ہر اک آغاز سے پہلے لکھوں اسم علم تیرا
سہارا چاہتا ہے اے خدا میرا قلم تیرا
تو اپنی ذات میں واحد ہر اک ذرہ ترا شاہد
عیاں ہے وسعت آفاق میں نور اتم تیرا
نہیں ہے ابتدا تیری نہ کوئی انتہا تیری
تری ہر شان یکتا ہے نمایاں ہے کرم تیرا
مری اوقات کیا ہے میں کروں حمد و ثنا تیری
مجھے توفیق دے تو وصف ہو کوئی رقم تیرا
میں کیسے شکر کر سکتا ہوں تیری مہربانی کا
لئے رہتا ہے گھیرے میں مجھے فضل و کرم تیرا
طلاطم خیز موجیں لے گئیں مجھ کو سرِ ساحل
سفینے پر جو دیکھا نام نامی مرتسم تیرا
ہیں جتنے حادثات زندگی دم توڑ دیتے ہیں
مجھے سینے لگاتا ہے جہاں لطف و کرم تیرا
مصائب ہٹتے جاتے ؒؒہیں مجھے تسکین ہوتی ہے
کیا کرتا ہوں ذکر و فکر جب میں دم بدم تیرا
توئی سلطانِ عادل ہے تری ساری خدائی ہے
مکاں و لامکان تیرے یہ موجود و عدم تیرا
تمنا کر رہا ہے مصطفی کے نور کا صدقہ
خدایا دیکھ لے اب مشہدی جاکر حرم تیرا