غير ملكي ادب
دھوکے باز محبوب کے خطوط
مصنفہ :ازابل آئندے (چلی)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
انالیہ ٹورس کی ماں اس کی پیدائش سے فوراً بعد شدید بیماری سے مر گئی ۔اس کا باپ بیوی کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکا اور دو ہفتے بعد اپنے سینے میں گولی مار لی ۔ بہت دنوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہ کر مر گیا ۔ اس دوران مسلسل بیوی کا نام اس کے ہونٹوں پر رہا ۔ اس کا بھائی یوجینیو خاندان کی جائیداد کا منتظم بن گیا ۔اور وہ اس چھوٹی سی یتیم بچی کی قسمت کے فیصلے اپنے معیار / سوچ کے مطابق کرنے لگا يہاں تک کے وہ چھ سال کی ہو گئی ۔
انالیہ اپنے سرپرست کے ملازموں کی رہائش پر ایک انڈین خاتون آیا کی قمیض پکڑے اس کے ساتھ چپکی رہتی ۔جونہی وہ سکول جانے کے قابل ہوئی اسے دارالحکومت میں بورڈنگ سٹوڈنٹ کے طور پر sacred heart school / مقدس دل سکول کی سسٹر ز کے ساتھ بھیج دیا گیا ۔جہاں اس نے اپنی زندگی کے اگلے بارہ سال گزارے ۔وہ اچھی طالبہ تھی ۔ وہ سکول کے نظم و ضبط ،پتھر سے بنی کانو نٹ سکول کی عمارت کی سادگی ،اس کی عبادت گاہ اس کے للی اور موم کی خوشبو ،ننگی راہداریوں اور سایہ دار آنگنوں کی دلدادہ تھی ۔لیکن اسے خاموش شاگرد اور کلاس روم کی تندو تیز بو بلکل پسند نہیں تھی ۔جب کبھی وہ راہبآؤں کی نظروں سے بچ سکتی تو بالا خانے میں ٹوٹے ہوے مجسموں اور ٹوٹے ہوے فرنیچر میں چھپ کر اپنے آپ کو کہانیاں سناتی ۔ان چراۓہوے لمحوں میں اپنے آپ کو گناہ میں ملوث ہونے کے احساس کے ساتھ خاموشی میں ڈوب جاتی ۔
ہر چھ مہینے بعد اسے ایک مختصر رقعہ اپنے چچا کی طرف سے ملتا ،جس میں اسے نصیحت کی جاتی کہ وہ اچھا چلن سیکھے ،اپنے والدین کی عزت کو برقرار رکھے جو اپنی زندگی میں اچھے عیسائی تھے وہ فخر محسوس کریں گے کہ ان کی اکلوتی بیٹی نے اعلی ضابطہ اخلاق کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ۔جو خانقاہ میں مبتدی کے طور پر داخلے کی تیاری کر رہی ہے ۔اس منصوبے کے پہلے اشارے پر ہی انالیہ نے چچا کو مطلع کر دیا کہ وہ ہر گز ایسا نہیں چاہتی ۔یہ سب اس نے صرف اور صرف چچا کی مخالفت میں کہا ،جبکہ دل کی گہرائیوں میں وہ مذہبی زندگی پسند کرتی تھی ۔ترک خواہش کی مکمل تنہائی میں وہ شاید ابدی سکون حاصل کر نا چاہتی تھی تاہم اس کی جبلت نے اسے چچا کے مشورے پر عمل کرنے سے روکا اسے خبردار کیا کہ چچا کا مشورہ بدنیتی پر مبنی ہے اس میں خاندانی خلوص یا وفاداری نہیں ہے ۔وہ ہر اس خیال پر جو چچا کی طرف سے پیش کیا جاتا مشکوک ہوتی کہ اس میں کوئی نہ کوئی دھوکہ ہے ۔
