سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : مئی 2013

قسط ۱۰۱
نورالقرآن
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نسا
آیت ۱۷۶

یَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیالْکَلٰلَۃِ ط اِنِ امْرُؤ‘’ا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَد‘’ وَّلَہٗٓ اُخْت‘’ فَلَھَانِصْفُ مَاتَرَکَج وَھُوَ یَرِثُھَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَد‘’ ط فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّنِسَآءً فَلِذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ط یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم‘’ ہع ۱۷۶

تراجم

۱۔ حکم پوچھتے ہیں تجھ سے۔ تو کہہ اللہ حکم بتاتا ہے تم کو کلالہ کا۔ اگر ایک مرد مر گیا کہ اس کو بیٹا نہیں، اور اس کو ایک بہن ہے، تو اس کو پہنچے آدھا جو چھوڑ مرا۔ اور وہ بھائی وارث ہے اس بہن کا، اگر نہ رہے اس کو بیٹا۔ پھر اگر بہنیں دو ہوں، تو ان کو پہنچے دو تہائی جو کچھ چھوڑ مرا۔ اور اگر کئی شخص ہیں اس ناتے کے مرد اور عورتیں، تو مرد کو دو برابر حصہ عورت کا۔ بیان کرتا ہے اللہ تمھارے واسطے کہ نہ بہکو۔ اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے(۱۷۶)(شاہ عبدالقادرؒ)

۲۔ لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جاوے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ ماں باپ) اور اس کے ایک (عینی یا علاقی) بہن ہو تو اس کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ شخص اس (اپنی بہن) کا وارث ہو گا اگر (وہ بہن مر جاوے اور) اس کے اولاد نہ ہو (اور والدین بھی نہ ہوں) اور اگر بہنیں دو ہوں (یا زیادہ) تو ان کو اس کے کل ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے۔ اور اگر وارث چند بھائی بہن ہوں مرد ور عورت تو ایک مرد کو دو عورتوں کے حصہ کے برابر۔ اللہ تعالیٰ تم سے (دین کی باتیں) اس لیے بیان کرتے ہیں کہ تم گمراہی میں نہ پڑو۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں(۱۷۶)(مولاناتھانویؒ)

۳۔ اے محبوب تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمھیں کلالہ میں فتویٰ دیتا ہے اگر کسی مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے اور مرد اپنی بہن کا وارث ہو گا اگر بہن کی اولاد نہ ہو پھر اگر دو بہنیں ہوں ترکہ میں ان کا دو تہائی اور اگر بھائی بہن ہوں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ۔ اللہ تمھارے لیے صاف بیان فرماتا ہے کہ کہیں بہک نہ جاؤ اور اللہ ہر چیز جانتا ہے(۱۷۶)(مولانا احمد رضا خانؒ)

۴۔ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ خود تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انھیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمھارے لیے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے(۱۷۶)(مولاناجونا گڑھیؒ)

۵۔ لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہو اللہ تمھیں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہو گا۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہو گا۔ اللہ تمھارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے(۱۷۶)(مولانامودودیؒ)

۶۔ وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو اللہ تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے ۔ اگر کوئی شخص مرے، اس کے کوئی اولاد نہ ہو، اس کے ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کے ترکہ کا نصف ہے اور وہ مرد اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس بہن کے کوئی اولا نہ ہو۔ اور اگر بہنیں دو ہوں تو ان کے لیے اس کے ترکہ کا دو تہائی ہو گا اور اگر کئی بھائی بہن مرد عورتیں ہوں تو ایک مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔ اللہ تمھارے لیے اس کی وضاحت کرتا ہے کہ مبادا تم گمراہی میں پڑ جاؤ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے(۱۷۶)(اصلاحیؒ)

۷۔ وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ (اِن سے) کہو: اللہ تمھیں کلالہ رشتہ داروں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے: اگر کوئی شخص بے اولاد مرے اور اُس کی ایک بہن ہی ہوتو اُس کے لیے ترکے کا آدھا ہے اور اگر بہن بے اولاد مرے تو اُس کا وارث اُس کا بھائی ہے۔ اور بہنیں اگر دو ہوں تو اُس کے ترکے میں سے دو تہائی پائیں گی اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اللہ تمھارے لیے وضاحت کرتا ہے تا کہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے(۱۷۶) (غامدی)

