منگول افواج نے پچھلے 13 دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ جب مزاحمت کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو دس فروری سنہ 1258 کو فصیل کے دروازے کھل گئے۔ 37 ویں عباسی خلیفہ معتصم باللہ اپنے وزرا اور امرا کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ہلاکو نے وہی کیا جو اس کے دادا چنگیز خان پچھلی نصف صدی سے کرتے چلے آئے تھے۔ اس نے خلیفہ کے علاوہ تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے۔اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے:
'وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہِلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔'
دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد، الف لیلیٰ کی شہرزاد کا شہر، خلیفہ ہارون الرشید اور مامون کے قائم کردہ دارالترجمہ کا شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ دلکشا مسجدوں، وسیع کتب خانوں، عالیشان محلات، سرسبز باغات، لبالب بازاروں، علم افروز مدرسوں اور پرتعیش حماموں کا شہر تھا۔
اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ دو لاکھ سے لے کر دس لاکھ لوگ تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اتار دیے گئے۔تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسی دوران جب عظیم الشان شاہی محل کو آگ لگائی گئی تو اس میں استعمال ہونے والے آبنوس اور صندل کی قیمتی لکڑی کی خوشبو آس پاس کے علاقے کی فضاؤں میں پھیلی بدبو میں مدغم ہو گی۔کچھ اسی طرح کا ادغام دجلہ میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اساطیری دریا کا مٹیالا پانی پہلے چند دن سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ سرخی کی وجہ وہ خون تھا جو گلیوں سے بہہ بہہ کر دریا میں شامل ہوتا رہا اور سیاہی اس وجہ سے کہ شہر کے سینکڑوں کتب خانوں میں محفوظ نادر نسخے دریا میں پھینک دیے گئے تھے اور ان کی سیاہی نے گھل گھل کر دریا کی سرخی کو ماند کر دیا۔
فارسی کے عظیم شاعر شیخ سعدی خاصا عرصہ بغداد میں رہے تھے اور انھوں نے یہیں کے مدرسہ نظامیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ چنانچہ انھوں نے سقوطِ بغداد کا یادگار نوحہ لکھا جس کا ایک ایک شعر دل کو دہلا دیتا ہے۔
ہلاکو خان نے 29 جنوری سنہ 1257 کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا تھا۔ حملے سے پہلے اس نے خلیفہ معتصم کو لکھا:
'لوہے کے سوئے کو مکہ مارنے کی کوشش نہ کرو۔ سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو۔ بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو۔ اس کی خندقیں پاٹ دو، حکومت چھوڑ دو اور ہمارے پاس آ جاؤ۔ اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو تمھیں گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی نہ بلند ترین آسمان میں۔'
37 ویں عباسی خلیفہ معتصم باللہ کی وہ شان و شوکت تو نہیں تھی جو ان کے عظیم الشان اجداد کے حصے میں آئی تھی، لیکن پھر بھی مسلم دنیا کے بیشتر حصے پر ان کا سکہ چلتا تھا اور خلیفہ کو زعم تھا کہ اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے لے کر ایران تک کے سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گے۔چنانچہ خلیفہ نے ہلاکو کو جواب میں لکھا: 'نوجوان، دس دن کی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے لگے ہو۔ جان لو کہ مشرق تا مغرب خدا کے ماننے والے اہلِ ایمان میری رعایا ہیں۔ سلامتی سے لوٹ جاؤ۔'
ہلاکو خان کو اپنے منگول سپاہیوں کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد تھا۔ وہ پچھلے چار عشروں کے دوران اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور تک آ پہنچے تھے اور اس دوران معلوم دنیا کے بڑے حصے کو اپنا مطیع بنا چکے تھے۔بغداد پر حملے کی تیاریوں کے دوران نہ صرف ہلاکو خان کے بھائی منگوقآن نے تازہ دم دستے بھجوائے تھے بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بیتاب تھے۔یہی نہیں، منگول فوج تکنیکی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ برتر اور جدید ٹیکنالوجی سے بہرہ ور تھی۔ منگول فوج میں چینی انجنیئروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور بارود کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ بغداد کے شہری آتش گیر مادے نفتا سے واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی کہ اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کی ٹیوبوں میں رکھ دیتے تھے جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ان کی منجنیقوں نے شہر پر آتش بارش برسانا شروع کر دی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑنا شروع کر دیا۔بغداد کے باسیوں نے یہ آفت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ابھی محاصرے کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے ہلاکو خان کو بھاری تاوان ادا کرنے اور اپنی سلطنت میں جمعے کے خطبے میں اس کا نام پڑھنے کی شرط پر صلح کی پیشکش کی، لیکن ہلاکو کو فتح سامنے نظر آ رہی تھی، اس نے یہ پیشکش فوراً ہی ٹھکرا دی۔ آخر دس فروری کا دن آیا جب خلیفہ نے شہر کے دروازے منگولوں کے لیے کھول دیے۔منگول مذہب میں کسی بادشاہ کا زمین پر خون بہانا بدشگونی سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے ہلاکو شروع میں خلیفہ کو یہ باور کرواتا رہا جیسے وہ بغداد میں اس کا مہمان بن کر آیا ہے۔
خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقع پر موجود تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد اس کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، 'کھاؤ۔'معتصم باللہ نے کہا: 'ہیرے کیسے کھاؤں؟' ہلاکو نے جواب دیا: 'اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔'عباسی خلیفہ نے جواب دیا: 'خدا کی یہی مرضی تھی۔'ہلاکو نے کہا: 'اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔' اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے۔
بغداد کی بنیاد معتصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور نے سنہ 762 میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔
تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق سنہ 775 سے لے کر سنہ 932 تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے دس لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
دارالترجمہ بیت الحکمہ میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انھوں نے یورپ کی نشاۃ الثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمی، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔
بغداد میں بسنے والی چند مشہور ہستیوں کے نام بھی دیکھ لیجیے: جابر بن حیان (جدید کیمسٹری کا بانی)، الخوارزمی (الجبرا کا بانی)، الکندی، الرازی (مشہور فلسفی)، الغزالی (مشہور مفکر)، ابونواس (عظیم عربی شاعر)، شیخ سعدی،(عظیم فارسی شاعر)، زریاب (مشہور موسیقار)، طبری (مشہور تاریخ دان)، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابو یوسف (مذہبی رہنما)۔
آج سے ٹھیک 760 برس قبل بغداد پر چلنے والی اس ناگہانی منگول آندھی نے میسو پوٹیمیا کی ہزاروں سالہ تہذیب کی قدم ایسے اکھاڑے کہ وہ آج تک سنبھل نہیں پائی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سے آج تک کوئی مسلم شہر بغداد کی شان و شوکت کے عشرِ عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکا۔
بعض ماہرین نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے پھل پھول سکی کہ منگولوں نے اس وقت کی برتر مسلم تہذیب
کو تباہ کر کے مغرب کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا۔***