دھند سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کے درمیان قطب شمالی کے آخری شہر ترومسو (Tromso) کی کل آباد 67000نفوس پر مشتمل ہے۔یہ شہر اپنے محل وقوع کے اعتبار سے شمال میں سب سے آخری یونیورسٹی، نباتاتی باغ، پروٹسٹنٹ چرچ اور سمفونی آرکسٹرا کے لیے مشہور ہے۔ ایک صدی قبل نارویجئین ہیرو رونالڈ ایمنڈسن نے اسی شہرسے قطب جنوبی تک کے سفر کا آغاز کیا تھا۔
ترومسو سرکل سے 350کلومیٹر دور اس شہر کی ایک خصوصیت اور بھی ہے کہ یہاں شمال کی سب سے آخری مسجد النور بھی واقع ہے۔ ترومسو میں شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1000 مسلمان قیام پذیر ہیں۔ ترومسو میں مسلمان مہاجرین 1968ء سے آنا شروع ہوئے تھے۔ آج بھی سیاسی پناہ گزینوں میں ضومالیہ، اریٹیریا اور افغان مہاجرین اپنے بارے میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔
جب آپ النور مسجد میں داخل ہوں گے تو استقبالیہ پر آپ کا سامنا مسکراتی ہوئی حکیمہ منبرور سے ہو گا۔ وہ اب بھی اپنے خیالوں میں مسکرانے لگتی ہے جب اسے پہلی مرتبہ ترومسو سے واسطہ پڑنا یاد آتا ہے۔ اس کی شادی مراکو میں مقیم ایک نارویجیئن مسلمان محمد سے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد یورپ میں قیام کرنا اس کے لیے کسی سنہرے خواب سے کم نہ تھا۔
وہ کہتی ہے جب میں اپریل 1979ء-04 میں ناروے آئی تو ڈھائی میٹر برف کی تہہ میری منتظر تھی۔ یہ تھا میرے خوابوں کے شہر میں میرا استقبال۔ حکیمہ کا اگلے چند مہینوں میں دوسری حیرتوں سے بھی واسطہ پڑنا تھا۔ مارچ سے ستمبر تک ترومسو کے دن رات کی طوالت یکساں رہتی ہے لیکن 20مئی سے 22 جولائی تک سورج مسلسل آسمان پرچمکتا رہتا ہے۔
اس لیے کہ ترومسو خورشید نیم شب ( Midnight sun )کے علاقے میں واقع ہے۔ 25نومبر سے 21 جنوری تک سورج اْفق سے بالکل غائب رہتا ہے یعنی یہاں مسلسل رات یوم بلا خورشید Polar Nights)کا سماں رہتا ہے۔
مسجد النور میں یہ سوالات اپنے علاقے کی خصوصی جغرافیائی نوعیت کی وجہ سے ہمیشہ زیرِ بحث رہتے ہیں کہ جن مہینوں میں سورج طلوع اور غروب نہیں ہوتا، ان میں فجر اور مغرب کن اوقات میں پڑھی جائیں گی؟ اسی طرح ان مہینوں میں سحر اور افطار کا تعین کس طرح کیا جائے گا؟ ساندرا مریم اور اندریو ابراہیم جو مسجد النور میں ڈائریکٹر اور سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں، اْن کے لیے اکثر یہ سولات وجہ نزاع بنے رہتے ہیں۔ ان دونوں کی ذمہ داریوں میں نماز کے اوقات میں مسجد کھولنے کے علاوہ مقامی آبادی کو اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، مختصر کتابوں کی بذریعہ ڈاک ترسیل، نکاح، طلاق اور اموات کے مواقع پر سہولتیں فراہم کرنا ہیں۔
ترومسوسے مزید شمال میں واقع دوسرے شہروں مثلاً کرکینس(Kirkenes) اور ہیمر فیسٹ( Fest Hammer )میں رہائشی مسلمانوں کو نماز اور رمضان کے اوقات مہیا کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے منفرد صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے النور مسجد کی انتظامیہ نے سعودی عرب کے دارلا فتاء سے مستقل فتویٰ حاصل کر لیا ہے۔
دارالافتا سے اْنھیں تین ممکنہ حل موصول ہوئے ہیں1۔ سعودی عرب (مکۃ المکرمہ) کے اوقات پر عمل کریں۔ 2۔ نزدیک ترین مسلم آبادی جہاں سورج طلوع اور غروب ہو رہا ہو ،کے مطابق عمل کریں مثلاً اوسلو یا گلاسکو، 3۔ پانچ اوقات نماز کا تعین کر کے نماز ادا کریں۔
2012ء میں رمضان کا آغاز 20جولائی اور اختتام 19 اگست کو ہوا تھا۔ آغاز میں روزوں کادورانیہ مکۃ کے مطابق فجر صبح 4 بج کر 24 منٹ سے افطار شام 7 بج کر 6 منٹ تک تھا لیکن 24رمضان سے مقامی طور پر اوقات طلوعِ و غروب آفتاب کے مطابق فجر صبح ڈھائی بجے سے مغرب 10بج کر 10منٹ تک تھا۔
اس طرح آخری 7 روزوں کا دورانیہ 12سے 20 گھنٹوں تک طویل تھا۔ اتنے طویل اوقات کے باوجود موسم کی خوشگواری اور سرد ہونے کی وجہ سے روزوں کی شدت محسوس نہیں ہوتی جتنی اپنے آبائی گرم ممالک میں ہوتی تھی۔ 2013ء میں رمضان ان دنوں میں ہو گا جب سورج مسلسل آسمان پر رہے گا، لہٰذا 2013ء-04 میں مکہ المکرمہ کے مطابق اوقات مقرر کیے جائیں گے۔
رمضان کے دوران شام 9بجے ہی سے خواتین و حضرات مسجد النور میں اپنے اپنے مخصوص حصوں میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ہمراہ لانے کی خصوصی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ وہ بچپن ہی سے اپنے مذہبی تہواروں سے آشنا ہو سکیں۔
تمام رمضان میں افطار و سحر میں عورتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی باری کے مطابق کھانوں کا انتظام کریں۔ ان کھانوں میں مختلف ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے صومالی سموسہ، عراقی پلاؤ، فن لینڈ کا سلاد، مراکو کا سوجی اور گوشت کا بنا ہوا کھس کھس اور بین الاقوامی مشروبات موجود ہوتے ہیں۔ اس سوشل اجتماع میں مسلمان باہم گفتگو کے ذریعے اپنے معاشرتی مسائل کا حل بھی ڈھونڈھ لیتے ہیں۔
روزہ چاہے کسی بھی ٹائم ٹیبل کے مطابق ہو، افطار مسنون طریقے سے کھجور سے کیا جاتا ہے۔ کھجور اوردوسری حلال غذا ال آنیا انٹرنیشنل سے خریدے جا سکتے ہیں جو ترکش حسین اور سعودہ مل کر چلا رہے ہیں۔ سعودہ جب 2002ء میں شادی کر کے ترومسوپہنچی تو اسے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اس کا شوہر حسین ایک ریستوران چلا رہا ہے جہاں شراب بھی مہیا کی جاتی ہے۔
چنانچہ سعودہ نے اپنے شوہر کو نہایت حکمت سے اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ کیا غلطی کر رہا ہے؟ حسین کو بھی اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا تو اس نے ریستوران بند کر کے غذائی اسٹور کھول لیا جہاں مسلمانوں کو حلال گوشت کے علاوہ روایتی مسالے اور موسمی پھل مہیا کیے جاتے ہیں۔
٭٭٭