جب انالیہ سولہ سال کی ہو گئی تو اس کا چچا پہلی دفعہ اسے سکول ملنے آیا تو مدَر سپیرئیر نے اسے اپنے دفتر بلایا ۔مدَر نے ان دونوں کا تعارف کرایا ،اس لئے کہ وہ دونوں ہی اتنے بدل چکے تھے ،کہ ایک دوسرے کو پہچاننا مشکل تھا ۔" مجھے خوشی ہوئی کہ سسٹر ز نے تمہارا اچھا خیال رکھا ۔ " اس کے چچا نے اپنے چاکلیٹ کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوے تبصرہ کیا ۔” تم صحت مند دکھائی دے رہی ہو بلکہ خوبصورت بھی ۔اپنے آخری خط میں تمہیں لکھا تھا کہ تمہاری اس سالگرہ سے تمہیں ماہانہ خرچہ ملے گا ۔جس طرح میرے بھائی (خدا اسے جنت نصیب کرے ) نے اپنی وصیت میں لکھا تھا"کتنا "“ ایک سو پیسو “ (pesos،ملکی کرنسی ) ۔“ کیا میرے والدین نے بس یہی کچھ میرے لئے ترکہ چھوڑا ہے ؟ ““ نہیں باکل نہیں ، تمہیں معلوم ہے کہ دیہی جاگیر تمہاری ملکیت ہے لیکن زراعت عورت کے بس کا کام نہیں ،خاص طور پر ان ہڑتالوں اور انقلابات کے زمانے میں تو بلکل بھی نہیں ۔اس وقت میں تمہیں ماہانہ الاؤنس بھیجوں گا ۔جس میں ہر سال اضافہ ہوتا رہے گا ۔اس کے بعد دیکھا جاۓ گا ۔”“ بعد میں کیا دیکھا جاۓ گا ؟ چچا ،”
ہم یہ دیکھیں گے کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے ؟”“ میرے لئے انتخاب کی کیا گنجائش ہے “ ؟ ۔
“ تمہیں دیہاتی جاگیر کے لئے ہمیشہ ایک مرد کی ضرورت رہے گی ،میری بچی، اس سارے عرصے میں میں اسے دیکھتا رہا ہوں ۔یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔لیکن یہ میرا فرض تھا ۔میں نے بھائی سے وعدہ کیا تھا ۔میں یہ سب کچھ تمہارے لئے کرتا رہوں گا“ آپ کو مزید زیادہ عرصہ یہ سب کچھ نہیں کرنا پڑے گا ۔شادی کے بعد میں اپنی جاگیر کا انتظام خود سنبھال لوں گی ۔“ جب وہ شادی کر لے گی ،بچی یہی کہہ رہی ہے ۔سسٹر مجھے بتائیں ،کیا اس کا کوئی طلب گار ہے ““ میں کیا کہہ سکتی ہوں،جناب ٹورس ! ہم اپنی بچیوں کی بہت اچھی تربیت کرتے ہیں ۔یہ محض بات کرنے کا انداز ہے ۔”انالیہ ٹورس اٹھ کھڑی ہوئی ،اپنے یونیفارم کی سلو ٹیں درست کیں ،طنزیہ انداز میں آداب کہا اور کمرے سے نکل گئی ۔
مدَر سپیرئر نے اپنے مہمان کو ایک اور چاکلیٹ کا پیالہ پیش کیا ۔اور اس بے ادبی کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لئے ہے کہ بچی کا خاندان کے افراد سے بہت کم رابطہ ہوتا ہے ۔یہ واحد طالبہ ہے ،جو تعطیلات میں گھر نہیں جاتی ۔آج تک اسے کرسمس کا تحفہ بھی کبھی نہیں ملا ۔راہبہ نے شائستگی سے سمجھایا ۔“ میں بچوں کو لاڈ پیار کرنے والا شخص نہیں ہوں ۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنی بھتیجی کی بہت عزت کرتا ہوں ۔اور میں اس کے مفادات کا باپ کی طرح تحفظ کرتا آ رہا ہوں ۔میری بھتیجی کو مزید توجہ کی ضرورت ہے ،عورتیں جذباتی ہوتی ہیں ۔
ایک ہفتے بعد چچا پھر سکول آ گیا اس دفعہ وہ انالیہ سے نہیں ملا بلکہ سیدھا مدَر سپیرئر کے پاس گیا ۔اور کہا کہ اس کا بیٹا انالیہ سے خط وکتابت رکھنا چاہتا ہے ۔اس نے مدَر سے درخواست کی کہ وہ خطوط انالیہ تک پہنچنے کو یقینی بناۓ ۔ اس امید کے ساتھ کہ اپنے کزن کے ساتھ دوستی سے اس کا خاندان کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو گا ۔باقاعدگی کے ساتھ خطوط آنا شروع ہو گئے ۔سادہ سفید کاغذاور کالی سیاہی ،گول حروف اور مضبوط ہاتھ کی لکھائی ،بعض اوقات دیہی زندگی کے بارے میں لکھا ہوتا ،بعض اوقات موسموں اور جانوروں کا تذکرہ ہوتا ۔بعض اوقات مردہ شاعروں اور ان کی سوچ کے حوالے سے بات ہوتی ،یا پھر کوئی سکچ جو وہی مضبوط ہاتھ ظاہر کرتا ۔ شروع شروع میں انالیہ کا ارادہ ان خطوط کو پڑھنے کا نہیں تھا ،اس خیال کے تحت کہ اس کے پیچھے ضرور چچا کی جانب سے کوئی خطرہ ہے ۔لیکن سکول کے بور لمحات میں یہ خطوط اس کے فرار کا واحد زریعہ تھے ۔وہ پہلے کی طرح بالا خانہ میں چھپ جاتی لیکن اب وہ خیالی کہانیاں گھٹنے کی بجاۓ ان خطوط کو بار بار پڑھتی ۔ یہاں تک کہ اسے حروف اور کاغذ کی پہچان ہو گئی ۔شروع میں تو اس نے جواب نہیں دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ مجبور ہو گئی ۔اسی طرح دن بہ دن خطوط کے مندرجات مدَر کی سنسر شپ سے بچنے کے لئے دقیق ہوتے چلے گئے ۔مدَر تمام خطوط کھولتی تھی ۔فریقین کے درمیان قربت بڑھنے لگی ۔جلد ہی انہوں نے خفیہ اشاراتی اور استعاراتی زبان استعمال کرنا شروع کر دی ۔اس طرح وہ اپنے محبت بھرے جذبات ایک دوسرے تک پہنچانے لگے ۔انالیہ ٹورس کو اپنا یہ کزن جو لوئیس نام سے دستخط کرتا تھا ،بالکل یاد نہیں تھا ۔جب وہ چچا کے گھر پر رہتی تھی تو وہ دارالحکومت میں سکول میں رہتا تھا ۔اسے یقین تھا کہ وہ بدصورت شخص ہو گا ۔بیمار بلکہ کبڑا ہو گا ۔کیوں کہ اس کے نزدیک ناممکن تھا کہ اتنی نفیس حس ادراک اور اتنا صاف ذہن کسی ظاہری خوبصورتی والے شخص کا ہو وہ اپنے ذہن میں اپنے کزن کی شبیہ بنانے کی کوشش کرتی ۔اپنے باپ جیسا موٹا ،چہرے پر چیچک کے داغ لنگڑا اور آدھا گنجا ۔وہ جتنے زیادہ نقائص کا اضافہ کرتی اتنی ہی اس کی محبت میں اضافہ ہوتا ۔روح کی چمک دمک ہی سب سے اہم ہے ۔اس لئے کہ یہی وہ اہم چیز ہے ،جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے ۔اس کی کہانیوں کے جوشیلے ہیرو کی خوبصورتی کوئی خوبی نہیں تھی ۔بلکہ بعض اوقات غیر سنجیدگی کا باعث ہو سکتی ہے ۔ یہ انالیہ کا تجزیہ تھا حالانکہ وہ اپنے اس تجزیے سے مکمل طور پر مطمئن نہیں تھی ۔وہ حیران ہو کر سوچتی ،آخر وہ کس حد تک نقائص برداشت کر سکے گی ۔
انالیہ اور لوئس ٹورس کے درمیان خط و کتابت دو سال تک جاری رہی ۔ جس کے اختتام پر اس کا ہیٹ بکس خطوط سے بھر گیا ۔اور اس کا دل کھو گیا ۔اگر کبھی یہ خیال اس کے دل میں آ بھی جاتا کہ یہ سب کچھ اس کے چچا کی منصوبہ بندی ہے تاکہ اس کی ساری جائیداد لوئس کے ہاتھ آ جاۓ ۔تو وہ فورا” اسے مسترد کر دیتی ۔اپنی ناپاک سوچوں پر شرمندہ ہوتی ۔اس کی اٹھارویں سالگرہ پر مدَر نے اسے بلوایا کہ کوئی ملاقاتی اس کا منتظر ہے ۔انالیہ ٹورس نے سوچا کون ہو سکتا ہے تب لمحے بھر کے لئے اسے بالا خانے میں اپنی پرانی جاۓپناہ میں چھپ جانے کی خواہش ہوئی ۔ آخرکار اس شخص سے جسے اتنے عرصے سے تصور میں دیکھ رہی تھی ،ملنے کا وقت آ گیا تھا ۔ جب وہ ڈرائنگ روم میں جا کر اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو اسے اپنی مایوسی پر قابو پانے میں کچھ وقت لگا ۔