تفاسیر
نظم کلام

آخری آیت بطورِ ضمیمہ

‘‘اُوپر والی آیت پر یہ سورہ تمام ہوئی۔ اب آگے ایک آیت بطورِ ضمیمہ لگا دی گئی ہے جو ابتدائے سورہ کے بیان کردہ احکامِ وراثت کے ایک خاص مسئلے کی وضاحت کے لیے بعد میں نازل ہوئی۔ اس کے آخر میں کذلک یبین اللّٰہ کے الفاظ سے اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ یہ توضیحی آیت ہے جو بعد میں توضیح کے طور پر نازل ہوئی ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۴۳۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یہ آیت اِس سُورہ کے نزول سے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے آخری آیت ہے۔ یہ بیان اگر صحیح نہ بھی ہو تب بھی کم از کم اتنا تو ثابت ہے کہ یہ آیت سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ اور سُورہ نساء اس سے بہت پہلے ایک مکمل سُورہ کی حیثیت سے پڑھی جا رہی تھی۔ اسی وجہ سے اس آیت کو اُن آیات کے سلسلہ میں شامل نہیں کیا گیا جو احکام میراث کے متعقل سُورہ کے آغاز میں ارشاد ہوئی ہیں، بلکہ اسے ضمیمہ کے طور پر آخر میں لگا دیا گیا۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص۴۳۱، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

یستفتونک قل اللہ…… بکل شئی علیم

کلالہ کی میراث کا حکم

‘‘کلالہ کی میراث کا حکم آیت ۱۲ میں گزر چکا ہے۔ کلالہ سے مراد وہ مورث ہے جس کے نہ اصول میں کوئی ہو، نہ فروع میں، صرف بھائی بہن وغیرہ ہوں۔ اگر آیت ۱۲ کے حکم کو صرف اخیا فی بہن کے ساتھ مخصوص مان لیا جائے تو اس توضیحی حکم کے بعد کلالہ کی وراثت کے حکم کا ہر پہلو واضح ہوجاتا ہے۔ اس کی تفصیلات فقہ و فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۹، فاران فاونڈیشن لاہور)

‘‘کَلَالہ کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض کی رائے میں کَلَالہ وہ شخص ہے جو لا ولد بھی ہو اور جس کے باپ اور دادا بھی زندہ نہ ہوں۔ اور بعض کے نزدیک محض لا ولد مرنے والے کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آخر وقت تک اس معاملہ میں متردّ د رہے ۔ لیکن عامہ فقہاء نے حضرت ابوبکر ؓ کی اس رائے کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس کا اطلاق پہلی صورت پر ہی ہوتا ہے۔اور خود قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ یہاں کلالہ کی بہن کو نصف ترکہ کا وارث قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اگر کلالہ کا باپ زندہ ہو تو بہن کو سرے سے کوئی حصّہ پہنچتا ہی نہیں۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۳۱، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

وہو یرثہا ان لم یکن لھا ولد

‘‘یہاں اُن بھائی بہنوں کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے جو میّت کے ساتھ ماں اور باپ دونوں میں، یا صرف باپ میں مشترک ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک خطبہ میں اس معنی کی تصریح کی تھی اور صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہ کیا، اس بنا پر یہ مُجْمَع علیہ مسئلہ ہے۔یعنی بھائی اس کے پُورے مال کا وارث ہو گا اگر کوئی اور صاحبِ فریضہ نہ ہو۔ اور اگر کوئی صاحبِ فریضہ موجود ہو، مثلاً شوہر، تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ بھائی کو ملے گا۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۳۲، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

‘‘کلالۃ اسے کہتے ہیں جس کے والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اولاد لڑکی یا لڑکا بھی کوئی نہ ہو۔ وہ بہن جو صرف ماں کی طرف سے ہو اس کا حکم پہلے گزر چکا۔ یہاں بہن سے مراد سگی اور باپ کی طرف سے جو بہن ہو اُس کا ذکر ہو رہا ہے۔ ایسی بہن کو نصف ترکہ ملے گا اور بقیہ نصف اگر کوئی عصبہ ہوا یعنی چچا، چچازاد بھائی وغیرہ تو ان کو ملے گا ورنہ یہ نصف بھی بہن کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور بقیہ ثلث عصبہ کو ملے گا اور اگر عصبہ کوئی نہ ہو تو پھر یہ بھی ان کو ملے گا۔ دو یا دو سے زائد بہنوں کا یہی حکم ہے اگر کلالہ کے وارثوں میں بھائی اور بہن دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔’’ (ضیاالقرآن ،ج۱ ،ص ۴۲۹، ضیا القرآن پبلی کیشنزلاہور)

