مصنف کا تعارف:۔ ادب کا دوسرا انعام حاصل کرنے والا مصنف نارویجین تھا۔ وہ ۸ دسمبر ۱۸۳۲ء کو کیوبکنی (ناروے) میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ پادری تھا۔ مزہبی اعتبار سے وہ ایک ایسا آزاد خیال تھا جو مارٹن لوتھر سے بے حد متاثر تھا۔ اس نے کسی کالج ی یونیورسٹی سے کوئی ڈگری حاصل نہ کی ۱۸۵۷ء میں اس کی شادی ہوئی۔ بجور نسٹرین تھیٹر کا نقاد تھا۔ اس نے ناروے کے کئی اہم پرچوں کی ادارت بھی کی۔ ایک ایڈیٹر کے حوالے سے اس نے ناروے میں خاصی شہرت حاصل کی۔ بجور نسٹرین بجورنسن کو اپنے ملک نے بھی ایک اعزاز بخشا اور اس میں اسے اولیت حاصل ہے۔ ناروے حکومت کی طرف سے اسے ۱۸۶۳ء میں ‘‘مصنف کے اعزازیے’’ کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ یہ تنخواہ ناروے حکومت اسے دیتی تھی اور وہ ناروے کا پہلا مصنف تھا جسے یہ ‘‘اعزازیہ’’ جاری کیا گیا۔
جب بجورنسن کو نوبل انعام ملا تو اس کی عمر ۷۱ برس تھی اور وہ یورپی دنیا میں ایک بڑے شاعر اور ڈراما نگار کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکا تھا۔ اس نے کئی تاریخی کھیل بھی لکھے تھے۔ کہانیاں بھی لکھیں جو ناروے کی دیہی زندگی سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بجورنسن ہی تھا جس نے وہ مشہور نظم لکھی جسے ناروے کے قومی ترانے کا درجہ دیاگیا۔ اپنے ملک کا ترانہ لکھنے کے حوالے سے وہ ناروے اور دنیا کے ان معدود ے چند شعرا میں شامل ہو چکا ہے جہنوں نے اپنے ملک کے ترانے لکھے تھے۔ وہ زبردست شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے ایک بھر پور اور ان تھک زندگی گزاری۔ وہ سماجی انصاف کا قائل تھا اور اس حوالے سے اس نے زبردست جدوجہد کی۔ سماجی اور ملکی اُمور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ وہ بہت بے باک اور نڈر انسان تھا۔ ایک مقرر کی حیثیت سے بھی اس نے خاصی شہرت حاصل کی۔ استحصال کرنے والوں کے خلاف اس کی آواز بہت موثر اور بلند تھی۔ آج اس کاکام بھی زندہ ہے اور نام بھی۔ اسے ناروے کی ایک اہم قومی شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے زمانے میں ایک متنازعہ شخصیت بھی رہا۔ بجور نسٹرین بجورنسن کا انتقال ۲۶ اپریل ۱۹۱۰ کو ہوا۔
٭٭٭
جس شخص کی یہ سر گزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بارسوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈ اور اس تھا۔ ایک دن اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیا۔ ‘‘فادر! خدا نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ہے۔’’ خوشی اور جوش اس کے سارے بدن سے ہویدا تھا۔ ‘‘میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کو عیسائیت میں داخل کرنے کی رسم ادا کریں۔ ’’پادری مسکرایا۔ ‘‘اچھا مبارک ہو۔ اس کا نام کیا سوچا ہے؟’’ُ‘‘اس کا نام ہو گا فن۔ میرے والد کے نام پر۔’’‘‘تمہاری نا گہانی موت کی صورت میں اس بچے کی کفالت کے ضامن کون ہوں گے؟’’ پادری نے پوچھا۔
تھورڈ نے اسی قصبے میں رہنے والے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے چند معتبر نام بتا دیئے۔ پادری نے تھورڈ کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا: ‘‘اور کچھ؟’’زمیندار تھوڑا سا ہچکچایا اور بولا:‘‘فادر میں آپ کو تعطیل والے دن تکلیف دینا چاہتا ہوں۔’’
‘‘اس کا مطلب ہے اس ویک اینڈ پر؟’’
‘‘ہاں ! ہفتہ والے دن ۔ دوپہر کے بارہ بجے۔’’‘‘اس کے علاوہ کوئی اور بات؟’’