لوئس ٹورس بد وضع پستہ قد نہیں تھا ،جیسا اس نے اپنے خوابوں میں سوچ رکھا تھا اور اس سے محبت کرنے لگی تھی ۔ وہ خوشنما چہرے اور مضبوط جسم والا مرد تھا ۔اچھے نقوش ،گہرے رنگ کی اچھی تراشی ہوئی داڑھی ،ہلکے رنگ کی آنکھیں ،لمبی پلکیں لیکن بغیر تاثرات کے وہ کچھ کچھ چرچ کے سینٹس /Saints کی طرح دکھائی دیتا تھا ۔بلکہ یوں کہیں کہ خوبصورت اور تھوڑا بےوقوف ۔انالیہ جب اپنے صدمے سے باہر نکلی تو فیصلہ کر چکی تھی کہ اگر اپنے دل میں اس نے کبڑا مرد قبول کر لیا تھاتو وہ اس حسین مرد سے بھی محبت کر سکتی ہے ۔اس نے انالیہ کے گال پر بوسہ دیا تو لیونڈر کی دیرپا خوشبو ادھر ادھر پھیل گئی ۔
شادی کے دن سے انالیہ کو لوئس ٹورس سے نفرت ہو گئی ۔جب اس نے اسے بہت ہی نرم بستر کی کڑھائی والی چادروں کے درمیان کچل دیا ۔ وہ سمجھ گئی کہ وہ کسی بھوت کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی اور وہ اپنے تصوراتی جذبات کبھی بھی اس شادی میں منتقل نہیں کر سکتی ۔وہ ان جذبات کے ساتھ مصمم ارادے کے ساتھ لڑنے لگی ۔ پہلے تو انہیں غیر اخلاقی قرار دیتے ہوے اپنے دماغ سے نکالنے کی کوشش کی ۔لیکن جب محسوس کیا کہ یہ ناممکن ہے تو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتر کر انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ۔لوئس ایک قابل قبول شخص تھا ۔بعض اوقات دلچسپ بھی ۔وہ اسے بہت زیادہ مطالبات سے ہراساں بھی نہ کرتا ۔نہ ہی اسکی تنہائی اور خاموشی کے لئے رغبت کو نا پسند کرتا ۔انالیہ نے خود تسلیم کیا کہ اس کی طرف سے تھوڑی سی اچھائی ان کے رشتے میں خوشی لا سکتی ہے ۔اتنی جتنی کہ راھباؤں کی عادات سے وہ سیکھ چکی تھی ۔اسے اس مرد کے لئے اپنے اندر کے ناخوشگوار احساسات کی خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ملاقات سے قبل دو سال سے وہ اس سے محبت کرتی آ رہی تھی ۔نہ تو وہ اپنے احساسات کو الفاظ کا روپ دے پا رہی تھی اور اگر وہ ایسا کر بھی لیتی تو وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جسے وہ یہ سب کچھ بتا سکتی ۔اس نے اپنے گوشت پوست و الے خاوند کے ساتھ مکتوبآئی محبوب کی شبیہ ملانے میں ناکامی کی وجہ سے اپنے ساتھ دھوکہ محسوس کیا ۔ لوئس نے کبھی بھی خطوط کا ذکر نہیں کیا ۔اگر وہ اس موضوع پر بات کرنا چاہتی تو وہ اسے ہونٹوں پر بوسہ دے کر اسے بات ہی نہ کرنے دیتا ۔اور رومانوی محبت کو شادی شدہ زندگی کے لئے نامناسب قرار دیتے ہوے عمومی مشاہدہ بیان کرتا کہ ازدواجی زندگی کے لئے اعتماد، احترام ،مشترکہ مفاد اور خاندان کی بھلائی نوعمری کی محبت سے کہیں زیادہ اہم ہیں ۔ان دونوں کے درمیان حقیقی لگاوٹ نہیں تھی ۔دن کے وقت دونوں اپنے اپنے فرائض میں مصروف رہتے ۔رات کو وہ پروں سے بھرے تکیوں کے درمیان ملتے ۔وہ شدید گھٹن محسوس کرتی ۔بعض اوقات وہ جلدی جلدی ملتے ،وہ بے حس و حرکت رہتی لیکن تناؤ کا شکار ہوتی اور لوئس کا رویہ جیسے جسمانی ضرورت پوری کرنے کا ہوتا ۔ جس کے فورا” بعد وہ سو جاتا اور وہ اندھیروں میں بغیر آواز نکالے احتجاجا” گھورتی رہتی ۔انالیہ نے خاوند سے بیزاری پر قابو پانے کے لئے بہت سے طریقے آزماۓ ۔کبھی اپنے خاوند سے محبت کی پرانی یادیں تازہ کرتی یا پھر اپنے دماغ کو ہر قسم کی یادداشت سے خالی کر دیتی ۔ایسی کیفیت میں چلی جاتی جہاں وہ اسے پہنچ نہ پاتا ۔ وہ دعا مانگتی کہ یہ محض عارضی ناگواری ہو ۔لیکن مہینے گزرتے چلے گئے اور بہتری آنے کی بجاۓ اس کی ناگواری نفرت میں بدلنے لگی ۔ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک سیاہی سے بھری انگلیوں والا مکروہ شخص اس سے محبت کر رہا ہے ۔
