سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : مارچ 2013

قسط۹۹
نورالقرآن
 سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نسا
آیات ۱۵۳۔۔۱۶۲

یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْھِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَ لُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰہَ جَھْرَۃً فَاَخَذَتْھُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِھِمْ ج ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِکَ ج وَاٰتَیْنَا مُوْسٰی سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ہ۱۵۳ وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًاوَّقُلْنَا لَھُمْ لَاتَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْھُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا ہ۱۵۴ فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیثَاقَھُمْ وَکُفْرِھِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِحَقٍّ وَّقَوْلِھِمْ قُلُوْبُنَا غُلْف‘’ ط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلاً ہص ۱۵۵ وَّبِکُفْرِھِمْ وَقَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًاعَظِیْمًا ہلا ۱۵۶ وَّقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ج وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ ط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ ط مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا م ہلا ۱۵۷ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ہ۱۵۸ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَھِیْدًا ہج ۱۵۹ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَھُمْ وَبِصَدِّھِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا ہلا ۱۶۰ وَّاَخْذِھِمُ الرِّبٰوا وَقَدْنُھُوْا عَنْہُ وَاَکْلِھِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ط وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ہ۱۶۱ لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِا للّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط اُولٰٓئِکَ سَنُؤْتِیْہِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا ہع ۱۶۲

تراجم

            ۱۔ تجھ سے مانگتے ہیں کتاب والے کہ ان پر اتار لاوے کتاب، آسمان سے۔ سو مانگ چکے ہیں موسیٰ سے اس سے بڑی چیز۔ بولے: ہم کو دکھا دے اللہ کو سامنے ، پھر ان کو پکڑا بجلی نے، اُن کے گناہ پر۔ پھر بنا لیا بچھڑا، نشانیاں پہنچے پیچھے، پھر ہم نے وہ بھی معاف کیا۔ اور دیا موسیٰ کو غلبہ صریح(۱۵۳) اور ہم نے اٹھایا، ان پر پہاڑ، ان کے قول لینے میں، اور ہم نے کہا، داخل ہو دروازے میں سجدہ کر کر، اور ہم نے کہا، زیادتی مت کرو ہفتے کے دن میں، اور ان سے لیا قول گاڑھا(۱۵۴) سو ان کے قول توڑنے پر، اور منکر ہونے پر اللہ کی آیتوں سے، اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق، اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے، کوئی نہیں، پر اللہ نے مُہر کی ہے ان پر مارے کفر کے، سو یقین نہیں لاتے مگر کم(۱۵۵) اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان بولنے پر(۱۵۶) اور اس کہنے پر کہ ہم نے مارا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو، جو رسول تھا اللہ کا۔ اور نہ اس کو مارا ہے اور نہ سولی پر چڑھایا، ولیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے۔ اور جو لوگ اس میں کئی باتیں نکالتے ہیں، وہ اس جگہ شبہے میں پڑے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر، مگر اٹکل پر چلنا۔ اور اس کو مارا نہیں بے شک(۱۵۷) بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف۔ اور ہے اللہ زبردست حکمت والا(۱۵۸) اور جو فرقہ ہے کتاب والوں میں، سو اس پر یقین لاویں گے اسی کی موت سے پہلے، اور قیامت کے دن ہو گا اُن کا بتانے والا(۱۵۹) سو یہود کے گناہ سے ہم نے حرام کیں اُن پر کِتی پاک چیزیں، جو ان کو حلال تھیں، اور اس سے کہ اٹکتے تھے اللہ کی راہ سے بہت(۱۶۰) اور ان کے سود لینے پر اور ان کو اس سے منع ہو چکا ہے اور لوگوں کے مال کھانے پر ناحق۔ اور تیار رکھی ہے ہم نے منکروں کے واسطے دکھ کی مار(۱۶۱) لیکن جو ثابت ہیں علم پر اُن میں، اور ایمان والے، سو مانتے ہیں جو اترا تجھ پر، اور جو اترا تجھ سے پہلے، اور آفرین نماز پر قائم رہنے والوں کو، اور دینے والے زکوٰۃ کے، اور یقین رکھنے والے اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ ایسوں کو ہم دیں گے بڑا ثواب(۱۶۲) (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ آپ سے اہل کتاب یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس ایک خاص نوشتہ آسمان سے منگوا دیں سو انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑی بات کی درخواست کی تھی اور یوں کہا تھا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کھلم کھلا دکھلا دو جس پر ان کی اس گستاخی کے سبب ان پر کڑک بجلی آ پڑی۔ پھر انھوں نے گوسالہ کو تجویز کیا تھا بعد اس کے کہ بہت سے دلائل ان کو پہنچ چکے تھے پھر ہم نے اس سے درگزر کر دیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے بڑا رعب دیا تھا(۱۵۳) اور ہم نے ان لوگوں سے قول و قرار لینے کے واسطے کوہ طور کو اٹھا کر ان کے اوپر معلق کر دیا تھا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ دروازہ میں عاجزی سے داخل ہونا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ یوم ہفتہ کے بارے میں تجاویز مت کرنا اور ہم نے ان سے قول و قرار نہایت شدید لیے(۱۵۴) سو ہم نے سزا میں مبتلا کیا ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور ان کے کفر کی وجہ احکام الٰہیہ کے ساتھ اور ان کے قتل کرنے کی وجہ سے انبیاء کو ناحق اور ان کے اس مقولہ کی وجہ سے کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں، بلکہ ان کے کفر کے سبب ان کے قلوب پر اللہ تعالیٰ نے بند لگا دیا ہے سو ا ن میں ایمان نہیں، مگر قدرے قلیل(۱۵۵) اور ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم علیہا السلام پر ان کے بڑا بھاری بہتان دھرنے کی وجہ سے(۱۵۶) اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کو جو کہ رسول ہیں اللہ تعالیٰ کے، قتل کر دیا حالانکہ انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اور جو لوگ ان کے بارہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں۔ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اور انھوں نے ان کو یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا(۱۵۷) بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست ہیں، حکمت والے ہیں(۱۵۸) اور کوئی شخص اہل کتاب سے نہیں رہتا مگر وہ عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے مرنے سے پہلے ضرور تصدیق کر لیتا ہے اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دیں گے(۱۵۹) سو یہود کے ان ہی بڑے بڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں، ان پر حرام کر دیں اور بسبب اس کے کہ وہ بہت سے آدمیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ سے مانع بن جاتے تھے(۱۶۰) اور بہ سبب اس کے کہ وہ سود لیا کرتے تھے حالانکہ ان کو اس سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ و ہ لوگوں کے مال ناحق طریقہ سے کھا جاتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کے لیے جو ان میں سے کافر ہیں درد ناک سزا کا سامان کر رکھا ہے(۱۶۱) لیکن ان میں جو لوگ علم (دین) میں پختہ ہیں اور جو (ان میں) ایمان لے آنے والے ہیں کہ اس (کتاب) پر (بھی) ایمان لاتے ہیں جو آپ کے پاس بھیجی گئی اور اس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں)جو آپ سے پہلے بھیجی گئی تھی اور جو (ان میں) نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو (ان میں) زکوٰۃ دینے والے ہیں اور جو (ان میں) اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اعتقاد رکھنے والے ہیں سو ایسے لوگوں کو ہم ضرور (آخرت میں) ثواب عظیم عطا فرمایں گے(۱۶۲)(مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ اے محبوب اہل کتاب تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار دو تو وہ تو موسیٰ سے اس سے بھی بڑا سوال کر چکے کہ بولے ہمیں اللہ کو علانیہ دکھا دو تو انھیں کڑک نے آ لیا ان کے گناہوں پر۔ پھر بچھڑا لے بیٹھے بعد اس کے کہ روشن آیتیں ان کے پاس آ چکیں تو ہم نے یہ معاف فرما دیا اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ دیا(۱۵۳) پھر ہم نے ان پر طور کو اونچا کیا ان سے عہد لینے کو اور ان سے فرمایا کہ دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہو اور ان سے فرمایا کہ ہفتہ میں حد سے نہ بڑھو اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا(۱۵۴) تو ان کی کیسی بدعہدیوں کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور اس لیے کہ وہ آیات الٰہی کے منکر ہوئے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے اور ان کے اس کہنے پر کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے(۱۵۵) اور اس لیے کہ انھوں نے کفر کیا اور مریم پر بڑا بہتان اٹھایا(۱۵۶) اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انھوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لیے ان کی شبیہ کا ایک بنا دیا گیا اور وہ جو اس کے بارہ میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں انھیں اس کی کچھ خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انھوں نے اس کو قتل نہیں کیا(۱۵۷) بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے(۱۵۸) کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا(۱۵۹) تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام فرما دیں اور اس لیے کہ انھوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا(۱۶۰) اور اس لیے کہ وہ سود لیتے حالانکہ وہ ا س سے منع کیے گئے تھے اور لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے اور ان میں جو کافر ہوئے ہم نے ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے(۱۶۱) ہاں جو ان میں علم میں پکے اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو اے محبوب تمھاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور نماز قائم رکھنے والے اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ اور قیامت پر ایمان لانے والے۔ ایسوں کو عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے(۱۶۲) (مولانااحمد رضا خانؒ)

