یہ خوش عقیدگی نہیں اظہارحقیقت ہے کہ جس حیرت انگیز ایجاز و جامعیت کے ساتھ سورہ فاتحہ کی سات مختصر آیتوں میں توحید الہی اور صفات کمالیہ کو بیان آ گیا ہے اس کی نظیر سے مذاہب عالم کے دفتر خالی ہیں اور اس سے بڑھ کر تو کیا اس کے برابر کی بھی مثال پیش کرنے سے دنیائے مذاہب عاجز ہے ۔مسیحی دنیا کو بڑا ناز اپنی انجیلی دعا پر ہے ۔لیکن اول تو اس کا ضعف اسناد بھی خود مسیحی فاضلوں کو مسلم ہے یعنی اس کی تحقیق نہیں کہ یہ الفاظ خود حضرت مسیح کے ہیں بھی یا نہیں بہرحال جہاں سے بھی آئی ہو یہاں اس کے الفاظ سورہ فاتحہ کے بالمقابل درج کیے جاتے ہیں ہر منصف مزاج خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ قرآن کی فاتحۃ الکتاب اور اس انجیلی دعا کے درمیا ن کیا نسبت ہے ۔
سورہ الفاتحۃ
ساری تعریف اللہ کے لیے ہے وہ سارے جہانوں کا مربی
وہ نہایت رحم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا
مالک روز جزا کا
ہم بس تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور بس تجھی سے مدد مانگتے ہیں
چلا ہم کو سیدھا راستہ
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے
نہ ان کا رستہ جو زیر غضب ہیں اور نہ بھٹکے ہوؤں کا
انجیلی دعا
اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے
تیری بادشاہت آئے تیری جیسی مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو
ہماری روز کی روٹی ہمیں آج دے اور
جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تو
ہمارے قرض ہم کومعاف کر
اورہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا
کہاں رب العالمین کی لامحدود وسعت و ہمہ گیری اور کہاں آسمان پر بیٹھے رہنے والی بعید اورمحدود ، اور پھر باپ جیسی محض مادی تعلق رکھنے والی ہستی ۔ ایک طرف اعلان ہو رہا ہے ہمہ گیر صفات ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت و مالکیت کا ۔ اور دوسری طرف ان کی بجائے ذکر ہے صرف زمین پر آسمانی بادشاہت کے آنے کا ۔ توحید خالص پر جوزور قرآنی عبارت میں ، منع عبادت غیر و منع استعانت بالغیر میں ہے ۔ انجیلی دعا میں کہیں اس کا پتا تک نہیں۔ انجیلی دعا کی آیت نمبر ۳ میں روٹی کی اس درجہ اہمیت مادیت کی انتہا ہے ۔محض برائی سے بچنے کی دعا صراط مستقیم پر قائم رہنے کی نسبت کہیں ہلکی ہے۔