ٹورس خاندان انالیہ کے باپ کی جاگیر پر رہتا تھا ،جو اس نے اس وقت حاصل کی تھی جب یہ نیم وحشی علاقہ تھا اور ڈاکوؤں اور سپاہیوں کی ملکیت تھا ۔اب یہ مرکزی شاہراہ کے نزدیک اور ایک بڑے خوشحال شہر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔اور یہاں سالانہ زرعی اور مویشیوں کے میلے لگتے تھے ۔قانونا” لوئس اس کی دیہاتی جاگیر کا منتظم تھا ۔لیکن حقیقت میں انالیہ کا چچا یوجینیو ہی تمام انتظام و انصرام کا نگران تھا ۔ لوئس دیہاتی زندگی سے بوریت محسوس کرنے لگا تھا ۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد جب باپ ،بیٹا لائبریری میں کوگنیک ( فرانسیسی برانڈی ) پینے اور لڈو کھیلنے بیٹھتے تو انالیہ سنتی کہ اس کا چچا سرمایہ کاری ، مویشیوں ،فصلوں اور فصلوں کی کٹائی کے فیصلے کر رہا ہے ۔کبھی کبھار اگر وہ مداخلت کی جرات کرتے ہوے اپنی راۓ کا اظہار کرتی تو دونوں مرد اس کی تجاویز پوری توجہ کے ساتھ سنتے لیکن بعد میں اپنی مرضی کرتے ۔ اس وقت انالیہ سرپٹ چراہ گاہوں میں دوڑتی پہاڑ کے دامن میں پہنچتی ۔اس وقت اس کی خواہش ہوتی ،کہ وہ مرد ہوتی ۔
بیٹے کی پیدائش کے بعد بھی اس کے جذبات خاوند کے حوالے سے تبدیل نہیں ہوے ۔حمل کے دوران اس کی گریز پا عادت مزید پختہ ہو گئی ۔لیکن لوئس صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا ۔ حمل کو اس کی وجہ قرار دیتا رہا ۔بچے کی پیدائش کے بعد وہ علیحدہ کمرے میں منتقل ہو گئی ۔جہاں ایک سخت اور تنگ سی چارپائی کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔جب بچہ سال بھر کا ہو گیا تو بھی انالیہ اپنے کمرے کا دروازہ مقفل رکھتی اور ہر ممکن طریقے سے خاوند کے ساتھ اکیلے رہنے سے گریز کرتی ۔تب لوئس نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انالیہ سے بہتر رويے کا مطالبہ کیا جاۓ۔اس نے اسے اپنا رویہ درست کرنے کی تنبیہ کی ،قبل اس کے وہ اس کے کمرے کا تالہ گولی سے اڑا دے ۔ انالیہ نے لوئس کو کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا ۔اس لئے اس نے بغیر تبصرہ کیے تعمیل کی ۔ تاہم اگلے سات سالوں میں ان کے درمیان تناؤ اور کشیدگی اتنی بڑھ گئی کہ اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ ایک دوسرے کے خفیہ دشمن ہیں ۔لیکن اس سب کے باوجود دوسروں کی موجودگی میں ایک دوسرے سے عزت و ا احترام سے پیش آتے ,صرف لڑکا ہی والدین کے درمیان دشمنی کی شدت سے آگاہ تھا ۔وہ آدھی رات کو روتا ہوا جاگ جاتا کہ اس نے بیڈ گیلا کر دیا ہوتا ۔ انالیہ نے اپنے اوپر خاموشی کی چادر اوڑھ لی تھی ۔ایسا لگتا تھا کہ وہ اندر سے خشک ہو رہی ہے ۔اس کے مقابلے میں لوئس زیادہ فضول خرچ اور غیر ذمہ دار ہوتا گیا ۔اس نے اپنے آپ کو دوسرے مشاغل میں مصروف کر لیا ۔ بہت زیادہ شراب نوشی کرتا اور کئی کئی دنوں تک بغیر بتاۓگھر سے غائب رہتا ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بے راہروی کو چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی ۔لوئس کی جاگیر کے انتظام میں بھی ساری دلچسپی ختم ہو گئی ۔ اور اس کی جگہ انالیہ نے بخوشی سنبھال لی ۔اتوار کو ڈنر کے بعد اس کا چچا اس کے ساتھ بیٹھ کر معاملات پر بات چیت کرکے فیصلے لیتا ۔ جب کہ اس وقت لوئس آرام کرنے کے لئے سو جاتا ۔ اور پھر آدھی رات کو جاگتا ۔پسینے سے شرابور ۔بھوک سے معدہ چکراتا ہوا لیکن اپنے دوستوں کے ساتھ نئی عیاشی کے لئے تیار ۔
انالیہ اپنے بیٹے کو لکھائی اور حساب کی ابتدائی تعلیم دینے لگی ۔اور اس میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے لگی ۔جب لڑکا سات سال کا ہو گیا تو لوئس نے فیصلہ کیا کہ اب اس کی رسمی تعلیم کے لئے ماں کی گود سے دور کیپیٹل کے سکول میں بھیجنے کا وقت آ گیا ہے لیکن انالیہ نے اتنی شدت سے مخالفت کی کہ وہ اس سے کم پر راضی ہو گیا اور بچے کو نزدیکی شہر کے سکول میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔جہاں وہ سوموار سے جمعہ تک رہے گا ۔ہفتے کی صبح کار بھیج کر ہفتے کے آخری دو دن گھر پر گزارنے کے لئے بلوا لیا جاۓ گا ۔پہلے ہفتے کے اختتام پر انالیہ نے بے چینی سے لڑکے کا مشاہدہ کیا ۔ اسے اپنے پاس روک لینے کے بہانے تلاش کرنے لگی ۔لیکن وہ خوش دکھائی دیتا تھا ۔وہ اپنے استاد اور ہم جماعتوں کے بارے میں شوق و ذوق سے بتانے لگا اس نے رات کو بستر گیلا کرنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔تین مہینے بعد وہ پہلا رپورٹ کارڈ گھر لایا ،جس کے ساتھ استاد کا مختصر رقعہ بھی تھا جس میں بچے کی اچھی کار کردگی پر مبارک باد دی گئی تھی ۔جونہی انالیہ نے رقعہ پڑھا تو وہ لمبے عرصے بعد پہلی دفعہ لڑکھڑا ئی اور مسکرائی ۔خوشی سے بچے کو گلے لگایا اور اس پر سکول کے حوالے سے سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔رہائشی کمرے کیسے ہیں ۔؟ کھانے میں کیا ملتا ہے ۔؟ رات کو سردی تو نہیں لگتی ؟ کتنے دوست ہیں ؟ اس کا استاد کیسا ہے ۔؟ وہ بہت پرسکون تھی ۔ بچے کو سکول سے نکلوانے کا دوبارہ زکر نہیں کیا ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ،لڑکا اچھے سے اچھے نمبر لیتا گیا ۔جنہیں انالیہ خزانے کی طرح محفوظ کرنے لگی ۔اور پوری جماعت کے لئے جام اور مارما لیڈ کے جار بھر کر بھیجتی ۔یہ جانتے ہوے بھی کہ یہ سب کچھ تھوڑے عرصے کے لئے ہے ۔ جلد ہی بیٹے کو شہر کے سکول میں بھیجنا پڑے گا ۔ جہاں اس کی ملاقات صرف تعطیلات میں ہی ہوا کرے گی ۔
ایک رات جب لوئس نے حد سے زیادہ شراب نوشی کر لی تھی ،ایک دوسرے دوست کے گھوڑے کو اپنے شراب نوش دوستوں کو اپنی گھڑ سواری کے جوہر دکھانے کے لئے ایک پاؤں پر رقص کے چکر دلانے لگا ،تو گھوڑے نے اسے گرا دیا اور اس کے خصیے کچل ڈالے ۔ نو دن لوئس شہری کلینک میں چینختا چلاتا رہا ،جہاں اس کے انفیکشن کے علاج کی امید پر لے جایا گیا تھا ۔اور پھر مر گیا ۔اس کے ساتھ اس کی بیوی تھی ۔