            ۴۔ آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تو انھوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے، پس ان کے اس ظلم کے باعث ان پر کڑاکے کی بجلی آ پڑی۔ پھر باوجودیکہ ان کے پاس بہت دلیلیں پہنچ چکی تھیں انھوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، لیکن ہم نے یہ بھی معاف فرما دیا اور ہم نے موسیٰ کو کھلا غلبہ اور صریح دلیل عنایت فرمائی(۱۵۳) اور ان کا قول لینے کے لیے ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا اور انھیں حکم دیا کہ سجدہ کرتے ہوئے دروازے میں جاؤ اور یہ بھی فرمایا کہ ہفتہ کے دن میں تجاوز نہ کرنا اور ہم نے ان سے سخت سے سخت قول و قرار لیے(۱۵۴)۔ (یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور خدا کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لیے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں(۱۵۵) اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث(۱۵۶) اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انھوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کے لیے وہی صورت بنا دی گئی تھی۔ یقین جانو کہ عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں۔ انھیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے، اتنا یقینی ہے کہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا(۱۵۷) بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے(۱۵۸) اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے(۱۵۹) جو نفیس چیزیں ان کے لیے حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان پر حرام کر دیں، ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث(۱۶۰) اور سود جس سے منع کیے گئے تھے اسے لینے کے باعث اور لوگوں کا مال ناحق مار کھانے کے باعث اور ان میں جو کافر ہیں ہم نے ان کے لیے المناک عذاب مہیا کر رکھے ہیں(۱۶۱) لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں، جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہ ہیں جنھیں ہم بہت بڑے اجر عطا فرمائیں گے(۱۶۲)(مولاناجوناگڑھیؒ)

            ۵۔ یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰ سے کر چکے ہیں۔ اُس سے تو انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی۔ پھر انھوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ہم نے موسیٰ کو صریح فرمان عطا کیا(۱۵۳) اوران لوگوں پر طور کو اٹھا کر ان سے (اُس فرمان کی اطاعت کا) عہد لیا۔ ہم نے ان کو حکم دیا کہ دروازہ میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہوں، ہم نے ان سے کہا کہ سبت کا قانون نہ توڑو اور اس پر ان سے پختہ عہد لیا(۱۵۴) آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں۔ حالانکہ درحقیقت ان کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں(۱۵۵) پھر اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا(۱۵۶) اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کیا ہے۔ حالانکہ فی الواقع انھوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے۔ انھوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا(۱۵۷) بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے(۱۵۸) اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا(۱۵۹) غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں(۱۶۰) اور سود لیتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا تھا۔ اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے(۱۶۱) مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی۔ اس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخرت پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے(۱۶۲)(مولانامودودیؒ)

            ۶۔ اہل کتاب تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم ان پر براہ راست آسمان سے ایک کتاب اتار دو۔ یہ تعجب کی بات نہیں، موسیٰ سے تو انھوں نے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں تم اللہ کو کھلم کھلا دکھا دو۔ تو ان کو ان کی اس زیادتی کے باعث کڑک نے آ دبوچا۔ پھر نہایت واضح نشانیاں آ چکنے کے بعد انھوں نے گوسالے کو معبود بنا لیا۔ ہم نے اس سے درگزر کیا اور موسیٰ کو ہم نے نہایت واضح حجت عطا کی(۱۵۳) اور ہم نے ان کے اوپر طور کو معلق کیا ان کے عہد کے ساتھ اور ہم نے ان کو کہا کہ دروازے میں داخل ہو سر جھکائے ہوئے اور ان کو کہا کہ سبت کے معاملے میں حکم عدولی نہ کرنا۔ اور ہم نے ان سے ایک مضبوط عہد لیا(۱۵۴)پس بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے عہد کو توڑا، بوجہ اس کے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، بوجہ اس کے کہ انھوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں۔ بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے تو وہ کم ہی ایمان لائیں گے(۱۵۵) اور بوجہ ان کے کفر کے اور بوجہ ان کے مریم پر ایک بہتان عظیم لگانے(۱۵۶) اور بہ سبب ان کے اس دعوے کہ ہم نے مسیح بن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا۔ حالانکہ نہ تو انھوں نے اس کو قتل کیا، نہ سولی دی بلکہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کر دیا گیا اور جو لوگ اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ اس کے معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں، ان کو اس بارے میں کوئی قطعی علم نہیں بس گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ قتل اس کو انھوں نے ہر گز نہیں کیا(۱۵۷) بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب اور حکیم ہے(۱۵۸)اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس کا یقین نہ کر لے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا (۱۵۹)پس ان یہود ہی کے ظلم کے سبب سے ہم نے بعض پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں جو ان کے لیے حلال تھیں اور بوجہ اس کے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں(۱۶۰) اور بوجہ اس کے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ اس سے ان کو روکا گیا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے(۱۶۱) البتہ ان میں جو علم میں راسخ اور صاحب ِ ایمان ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی اور جو تم سے پہلے اتاری گئی اور خاص کر نماز قائم کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ اور روزے آخرت پر ایمان رکھنے والے۔ یہ لوگ ہیں جن کو ہم اجر عظیم دیں گے(۱۶۲)(اصلاحیؒ)

            ۷۔ یہ اہل کتاب تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ (اِس قرآن کے بجاے) اِن پر براہ راست آسمان سے ایک کتاب اتار لاؤ۔ (اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے)۔ اِنھوں نے موسیٰ سے اِس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ اِنھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں خدا کو سامنے دکھاؤ تو اِن کی اِس سرکشی کے باعث اِن کو کڑک نے آلیا تھا۔ پھر اِنھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا، اِس کے بعد کہ اِن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں آچکی تھیں۔ اِس پر بھی ہم نے اِن سے درگذر کیا اور موسیٰ کو (اِن پر) صریح غلبہ عطا فرمایا تھا(۱۵۳) اور ہم نے طور کو اِن پر اٹھا لیا تھا، اِن سے عہد کے ساتھ اور اِن کو حکم دیا تھا کہ (شہر کے) دروازے میں سر جھکائے ہوئے داخل ہوں اور اِن سے کہا تھا کہ سبت کے معاملے میں نافرمانی نہ کرنا اور (اِن سب چیزوں پر) ہم نے اِن سے پختہ عہد لیا تھا(۱۵۴)پھر اِن کے عہد توڑ دینے کی وجہ سے (ہم نے اِن پر لعنت کر دی)، اور اِس وجہ سے کہ اِنھوں نے اللہ کی آیتوں کو نہیں مانا اور اِن کے نبیوں کو ناحق قتل کر دینے کی وجہ سے اور اِس وجہ سے کہ اِنھوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر تو غلاف ہیں ــــ(نہیں)، بلکہ اِن کے کفر کی پاداش میں اللہ نے اِن کے دلوں پر مہر کر دی ہے، اِس لیے (اب) یہ کم ہی ایمان لائیں گے (۱۵۵) ـــاور اِن کے کفر کی وجہ سے اور مریم پر بہتان عظیم لگانے کی وجہ سے(۱۵۶) اور اِن کے اِس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے ـــــ دراں حالیکہ اِنھوں نے نہ اُس کو قتل کیا اور نہ اُسے صلیب دی، بلکہ معاملہ اِن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔ اِس میں جو لوگ اختلاف کر رہے ہیں،وہ اِس معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں، اُن کو اِس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمانوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ اِنھوں نے ہرگز اُس کو قتل نہیں کیا(۱۵۷) بلکہ اللہ ہی نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے(۱۵۸)(یہ اِن کے جرائم ہیں، اِس لیے اب قرآن کے سوا یہ براہ راست آسمان سے اتری ہوئی کسی کتاب کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر) اِن اہل کتاب میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے اِسی (قرآن) پر یقین کر لے گا اور قیامت کے دن یہ اِن پر گواہی دے گا(۱۵۹)پھر اِن یہودیوں کے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ایسی پاکیزہ چیزیں بھی اِن پر حرام کر دی تھیں جو اِن کے لیے حلال تھیں اور اِس وجہ سے کہ یہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے رہے ہیں(۱۶۰) اور اِس وجہ سے کہ سود لیتے رہے ہیں، دراں حالیکہ اِنھیں اِس سے روکا گیا تھااور اِس وجہ سے کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے رہے ہیں، اور یہ اِنھی کے منکرین ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے(۱۶۱) اِن میں سے، البتہ جو علم میں پختہ ہیں اور جو ایمان والے ہیں، وہ اُس چیز کو مانتے ہیں جو تم پر اتاری گئی اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور خاص کر نماز کا اہتمام کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے(۱۶۲)(محترم جاوید احمد غامدی)

تفاسیر
نظم کلام

‘‘آگے اہلِ کتاب --- یہود اور نصاریٰ--- کو تنبیہ ہے اور یہ تنبیہ اتنی سخت و شدید ہے کہ لفظ لفظ سے جوش غضب اُبلا پڑ رہا ہے۔ پوری تقریر از ابتدا تا انتہا صرف فرد قرارداد جرائم پر مشتمل ہے اور کلام کے جوش اور روانی کا یہ عالم ہے کہ بات شروع ہونے کے بعد یہ متعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ختم کہاں ہوئی۔ اس قسم کے پُرجوش اور پُرغضب کلام میں عموماً خبر حذف ہوجاتی ہے، گویا متکلم کا جوش ہی خبر کا قائم مقام بن جاتا ہے اور مبتدا ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ متکلم کیا کہنا چاہتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یسئلک اھل الکتب…… یومنون الا قلیلا
بظلمھم کا مفہوم

‘‘ان آیات میں تاریخ بنی اسرائیل کے جن واقعات کا حوالہ ہے وہ بلااستثنا سب کے سب سورۂ بقرہ کی تفسیر میں زیربحث آچکے ہیں۔ ملاحظہ ہو، تفسیر آیات ۴۷-۹۶۔بظلمہم، یعنی اس کڑک کو انھوں نے اپنی بدبختی سے خود دعوت دی۔ یہ اللہ نے ان کے اُوپر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا۔ انھوں نے ایک ایسے تجربے کے لیے ضد کی جس کی وہ تاب نہیں لاسکتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس کی زد میں آگئے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