‘‘نہیں شکریہ فادر! اب اجازت چاہوں گا۔’’ تھورڈ نے ا نگلی پر ٹوپی گھماتے ہوئے کہا۔ ‘‘نہیں ایک آخری بات رہ گئی ہے۔’’ پادری اپنی جگہ سے اٹھا ۔ تھورڈ کے قریب ہو کر اس نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر بردباری سے بولا: ‘‘خدا کے فضل سے تمہارا بچہ تمہارے لیے اس کی رحمت و برکت ثابت ہو گا۔’’
٭٭٭
سولہ سال کے بعد ایک دن پھر تھورڈ پادری کے دارالمطالعہ میں حاضر ہوا۔ ‘‘تمہاری صحت اور جوانی تو حیرت انگیز طور پر قائم ہے! ’’ حیران پادری کو تھورڈ کے جسم میں کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہ دی۔ ‘‘کیونکہ مجھے کوئی فکر و غم نہیں ہے اور میرا بیٹا بھی اب خوبصورت نوجوان بن چکا ہے۔’’ تھورڈ ہنستے ہوئے بولا۔ پادری مسکرایا اور توقف کے بعد پوچھا۔’’ آج تمہیں کون سی خوشی یہاں لے آئی ہے؟’’‘‘کل گرجا میں نوجوانوں کی دینی تلقین و توثیق کی رسم ادا ہونے والی ہے۔ اس میں میرا بیٹا بھی شامل ہو گا۔’’ تھورڈ چہکا۔ ‘‘فادر! میں اس وقت تک آپ کو نذرانہ پیش نہیں کروں گا جب تک آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ کل میرے بیٹے کی باری کون سے نمبر پر آئے گی؟’’‘‘یقینا کل پہلی باری اُس کی ہو گی ! ’’ پادری نے ہنستے ہوئے کہا۔‘‘شکریہ فادر! یہ دس ڈالر میں آپ کی نذر کرتا ہوں۔’’ تھورڈ نے دس ڈالر میز پر رکھ دئیے۔
پادری اس کے چہرے کی خوشی دیکھتے ہوئے بولا، ‘‘میرے لائق اورکوئی خدمت؟’’ ‘‘نہیں فادر اور کچھ نہیں۔ ’’ اورتھورڈ پادری سے اجازت لے کر چلا گیا۔
٭٭٭
آٹھ سال اور گزر گئے کہ ایک دن اچانک پادری کو اپنے کمرے کے باہر شور سنائی دیا۔ کافی سارے لوگ دارالمطالعہ کی طرف آرہے تھے اور سب سے پہلے داخل ہونے والا شخص تھورڈ تھا۔ پادری نے اوپر دیکھا اور تھورڈ کو فوراً پہچان گیا۔ تھورڈ بہت غصے میں دکھائی دیتا تھا۔‘‘آج بہت لوگوں کو ساتھ لے آئے ہو تھورڈ کیا بات ہے؟’’ پادری نے پوچھا۔‘‘فادر میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ میرے بیٹے پر پابندی لگائیں اور پابندی اپنے روزنامچے میں درج کر لیں۔’’ تھورڈ تیزی سے بولا۔
‘‘لیکن کیوں؟ وہ تو بہت فرمانبردار لڑکا ہے۔’’ پادری حیران ہوا۔‘‘وہ کیرن سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ’’ تھورڈ پھنکارا۔
‘‘لیکن کیرن تو قصبے کی نفیس ترین لڑکی ہے۔’’‘‘وہ بھی یہی کہتا ہے۔’’ تھورڈ نے اپنے بالوں کو انگلیوں سے سنوارا۔ ‘‘میں اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہوں۔’’
پادری کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر اس نے کچھ کہے بغیر اپنے روزنامچے میں دونوں کے نام درج کر لیے اور نیچے تھورڈ اور گواہوں سے دستخط لے لیے۔ تھورڈ نے تین ڈالر میز پر رکھ د یئے۔‘‘فیس تو صرف ایک ڈالر ہے۔ ’’ پادری نے کہا۔‘‘میں جانتاہوں لیکن فادر وہ میرا اکلوتا وارث ہے۔ میں چاہتا ہوں یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے ہو۔’’
پادری نے تین ڈالر رکھ لیے اور بولا: ‘‘یہ تیسری دفعہ ہے کہ تم میرے پاس اپنے بیٹے کے سلسلے میں آئے ہو۔’’‘‘بس فادر ! ایک دفعہ اور آنا پڑے گا اور وہ آخری دفعہ ہو گا اس کی شادی کے سلسلے میں ۔’’ تھورڈ نے پادری کو خداحافظ کہا اور باہر نکل آیا۔ تمام لوگ اس کے پیچھے آ گئے۔
٭٭٭