غلطی کے احساس سے نادم روتی ہوئی اس محبت کے لئے جو وہ اسے کبھی نہ دے سکی ۔اور اس اطمینان کے ساتھ کہ اب اسے کبھی اس کے مرنے کی دعا نہیں مانگنی پڑے گی ۔۔اس کی میت اپنی زمین پر دفنانے کے لئے لے جانے سے قبل انالیہ نے سفید ڈریس خریدا اور اسے اپنے سوٹ کیس کي تہہ میں چھپا دیا ۔ وہ گھر ماتمی لباس میں پہنچی ۔چہرہ بیوہ کے نقاب سے ڈھانپا ہوا تا کہ کوئی بھی اس کے تاثرات نہ دیکھ سکے ۔ اس نے جنازے تک یہی لباس پہنے رکھا ۔ بیٹے کا ہاتھ پکڑے ہوے ،وہ بھی سیاہ لباس میں تھا ۔ رسم کے بعد اس کے چچا یوجینیو جو زندگی کے ستر سال گزارنے کے بعد بھی بہت اچھی صحت کا مالک تھا ۔اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی جاگیر چھوڑ کر شہر چلی جاۓ اور وہاں اپنی آمدنی پر گزارہ کرے ۔وہاں لڑکا اپنی تعلیم مکمل کر لے گا ۔اور وہ اپنے ماضی کے دکھ بھول جاۓ گی ۔
“ انالیہ میری نظروں سے کبھی بھی یہ بات چھپ نہیں سکی کہ تم اور لوئس کبھی بھی ایک دوسرے سے خوش نہیں رہے ۔” چچا نے کہا ۔“ آپ نے درست کہا، چچا ! لوئس نے شروع ہی سے مجھے دھوکہ دیا “ ۔
“ خدا کے واسطے ، بیٹا ،وہ ہمیشہ سے تمہاری پردہ پوشی اور تمہاری عزت کرتا رہا ۔لوئس بہت اچھا خاوند تھا ۔ہر مرد کی چھوٹی موٹی مہمات ہوتی ہیں ،لیکن وہ بے معنی ہوتی ہیں ۔”“ نہیں میرا مطلب وہ نہیں ،میں ایک ناقابل معافی دھوکے کی بات کر رہی ہوں ۔”“ بہر حال میں اس سلسلے میں مزید کوئی بات کرنا نہیں چاہتا ۔میرے خیال میں تم اور لڑکا دارالحکومت میں ہی بہتر رہو گے ۔میں جاگیر کی دیکھ بھال کر لوں گا ۔میں بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن مجھ میں ابھی اتنی طاقت ہے ۔ ““ میں یہیں رہوں گی ،میرا بیٹا بھی میرے ساتھ یہیں رہے گا ۔مجھے اس کی یہاں ضرورت ہے ۔میں آج کل ویسے بھی گھر سے زیادہ باہر کھیتوں میں کام کر رہی ہوں ۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ اب میں اپنے فیصلے کسی سے مشورہ لئے بغیر خود کروں گی ۔آخر کار میں جاگیر کی اکلوتی وارث ہوں ۔میں اب آپ کو خدا حافظ کہوں گی ،چچا ! ۔”انالیہ نے کچھ ہفتے اپنی نئی زندگی کو منظم کرنے میں لگائے ۔اس نے سب سے پہلے وہ تمام بیڈ شیٹ جلائیں جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ شئیر کی تھیں ۔اپنی چھوٹی چارپائی مرکزی بیڈ روم میں شفٹ کی ۔اس کے بعد جاگیر کا حساب کتاب دیکھا اور جب اسے اپنی آمدن کا صحیح اندازہ ہو گیا تو اس نے ایک نگران (اور سیئر) ملازم رکھ لیا ۔جو بلا چون و چرا اس کے احکامات کی تعمیل کرتا ۔جب ہر چیز اس کے تسلط میں آ گئی تو اس نے اپنے سوٹ کیس سے سفید ڈریس نکالا ،اسے بہترین استری کیا ۔پھر اسے پہن کر اپنے بغل میں خطوط سے بھرا ہیٹ باکس دباۓ بیٹے کے سکول پہنچی ۔
انالیہ نے سکول پہنچ کے لان میں انتظار کیا ۔پانچ بجے اس دن کی آخری کلاس کی گھنٹی بجی ۔فورا” لڑکوں کا ایک سیلاب کھیلنے کے لئے باہر نکل آیا ۔ان میں اس کا بیٹا بھی شامل تھا ۔جو اسے دیکھتے ہی رک گیا ۔کیوں کہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اس کی ماں اس کے سکول آئی تھی ۔ اس نے بیٹے سے کہا کہ وہ اسے اپنے کلاس روم تک لے جاۓ ۔ کہ اسے اس کے استاد سے ملنا ہے ۔ دروازے پر انالیہ نے بیٹے کو چلے جانے کا کہا ،کہ اس نے کسی زاتی معاملے پر بات کرنی ہے ۔ اکیلی اندر داخل ہوئی ۔ کمرہ کافی بڑا اور اونچی چھت والا تھا ۔دیواروں پر نقشے اور بائیولوجی کے چارٹ لٹک رہے تھے ۔ وہاں وہی بند میٹھی سی بو پھیلی تھی جو اسے اپنے بچپن سے یاد تھی ۔ لیکن اس سے اسے کوئی ناگواری محسوس نہیں ہوئی بلکہ اس نے خوشی سے اس میں گہرے سانس لئے ۔ڈیسک صاف نہیں تھے ،فرش پر کاغذ بکھرے تھے ۔سیاہی کی بوتلیں بغیر ڈھکن کے پڑی تھیں ۔تختہ سیاہ پر لکھے گئے اعداد کو مٹایا نہیں گیا تھا ۔ کلاس روم میں سامنے ایک میز کے آگے اونچے پلیٹ فارم پر استاد بیٹھا تھا ۔ اس نے اوپر دیکھا ،حیران ہوا ،لیکن اٹھا نہیں ۔اس لئے کہ اس کی بیساکھیاں اتنے دور تھیں کہ ان تک پہنچنے کے لئے کرسی فرش پر گھسیٹنی پڑتی ۔انالیہ ڈیسکوں کی دو قطاروں کے درمیان سے گزر کر استاد کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔” میں ٹورس کی ماں ہوں ۔” اس نے کہا ،کیوں کہ اس کے علاوہ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے ۔“ سہہ پہر بخیر ،مادام ،میں اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوے ان تمام پھلوں اور تحائف کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں جو آپ ہم سب کے لئے بھیجتی رہیں ۔”
“آپ انہیں بھول جائیں ،میں یہاں ان تکلفات کے لئے نہیں آئی ۔” انالیہ نے ہیٹ بکس میز پر رکھتے ہوے کہا ۔ “ میں کچھ حساب کتاب برابر کرنے آئی ہوں ۔”“ یہ کیا ہے ؟”
انالیہ نے بکس کھولا اور تمام محبت نامے باہر نکالے جو اس نے اتنے عرصے سے سنبھال کر رکھے تھے ۔ بہت دیر تک وہ تمام لفافے دیکھتا رہا ۔تب انالیہ بولی ۔“ تم میری زندگی کے گیارہ سالوں کے مقروض ہو “ ۔“ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ میں نے لکھے تھے ۔” وہ جب بولنے کے قابل ہوا تو ہکلاتے ہوے بولا ۔
“ شادی کے دن مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ میرا خاوند یہ خطوط نہیں لکھ سکتا ۔اور جب میرا بیٹا پہلا رپورٹ کارڈ گھر لایا تو میں نے لکھائی پہچان لی اور اب تمہیں دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ،کہ یہ تم ہی ہو جسے میں اپنے خوابوں میں دیکھتی رہی ،تب سے جب میں سولہ سال کی تھی ۔تم نے ایسا کیوں کیا ۔؟”“ لوئس ٹورس میرا دوست تھا ۔اس نے مجھے اپنی کزن کے نام خط لکھ کر دینے کا کہا ،تو مجھے اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی ۔ دوسرے اور تیسرے خط تک یہی خیال تھا ۔بعد میں جب تم نے جواب دیا تو پیچھے ہٹنے کے لئے وقت نہیں رہا تھا ۔وہ دو سال میری زندگی کے بہترین سال تھے ،جب میں نے زندگی میں آگے کی طرف دیکھا ۔میں ہمیشہ ڈاک کا انتظار کرتا ۔آہ۔ہ ۔۔کیا تم مجھے معاف کر دو گی ۔”“ اس کا انحصار تم پر ہے “ انالیہ نےاسے اس کی بیساکھیاں پکڑاتے ہوے کہا ۔سکول ماسٹر نے جیکٹ پہنی اور کھڑا ہو گیا ۔وہ باہر لان کی ہلچل میں نکل آۓ ،جہاں سورج اب تک چمک رہا تھا ۔