سلطان مبین سے مراد

‘‘سلطان مبین سے مراد وہ حجت قاطع ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزات کی شکل میں عطا فرمائی۔ یہ معجزات ایسے مسکت اور قاہر تھے کہ ان کے بعد کسی انصاف پسند کے لیے کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

رفعِ طور اور میثاق

‘‘ورفعنا فوقہم الطور بمیثاقہم، میں ‘ب’میرے نزدیک تلبّس کے مفہوم میں ہے۔ بقرہ آیت ۶۳ کے تحت ہم نے رفع طور کی حقیقت بھی واضح کی ہے اور اس کا مقصد بیان کیا ہے کہ اس قدرتِ قاہرہ کے اظہار سے مقصود بنی اسرائیل پر یہ واضح کرنا تھا کہ جس خدا سے یہ معاہدہ کر رہے ہو اس کے ہاتھ میں یہ پہاڑ کو ہلا دینے والی طاقت بھی ہے۔ اگر معاہدہ کرچکنے کے بعد اس کو توڑا تو یاد رکھو کہ اس عہدشکنی کی سزا سے تمھیں کوئی نہ بچا سکے گا۔ یہاں اسی حقیقت کو اس طرح مصور کیا ہے کہ خدا نے ان کے اُوپر طور کو بھی اُٹھایا اور اس کے ساتھ معاہدہ کو بھی کہ یہ معاہدہ ہے اور یہ پہاڑ، اگر اس معاہدے کی بے حُرمتی ہوئی تو اسی پتھر سے تمہارا سر کچل دیا جائے گا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

جملہ معترضہ

‘‘بل طبع اللّٰہ علیہا،جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے قول قلوبنا غلفٌ کا مفہوم اور اس جملہ معترضہ کی بلاغت اور اس کی حقیقت سورۂ بقرہ میں بیان ہوچکی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

بلاغت کا ایک اسلوب

‘‘اس پورے رکوع میں بلاغت کا یہ اسلوب قابلِ توجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی ایک طویل فہرست تو سنا دی گئی ہے لیکن الفاظ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ اس فہرست کے سنانے سے مدعا کیا ہے۔ جرائم کی فہرست کے بیچ میں ایک جملہ معترضہ آگیا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی پھر ان کے جرائم کے بیان کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس کے بعد اقتضائے کلام سے ایک اور طویل جملہ معترضہ آگیا ہے اور اس کے بند ہوتے ہی پھر فہرستِ جرائم شروع ہوگئی۔ یہ اسلوبِ بیان، جیساکہ ہم نے تمہید میں اشارہ کیا، متکلم کے زورِ بیان اور جوش، سامع کی ذہانت اور ہوش، دعوت کی قوت اور وضاحت اور فیصلہ کے مستغنی عن البیان ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ خطبائے عرب کے خطبات میں اس کی نہایت عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ قرآن میں بھی آگے اس کی نہایت بلیغ مثالیں آئیں گی۔ اس طرح کے پُرزور کلام کو ایک صاحب ِ ذوق سامع سمجھ تو سکتا ہے لیکن اس کے زور اور اس کی بلاغت کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

لا تعدوا فی السبت

‘‘یہ اصلاً جمعہ کا دن تھا جسے بنی اسرائیل نے اُس کے اگلے دن سے بدل ڈالا۔ اُن کے ہاں یہ دن پشت در پشت تک دائمی عہد کے نشان کے طور پر خدا کی عبادت کے لیے خاص تھا اور اِس میں اُن کے لیے کام کاج، سیروشکار، حتیٰ کہ گھروں میں آگ جلانا اور لونڈی غلاموں سے کوئی خدمت لینا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اُن کی ایک بستی کے لوگوں نے اِس دن کی پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے جو شرعی حیلے ایجاد کیے اور اِس طرح اللہ کی شریعت کا مذاق اڑایا، یہ اُسی کا ذکر ہے۔’’ (البیان ، از غامدی)

کلام کا مدّعا اپنے الفاظ میں

‘‘مطلب یہ ہے کہ یہود تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ قرآن اور تمہاری رسالت پر اس وقت ایمان لائیں گے جب تم ان کے اُوپر آسمان سے اس طرح ایک کتاب اُتارو کہ وہ اس کو اُترتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ تم ان کے اس مطالبے پر تعجب نہ کرو۔ یہ جن اسلاف کے خلف ہیں وہ اپنے پیغمبر سے اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر مطالبہ کر چکے ہیں۔ یہ تو صرف کتاب ہی اُترتے دیکھنا چاہتے ہیں، انھوں نے تو یہ مطالبہ کیا تھا کہ تم ہمیں خدا کو کھلم کھلا دکھاؤ، جب تک تم خدا کو نہ دکھاؤ گے ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور تم اس کے فرستادہ ہو۔ چنانچہ اس طرح انھوں نے خود اپنی شامت بلائی اور ان کو ایک کڑک نے آدبوچا۔ پھر اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ انھوں نے نہایت واضح معجزات دیکھنے کے بعد بھی ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ لیکن ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو نہایت واضح حجت عطا کی تاکہ ان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ ہم نے ان سے میثاق لینے کے موقع پر ان کے سروں پر طور کو لٹکا دیا، ان کو خیمۂ عبادت میں فروتنی کے ساتھ داخل ہونے کی ہدایت کی، ان کو حکم دیا کہ سبت کی بے حُرمتی نہ کرنا اور ان سب باتوں کے لیے ان سے نہایت مضبوط میثاق کیا لیکن انھوں نے کسی عہد کی بھی پروا نہ کی بلکہ ہر عہد کو توڑا، اللہ کی آیات کا انکار کیا، انبیا کو بے گناہ قتل کیا، اور کہا کہ ہمارے دلوں کے دروازے تو تمہاری باتوں کے لیے بند ہیں۔ یہ بند نہیں ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر مہر کر دی ہے تو یہ شاذونادر ہی ایمان لائیں گے--- ان باتوں کے حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جن کی تاریخ یہ ہے، جن کا قومی مزاج یہ ہے، ان سے کس خیر کی اُمید کی جاسکتی ہے؟ ان کے ان مسلسل جرائم کے سبب سے، جن کا سلسلہ اسلاف سے لے کر اخلاف تک کہیں ٹوٹا نہیں ہے، خدا نے ان پر لعنت کر دی ہے، اب کوئی سا معجزہ بھی تم ان کو دکھا دو،ایمان کی سعادت ان کو ہرگز حاصل نہیں ہوگی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۱۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

وبکفرھم وقولھم………… عزیزاً حکیماً
وبکفرھم کا عطف

‘‘وبکفرہم کا عطف اُوپر کے سلسلۂ کلام پر ہے۔ بیچ میں جملہ معترضہ آگیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد پھر فہرست جرائم شروع ہوگئی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

حضرت مریمؑ پر بہتان کی نوعیت

‘‘وقولہم علٰی مریم میں جس بہتانِ عظیم کا ذکر ہے اس کے متعلق سورۂ آل عمران کی تفسیر میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ یہود نے یہ الزام سیدنا مسیحؑ کے دور میں لگانے کی جرأت نہیں کی۔ یہ تمام تر بعد کی ایجادات میں سے ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کا معاملہ یہُودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پُوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمُولی شخصیّت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جُرم کا۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہوُر و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گو دمیں بچہ لیے ہوئے آئی، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ و َجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔(سُورہ مریم رکوع )۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے سنِّ شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم ؑ پر زنا کا الزام لگایا، نہ حضرت عیسٰی کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا ۔ لیکن نب تیس برس عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوّت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، اُن کے عملاء و فقہا ء کو اُن کی ریاکاریوں پر ٹوکا، ان کے عوام اور خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مُبتلا ہو گئے تھے ، اور اس پر خطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اُتر آئے۔ اس وقت اِنہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابنِ مریم ولد الزّنا۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتا تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۴۱۷ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی )

‘‘انا قتلنا المسیح عیسَی ابن مریم رسول اللّٰہ میں رسول اللہ کا لفظ ہمارے نزدیک یہود کے قول کا جزو نہیں ہے بلکہ ان کے جرم کی سنگینی کو واضح تر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سیدنا مسیحؑ کے مرتبہ کو واضح فرما دیا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ان کا یہ دعویٰ کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح کو قتل کر دیا۔ مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ جب وہ آپ کو رسول مانتے تھے تو پھر قتل کیوں کیا؟ اس کے دو جواب دیئے گئے ہیں: (۱) اُنھوں نے یہ الفاظ بطور تمسخر بڑھائے تھے۔ وہ آپ کو رسول مانتے نہیں تھے یا یہ کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی ؑکی شان و توقیر بیان کرنے کے لیے بڑھائے ہیں۔ لیکن اگر یہود کی گذشتہ تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کچھ بعید بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو رسولؐ اللہ مانتے ہوئے اُنھوں نے آپ کو قتل کرنے کی ٹھانی ہو۔ حضرت زکریا اور یرمیاہ علیہما السلام کو نبی مانتے تھے لیکن جب ان بزرگواروں نے انھیں ان کی بداخلاقیوں پر ٹوکا تو انھیں اپنے ہاتھوں شہید کردیا۔ بہرحال اُن کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم نے مسیح کو قتل کردیا (اگرچہ اس کی تغلیط آگے آرہی ہے) اور پھر اس پر ان کا اِترانا اور فخر کرنا اس سے بڑھ کر ان کے کفر کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۴۱۵، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

