جان لو کہ روزہ کے اندر کچھ ایسی خاص بات رکھ دی گئی ہے جو اِس کے سوا کسی اور عمل میں نہیں، اور وہ ہے اِس کو اللہ عزوجل کے ساتھ ایک خاص نسبت ہو جانا، جیسا کہ حدیثِ قدسی میں وارد ہوا ہے (الصوم لی و انا اجزی بہ)۔ عبادتِ صیام کو بس یہی شرف کافی ہے، ویسے ہی جیسے ‘‘بیت اللہ’’ کہلا کر ایک مقام کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت کا ایک خاص حوالہ حاصل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ‘‘وَطَہِّر بَیتِی’’ یعنی ‘‘میرے’’ گھر کو صاف ستھرا کر رکھو!
روزہ کی فضیلت کے پیچھے دو خوبصورت معانی پنہاں ہیں:
ایک یہ کہ یہ ایک راز ہے اور سراسر ایک باطنی عمل۔۔ جو مخلوق کے احاطہ نظر میں کبھی آ ہی نہ پائے۔ روزہ کے اِس معنیٰ میں ریاکا کوئی گزر نہیں۔
دوسرا یہ کہ روزہ دراصل دشمنِ خدا کو مقہور کر دینا ہے۔ وجہ یہ کہ دشمنِ خدا کا وہ ہتھیار جو وہ ابنِ آدم کے خلاف بے تحاشا برتتا ہے اِس کی شہواتِ نفس ہیں۔ یہ شہوات و خواہشات انسان میں جہاں سے تقویت پاتی ہیں وہ ہے اِس کے ہاں خور ونوش کی فراوانی۔ پس جب تک خواہشات کی یہ زمین ہری بھری رہے گی تب تلک شیاطین کا اِس چراگاہ میں آنا جانا بے تحاشا رہے گا۔ اب جب خواہشات و شہوات کو ترک کرایا جائے گا تو شیاطین کی راہیں خود بخود یہاں تنگ ہونے لگیں گی۔
اب ہم اختصار سے روزہ کی کچھ سنتوں کا ذکر کریں گے:
۱) سحری بے حد پسندیدہ ہے، اور وہ بھی یہ کہ خاصی لیٹ کرکے کی جائے۔ افطار میں خوب جلدی کی جائے، اور یہ کہ کھجور سے کی جائے۔
2) رمضان میں سخاوت بطورِ خاص مستحب ہے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا۔ اچھا اور پسندیدہ بننا، دل کھول کر صدقہ کرنا، جیسا کہ رسول اللہ کے ہاں رمضان کے معمولات کی نسبت ہمیں سیرت و احادیث سے معلوم ہے۔
3) رمضان میں قرآن کا طالبِ علم بننا۔ اعتکاف کی صورت خدا کے گھر میں ڈیرے ڈال دینا خصوصاً رمضان کی آخری دس راتیں۔ رمضان کے آخری حصہ میں عبادت پر پورا زور صرف کردینا۔
صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ کمر بستہ ہو جاتے، رات عبادت میں گزارتے اور اہلِ خانہ کو بیدار کرتے۔ علماء نے اِس ‘کمر بستہ ہو جانے’ کے دو معنیٰ بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ ازدواجی تعلق سے کنارہ کشی کرلیتے، اور دوسرا یہ کہ یہ کنایہ ہے عمل میں انتہائی حد تک جت جانے کا۔
علماء کا قول ہے کہ آپ کا آخری عشرہ میں عبادت وریاضت پر پورا زور صرف کردینا اس وجہ سے تھا کہ آپ لیلۃ القدر کو پالینے کی سعی فرماتے۔
٭٭٭
اب ہم روزہ کے بعض اَسرار اور آداب کا ذکر کریں گے:
روزہ کے تین مراتب ہیں: ایک عوام کا روزہ اور ایک خواص کا روزہ اور ایک خاص الخواص کا روزہ۔
‘عوام’ کا روزہ ہے: پیٹ اور شرمگاہ کو اس کی خواہش پورا کرنے سے روک رکھنا۔
‘خواص’ کا روزہ ہے: نگاہ، زبان، ہاتھ، پیر، کان، آنکھ اور سب کے سب اعضا -04 وجوارح کو خدا کی معصیت کے کاموں سے باز کئے رکھنا۔