کوئی دو ہفتوں کے بعد دونوں باپ بیٹا ہنسی خوشی اپنی کشتی میں سوار کیرن کے گھر کی سمت رواں تھے۔ وہ کیرن کے والد سے مل کر شادی کی تاریخ اور تفصیلات طے کرنا چاہتے تھے۔ خوش گوار موسم اور حسین دن تھا۔ جھیل بھی بہت پر سکون تھی۔ باپ بیٹا باتیں کرتے ہوئے دھیرے دھیرے چپو چلا رہے تھے۔ ‘‘میری سیٹ کچھ ڈھیلی لگ رہی ہے۔’’ بیٹے نے کہا اور اپنی سیٹ کو کسنے کے لیے کشتی کے تختے پر کھڑا ہوا۔ اچانک اسی لمحے تختے سے اس کا پاؤں پھسلا ۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اس نے سنبھلنے کے لئے ہاتھ اوپر اٹھائے۔چیخ ماری اور پانی میں گر گیا۔ تھورڈ سپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اُچھلا۔ اپنے چپو کر آگے کرتا ہو چلایا۔ ‘‘بیٹا یہ چپو پکڑ لو! ’’لڑکے نے چپو پکڑنے کی کوشش کی لیکن آنکھوں میں پانی بھر جانے کے باعث چپو نظر نہ آیا۔ چند ایک دفعہ چپو پکڑنے کی کوشش کے بعد لڑکے نے ہمت ہار دی۔‘‘ایک منٹ ٹھہرو۔’’ باپ چیخا اور چپو کی مدد سے کشتی کو بیٹے کی طرف دھکیلا۔ ‘‘کشتی کا کنارا پکڑو۔ ہاتھ آگے کرو میرا ہاتھ پکڑو۔’’لیکن لڑکا کشتی سے کچھ دور آخری دفعہ پانی پر اُبھرا، باپ پر آخری نظر ڈالی اور جھیل کی تہہ میں بیٹھتا چلا گیا۔ تھورڈ کو یقین نہیں آیا۔ وہ سکتے میں آ گیا۔ وہ مسلسل اسی جگہ کو گھورتا رہا جہاں اس کا لخت جگر ڈوبا تھا۔ اس امید پر کہ شاید وہ ایک دفعہ پھر سطح آب پر آ جائے۔ وہاں کچھ بلبلے پیدا ہوئے اور پھر کچھ اوربلبلے نکلے اور آخر کار ایک آخری بڑا بلبلا۔ جھیل پھر پرسکون اور آئینے کی طرح شفاف ہو گئی۔
تین دن اور تین راتیں مسلسل بغیر کچھ کھائے پئے اور سوئے باپ بیٹے کے ڈوبنے کی جگہ کے گرد کشتی گھماتا رہا۔ وہ جھیل سے اپنے بیٹے کی لاش مانگ رہا تھا۔ چوتھے دن صبح کے وقت وہ اپنے بیٹے کی لاش ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے بیٹے کی لاش اپنے بازوؤں میں اٹھا لی اور پہاڑوں میں اپنی جاگیر کی طرف چلا گیا۔
٭٭٭
اس واقعہ کے تقریباً ایک سال بعد کا ذکر ہے۔ ایک خزاں کی شام تھی۔ پادری نے اپنے دارالمطالعہ کی راہداری میں کسی کی آہٹ سنی۔ پادری نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ ایک لمبا دبلا پتلا شخص اندر داخل ہوا۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور تمام بال سفید تھے۔ پادری نے اس کو خاصی دیر غور سے دیکھا تو پہچان پایا ۔ وہ تھورڈ تھا۔
‘‘خیریت تو ہے۔ اتنی دیر گئے۔ بہت کمزور ہو گئے ہو؟’’‘‘ہاں فادر! کچھ زیادہ ہی دیرہو گئی ہے۔ ’’ تھورڈ بولا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ پادری نے دوسری کرسی سنبھال لی۔خاصی دیر دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ ایک طویل خاموشی ۔ آخر کار تھورڈ بولا: ‘‘میرے پاس کچھ رقم ہے جو میں اپنے بیٹے کے نام پر غریبوں کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔’’وہ اٹھا اور اس نے میز پر نوٹوں کی گڈیوں کا انبار لگا دیا اور پھر بیٹھ گیا۔‘‘یہ تو بہت زیادہ رقم ہے۔’’ پادری حیرت زدہ رہ گیا۔‘‘یہ میری جاگیر کی قیمت ہے۔ میں نے آج اسے بیچ دیا ہے۔’’پادری خاصی دیر حیرت زدہ رہا۔ پھر بولا : ‘‘اب تم کیا کرو گے؟’’ ‘‘کوئی بہتر کام! ’’
وہ کچھ دیر اور خاموش بیٹھے رہے۔ تھورڈ کی آنکھیں زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور پادری کی آنکھیں حیرت سے تھورڈ کو دیکھے جا رہی تھیں۔ پھر پادری نے آہستگی سے تھورڈ کو مخاطب کیا۔ ‘‘آخر کار تمہارا بیٹا تمہارے لیے خدا کی سچی رحمت و برکت ثابت ہوا۔’’
‘‘ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔’’ تھورڈ نے سر اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا۔ دو موٹے آنسو ڈھلک کر اس کے گالوں پر رُک گئے۔
٭٭٭