واقعۂ قتلِ مسیح کی تردید کا مقصد

‘‘وما قتلوہُ سے عزیزاً حکیماً تک جملہ معترضہ ہے۔ اس میں یہود کے دعوائے قتل مسیح کی فوری تردید کردی گئی ہے۔ اس فوری تردید سے دو پہلو سامنے آتے ہیں: ایک تو یہ کہ اللہ کے رسول اس کی حفاظت میں ہوتے ہیں، ان کے خلاف اس کے دشمنوں کی چالیں خدا کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ اس وجہ سے یہود کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے ان کو قتل کیا، یا سولی دی بالکل بے بنیاد ہے۔ وہ اپنی اس شرارت میں بالکل ناکام رہے۔ البتہ ایک جھوٹے دعوے کا بار اپنے سر لے کر ہمیشہ کے لیے مبغوض و ملعون بن گئے۔ دوسرا یہ کہ نہ کہیں مسیحؑ کے قتل کے واقعہ پیش آیا نہ سولی کا لیکن پال (Paul) کے متبع نصاریٰ نے اس فرضی افسانے کو لے کر اس پر ایک پوری دیومالا (Mythology) تصنیف کرڈالی اور اس طرح پرائے شگون پر خود اپنی ناک کٹوا بیٹھے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ولکن شبہ لہم کا مفہوم

‘‘ولکن شبہ لہم، یعنی یہود جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ تو وہ کر نہ پائے البتہ صورت حالات ایسی بنا دی گئی کہ وہ یہی سمجھے کہ انھوں نے مسیح کو سولی دلوا دی ہے۔ یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ اس کی شکل کیا ہوئی۔ جس واقعہ کے بارے میں خود ان لوگوں کے درمیان جیساکہ انجیلوں سے ثابت ہے، شدید اختلاف ہو جو اس وقت موجود تھے اب دو ہزار سال کے بعد اس کی شکل متعین کرنے کی کوشش کرنا محض اٹکل کے تیر تُکے چلانا ہے۔ قطعی بات بس اتنی ہی ہے جو قرآن نے بتائی ہے کہ حضرت مسیحؑ کو یہود نہ تو قتل کرسکے نہ سولی دے سکے بلکہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کردیا گیا۔’’

واقعہ کی نوعیت انجیلوں کی روشنی میں

‘‘واقعے کی جو روداد انجیلوں میں موجود ہے اس سے چند باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں: ایک یہ کہ اس وقت ملک پر رومیوں کی حکومت تھی اور وہی تمام سیاسی و تعزیری اختیارات کے مالک تھے۔دوسری یہ کہ رومی حکام اور پولیس کو نہ صرف یہ کہ حضرت مسیحؑ کو سولی دینے سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ رومی حاکم پیلاطوس اور دوسرے حکام اس ظلم کی ذمہ داری کسی طرح بھی اپنے اُوپر لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔تیسری یہ کہ گرفتاری اور سزا کے وقت کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ ایسے ہنگامہ خیز ہیں کہ ایسے حالات کے اندر عوام کو ہر بات باور کرائی جاسکتی تھی اور وہ بڑی آسانی سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ مان سکتے تھے۔چوتھی یہ کہ سولی کے مزعومہ واقعے کے بعد بھی انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیحؑ کے شاگردوں نے ان کو دیکھا۔پانچویں یہ کہ سیدنا مسیحؑ کے وعظوں، ان کے معجزوں اور ان کے کارناموں کی تو بڑی دھوم تھی لیکن اس وقت تک صورۃً نہ وہ عوام ہی میں اچھی طرح متعارف تھے اور نہ رومی حکام اور ان کی پولیس کے آدمی ہی ان کو پہچانتے تھے۔چھٹی یہ کہ خود نصاریٰ میں بھی ایک جماعت شروع سے اس بات کی قائل رہی ہے کہ سولی حضرت مسیحؑ کو نہیں دی گئی بلکہ ایک اور ہی شخص کو دی گئی لیکن مشہور یہ کر دیا گیا کہ انھی کو سولی دی گئی۔ان تمام باتوں کے دلائل خود انجیلوں میں موجود ہیں اور نہایت آسانی سے ہم ان کو جمع کرسکتے ہیں لیکن اس سے بس اتنی ہی بات ثابت ہوگی جو قرآن نے بتا دی ہے کہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کر دیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ اس گھپلے کی شکل کیا ہوئی تو اس باب میں جو کچھ بھی کہا جائے گا اس کی حیثیت ظن و گمان سے کچھ زیادہ نہیں ہے اور ہم گمان کے پیچھے پڑنا پسند نہیں کرتے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یعنی صورت حال ایسی بنا دی گئی کہ یہود یہی سمجھے کہ اُنھوں نے مسیح علیہ السلام کو سولی دلوا دی ہے۔ اِس کی صورت کیا ہوئی؟ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قرین قیاس بیان انجیل برنباس کا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب یہوداہ اسکریوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آں جناب کو اٹھا کر لے گئے اور یہوداہ اسکر یوتی کی صورت اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو سیدنا مسیح کی تھی۔ سولی اُسے ہی دی گئی۔ مسیح علیہ السلام کو ہاتھ لگانا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ قرآن نے غالباً اِسی کو یہاں ‘معاملہ اُن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا’سے تعبیر کیا ہے۔’’ (البیان ، از غامدی)

‘‘تفاسیر میں اگرچہ ایسی روایات کثرت سے مندرج ہیں جن میں حضرت مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرنے اور آپ کے بچ جانے اور کسی دوسرے انسان کو سُولی چڑھائے جانے کی تفصیلات موجود ہیں لیکن محقق علمائے تفسیر نے صراحت کر دی ہے کہ کوئی روایت بھی یقینی نہیں۔ اور حضور کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی حدیث حدیث مروی نہیں۔ واختلاف الرواۃ فی کیفیۃ القتل والصلب ولم یثبت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ذٰلک شئی (بحرالمحیط)بہرحال اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے رومی گورنر پیلاطس کی عدالت میں آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور آپ پر یہ الزام لگایا کہ آپ دین مُوسوی میں تحریف کرتے دیکھا تو اس کو فتنہ و بغاوت کی دھمکی دی۔ انجیل کی یہ عبارت ملاحظہ فرمایئے۔ جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ نہیں بن پڑتا بلکہ اُلٹا بلوہ ہوا جاتا ہے تو پانی لے لے کر لوگوں کے رُوبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں راست باز کے خون سے بری ہوں تم جانو! سب لوگوں نے کہا: اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر’’۔ انجیل متی، تو جب پیلاطس نے ان کے دباؤ کے زیراثر آپ کو بے گناہ اور معصوم یقینکرتے ہوئے سُولی دینے کا حکم دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ غالبہ اور حکمتِ کاملہ سے عیسیٰ علیہ السلام کو تو بچا لیا ار ایک منافق کی شکل کو آپ کے مشابہ کر دیا اور یہودی اسی کو مسیح سمجھ کر پکڑ لے گئے اور اُسے پھانسی دے دیا۔ اغلباً وہ منافق یہودہ تھا جو آپ کا حواری تھا اور جب یہودیوں نے اسے تیس روپیہ کا لالچ دیا تو اس نے اپنے پیغمبر کی مخبری کی اور آپ کو گرفتار کرانے کی کوشش میں یہود کا ساتھ دیا۔’’(ضیاء القرآن، ج۱ ،ص ۴۱۶، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘حکم جب سنایا گیا ہے ، جمعہ کا دن تھا اور دن آخر ہو رہا تھا، اور یہود کو جلدی تھی کہ ہرطرح فراغت پاکر شاموں شام گھر واپس آجائیں، جمعہ کی شام ہی سے ان کا یوم السبت شروع ہوجاتا تھا، اور یوم السبت کے حدود کے اندر مجرم کی سزا دہی وغیرہ بھی ممنوع تھی، اور پھر یہود کا اہم تہوار یعنی عید فسخ (PASSOVER) بھی شروع ہو رہی تھی، غرض یہود کو اس کی بہت ہی عجلت تھی کہ کسی طرح ان کا یہ مجرم جلد سے جلد سولی پاکر شام سے قبل ہی دفن ہوجائے۔(۲) لاغر و ناتواں مجرم (یعنی خود حضرت مسیحؑ) کے لیے ممکن نہ تھا کہ اتنی وزنی لکڑی لاد کر اتنا فاصلہ یہود کی خاطر خواہ تیزی سے طے کرسکیں، خصوصاً جب کہ یہودی بچے اور شریر قسم کے یہود خود ہی قدم قدم پر انھیں چھیڑتے جاتے اور اُن کا راستہ کھوٹا کرتے جاتے۔اب اس ساری صورت حال کو اس تفصیل کے ساتھ پیش نظر رکھ کر فرمایئے کہ رومی سپاہی، جو مجرم بلکہ مجرموں کو (آپ کے ساتھ سولی کے لیے دو مجرم اور بھی تھے) حراست میں لیے ہوئے تھے، اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ رعایا میں سے نہیں، بلکہ حاکم قوم کے افراد تھے، ایسے موقع پر کیا کرتے۔ خود تو اپنے اُوپر وہ سولی والی لکڑی کا بوجھ لادنے سے ہے، انھوں نے وہی کیا جو اُن کی جگہ پر کوئی بھی اُن کا سا حکمران قوم کا فرد کرتا، انھون نے مجمع ہی میں سے کسی بدتمیز یہودی کو پکڑ لیا اور صلیب کی لکڑی امس پر لاد دی! انگریز گارڈ ایسے موقع پر، یعنی کسی ہندوستانی مجرم کو حراست میں لیے جاتا ہوتا تو کیا کرتا؟ خصوصاً جب کہ ہندوستانی تماشائیوں کی طرف سے چھیڑ چھاڑ بھی اس مجرم کے ساتھ جاری تھی، یہی کرتا کہ پھیڑ میں کسی ہندوستانی ہی کو پکڑ لیتا اور چوب صلیب اس پر لاد دیتا، یہ محض قیاس و قرینہ نہیں، انجیلوں میں اتنے جزو کی تصریح موجود ہے۔‘‘انھیں شمعون نامے ایک کُرینی آدمی ملا، اُسے بیگار پکڑا کہ اُس کی صلیب اُٹھائے’’ (متی ۲۷:۲۲) ‘‘اور شمعون نامے ایک کُرینی آدمی اسکندر اور وقس کا باپ دِہات سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا، انھوں نے اُسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اُٹھائے’’ (مرقس ۱۵:۲۱) ‘‘اور جب اس کو لیے جاتے تھے، تو انھون نے شمعون نام ایک کُرینی کو جو دہات سے آتا تھا، پکڑ کے صلیب اُسی پر رکھ دی کہ یسوع کے پیچھے پیچھے چلے’’۔ (لوقا ۲۳:۲۶)جب یہ مجمع (جو یقینا کوئی باقاعدہ و منظم مجمع نہیں، بلکہ عوام کی ایک بھیڑ تھا) اس افراتفری کے ساتھ ایک دوسرے کو ریلتا پیلتا، مجرم سے چھیڑ چھاڑ کرتا، اس سے تمسخر کرتا ہوا، سولی گھر کے پھاٹک پر پہنچا تو رومی پولیس گارڈ جو ساتھ تھا، اس کی ڈیوٹی ختم ہوگئی، اب یہاں سے جیل کے سنتریوں کا عمل دخل شروع ہوتا ہے، وہ کیا جانیں کہ یسوع ناصری کس شخصیت کا نام ہے، وہ اپنے حسب دستور مجرم اُسی کو سمجھے جس کے اُوپر صلیب لدی ہوئی تھی--- ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو مستحضر کرلیجیے کہ جیل کے رومی سپاہیوں کی نظر میں سب یہودی اجنبی ہی تھے، اور اس لیے باہمدگرہم شکل اور یکساں، انھیں ایک اسرائیلی (یسوع ناصری) اور دوسرے اسرائیلی (شمعون کُرینی) کے درمیان اشتباہ نہایت آسان تھا، انھیں دونوں کے درمیان کوئی نمایاں فرق ہی نہیں نظر آسکتا تھا، شمعون نے یقینا واویلا مچایا ہوگا، لیکن ادھر مجمع کا شور و ہنگامہ اُدھر جیل کے سپاہیوں کی اسرائیلیوں کی زبان سے ناواقفیت اور پھر سُولی پر لٹکا دینے کی جلدی، اسی افراتفری کے عالم میں اُسی شمعون کو پکڑ کر سُولی پر چڑھا دیا گیا، اور وہ چیختا چلّاتا رہا، حضرت مسیحؑ قدرتاً اس ہڑبونگ میں دشمنوں کے ہاتھ سے رہا ہوگئے اور دشمن دھوکے میں پڑے ہوئے ٹامک ٹویئے مارتے رہے!ہمارے اکابر نے اس شخص کا نام جس کو حضرت عیسٰی ؑ کے دھوکے میں سولی پر چڑھا دیا گیا، حضرت ابن عباسؓ کے حوالہ سے یودس (GUDOS) لکھا ہے، اور یہی عقیدہ بعض مسیحیوں کی جانب بھی منسوب کیا ہے ۔’’(تفسیر ماجدی ،ج۱ ، ص۸۲۶،مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

