روزہ
(مولانا عبدالماجد دریا بادی)
روزہ اصطلاحِ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو کھانے، پینے اور عملِ زوجیت سے روکے رکھے۔ جو روزے فرض ہیں وہ ماہِ رمضان کے ہیں۔ غیبت، فحش، بدزبانی وغیرہ زبان کے تمام گناہوں سے روزہ میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں حدیث میں آئی ہیں۔ جدید و قدیم طب اس پر متفق ہے کہ روزہ جسمانی بیماریوں کو دْور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسان کے لیے ایک بہترین مْصلح ہے۔ پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبطِ نفس کی روح ساری اْمت میں تازہ ہو جاتی ہے، اس لحاظ سے بھی مہینے بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے۔
روزہ تعمیل ارشادِخداوندی میں تزکیہ نفس، تربیتِ جسم، دونوں کا ایک بہترین دستور العمل ہے۔ اشخاص کے انفرادی اور امت کے اجتماعی ہر دو نقطہ نظر سے-85 اس سے مقصود تقویٰ کی عادت ڈالنا اور امت و افراد کو متقی بنانا ہے۔ تقویٰ نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے۔ جس طرح مضر غذاؤں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست اور مادی لذتوں سے لطف و انبساط کی صلاحیت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے، بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی اور خونِ صالح پیدا ہونے لگتا ہے، اسی طرح اس عالم میں تقویٰ اختیار کرلینے سے (یعنی جتنی عادتیں صحت روحانی و حیاتِ اخلاقی کے حق میں مضر ہیں، ان سے بچے رہنے سے) عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اْٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہو سکتی ہے۔
مَن صَامَ رَمَضَانَ اِیمَاناً وَّ اِحتِسَاباً غْفِرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہ
ترجمہ : جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے۔
خطبہ رمضان
حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ نے ہمیں یہ خطبہ ارشاد فرمایا‘‘اے لوگو ! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینا سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کا دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ۷۰ فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینا ہے اور یہی وہ مہینا ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو افطار کرانے کا سامان مہیا نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے اور جو کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے۔ جو آدمی اس مہینے میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت اور اِسے دوزخ سے رہائی دے دے گا۔
(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)