئی کام اس سے لیا جائے ۔ تفسیر کشاف وغیرہ میں ہے کہ شفاعت حسنہ وہ ہے جس کا منشاء کسی مسلمان کے حق کو پورا کرنا ہو ، یا اس کو کوئی جائز نفع پہنچانا یا مضرت اور نقصان سے بچانا ہو، اور یہ سفارش کا کام بھی کسی دنیوی جوڑ توڑ کے لیے نہ ہو ، بلکہ محض اللہ کے لیے کمزور کی رعایت مقصود ہو، اور اس سفارش پر کوئی رشوت مالی یا جانی نہ لی جائے ، اور یہ سفارش کسی ناجائز کام میں بھی نہ ہو ، نیز یہ سفارش کسی ایسے ثابت شدہ جرم کی معافی کے لیے نہ ہو جن کی سزا قرآن میں معین و مقرر ہے ۔ تفسیر بحر محیط اور مظہری وغیرہ میں ہے کہ کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا بھی شفاعت حسنہ میں داخل ہے ، اور دعا کرنے والے کو بھی اجر ملتا ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی مسلمان کے لیے کوئی دعاء خیر کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے ‘‘ولک بمثل’’ یعنی اللہ تعالیٰ تیری بھی حاجت پوری فرمائیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۰، ادارۃ المعارف کراچی)

‘مقیت’ کا مفہوم

‘‘مقیت’ کے معنی شہیدو حفیظ اور مقتدر کے ہیں۔یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ پر ذمہ داری صرف اپنے نفس کی ہے، آپ خود جنگ کے لیے اُٹھئے اور مسلمانوں کو اُٹھنے کے لیے اُبھاریئے، جس کو توفیق ہوگی وہ اُٹھے گا، جو نہیں اُٹھے گا اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ اللہ کے کام دوسروں پر منحصر نہیں ہوتے۔ وہ خود بڑی قوت رکھنے والا ہے اور مخالفوں کو عبرت انگیز سزا دینے والا ہے۔ وہ آپ کے اور آپ کے مخلص ساتھیوں ہی کے اندر اتنی قوت پیدا کر دے گا کہ اسی سے کفار کا زور ٹوٹ جائے گا۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

حق کی حمایت میں زبان سے کچھ کہنا بھی موجب ِ اجر ہے

‘‘اس کے بعد فرمایا کہ منافقین جو ریشہ دوانیاں اور افواہ بازیاں مسلمانوں کاحوصلہ پست کرنے اور جہاد سے روکنے کے لیے کر رہے ہیں اس کی پروا نہ کیجیے۔ جو آج حق کی تائید و حمایت میں اپنی زبان کھولیں گے وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کے خلاف کہیں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے، خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔’’ (تدبر قرآن، ج۲ ،ص ۳۴۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)