‘‘ولکن شبہ لھم، یہ عقیدہ نو ایجاد نہیں، خود مسیحیوں ہی کا ایک قدیم ترین فرقہ باسلیدیہ (BASILIDES) کے نام سے گزرا ہے (بانی فرقہ کا سال وفات ۱۴۰ء)۔ وہ اسی عقیدہ کا قائل تھا اور کھلم کھلا کہتا کہ مصلوب حضرت مسیح نہیں ہوئے، بلکہ شمعون کُرینی ہوا ہے، قرآنِ مجید نے اسی عقیدہ کی تصویب کی طرف اشارہ کر دیا ہے، لیکن پولوس (متوفی ۶۵ء) کے اثر سے جو مسیحیت چلی اور پھیلی، اُس کی تو بنیاد ہی عقیدۂ کفارہ پر ہے، یعنی اس عقیدہ پر کہ ابن اللہ نے یا خود خدا نے مجسم ہوکر اور صلیب پر جانکنی کی تکلیف اُٹھا کر اور اپنی جان دے کر سب کی طرف سے مخلوق کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا، اس لیے یہ رواجی مسیحیت تو بغیر مصلوبیت مسیحؑ کو مانے اور فرض کیے ہوئے ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی، اس لیے لامحالہ اسی پولوسی اور کلیسائی مسیحیت نے کل قدیم صحیح العقیدہ مسیحی فرقوں کو ‘‘بدعتی’’ اور ‘‘متبدع’’ قرار دے کر کلیسا سے خارج کر دیا، اور خود وہی کہنے لگے جو دشمنانِ عیسٰی ؑ یعنی یہود پہلے ہی سے کہہ رہے تھے، یعنی یہی کہ عیسٰی ؑصلیب پر وفات پا گئے! ’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ، ص۸۲۷، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو ، جن کی تعداد ۱۲ یا ۱۷ تھی ، جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لیے تیار ہے ؟ تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میرے جیسی بنا دی جائے ۔ ایک نوجوان اس کے لیے تیار ہو گیا ۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نو جوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ کو سلی دی ہے دراں حالیکہ حضرت عیسیٰ اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے ، وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے ۔ (ابن کثیر و فتح القدیر)(احسن البیان،ص۱۳۲، دارالسلام لاہور)

مسیحی پرائے شگون پر اپنی ناک کٹوا بیٹھے

‘‘وان الذین اختلفوا فیہ سے مراد نصاریٰ ہیں۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ نصاریٰ میں نفس واقعے سے متعلق بھی، جیساکہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا، بڑا اختلاف ہے اور اس پر جو دیومالا (Mythology) انھوں نے تصنیف کی ہے اس میں بھی بڑے اختلافات ہیں اور یہ اختلاف قدرتی نتیجہ ہے اس بات کا کہ انھوں نے اپنے سارے علمِ کلام کی بنیاد حقیقت کے بجائے محض ظن پر رکھی اور اس طرح جس سولی سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیحؑ کو محفوظ رکھا، نصاریٰ نے اس پر خود چڑھ کر خودکشی کرلی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

رفع سے مجرد ترقی ٔ درجات لینا عربیت کے خلاف ہے

‘‘ رفعہ اللہ الیہ کے ٹکڑے پر ہم سورۂ آل عمران کی تفسیر میں بحث کرچکے ہیں۔ وہاں ہم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سے مجرد ترقی درجات و مراتب لینا عربیت کے خلاف ہے۔ عزیز و حکیم کی صفات کے حوالے سے مقصود یہاں یہ ہے کہ خدا جب کسی کام کو کرنا چاہے تو وہ اپنے ارادے پر غالب ہے۔ اس کے لیے کوئی راہ بھی بند نہیں ہے، وہ جہاں سے چاہے اپنی تدبیر و حکمت سے راہ کھول لیتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اصل الفاظ ہیں: ‘بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ’۔ اِس رفع کی وضاحت قرآن نے سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۵۵ میں اِس طرح فرمائی ہے کہ وفات کے بعد اللہ تعالیٰ اُنھیں اپنی طرف اٹھا لیں گے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ روح قبض کر کے اُن کا جسم بھی اٹھا لیا جائے گا تاکہ اُن کے دشمن اُس کی توہین نہ کر سکیں۔ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک اُن کا مشن پورا نہ ہو جائے، اُن کے دشمن ہرگز اُن کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اِسی طرح اُن کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتا اور جو لوگ اِس کے درپے ہوں، اُنھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً اُن کی دست درازی سے محفوظ کر دیتا ہے۔’’ (البیان ، از غامدی)