رہا ‘خاص الخواص’ کا روزہ، تو وہ یہ ہے کہ دل ہی ہر گھٹیا سوچ اور ارادے کے معاملہ میں روزہ دار ہو جائے۔ وہ سب افکار و خیالات جو آدمی کو خدا سے دور کریں یا خدا کی نگاہ میں آدمی کی وقعت کم کردینے والے ہوں آدمی کے ہاں متروک ہو کر رہ جائیں۔ گویا قلب کی دنیا میں آدمی خدا کے سوا دنیا ومافیہا سے روزہ رکھ لے۔ روزہ کے اِس مرتبہ کی شرح و وضاحت کسی اور مقام پر ہوگی۔رہ گیا دوسرا مرتبہ یعنی ‘خواص کا روزہ’ تو اس کے آداب میں یہ آتا ہے کہ آدمی کی نگاہ روزہ سے ہو جائے اور ہر اْس جانب سے جو خدا نے حرام ٹھہرا دی نگاہ کا رخ پھر جائے۔ زبان کو ہر اْس بات سے جو مخلوق کو اذیت دے یا خالق کے ہاں حرام یا ناپسند ہو، یا حتیٰ کہ جو لایعنی وبے فائدہ ہو۔ زبان کو ایسی ہر بات سے تالا لگ جائے۔ نیز یہ کہ آدمی اپنے سب کے سب اعضا و جوراح کا پہرہ دار بن کر کھڑا ہو جائے کہ کوئی عضو بھی خدا کی معصیت کا رخ نہ کرپائے۔
بخاری کی روایت میں ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ‘ جو شخص قولِ باطل سے اور اس پر عمل کر گزرنے سے باز نہیں رہتا، اللہ کو یہ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا ہی چھوڑ کر رہے’ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں، کیونکہ یہ ان باتوں سے تو رک گیا ہے جو روزے کے علاوہ عام حالات میں اس کیلئے بالکل جائز اور روا ہیں البتہ ان باتوں سے روزہ رکھ کر بھی رکنے کا نام نہیں لیتا جن کی کسی بھی وقت اسے اجازت نہیں، اور جو کہ اللہ کی مطلق حرام کردہ باتیں ہیں۔
آدابِ صیام میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ آدمی رات کو کھانے سے پیٹ نہ بھر لے۔ رات کو بھی کھائے تو بس حساب سے۔ کیونکہ، جیسا کہ حدیث میں ہے، ابنِ آدم کا پیٹ وہ بدترین برتن ہے جس کو یہ کناروں تک بھر لیتا ہے۔ ابتدائے شب اگر انسان پیٹ کو کھانے سے پر کر لے تو باقی شب وہ اپنا اچھا استعمال ہرگز نہ کرپائے گا۔ اسی طرح اگر وہ سحری کے وقت شکم سیر ہو جاتا ہے تو ظہر تک وہ خود کو کار آمد نہ رکھ پائے گا۔ کیونکہ بسیار خوری کاہلی اور بے ہمتی کو جنم دیتی ہے۔ نیز روزہ سے جو کوئی مقصود ہے بسیار خوری سے خود اس مقصود ومطلوب پر ہی پانی پھر جاتا ہے۔ روزہ سے مقصود تو یہ ہے کہ انسان بھوک کے تجربے سے گزرے اور ترکِ خواہش کی استعداد پائے۔
٭٭٭
جان لو کہ صیامِ نفل یوں تو ہر وقت پسندیدہ ہے، مگر کچھ خاص ایامِ فضیلت میں تو بے حد پسندیدہ اور مستحب ہو جاتا ہے۔ فضیلت کے ایام کچھ تو وہ ہیں جو ہر سال آتے ہیں، جیسے مثلاً رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے، یومِ عرفہ، یومِ عاشوراء ، عشرہ ذو الحج، اور محرم۔ جبکہ کچھ ایام وہ ہیں جو ماہانہ ہیں، جیسے مثلاً مہینے کا یومِ اول اور یومِ وسط اور آخری یوم۔ جو ان تین دنوں کے روزے رکھے وہ خوب ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ مہینے کے تین دن وہ ایامِ بیض کے کرے، یعنی چاند کے جوبن کے تین ایام روزہ سے رہے۔
جبکہ فضیلت کے کچھ ایام ہفتہ وار ہیں، یعنی سوموار کا روزہ اور جمعرات کا روزہ۔
صیامِ نفل میں افضل ترین صومِ داودی ہے: داود علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار۔ صیامِ داودی کے افضل ترین ہونے میں تین خوبصورت معانی پوشیدہ ہیں:
ایک یہ کہ نفس کو ایک دن اْس کا حظ ملتا ہے اور ایک دن اْس سے عبادتِ صوم کرائی جاتی ہے۔ یعنی ایک دن اْس کو حق ملتا ہے اور ایک دن اْس سے کام لیا جاتا ہے، جو کہ عدل کی بہترین حالت ہے۔
دوسرا یہ کہ کھانے کا روز ،روزِ شکر ہے اور اگلا روزے کا دن روزِ صبر۔ جبکہ ایمان کے دو ہی شق ہیں، ایک شکر اور ایک صبر!
تیسرا یہ کہ عام مجاہدہ کی نسبت یہ نفس پر زیادہ شاق ہے۔ کیونکہ جونہی نفس ایک خاص حالت سے مانوس ہونے لگتا ہے اِسے وہاں سے پھیر کر ایک دوسری حالت میں لے آیا جاتا ہے۔ یوں نفس کا یکسانیت سے نکلنا نفس کو عبادت کے خاص معانی سے آشنا کراتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صومِ دہر (یعنی ہمیشہ روزے ہی رکھتے جانا) کی بابت، مسلم میں ابو قتادہ سے مروی ہے، عمر نے نبی سے دریافت کیاتو آپ نے فرمایا: لا صام ولاا فطر،ا و لم یصم ولم یفطر کہ ‘‘نہ اْس کا روزہ اور نہ اْس کا افطار’’
یہ (صومِ دہر) اس حالت پر محمول ہوگا کہ آدمی لگاتار روزے رکھے اور ممنوعہ ایام تک کے روزے نہ چھوڑے۔ البتہ اگر وہ عیدین اور ایامِ تشریق میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرتا ہے تو یہ صومِ دہر نہ ہوگا۔ چنانچہ عائشہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ لگاتار روزے رکھتیں۔ انس بن مالک کہتے ہیں صحابیِ رسول ابو طلحہ نبی کی رحلت کے بعد چالیس سال تک لگا تار روزے رکھتے رہے (ممنوعہ ایام کے ماسوا)
٭٭٭
یہ بھی جان لو کہ جس آدمی کو بصیرت ملی ہو وہ روزہ سے جو مقصود ہے عین اس مقصود سے آشنا رہتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو نیکی کے کسی ایسے (نفل) کا مکلف نہیں کرتا جس کی ادائیگی کے باعث وہ اْس سے کسی افضل تر عمل کو اختیار کرنے کے معاملہ میں بے ہمت ہو رہے۔
مثلاً، عبد اللہ بن مسعود کا بکثرت روزہ رکھنے کا معمول نہ تھا۔ فرماتے: میں جب روزہ رکھتا ہوں تو نماز (کی طوالت و کثرت) پر پوری محنت نہیں کر پاتا، جبکہ میں (نفل) روزہ کی نسبت نماز (قیام وسجود) پر محنت اور ریاضت کو ترجیح دیتا ہوں۔ سلف میں بعض کے ساتھ یوں ہوتا کہ بکثرت روزہ رکھیں تو قراء تِ قرآن پر محنت نہ ہو پاتی۔ چنانچہ وہ بکثرت افطار سے رہتے تاکہ تلاوت پر قدرت پائیں۔ ہر انسان ہی اپنی حالت کا بہتر اندازہ کر سکتا ہے اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ عبادت کے کون کونسے اعمال اس کے زیادہ سے زیادہ مناسبِ حال ہیں۔
(اردو استفادہ از:
مختصر منہاج القاصدین
مؤلفہ امام ابنِ قدامہ الحنبلی
کتاب الصوم وآدابہ و اسرارہ ومہماتہ وما یتعلق بہ)