‘‘لفظ ‘الْکَلٰلَۃ’ کی تحقیق اِس سے پہلے اِسی سورہ کی آیات ۱۱-۱۲ کے تحت بیان ہوچکی ہے۔ یہ اب چوتھے اور آخری سوال کا جواب ہے جو اولاد کی عدم موجودگی میں بھائی بہنوں کی میراث کے بارے میں پیدا ہوا ہے۔ اِس کا اشارہ اگرچہ آیات ۱۱-۱۲ میں بھی موجود تھا، لیکن جب لوگ نہیں سمجھے اور اُنھوں نے سوال کیا تو قرآن نے اُس کو پوری صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ آیت کی ابتدا ‘قُلِ: اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ’ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو وہی اسلوب ہے جو ‘یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ’ میں ہے۔ وہاں وصیت میت کی وارث اولاد کے بارے میں ہے اور یہاں فتویٰ میت کے وارث کلالہ رشتہ داروں کے بارے میں ہے۔ لفظ ‘کَلٰلَۃ’ پر الف لام دلیل ہے کہ سوال کلالہ وارثوں میں سے کچھ مخصوص اقربا سے متعلق ہے اور جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقربا میت کے بھائی بہن ہیں۔ تمام کلالہ رشتہ داروں، مثلاً چچا ماموں، بھائی بہن، خالہ پھوپھی میں سے کسی کو وارث بنا دینے کی اجازت آیات میراث میں بیان ہو چکی ہے۔ یہاں عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ یہ چیز ملحوظ رہے تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا: کہہ دو اللہ تمھیں کلالہ رشتہ داروں میں سے بھائی بہنوں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔

 اصل میں ‘اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ’ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ بھائی بہنوں کے میراث پانے کے لیے اُسی طریقے پر شرط ہے، جس طرح ‘فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ’ میں ہے۔ وہاں معنی یہ ہیں کہ میت بے اولاد ہو اور ماں باپ ہی وارث ہوں تو اُن کا حصہ یہ ہے اور یہاں مفہوم یہ ہے کہ مرنے والے کے اولاد نہ ہو اور اُس کے بھائی بہن ہوں تو اُن کا حصہ اِس طرح ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ بھائی بہن صرف اولاد کی غیرموجودگی میں وارث ہوتے ہیں۔ اولاد موجود ہو تو میت کے ترکے میں اُن کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، الاّ یہ کہ مرنے والا آیت ۱۲ میں کلالہ کے حکم عام کے تحت اُن میں سے کسی کو بچے ہوئے ترکے کا وارث بنا دے۔

 بھائی بہنوں کے جو حصے یہاں بیان ہوئے ہیں، اُن میں اور اولاد کے حصوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آیت میں ‘وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآءً، فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ’ کا اسلوب دلیل ہے کہ یہ حصے بھی والدین اور بیوی یا شوہر کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکے میں سے دیے جائیں گے۔ اِس کے دلائل آیت ۱۱ کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ترکے کا جو حصہ بھائی بہنوں میں تقسیم کیا جائے گا، میت کی صرف بہنیں ہی ہوں تو اُنھیں بھی اُسی کا دوتہائی اور اُسی کا نصف ادا ہو گا۔’’(البیان، از غامدی)

‘‘اہل کتاب نے تو یہ غضب کیا کہ ذات اقدس سبحانہ و تعالیٰ کے لیے شریک اور اولاد جیسے شنیع امر کو اپناا یمان بنا لیا اور وحی الٰہی کا خم ٹھونک کر خلاف کیا، اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے کہ اصول ایمان اور عبادات تو درکنار معاملات جزئیہ اور معمولی مسائل متعلقہ میراث نکاح وغیرہ میں بھی وحی کے متجسس اور منتظر رہتے ہیں اور ہر امر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں، اپنی عقل اور خواہش کو حاکم نہیں سمجھتے ۔اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حضرت سید المرسلین ؐ بھی بلا حکم وحی اپنی طرف سے حکم نہ فرماتے تھے ، اگر کسی امر میں حکم وحی موجود نہ ہوتا تو حکم فرمانے میں نزول وحی کا انتظار فرماتے ، جب وحی آتی تب حکم فرماتے ، نیز اشارہ ہے اس طرف کہ ایک دفعہ تمام کتاب کے نازل ہونے میں جیسا کہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں وہ خوبی نہیں تھی جو بوقت حاجت اور حسب موقع متفرق نازل ہونے میں ہے ، کیونکہ ہر کوئی اپنی ضرورت کے موافق اس صورت میں سوال کر سکتا ہے ،اور بذریعہ وحی متلو اس کو جواب مل سکتا ہے ، جیسا کہ اس موقع میں اورقرآن مجید کے بہت سے مواقع میں موجود ہے ، اور یہ صورت مفید تر ہونے کے علاوہ بوجہ شرافت ذکر خدا وندی و عزت خطاب حق عزو جل ایسے فخر عظیم پر مشتمل ہے جو کسی امت کو نصیب نہیں ہوا ، واللہ ذوالفضل العظیم ، جس صحابی کی بھلائی میں یا اس کے سوال کے جواب میں کوئی آیت نازل ہوئی وہ اس کے مناقب میں شمار ہوتی ہے ، اور اختلاف کے موقع میں جس کی رائے یا جس کے قول کے موافق وحی نازل ہو گئی قیامت تک ان کی خوبی اور نیک نام باقی رہے گا ، سو کلالہ کے متعلق سوال و جواب کا ذکر فرما کر اس طرح کے بالعموم سوالات اور جوابات کی طرف اشارہ فرما دیا۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۶۲۷، ادارۃ المعارف کراچی)