اصل سلسلۂ کلام

‘‘یہ امرملحوظ رہے کہ اصل مسئلہ زیربحث ان آیات میں حضرت مسیحؑ کے قتل یا سولی کی تردید یا ان کے ردّ و قبول کا نہیں ہے۔ یہ بات، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، محض ایک ضمنی بات کے طور پر، سلسلۂ کلام کے بیچ میں آگئی ہے۔ اصل سلسلۂ کلام جو یسئلک اہل الکتب سے چل رہا ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ کتاب قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہ لانے کے لیے جو بہانے بنا رہے ہیں۔ وہ سب بہانے ان کی اس خُوئے بد کے کرشمے ہیں جو ابتدا ہی سے ان کی سرشت میں داخل ہے۔ انھوں نے ایک سے ایک بڑھ کر معجزے دیکھے لیکن کوئی معجزہ ان کو مطمئن نہ کرسکا۔ انھوں نے ہمیشہ عہدشکنی کی، ہمیشہ تکذیب کی اور ہرحق کا مقابلہ ضد اور مکابرت، تکبر اور سرکشی سے کیا، یہاں تک کہ مریم پر بہتان لگایا اور خدا کے رسول مسیحؑ ابن مریم کے قتل کرنے کے خود مدعی ہیں--- جب بات یہاں تک پہنچی تو ضمنی طور پر قتل اور سولی کے واقعہ کی تردید فرما دی اور ساتھ ہی نصاریٰ کو بھی تنبیہ فرما دی کہ انھوں نے بھی بے سمجھے بوجھے اسی جھوٹ کو سچ مان کر اس پر پورے علمِ کلام کا محل تعمیر کر دیا۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں۔ اُن میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پرکوئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں جن کی کثرت خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لیے بھی مشتبہ ہی رہی۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذِلّت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کسی جگہ کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہا تھا ۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر اُن کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ اُتارے جانے کے بعد ان میں جان تھی ۔ کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی اور پھر وہ جی اُٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب کی موت مسیح کے جسمِ انسانی پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر اُلُوہیّت کی رُوح جو اس میں تھی وہ اُٹھالی گئی۔ اور کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السّلام جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اُٹھائے گئے۔ ظاہر ہے کہاکہ اگر ان لوگوں کے پاس حقیقت کا عِلم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں۔یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور کہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اُٹھالیا۔ اب رہا یہ سوال کہ اُٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی ، تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔ قرآن نہ اِس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ اُن کو جسم و رُوح کے ساتھ کرہ زمین سے اُٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا ، اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی رُوح اُٹھائی گئی۔ اس لیے قرآن کی بُنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ اثبات ۔ لیکن قرآن کے اندازِ بیان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل نمایاں طور پر محسُوس ہوتی ہے کہ اُٹھا ئے جانے کی نوعیت و کیفیت خواہ کچھ بھی ہو، بہر حال مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمُولی نوعیّت کا ہے۔ اس غیر معمُولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے:ایک یہ کہ عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کے جسم و رُوح سمیت اُٹھائے جانے کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور اُن اسباب میں سے تھا جن کی بنا پر ایک بہت بڑا گروہ اُلوہیّتِ مسیح کا قائل ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن نے نہ صرف یہ کہ اس کی صاف صاف تردید نہیں کی بلکہ بعینہٖ وہیرفع(Ascension) کا لفظ استعمال کیا جو عیسائی اِس واقعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتابِ مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کسی خیال کی تردید کرنا چاہتی ہو اور پھر ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کو مزید تقویت پہنچانے والی ہو۔دوسرے یہ کہ اگر مسیح علیہ السّلام کا اُٹھایا جانا ویسا ہی اُٹھایا جانا ہوتا جیسا کہ ہر مرنے والا دنیا سے اُٹھا یا جاتا ہے ، یا اگر اس رفع سے مراد محض درجات و مراتب کی بلندی ہوتی جیسے حضرت ادریس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رَفَعْنَا ہُ مَکَاناً عَلِیًّا ، تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کے لیے زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ یقیناً انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو زندہ بچا لیا اور پھر طبعی موت دی۔ یہودیوں نے اس کو ذلیل کر نا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کو بلند درجہ عطا کیا۔تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع ویسا ہی معمُولی قسم کا رفع ہوتا جیسے ہم محاورہ میں کسی مرنے والے کو کہتے ہیں کہ اسے اللہ نے اُٹھا لیا تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیر موزوں تھا کہ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔ یہ تو صر ف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزون و مناسب ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوت ِ قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمُولی ظہُور ہوا ہو۔اس کے جواب میں قرآن سے اگر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ سُورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔(آیت )۔ لیکن جیسا کہ وہاں ہم حاشیہ نمبر میں واضح کر چکے ہیں ، یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ قبضِ رُوح ، اور قبضِ رُوح و جسم ، دونوں پر دلالت کر سکتا ہے۔ لہٰذا یہ اُن قرائن کو ساقط کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے جو ہم نے اُوپر بیان کیے ہیں۔ بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے ، سوال کرتے ہیں کہ تَوَفی کا لفظ قبضِ رُوح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جب کہ قبضِ رُوح و جسم کا واقعہ تمام نوعِ انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پُوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے۔ دیکھنا یہی چاہیے کہ آیا اصل لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو ماننا پڑے گا کہ قرآن نے رفع جسمانی کے عقیدہ کی صاف تردید کرنے کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے اُن قرائن میں ایک اَور قرینہ کا اضافہ کر دیا ہے جن سے اس عقیدہ کو اُلٹی مدد ملتی ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ موت کے صریح لفظ کو چھوڑ کر وفات کے محتمل المعنیین لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرتا جہاں رفع جسمانی کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ایک فاس اعتقاد ، یعنی اُلوہیّت ِ مسیح کے اعتقاد کا موجب بن رہا تھا۔ پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت اُن کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السّلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجّال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں( تفسیر سُورہ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے)۔ اُن سے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے۔ اب یہ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کا مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا زیادہ قرینِ قیاس ہے ، یا زندہ کہیں خدا کی کائنات میں موجود ہونا اور پھر واپس آنا۔اِس فقرے کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ میں دونوں کا یکساں احتمال ہے۔ ایک معنی وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ دُوسرے یہ کہاہلِ کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہ لے آئے۔ اہلِ کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عیسائی بھی ہوں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مسیح کی طبعی موت جب واقع ہوگی اس وقت جتنے اہلِ کتاب موجود ہوں گے وہ سب ان پر(یعنی ان کی رسالت پر ) ایمان لاچکے ہوں گے۔ دُوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ تمام اہلِ کتاب پر مرنے سے عین قبل رسالتِ مسیح کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں، مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ ایمان لانا مفید نہیں ہو سکتا۔ دونوں معنی متعدّد صحابہ ، تابعین اور اکابر مفسّرین سے منقول ہیں اور صحیح مراد صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔’’ (تفہیم القرآ ن ،ج۱ ، ص ۴۱۹ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

وان من اھل الکتب…… علیھم شہیدا
وان من اھل الکتب‘ سے مراد یہود اور نصاری‘ دونوں ہیں

‘‘وان من اھل الکتب کا اسلوبِ بیان تعمیم کو ظاہر کر رہا ہے، یعنی یہ یہود و نصاریٰ دونوں گروہوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اُوپر سے ذکر یہود ہی کا چلا آرہا تھا لیکن چونکہ جملہ معترضہ میں، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، نصاریٰ کی حماقت کا بھی ذکر آگیا تھا اس وجہ سے ان کے حوالے کے لیے بھی تقریب پیدا ہوگئی اور یہاں جو بات بیان ہوئی ہے وہ دونوں گروہوں سے بحیثیت گروہ کے متعلق ہے، بحیثیت افراد کے نہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘ایمان’ کا لفظ یقین کرنے کے معنی میں

‘‘لیومنن میں لام، تاکید اور قَسم کا ہے اور ایمان کا لفظ یہاں یقین کرنے کے معنی میں ہے۔ دین میں معتبر ایمان صرف وہ ہے جو یقین، تصدیق اور اقرار تینوں اجزا پر مشتمل ہو۔ اس کے علاوہ ایک وہ ایمان ہے جس کے اندر یقین اور تصدیق کے اجزا تو نہیں پائے جاتے لیکن اظہار و اقرار کا جزو پایا جاتا ہے۔ یہ منافقین کا ایمان ہے۔ اسی طرح ایک وہ ایمان بھی ہے جس کے اندر یقین تو پایا جاتا ہے لیکن اس کے اندر تصدیق اور اقرار کے اجزا مفقود ہوتے ہیں، یہ متکبرین اور متمردین کا ایمان ہے۔ ان پر حق کا حق ہونا تو بالکل واضح ہوجاتا ہے لیکن وہ اپنی رعونت اور شرارت کی وجہ سے اس کی تصدیق و اقرار سے گریز کرتے ہیں اور اپنی اس شرارت کو مختلف بہانوں کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی کے تحت وہ ایمان بھی ہے جو غرق ہوتے وقت فرعون لایا تھا۔ہرچند اس کے ایمان میں ایمان کے تمام اجزاء موجود تھے لیکن جو ایمان پانی سر سے گزر چکنے کے بعد لایا جائے اس ایمان کا دین میں کوئی درجہ نہیں ہے۔ آیت زیربحث میں ہمارے نزدیک جیساکہ ہم نے عرض کیا، ایمان سے مراد یقین ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲، ص ۴۲۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

لیومنن بہ میں ضمیر کا مرجع

‘‘لیومنن بہ اور قبل موتہٖ میں پہلی ضمیر کا مرجع ہمارے نزدیک قرآنِ مجید ہے اور دوسری کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آج یہ اہلِ کتاب قرآن اور نبیؐ کی صداقت تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ وہ آسمان سے کتاب اُترتی ہوئی دکھائیں تب وہ یقین کریں گے کہ قرآن فی الواقع اللہ کی کتاب ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) واقعی اللہ کے رسولؐ ہیں اور اس حیلے سے وہ ان تمام عقلی، نقلی، فطری اور تاریخی دلائل کو نظرانداز کر رہے ہیں جو قرآن اور پیغمبرؐ کی صداقت کے ثبوت میں موجود ہیں لیکن وہ وقت بھی دُور نہیں ہے جب یہ یہود اور نصاریٰ قرآن اور پیغمبر کی کہی ہوئی ایک ایک بات کو واقعات کی شکل میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور قرآن ان کے لیے جس رسوائی و نامرادی اور جس ذلت و شکست کی خبر دے رہا ہے وہ پیغمبر کے دنیا سے اُٹھنے سے پہلے پہلے اس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی کہ اس کو جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا، اگرچہ ایمان کی سعادت ان کو یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوگی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یہ مجرد خبر نہیں بلکہ تہدید ہے

‘‘یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ جملہ قسمیہ ہے اس وجہ سے اس کو مجرد خبریہ جملہ کے مفہوم میں لینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا صرف یہ مفہوم نہیں ہے کہ پیغمبرؐ کے دنیا سے اُٹھنے سے پہلے پہلے یہ لوگ قرآن کا یقین کرلیں گے بلکہ اس کے اندر تہدید اور وعید بھی ہے، یعنی آج جو باتیں دلیل سے انھیں سمجھائی جارہی ہیں لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔ کل واقعات کی شکل میں جب ان کے سامنے آجائیں گی تب یہ کیا کریں گے، اس وقت تو انھیں ماننی ہی پڑیں گی اگرچہ وہ زبانوں سے لاکھ انکار کرتے رہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

عکرمہ کی رائے

‘‘یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سلف میں سے عکرمہ پہلی ضمیر کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں لیکن عام طور پر لوگوں نے اس بُعد کے سبب سے جو ایک طویل جملہ معترضہ نے پیدا کر دیا ہے، اس قول کو اہمیت نہیں دی، حالانکہ جملہ معترضہ سے جو بُعد پیدا ہوتا ہے وہ قابلِ لحاظ نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اس سے صرفِ نظر کرکے سلسلۂ کلام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

موتہ کی ضمیرکامرجع

‘‘ایک رائے یہ ہے کہ موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف راجع کی جائے ، اور آیت کا مطلب اس صورت میں یہ ہے کہ یہ یہود اپنی موت سے چند لمحے پیشتر جب عالم برزخ کو دیکھیں گے تو عیسیٰ ؑ علیہ السلام کی نبوت پرایمان لے آئیں گے اگرچہ اس وقت کا ایمان ان کے حق میں نافع نہیں ہو گا ، جس طرح کہ فرعون کو اس کے اس ایمان نے فائدہ نہیں دیا تھا جو وہ غرق ہونے کے وقت لایا تھا۔ دوسری تفسیر جس کو صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت نے اختیار کیا ہے ، اور حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، یہ ہے کہ مو تہ کی ضمیر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف راجع ہے ، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اہل کتاب اگرچہ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے ، یہود تو انہیں نبی ہی تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ انہیں العیاذ باللہ مفتری اور کاذب قرار دیتے ہیں، اور نصاریٰ اگرچہ ان پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر بعض تو ان میں اپنی جہالت میں یہاں تک پہنچ گئے کہ یہود ہی کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقتول اور مصلوب ہونے کے قائل ہو گئے ، اور بعض اعتقاد کے غلو میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ انہیں خدا اور خدا کا بیٹا سمجھ لیا۔ قرآن کریم کی اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ یہ لوگ اگرچہ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر صحیح ایمان نہیں رکھتے ، لیکن جب وہ قیامت کے قریب اس زمین پر پھر نازل ہوں گے تو یہ سب اہل کتاب ان پر صحیح ایمان لے آئیں گے ، نصاریٰ توسب کے سب صحیح اعتقاد کے ساتھ مسلمان ہو جائیں گے ، یہود میں جو مخالفت کریں گے قتل کر دیئے جائیں گے ، باقی مسلمان ہو جائیں گے ، اس وقت کفر اپنی تمام قسموں کے ساتھ دنیا سے فنا کر دیا جائے گا، اور اس زمین پر صرف اسلام ہی کی حکمرانی ہو گی ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۶۰۳ ، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘ قبل موتہ کی ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بعض نے کہا اس کا مرجع کتابی ہے، یعنی ہر اہلِ کتاب پر مرنے سے پہلے حضرت عیسٰی ؑکا مقامِ نبوت و عبدیت منکشف ہوجاتا ہے اور وہ اس پر ایمان لے آتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ لیکن امام المفسرین ابن جرری، امام ابن حیان الاندلسی اور علامہ ابنی عبداللہ القرطبی اپنی تفاسیر میں اس قول کو ترجیح دیتے ہیں کہ مرجع حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات ہے، یعنی آپ وفات سے پہلے زمین پر نزول فرمائیں گے اور اس زمانہ میں جتنے اہلِ کتاب ہوں گے آپ پر ایمان لا کر دین اسلام میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ابن حیان کی عبارت ہے: والظاھر ان الضمیرین فی بہ وموتہ عائد ان علی عیسٰی وھو سیاق الکلام (بحرِمحیط) اور امام ابن جریر فرماتے ہیں: واولی الاقوال بالصحۃ والصواب قول من قال تاویل ذٰلک ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بعیسٰی قبل موت عیسٰی ترجمہ۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور درست قول یہ ہے کہ بہ اور موتہ کی ضمیروں کا مرجع عیسٰی ؑہے یعنی تمام کتابی عیسٰی ؑکے مرنے سے پہلے عیسٰی ؑ پر ایمان لے آئیں گے۔اور علامہ قرطبی یہ قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وقالہ قتادہ وابن زید وغیرھما واختارہ الطبری ونحوہ عن الضحاک وعن سعید بن جبیر۔ترجمہ کہ حضرات قتادہ، ابن زید وغیرہما کا یہی قول ہے: ضحاک، سعید بن جبیر اور امام طبری نے اِسی کو ترجیح دی ہے۔اور اس قول کی وجہِ ترجیح یہ حدیث بیان کرتے ہیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال لینزلن ابن امریم حکما عدلا فلیقتلن الدجال ولیقتلن الخنزیر ولیکسرن الصلیب وتکون السجدۃ واحدۃ للّٰہ رب العٰلمین ثم قال ابوھریرۃ اقرؤوا ان شئتم وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال ابوہریرہ قبل موت عیسٰی علیہ السلام یعیدھا ثلاث مرات۔(ضیاء القرآن، جلد اوّل، ص ۴۱۸)ترجمہ: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابن مریم ایک عادل حاکم کی حیثیت سے تم میں ضرور اُتریں گے وہ دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑیں گے اور سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو کیا جائے گا جو پروردگار عالم ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ اگر دلیل کی ضرورت ہو تویہ آیت پڑھو: وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ۔ ابوہریرہؓ نے فرمایا: موتہ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہے۔ آپ نے یہ بات تین بار کہی’’۔ یہ حدیث ان کثیر التعداد احادیث میں سے ایک ہے جن میں آنے والے مسیح کی ولدیت، ان کی صفات اور ان کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ ہے۔ ’’ (ضیاالقرآن ،ج۱ ، ص ۴۱۸، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

آنحضرتﷺ کی شہادت دنیا اور آخرت، دونوں میں

‘‘ویوم القیمۃ یکون علیھم شھیداً، یہ اس شہادت کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ان تمام لوگوں پر دیں گے جن پر آپ نے اس دنیا میں دین حق کی شہادت دی ہے۔ اس شہادت کا ذکر اسی سورہ کی آیت ۴۱ میں گزر چکا ہے۔ یہ شہادت اگرچہ تمام انبیا اپنی اپنی اُمتوں پر دیں گے، چنانچہ حضرت مسیحؑ جو شہادت دیں گے اس کاذکر بھی مائدہ کی آیات ۱۱۶-۱۱۷ میں ہوا ہے لیکن آنحضرتؐ چونکہ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ نے یہود، نصاریٰ اور اہلِ عرب سب پر یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ کا اصل دین کیا ہے اس وجہ سے آپ ہی کا یہ منصب ہے کہ آپ قیامت کے دن یہ بتائیں کہ آپ نے لوگوں کو اللہ کی طرف سے کیا بتایا اور آپ کی اسی شہادت سے لوگوں پر حجت قائم ہوگی۔یہ جملہ بھی ہمارے نزدیک اسی تہدید و وعید کا حامل ہے جس کا حامل پہلا جملہ ہے۔ یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت اس دنیا میں بھی ان اہلِ کتاب پر اس طرح واضح ہوجائے گی کہ ان کے لیے مجالِ انکار باقی نہ رہے گی اور آخرت میں بھی آپ شہادت دیں گے کہ یہود و نصاریٰ کی ایک ایک ضلالت پر آپ نے ان کو اچھی طرح متنبہ کر دیا تھا، ان تنبیہات کے بعد بھی اگر یہ اپنی انھی گمراہیوں میں پڑے رہے تو یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے، ان پر حجت تمام ہوچکی تھی۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص 32۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

فبظلم من الذین…… عذاباً علیماً
یہود پر جائز چیزوں کے حرام ہونے کی نوعیت

‘‘فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم، میں لفظ ‘ظلم’ کی تقدیم سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ یہود پر حلال چیزیں جو حرام ہوئیں تو یہ بھی خود انھی کے اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب سے حرام ہوئیں، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہ کیا۔ جائز چیزوں کے حرام کیے جانے کی ان کے ہاں جو صورتیں پیدا ہوئیں ان پر ہم بقرہ کی تفسیر میں بھی گفتگو کرچکے ہیں اور آل عمران کی آیت ۵۰ کے تحت بھی اس پر بحث ہوچکی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘شریعت محمدیہ ؐ میں بھی بعض چیزیں حرام ہیں، لیکن وہ کسی جسمانی یا روحانی ضرر کی وجہ سے حرام کر دی گئیں ، بخلاف یہود کے کہ ان پر جو طیبات حرام کر دی گئی تھیں ان میں کوئی جسمانی یا روحانی ضرر نہیں تھا ،۔ بلکہ ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر حرام کر دی گئی تھیں۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۶۰۷، ادارۃ المعارف کراچی)

سُود کی حرمت کا حکم احبار میں

‘‘واخذھم الربوا وقد نھوا عنہ، سود کی حرمت کا صریح حکم احبار، باب ۲۵، ۳۵، ۳۸ میں ملاحظہ ہو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یہود کے اصلی موانع ایمان

‘‘واکلھم اموال الناس بالباطل کے مفہوم پر اسی سورہ کی آیت ۲۹ کے تحت گفتگو ہوچکی ہے۔ان باتوں کا تعلق بھی یہود کی اسی فہرست جرائم سے ہے جو اُوپر گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن اور پیغمبر پر ایمان لانے میں ان کے لیے جو چیزیں مانع ہیں وہ دراصل ان کے یہ جرائم ہیں نہ یہ کہ تم ان کو آسمان سے کوئی صحیفہ اُترتا ہوا نہیں دکھا رہے ہو۔ یہ ہمیشہ سے گردن کش اور نافرمان ہیں۔ انھوں نے اپنی گردن کشی ہی سے اپنے اُوپر حلال چیزیں حرام کرائیں، اور اپنی گردن کشی ہی کے سبب سے ہمیشہ حق کی راہ میں روڑا بنے اور یہی چیز ہے جس نے ان کو آمادہ کیا کہ انھوں نے سود کو جائز کر لیا حالانکہ تورات میں ان کو صریح الفاظ میں اس کی ممانعت کی گئی تھی اور اسی کے سبب سے انھوں نے حرام خوری کے دوسرے تمام دروازے بھی کھول لیے حالانکہ یہ ان دروازوں کو بند کرنے پر مامور کیے گئے تھے جن کا کردار یہ ہو ان سے کس طرح توقع کرتے ہو کہ وہ کوئی بڑے سے بڑا معجزہ دیکھ کر بھی قرآن پر ایمان لائیں گے۔ فرمایا کہ ان میں سے جتنے بھی کفر پر جم گئے ہیں، ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اِس سے مراد وہ طریقے ہیں جو عدل و انصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہوں اور جن میں لین دین اور معاملت کی بنیاد فریقین کی حقیقی رضامندی پر نہ ہو، بلکہ ایک کا مفاد ہر حال میں محفوظ رہے اور دوسرے کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُسے ضرر یا غرر کا ہدف بنایا جائے۔’’ (البیان ، از غامدی)

وبصدہم عن سبیل اللہ۔۔۔

‘‘ دین سے روکنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان زبان اور قوت سے لوگوں کو سچا دین قبول کرنے سے روکے۔ اس کے علاوہ ایک دوسری صورت بھی ہے جو زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ انسان دین حق کو قبول تو کرلے لیکن اس کے احکام، اس کے ضابطۂ اخلاق اور اس کے قواعدِ معاشرت وغیرہ پر عمل کر کے اپنی حالت کو نہ سنوارے تو دوسری قومیں خود بخود اس دین سے متنفر ہوجائیں گی کہ جب اس کے قدیم ماننے والے کسی حیثیت سے بھی دوسری قوموں سے بلند اور بہتر نہیں تو پھر اس دین کو کیوں قبول کیا جائے۔ کیا ہم مسلمان کہلانے والے اپنی زشتئ اعمال سے دوسری قوموں کے لیے اسلام قبول کرنے میں حجاب اور رُکاوٹ تو نہیں؟ یہ غور طلب مسئلہ ہے۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۴۱۹، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

واعتدنا للکفرین منہم عذابا الیما

‘‘آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیوی سزائیں تو عمومی و اجتماعی رنگ میں ملتی ہیں، چنانچہ فلاں فلاں نعمتوں سے ساری قوم محروم کر دی گئی، لیکن آخرت میں سزائیں تمام تر انفرادی اور شخصی حیثیت سے ملتی ہیں، ہرہر فرد اپنے اپنے اعمال کو بھگتے گا، جہنم کا عذاب الیم صرف اُنھی افراد کو ہوگا جو کافر ہوں گے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۸۳۲، مجلس تحقیقات ونشریات ا سلام لکھنو)

راسخون فی العلم سے مراد اہلِ کتاب کے علمائے حقانی ہیں

‘‘راسخون فی العلم سے مراد وہ علما ہیں جن کے قدم علمِ شریعت میں خوب جمے ہوئے، جو عقیدہ اور عمل ہر چیز میں راسخ اور کردار و اخلاق ہر پہلو سے جادۂ مستقیم پر استوار تھے۔ یہود میں علما کم نہیں تھے، بے شمار تھے، لیکن شریعت ان کے لیے بس ایک نمائشی جامے کی حیثیت رکھتی تھی جس کو پہن کر وہ باہر بازاروں اور عوام میں نکلا کرتے۔ ان کے فکرونظر اور ان کے قلب و روح سے اس علم کو کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ علماء ان تمام جرائم میں، جو اُوپر مذکور ہوئے، اپنی قوم کے نہ صرف شریک تھے بلکہ وہی ان میں ان کے مرشد تھے اس وجہ سے ان سے تو اگر کسی چیز کی توقع کی جاسکتی تھی تو صرف اسی چیز کی کہ وہ قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اپنی قوم کی پیشوائی کریں۔ البتہ ان میں جو نفوس قدسیہ حکمت دین کی لذت سے آشنا تھے۔ ان کے قدم علمِ شریعت میں راسخ تھے۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم کی متفقہ مخالفت کے طوفان کے مقابلے کے لیے کھڑے ہونے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ملی۔ یہاں انھی نفوس قدسیہ کو عام علمائے یہود سے ممتاز کرنے کے لیے علما کے بجائے راسخون فی العلم کے لقب سے مشرف فرمایاہے۔ یعنی یہ آندھی کے خس و خاشاک کی طرح ہوا کے رُخ پر اُڑنے والے نہیں ہیں بلکہ چٹانوں کی طرح اپنے موقف حق پر جمنے والے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘المومنون’ سے مراد سلیم الفطرت اور خدا ترس افراد ہیں

‘‘المومنون’ سے مراد وہ سلیم الفطرت لوگ ہیں جو اگرچہ راسخون فی العلم کا درجہ تو نہیں رکھتے تھے لیکن اپنی فطرت کی سلامتی، دل کی صلاحیت اور کردار کی پاکیزگی کے اعتبار سے تمام سوسائٹی میں ممتاز تھے اور یہود کے عام بگاڑ کے باوجود وہ خدا کی ہدایت و شریعت پر قائم رہے اور جب اسلام کی دعوت ان کے کانوں میں پڑی تو وہ اس کو بھی قبول کرنے کے لیے آگے بڑھے۔یومنون بما انزل الیک وما اُنزل من قبلک یہ خبر ہے یعنی یہ راسخین فی العلم علماء اور سلیم الفطرت لوگ اس قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس سے پہلے کی کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اہلِ کتاب کا یہی گروہ ہے جس کی تعریف جگہ جگہ قرآن نے فرمائی ہے۔ آلِ عمران کی آیت ۱۱۳ کے تحت بھی اس گروہ کا ذکر گزر چکا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

والمقیمین الصلوۃ کا اسلوب اور اس کے فوائد

‘‘والمقیمین الصلوۃ عطف تو ہے المومنون پر لیکن یہ منصوب ہوگیا ہے فصیح عربی کے اس قاعدے کے مطابق جس کو ہمارے اہلِ نحو علیٰ سبیل الاختصاص یاعلی سبیل مدح کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ شعرائے عرب کے کلام میں اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ اسلوب کی اس تبدیلی کا لفظی اثر تو سامع پر یہ پڑتا ہے کہ یہ تنوع اس کو لفظ پر متوجہ کردیتا ہے اور معنوی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ محض اسلوب کی تبدیلی سے، بغیر ایک حرف کے اضافے کے، اس کے اندر اختصاص اور مدح و تعریف کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہی لفظ اپنے عام اسلوب کے مطابق والمقیمون الصلوۃ ہوتا تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے کہ ‘‘اور نماز کے قائم کرنے والے’’ لیکن جب اسلوب بدل کر المقیمین الصلوۃ کہہ دیا تو اس کے معنی یہ ہوگئے کہ ‘‘اور خاص کر نماز کو قائم کرنے والے’’۔ جس سے ان موصوفین کی غیرمعمولی تعریف اور ان کی خصوصیت بھی واضح ہوئی اور نماز کی وہ اہمیت و عظمت بھی، جو دین کے نظام میں اس کو حاصل ہے۔ اس اسلوب کی ایک نہایت عمدہ مثال سورۂ بقرہ میں بھی گزر چکی ہے۔ وہاں فرمایا ہے: والموفون بعہدہم اذا عاہدوا والصبرین فی الباساء والضراء وحین الباس (بقرہ:۱۷۷) (اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے جب کہ عہد کربیٹھیں اور خاص کر وہ لوگ جو ثابت قدم رہنے والے ہیں: فقروفاقہ، جسمانی تکالیف اور جنگ کی آزمائشوں میں)۔ یہاں بھی دیکھ لیجیے: والصابرین معطوف تو ہے والموفون پر، اس اعتبار سے اس کو والصابرون ہونا تھا لیکن اسی قاعدے کے مطابق جس کا ہم نے اُوپر حوالہ دیا الصابرین ہوگیا۔’’ (تدبرقرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

شریعت میں صبر اور نماز کا درجہ

‘‘ جہاں تک صبر کا تعلق ہے، یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جس شخص کے اندر صبر کی صفت نہ ہو، اس کے دین کی عمارت تمام تر ریت پر ہے، وہ کسی بھی جھٹکے سے آسانی سے گر سکتی ہے۔ رہی نماز تو درحقیقت یہی وہ چیز ہے جو اس عہد کی برابر یاد دہانی کراتی ہے جو بندہ اپنے رب سے کرتا ہے اس وجہ سے جو شخص اس کو ضائع کر دے گا وہ بالآخر پورے دین کو ضائع کر بیٹھے گا۔ یہود کے متعلق قرآن میں بیان ہوا ہے کہ انھوں نے نماز بالکل ضائع کر دی تھی (اضاعوا الصلوۃ مریم:۵۹) جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پورے دین ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں سے صرف وہی لوگ دین پر قائم رہے جو نماز پر قائم رہے اور یہی لوگ ہیں جو بالآخر اسلام کی دعوت قبول کرنے والے بھی بنے۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۴۲۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی