قسط۱۱۳
نورالقرآن
سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
سورۃ المائدہ
۱۲۰۔۸۷
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہ۸۷ وَکُلُوْامِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًا ص وَّاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ہ۸۸ لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ہ۸۹ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس‘’ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ۹۰ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ ج فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ہ۹۱ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا ج فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ہ۹۲ لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاح‘’ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ہع ۹۳ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَا حُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ ج فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَاب‘’ اَلِیْم‘’ ہ۹۴ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُم‘’ ط وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآء‘’ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًام بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْکَفَّارَۃ‘’ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ ط عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ ط وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ ط وَاللّٰہُ عَزِیْز‘’ ذُوانْتِقَامٍ ہ۹۵ اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ج وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ہ۹۶ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَ الْھَدْیَ وَالْقَلَآئِدَ ط ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم‘’ ہ۹۷ اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰہَ غَفُوْر‘’ رَّحِیْم‘’ ہط ۹۸ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَکْتُمُوْنَ ہ۹۹ قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج فَاتَّقُوا اللّٰہَ ٰٓیاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہع ۱۰۰ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْاعَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ط عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا ط وَاللّٰہُ غَفُوْر‘’ حَلِیْم‘’ ہ۱۰۱ قَدْ سَاَ لَھَا قَوْم‘’ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ ہ۱۰۲ مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ م بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ لا وَّ لٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط وَاَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ہ۱۰۳ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ ہ۱۰۴ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ہ۱۰۵ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَاحَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ ط تَحْبِسُوْنَھُمَا مِنْ م بَعْدِ الصّلٰوۃِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی لا وَلَا نَکْتُمُ شَھَادَۃَ لا اللّٰہِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ ہ۱۰۶ فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓی اَنَّھُمَااسْتَحَقَّآاِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَھُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَھَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَآ صلے ز اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ ہ۱۰۷ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّھَادَۃِ عَلٰی وَجْھِھَآ اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَان‘’ م بَعْدَ اَیْمَانِھِمْ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاسْمَعُوْا ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ہع ۱۰۸ یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ہ۱۰۹ اِذْ قَالَ اللّٰہُ ٰیعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَ عَلٰی وَ الِدَتِکَ م اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلاً ج وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰئۃَ وَالْاِ نْجِیْلَ ج وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا م بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ج وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ ج وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَنْکَ اِذْجِءْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْر‘’ مُّبِیْن‘’ ہ۱۱۰ وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ ج قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ہ۱۱۱ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ ٰیعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ط قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ہ۱۱۲ قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ ہالرّبع ۱۱۳ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ ج وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ہ۱۱۴ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّ لُھَا عَلَیْکُمْ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّا ٓ اُعَذِّبَہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ہع ۱۱۵ وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ ٰیعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ ق بِحَقٍّ ط ؔ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ ط تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَا ٓ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ہ۱۱۶ مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ ج وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ط وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْد‘’ ہ۱۱۷ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہ۱۱۸ قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ ط لَھُمْ جَنّٰت‘’ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ہ۱۱۹ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِیْھِنَّ ط وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر‘’ ہع ۱۲۰
تراجم
۱۔۸۷۔ اے ایمان والو! مت حرام ٹھہراؤ ستھری چیزیں ، جو اللہ نے تم کو حلال کیں، اور حد سے نہ بڑھو۔ اللہ نہیں چاہتا زیادتی والوں کو۔۸۸۔اور کھاؤ اللہ کے دئے سے ، جو حلال ہو ستھرا ، اور ڈرتے رہو اللہ سے ، جس پر یقین رکھتے ہو۔ ۸۹۔نہیں پکڑتا تم کو اللہ ، تمہاری بے فائدہ قسموں پر ، لیکن پکڑتا ہے جو قسم تم نے گرہ باندھی ۔ سو اس کا اتار ، کھلانا دس محتاجوں کو بیچ کا کھانا ، جو دیتے ہو اپنے گھر والوں کو ، یا ان کو کپڑا دینا، یا ایک گردن آزاد کرنی ۔ پھر جس کو پیدا (توفیق) نہ ہو ، تو روزہ تین دن کا ۔ یہ اتار ہے تمہاری قسموں کا ، جب قسم کھا بیٹھو ۔ اور تھامتے رہو اپنی قسمیں ۔ یوں بتاتا ہے تم کو اللہ اپنے حکم ، شاید تم احسان مانو۔ ۹۰۔اے ایمان والو!یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے ، گندے کام ہیں شیطان کے ، سو ان سے بچتے رہو ، شاید تمہارا بھلا ہو۔ ۹۱۔شیطان یہی طاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیر ، شراب سے اور جوئے سے ، اور روکے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے ، پھر اب تم باز آؤ گے؟۹۲۔اور حکم مانو اللہ کا ، اور حکم مانو رسول کا ، اور بچتے رہو ۔ پھر اگر تم پھرو گے ، تو جان لو ، کہ ہمارے رسول کا ذمہ یہی ہے ، پہنچا دینا کھول کر۔ ۹۳۔جو لوگ ایمان لائے ، اور کام نیک کئے ، ان پر نہیں گناہ جو کچھ پہلے کھا چکے ، جب آ گے ڈرے ، اور ایمان لائے ، اور عمل نیک کئے ، پھر ڈرے ، اور یقین کیا، پھر ڈرنے اور نیکی کی ، اور اللہ چاہتا ہے نیکی والوں کو ۔ ۹۴۔اے ایمان والو! البتہ تم کو آزماوے گا اللہ ، کچھ ایک شکار کے حکم سے ، جس پر پہنچیں ہاتھ تمہارے اور نیزے ، کہ معلوم کرے اللہ کہ کون اس سے ڈرتا ہے ، بن دیکھے ۔ پھر جس نیھ زیادتی کی اس کے بعد ، تو اس کو دکھ کی مار ہے ۔ ۹۵۔اے ایمان والو! نہ مارو شکار ، جس وقت تم ہو احرام میں ۔ اور جو کوئی تم میں اس کو مارے جان کر ، تو بدلا ہے اس مارے کے برابر مواشی میں سے ، وہ ٹھہرا دیں و ہ معتبر تمہارے ، کہ نیاز بپہنچا دے کعبہ تک ، یا گناہ کا اتار ہے ، کئی محتاج کا کھانا ، یا اس کے برابر روزے ، کہ چکھے سزا اپنے کام کی ۔ اللہ نے معاف کیا، جو ہو چکا ۔ اور جو کوئی پھر کرے گا ، اس سے بیرلے گا اللہ ، اور اللہ زبردست ہے بیر لینے والا ۔ ۹۶۔حلال ہوا تم کو دریا کا شکار ، اور اس کا کھانا ، فائدہ کو تمہارے اور مسافروں کے ۔ اور حرام ہوا تم پر ، شکار جنگل کا ، جب تک رہو احرام میں ۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے ، جس پاس جمع ہو گے ۔ ۹۷۔اللہ نے کیا ہے کعبہ ، یہ گھر بزرگی کا ٹھہرا لوگوں کے واسطے ، اور مہینہ بزرگی کا ، اور قربانی لی جانی اور گلے میں لٹکن والیاں (پٹے والے جانور) یہ اس واسطے ، کہ تم سمجھو ، کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ ہے آسمان و زمین میں، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔۹۸۔جان رکھو! کہ اللہ کی مار سخت ہے ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ ۹۹۔رسول پر ذمہ نہیں ، مگر پہنچا دینا ، اور اللہ کو معلوم ہے ، جو ظاہر میں کرو گے اور جو چھپا کر ۔ ۱۰۰۔تو کہہ ، برابر نہیں گندا اور پاک ، اگرچہ تجھ کو خوش لگے گندے کی بہتایت ۔ سو ڈرتے رہو اللہ سے ، اے عقلمندو ! شاید تمہارا بھلا ہو۔ ۱۰۱۔اے ایمان والو! مت پوچھو بہت چیزیں کہ اگر تم پر کھولے تو تم کو بری لگیں ۔ اور اگر پوچھے گے جس وقت قرآن اترتا ہے ، تگو کھولی جاویں گی ۔ اللہ نے ان سے درگذر کی ہے ۔ اور اللہ بخشتا ہے تحمل والا۔ ۱۰۲۔ویسی باتیں ، پوچھ چکے ہیں ایک لوگ ، تم سے پہلے ، پھر سویرے ان سے منکر ہوئے ۔ ۱۰۳۔نہیں ٹھہرایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی ، اور لیکن کافر باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ ۔ اور ان میں بہتوں کو عقل نہیں۔ ۱۰۴۔اور جب کہئے ان کو آؤ اس طرف ، جو اللہ نے نازل کیا، اور رسول کی طرف ، کہیں ہم کو کفایت ہے ، جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو ۔ بھلا اگر ان کے باپ نہ علم رکھتے ہوں کچھ ، اور نہ راہ جانتے تو بھی؟۱۰۵۔اے ایمان والو! تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کا ۔ تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی بہکا ، جب تم ہوئے راہ پر ۔ اللہ پاس پھر جانا ہے تم سب کو ، پھر وہ جتا وے گا جو کچھ تم کرتے تھے ۔ ۱۰۶۔اے ایمان والو! گواہ تمہارے اندر ، جب پہنچے کسی کو تم میں موت ، جب لگے وصیت کرنے ، دو شخص معتبر چاہئیں تم میں سے، یا دو اور ہوں تمہارے سوا ، اگر تم نے سفر کیا ہو ملک میں، پھر پہنچے تم پر مصیبت موت کی ۔ دونوں کو کھڑا کر و بعد نماز کے وہ قسم کھاویں اللہ کی ، اگر تم کو شبہ پڑے ، کہیں ہم نہیں بیچتے قسم مال پر ، اگرچہ کسی کو ہم سے قرابت ہو ، اور ہم نہیں چھپاتے اللہ کی گواہی ، نہیں تو ہم گناہگار ہیں۔ ۱۰۷۔پھر اگر خبر ہو جاوے ، کہ وہ دونو حق دبا گئے گناہ سے ، تو دو اور کھڑے ہوں ان کی جگہ ، کہ جن کا حق دبا ہے ان میں جو بہت نزدیک ہیں، پھر قسم کھاویں اللہ کی ، کہ ہماری گواہی تحقیق ہے ان کی گواہی سے ، اور ہم نے زیادہ نہیں کہا ، نہیں تو ہم بے انصاف ہیں۔ ۱۰۸۔اس میں لگتا ہے ، کہ شہادت ادا کریں راہ پر ، یا ڈریں کہ الٹی پڑے گی قسم ہماری ، ان کی قسم کے بعد ۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے ، اور سن رکھو۔ اور اللہ راہ نہیں دیتا ، بے حکم لوگوں کو ۔ ۱۰۹۔جس دن اللہ جمع کرے گا رسول ، پھر کہے گا تم کو کیا جواب دیا؟ بولیں گے ، ہم کو خبر نہیں۔ تو ہی ہے چھپی بات جانتا ۔ ۱۱۰۔جب کہے گا اللہ ، اے عیسیٰ مریم کے بیٹے ! یاد کر میرا احسان اپنے اوپر ، اور اپنی ماں پر ، جب مدد کی میں نے تجھ کو روح پاک سے ۔ تو کلام کرتا لوگوں سے گود میں اور بڑی عمر میں ۔ اور جب سکھائی میں نے تجھ کو کتاب ، اور پکی باتیں، اور توریت اور انجیل ۔ اور جب تو بناتا مٹی سے ، جانور کی صورت میرے حکم سے ، پھر دم مارتا اس میں ، تو ہو جاتا جانور میرے حکم سے ، اور چنگا کرتا ماں کے پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو ، میرے حکم سے ۔ اور جب نکال کھرے کرتا مردے ، میرے حکم سے ۔ اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے ، جب تو لایا ان پاس نشانیاں ، تو کہنے لگے جو کافر تھے ان میں، اور کچھ نہیں یہ جادو ہے صریح۔۱۱۱۔اور جب میں نے دل میں ڈالا حواریوں کے ، کہ یقین لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر ۔ بولے ہم یقین لائے ، اور تو گواہ رہ ، کہ ہم حکمبردار ہیں۔ ۱۱۲۔جب کہا حواریوں نے ، اے عیسیٰ مریم کے بیٹے ، تیرے رب سے ہو سکے ، کہ اتارے ہم پر خوان بھرا آسمان سے ؟ بولا ڈرو اللہ سے ، اگر تم کو یقین ہے ۔ ۱۱۳۔بولے ہم چاہتے ہیں ، کہ کھاویں اس میں سے ، اور چین پاویں ہمارے دل ، اور ہم جانیں کہ تو نے ہم کو سچ بتایا،اور رہیں ہم اس پر گواہ ۔ ۱۱۴۔بولا عیسیٰ مریم کا بیٹا ، اے اللہ رب ہمارے ! اتار ہم پر خوان بھرا آسمان سے ، کہ وہ دن عید رہے ہمارے پہلوں اور پچھلوں کو ، اور نشانی تیری طرف سے ۔ اور روزی دے ہم کو ، اور تو ہے بہتر رزق دینے والا۔ ۱۱۵۔کہا اللہ نے میں اتاروں گا وہ خوان تم پر ۔ پھر جو کوئی تم میں نا شکری کرے اس پیچھے ، تو میں اس کو وہ عذاب کروں گا ، جو نہ کروں گا کسی کو جہان میں۔ ۱۱۶۔اور جب کہے گا اللہ ، اے عیسیٰ مریم کے بیٹے ! تو نے کہا لوگوں کو ؟ کہ ٹھہراؤ مجھ کو اور میری ماں کو ، دو معبود سوائے اللہ کے ۔ بولا تو پاک ہے ، مجھ کو نہیں بن آتا ، کہ کہوں جو مجھ کو نہیں پہنچتا ۔ اگر میں نے یہ کہا ہو گا ، تو تجھ کو معلوم ہو گا ۔ تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے ، اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے ۔ برحق تو ہی ہے جانتا چھپی بات ۔ ۱۱۷۔میں نے نہیں کہا ان کو ، مگر جو تو نے حکم کیا، کہ بندگی کرو اللہ کی ، جو رب ہے میرا اور تمہارا ۔ اور میں ان سے خخبردار تھا ، جب تک ان میں رہا۔ پھ رجب تو نے مجھے بھر لیا، تو تو ہی تھا خبر رکھتا ان کی ۔ اور تو ہر چیز سے خبردار ہے ۔ ۱۱۸۔اگر تو ان کو عذاب کرے ، تو وہ بندے تیرے ہیں ۔ اور اگر ان کو معاف کرے ، تو تو ہی ہے زبردست حکمت والا۔ ۱۱۹۔فرمایا اللہ نے ، یہ وہ دن ہے ، کہ کام آویگا سچوں کو ان کا سچ ۔ ان کو بیں باغ ، جن کے نیچے بہتی نہریں، رہا کریں ان میں ہمیشہ ۔ اللہ راضی ہوا ان سے ، اور وہ راضی ہوئے اس سے یہی ہے بڑی مراد ملنی ۔۱۲۰۔اللہ کو سلطنت ہے آسمان اور زمین کی ، اور جو ان کے بیچ ہے ۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (شاہ عبدالقادرؒ)
۲۔۸۷۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ، ان میں لذیذ چیزوں کو حرام مت کر و اور حدود سے آگے مت نکلو۔ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے ۔ ۸۸۔اور خدا تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ ۸۹۔اللہ تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں فرماتے تمہاری قسموں میں لغو قسم پر ، لیکن مواخذہ اس پر فرماتے ہیں کہ تم قسموں کو مستحکم کر دو سو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو ، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا ایک لونڈی آزاد کرانا، اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو ، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتے ہیں تا کہ تم شکر کرو۔ ۹۰۔اے ایمان والوً بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ او ر قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ، سو ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم کو فلاح ہو۔ ۹۱۔شیطان تو یاں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آؤ گے۔ ۹۲۔اور تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو اور اگر اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا تھا۔ ۹۳۔ایسے لوگوں پر جو کہ ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے پیتے ہوں جب کہ وہ لوگ پرہیز رکھتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر پرہیز کرنے لگتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں پھر پرہیز کرنے لگتے ہوں اور خوب نیک عمل کرتے ہوں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں سے محبت رکھتے ہیں۔ ۹۴۔اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے تا کہ اللہ تعالیٰ معلوم کر لے کہ کون شخص اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے ، سو جو شخص اس کے بعد حد سے نکلے گا اس کے واسطے دردناک سزا ہے ۔ ۹۵۔اے ایمان والو! وحشی شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو ، اور جو شخص تم میں اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر پاداش واجب ہو گی جو کہ مساوی ہو گی اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں (خواہ وہ پاداش خاص چوپایوں سے ہو بشرطیکہ) نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچائی جائے اور خواہ کفارہ مسکینوں کو دے دیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لیے جاویں تا کہ اپنے کیے کی شامت کا مزہ چکھے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف کر دیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ تعالیٰ انتقام لیں گے اور اللہ تعالیٰ زبردست میں انتقام لے سکتے ہیں۔
۹۶۔تمہارے لیے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے ، تمہارے انتفاع کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے جب تک تم حالت احرام میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس جمع کیے جاؤ گے ۔ ۹۷۔خدا تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا، اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے یہ اس لیے تا کہ تم اس بات کا یقین کر لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم رکھتے ہیں اور بیشک اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو خوب جانتے ہیں۔ ۹۸۔تم یقین جان لو کہ اللہ تعالیٰ نےء سزا بھی سخت دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والے بھی ہیں۔ ۹۹۔رسول کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ سب جانتے ہیں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہو۔ ۱۰۰۔آپ فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو تجھ کو ناپاک کی کثرت تعجب میں ڈالتی ہو تو خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقلمندو! تا کہ تم کامیاب ہو۔ ۱۰۱۔اے ایمان والو ! ایسی فضول باتیں مت پوچھو ، کہ اگر تم سے ظاہر کر دی جائیں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہو اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو تو تم سے ظاہر کر دی جاویں ، سوالات گزشتہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے ہیں بڑی علم والے ہیں۔۱۰۲۔ایسی باتیں تم سے پہلے اور لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر ان باتوں کا حق نہ بجا لائے ۔ ۱۰۳۔اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حامی کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے ۔ ۱۰۴۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں۔
۱۰۵۔اے ایمان والو! اپنی فکرکرو جب تم راہ پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو جتلا دیں گے جو جو تم سب کیا کرتے تھے ۔ ۱۰۶۔اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخصوں کا وصی ہونا مناسب ہے جب کہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے جب وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں اور تم میں سے ہوں یا غیر قوم کے دوشخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو پھر تم پر واقعہ موت کا پڑ جاوے اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز روک لو پھر دونوں خدا کی قسم کھا ویں کہ ہم اس قسم کے عوض کونفع نہیں لینا چاہتے اگرچہ کوئی قرابت دار بھی ہوتا اور اللہ کی بات کو ہم پوشیدہ نہ کریں گے ہم اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے۔۱۰۷۔پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں وصی کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جب سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں خدا کی قسمیں کھاویں کہ بالیقین ہماری یہ قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا ہم اس حالت میں سخت ظاہم ہوں گے ۔ ۱۰۸۔یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کردیں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں متوجہ کی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سنو اور اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہ کریں گے۔ ۱۰۹۔جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو (مع ان کی امتوں کے ) جمع کریں گے پھر ارشاد فرمائیں گے کہ تم کو (ان امتوں کی طرف سے) کیا جواب ملا تھا ۔ وہ عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے لیکن ان کے دل کی ) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کو پورے جاننے والے ہیں۔ ۱۱۰۔جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ ابن مریم میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے جبکہ میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی تم آدمیوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتابیں اور سمجھ کی باتیں ا ور توریت اور انجیل کی تعلیم کیں اور جب کہ تم گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندہ کی شکل ہوتی ہے میرے حکم سے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادر زاد (اندھے کو اور برص کے بیمار کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے (یعنی تمہارے قتل و ہلاک سے ) باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ بجز کھلے جادو کے اور کچھ بھی نہیں ۔ ۱۱۱۔اور جب کہ میں نے حواریین کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور آپ شاید رہیے کہ ہم پورے فرمانبردار ہیں۔ ۱۱۲۔وہ وقت قابل یاد ہے جب کہ حواریین نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا آپ کے رب ایسا کر سکتے ہیں کہ ہم پر آسمان سے کچھ نازل فرمائیں آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو اگر تم ایماندار ہو۔ ۱۱۳۔وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور ہمارا یہ یقین اور بڑھ جائے کہ آپ نے ہم سے سچ بولا ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جاویں۔ ۱۱۴۔عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرمائیے کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد ہیں سب کے لیے ایک خوشی کی بات ہو جائے اور آپ کی طرف سے ایک نشان ہو جاوے ۔ اور آپ ہم کو عطا فرمائیے اور آپ سب عطا کرنے والوں سے اچھے ہیں۔ ۱۱۵۔حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا ، تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا۔ ۱۱۶۔اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرما ویں گے کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ خدا کے معبود قرار دے لو ۔ عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ (توبہ توبہ) میں تو آپ کو (شریک سے ) منزہ سمجھتا ہوں مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ا یسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہو گا تو آپ کو اس کا علم ہو گا آپ تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتے ہیں اور میں آپ کے علم میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا تمام غیبوں کے جاننے والے آپ ہیں۔ ۱۱۷۔میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو آپ نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر مطلع رہا، جب تک ان میں رہا، پھر جب آپ نے مجھ کو اٹھا لیا تو آپ ان پر مطلع رہے اور آپ ہر چیز کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ ۱۱۸۔اگرآپ ان کو سزا دیں گے تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرما دیں تو آپ زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔ ۱۱۹۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماویں گے کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آوے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور خوش ہیں یہ بڑی بھاری کامیابی ہے ۔ ۱۲۰۔اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ (مولاناتھانویؒ)
۳۔۸۷۔ اے ایمان والو ، حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں ، اور حد سے نہ بڑھو ۔ بے شک حد سے بڑھنے والے اللہ کو نا پسند ہیں۔ ۸۸۔اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے ۔ ۸۹۔اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ، ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا ، تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا ، اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے ، یا انہیں کپڑے دینا، یا ایک بردہ آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے ، یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا جب قسم کھاؤ ، اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ، اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم احسان مانو۔ ۹۰۔اے ایمان والو ، شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے نچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔ ۹۱۔شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے ، تو کیا تم باز آئے ۔ ۹۲۔اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ہو شیار رہو پھر اگر تم پھر جاؤ ، تو جان لو کہ ہمارے رسول کا ذمہ صرف واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے ۔ ۹۳۔جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان پر کچھ گناہ نہیں، جو کچھ انہوں نے چکھا جب کہ ڈریں اور ایمان رکھیں اور نیکیاں کریں پھر ڈریں اور ایمان رکھیں پھر ڈریں اور نیک رہیں اور اللہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ۹۴۔اے ایمان والو! ضرور اللہ تمہیں آزمائے گا ایسے بعض شکار سے جس تک تمہارا ہاتھ اور نیزے پہنچیں ، کہ اللہ پہچان کرا دے ان کی جو اس سے بن دیکھے ڈرتے ہیں پھر اس کے بعد جو حد سے بڑھے ، اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔۹۵۔اے ایمان والو شکار نہ مارو جب تم احرام میں ہو ، اور تم میں جو اسے قصداً قتل کر ے ، تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ ویسا ہی جانور مویشی سے دو ، تم میں کو دو ثقہ آدمی اس کا حکم کریں ، یہ قربانی ہو کعبہ کو پہنچتی ، یا کفارہ دے چند مسکینوں کا کھانا، اس کے برابر روزے کہ اپنے کام کا وبال چکھے اللہ نے معاف کیا جو ہو گزرا ، اور جو اب کرے گا اللہ اس سے بدلہ لے گا اور اللہ غالب ہے بدلہ لینے والا۔ ۹۶۔حلال ہے تمہارے لیے دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدے کو اور تم پر حرام ہے خشکی کا شکار ، جب تک تم احرام میں ہو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اٹھنا ہے ۔ ۹۷۔اللہ نے ادب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا باعث کیا ، اور حرمت والے مہینہ ، اور حرم کی قربانی اور گلے میں علامت آویزاں جانوروں کو ، یہ ا س لیے کہ تم یقین کرو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور یہ کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ ۹۸۔جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے ، اور اللہ بخشنے والا مہربان۔۹۹۔رسول پر نہیں مگر حکم پہنچانا ، اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔ ۱۰۰۔تم فرما دو کہ گندہ اور ستھرا برابر نہیں، اگرچہ تجھے گندے کی کثر ت بھائے تو اللہ سے ڈرتے رہو ، اے عقل والو کہ تم فلاح پاؤ۔
۱۰۱۔اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پو چھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں، اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ انہیں معاف کر چکا ہے ، اور اللہ بخشنے والا علم والا ہے۔ ۱۰۲۔تم سے اگلی ایک قوم نے انہیں پو چھا ، پھر ان سے منکر ہو بیٹھے۔
۱۰۳۔اللہ نے مقرر نہیں کیا ہے کان چرا ہوا اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی ، ہاں کافر لوگ اللہ پر جھوٹا افترا باندھتے ہیں، اور ان میں اکثر نرے بے عقل ہیں۔ ۱۰۴۔اور جب ان سے کہا جائے آؤ اس طرف جو اللہ نے اتارا اور رسول کی طرف، کہیں ہمیں وہ بہت ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانیں نہ راہ پر ہوں۔ ۱۰۵۔اے ایمان والو! تم اپنی فکر رکھو تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم راہ پر ہو ، تم سب کی رجوع اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو تم کرتے تھے ۔ ۱۰۶۔اے ایمان والو! تمہاری آپس کی گواہی جب تم میں کسی کو موت آئے ، وصیت کرتے وقت تم میں کے دو معتبر شخص ہیں یا غیروں میں کے دو جب تم ملک میں سفر کو جاؤ پھر تمہیں موت کا حادثہ پہنچے ان دونوں کو نماز کے بعد روکو ، وہ اللہ کی قسم کھائیں اگر تمہیں کچھ شک پڑے ، ہم حلف کے بدلے کچھ مال نہ خریدیں گے ، اگرچہ قریب کا رشتہ دارہو اور اللہ کی گواہی نہ چھپائیں گے ایسا کریں تو ہم ضرور گنہگاروں میں ہیں۔ ۱۰۷۔پھر اگر پتہ چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے ، تو ان کی جگہ دو اور کھڑے ہوں ان میں سے کہ اس گناہ یعنی جھوٹی گواہی نے ان کا حق لے کر ان کو نقصان پہنچایا ، جو میت سے زیادہ قریب ہوں تو اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی زیادہ ٹھیک ہے ان دو کی گواہی سے اور ہم حد سے نہ بڑھے ، ایسا ہو تو ہم ظالموں میں ہوں۔ ۱۰۸۔یہ قریب تر ہے اس سے کہ گواہی جیسی چاہیے ادا کریں یا ڈریں کہ کچھ قسمیں رد کر دی جائیں ان کی قسموں کے بعد ، اور اللہ سے ڈرو اور حکم سنو اور اللہ بے حکموں کو راہ نہیں دیتا۔۱۰۹۔جس دن اللہ جمع فرمائے گا رسولوں کو ، پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا، عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں بے شک تو ہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا۔ ۱۱۰۔جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ یاد کر میرا احسان اپنے اوپر اور اپنی ماں پر ، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی ، تو لوگوں سے باتیں کرتا پالنے میں ، اور پکی عمر ہو کر ، اور جب میں نے تجھے سکھائی کتاب اور حکمت ، اور توریت اور انجیل اور جب تو مٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتی ، اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا ، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا ، جب تو ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آیا تو ان میں کے کافر بولے کہ یہ ، تو نہیں مگر کھلا جادو۔ ۱۱۱۔اور جب میں نے حواریوں ، کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ، ایمان لاؤ بولے ہم ایمان لائے اور گواہ رہے کہ ہم مسلمان ہیں۔۱۱۲۔جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اتارے ، کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔۱۱۳۔بولے ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل ٹھہریں ، اور ہم آنکھوں دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا، اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں۔۱۱۴۔عیسیٰ بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ، ہمارے اگلے پچھلوں کی ، اور تیری طرف سے نشانی ، اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتری روزی دینے والا ہے۔ ۱۱۵۔اللہ نے فرمایا کہ میں اسے تم پر اتارتا ہوں پھر اب جو تم میں کفر کرے گا ، تو بے شک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔ ۱۱۶۔اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنا لو اللہ کے سوا ، عرض کرے گا پاکی ہے تجھے ، مجھے روا نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے نہیں پہنچتی ، اگر میں نے ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہو گا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے بے شک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔۱۱۷۔میں نے تو ان سے نہ کہا مگر وہی جو تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کو پوجو جو میرا بھی رب اور تمہارا بھی رب اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا ، تو تو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا اور ہر چیز تیرے سامنے حاضرہے۔ ۱۱۸۔اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔۱۱۹۔اللہ نے فرمایا کہ یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ، ان کا سچ کام آئے گا ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ ہے بڑی کامیابی ۔۱۲۰۔اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کی سلطنت اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔(مولانااحمد رضا خانؒ)
۴۔۸۷۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حدود سے آگے مت نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ۸۸۔اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ ۸۹۔اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو۔اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تا کہ تم شکر کرو۔ ۹۰۔اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح یاب ہو۔ ۹۱۔شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شرفاب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر ا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آ جاؤ ۔ ۹۲۔اور تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو ۔ اگر اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ ۹۳۔ایسے لوگوں پر جو کہ ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے پیتے ہوں جب کہ وہ لوگ تقویٰ رکھتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر پرہیز گاری کرتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں پھر پرہیز کرتے ہوں ا ور خوب نیک عمل کرتے ہوں اللہ ایسے نیکو کاروں سے محبت رکھتا ہے۔ ۹۴۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے تا کہ اللہ تعالیٰ معلوم کر لے کہ کون شخص ا سسے بن دیکھے ڈرتا ہے سو جو شخص اس کے بعد حد سے نکلے گا اس کے واسطے درد ناک سزا ہے ۔ ۹۵۔اے ایمان والو! وحشی شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو ۔ اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہو گا جو کہ مساوی ہو گا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کر دیں ، خواہ وہ فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے اور خواہ کفارہ مساکین کو دے دیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لیے جائیں ، تا کہ اپنے کیے کی شامت کا مزہ چکھے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف رک دیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ انتقام لے گا اور اللہ زبردست ہے انتقام لینے والا۔ ۹۶۔تمہارے لیے وریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔ تمہارے انتفاع کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے ، جب تک تم حالت احرام میں رہواور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس جمع کیے جاؤ گے۔ ۹۷۔اللہ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا اور عزت والے مہینہ کو بھی اور حرم میں قربانی ہو نے والے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے ہوں ، یہ اس لیے تا کہ تم اس بات کا یقین کر لو کہ بیشک اللہ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم رکھتا ہے اور بیشک اللہ سب چیزوں کو خوب جانتا ہے۔ ۹۸۔تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے ۔ ۹۹۔رسول کے ذمہ تو صرف پہنچا تا ہے اور اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہو۔ ۱۰۰۔آپ فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو ، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو ، اے عقل مندو! تا کہ تم کامیاب ہو ۔
۱۰۱۔اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہوں اور اگرتم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی ۔ سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے ۔ ۱۰۲۔ایسی باتیں تم سے پہلے اور لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر ان باتوں کا حق نہ بجا لائے۔۱۰۳۔اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو ، لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے ۔ ۱۰۴۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں۔ ۱۰۵۔اے ایمان والو! اپنی فکر کرو ، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا وے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے ۔ ۱۰۶۔اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا وصی (گواہ) ہونا مناسب ہے جب کہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں اور تم میں سے ہوں یا غیر قوم کے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو پھر تم پر واقعہ موت کا پڑ جائے ، اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز روک لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہتے ، اگرچہ کوئی قرابت دار بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بات کو ہم پوشیدہ نہ کریں گے ہم اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے ۔ ۱۰۷۔پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں وصی کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بایقین ہماری یہ قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا ہم اس حالت میں سخت ظالم ہوں گے ۔
۱۰۸۔یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سنو ! اور اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ ۱۰۹۔جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو جمع کرے گا ، پھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھاوہ عرض کریں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تو بے شک پوشیدہ باتوں کو پورا جاننے والا ہے ۔۱۱۰۔جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرما ئے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے ، جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی ۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندہ کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے اور زاد اندھے کو اور برص کے بیمار کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔ ۱۱۱۔اور جب کہ میں نے حوارتین کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور آپ شاہد رہیے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں۔ ۱۱۲۔وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حوارتین نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے کچھ کھانا نازل فرما دے ، آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو ۔ ۱۱۳۔وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور ہمارا یہ یقین اور بڑھ جائے کہ آپ نے ہم سے سچ بولا ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں۔ ۱۱۴۔عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما : کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد ہیں سب کے لیے ایک خوشی کی بات ہو جائے اور تیری طرف سے ایک نشان ہو جائے اور تو ہم کو رزق عطا فرما دے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے ۔ ۱۱۵۔حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا۔ ۱۱۶۔اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو: عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا ، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا ، تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے ۔ ۱۱۷۔میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ۔ میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا ۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا ۔ اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے ۔ ۱۱۸۔اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے ۔ ۱۱۹۔اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے ۔۱۲۰۔اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (مولاناجوناگڑھیؒ)
۵۔ جو کچھ حلال و طیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیو اور اس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔ (۸۷) تم لوگ جو مہمل قسمیں کھا لیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا ) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو ، یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو۔ (۸۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے او رپانسے ، یہ سب گندے شیطانے کام ہیں ، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ (۹۰) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ (۹۱)اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو اور باز آجاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔ (۹۲)جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی بشرطیکہ وہ آئندہ ان چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں ، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الہی ہو اُسے مانیں ، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ اختیار کریں ۔ اللہ نیک کرداروں کو پسند کرتا ہے۔ (۹۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کو ن اس سے غائبانہ ڈرتا ہے ، پھر جس نے اس تنبیہہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اُس کے لیے دردناک سزا ہے۔ (۹۴)اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اِحرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں دو عادل آدمی کریں گے ، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا ، یا نہیں اِس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا ، یا اس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے ، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا ، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا ، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ (۹۵)تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ، جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اُسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو۔ البتہ خشکی کا شکار ، جب تک تم احرام کی حالت میں ، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اُس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا ۔ (۹۶)اللہ نے مکانِ مُحترم ، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اِس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ (۹۷)خبردار ہو جاؤ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ (۹۸)رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا اللہ ہے۔ (۹۹)اے پیغمبرؐ ! اِن سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنہ ہی فریفتہ کرنے والی ہو ، پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو ، اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو ، اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ (۱۰۰)اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ، لیکن اگر تم نے انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا ، وہ درگزر کرنے والا اور بُرد بار ہے۔ (۱۰۱)تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے ، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہو گئے۔ (۱۰۲)اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام۔ مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (کہ ایسے وہمیات کو مان رہے ہیں)۔ (۱۰۳)اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبرؐ کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟ (۱۰۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (۱۰۵)اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں ، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں ۔ پھر اگر کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں ) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ‘‘ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ( ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں ، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہگاروں میں شمار ہوں گے۔’’ (۱۰۶)لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو او رشخص جو ان کی نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو ، اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ‘‘ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے ، اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں سے ہوں گے۔’’(۱۰۷) اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے ، یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے۔ اللہ سے ڈرو اور سنو، اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔ (۱۰۸)جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں۔ (۱۰۹)پھر تصور کرو اس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ ‘‘ اے مریم کے بیٹے عیسی! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی ، میں نے روح پاک سے تیری مدد کی ، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھے ، میں نے تجھ کو کتاب او رحکمت اور توارت اور انجیل کی تعلیم دی، تو میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا ، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا ، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا ، پھر جب تو بن اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا او رکچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے ان سے بچایا۔ (۱۱۰)اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں۔’’ (۱۱۱) (حواریوں کے سلسلہ میں ) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا اے عیسی ابن مریم! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ؟ تو عیسی نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (۱۱۲) انہوں نے کہا ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اس پر گواہ ہوں۔ (۱۱۳) اس پر عیسی ابن مریم نے دعا کی ‘‘خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو ، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رزاق ہے۔’’ (۱۱۴) اللہ نے جواب دیا ‘‘میں اس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں ، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہو گی۔’’ (۱۱۵) غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر ) اللہ فرمائے گا کہ ‘‘اے عیسی ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سِوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟’’ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ ‘‘سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ’’ اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا ، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے ، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں۔ (۱۱۶) میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا ، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ میں اسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا۔ جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں۔ (۱۱۷) اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب او ردانا ہیں۔’’ (۱۱۸) تب اللہ فرمائے گا ‘‘یہ وہ دن ہی جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے ، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے ، یہی بڑی کامیابی ہے۔’’ (۱۱۹) زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (۱۲۰) (مولانا مودودیؒ)
۶۔اے ایمان والو ،ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ جو خدا نے تمھارے لیے جائز کی ہیں اور نہ حدود سے تجاوز کرو ۔اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔(۸۷)خدا نے تمھیں جو حلال و طیب چیز یں بخشی ہیں ان کو برتو اور اس سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو ۔(۸۸)تمھاری قسموں میں جو غیر ارادی ہیں ان پر تو اللہ تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قسموں کو تم نے پختہ کیا ہے ان پر مواخذہ کرے گا ۔سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ۔اس معیار کو جو تم عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے ۔جو اس کی مقدرت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھ دے ۔یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے ۔جب کہ تم قسم کھا بیٹھو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ۔اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنے احکام کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اس کے شکر گزار ہو ۔(۸۹)اے ایمان والو ،شراب ،جوا ،تھان اور پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں تو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(۹۰)شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو بتاؤ کے اب تم ان سے باز آتے ہو (۹۱)اور اللہ کی اطاعت کرو ،رسول کی اطاعت کرو اور بچتے رہو ۔اگر تم اعراض کرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف واضح طور پر پہنچا دیناہے ۔(۹۲)ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں پر اس چیز کے باب میں کوئی گناہ نہیں جو انھوں نے کھائی جب کہ انھوں نے تقویٰ اختیار کیا ،ایمان لائے اور عمل صالح کیا ،پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے ،پھر تقویٰ اختیار کیا اور خوبی کے ساتھ اس کا حق ادا کیا اور اللہ خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے ۔(۹۳) اے ایمان والو !اللہ تمھاری کسی ایسے شکار سے آزمائش کرے گا جو تمھارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں آجائے گا تاکہ اللہ دیکھے کہ کون اس سے غیب میں ڈرتا ہے اور جس نے اس کے بعد حدود سے تجاوز کیا تو اس کے لیے ایک درد ناک عذاب ہے ۔(۹۴)اے ایمان والو! حالت احرام میں شکار نہ کیجئیو ،اور جو تم میں سے اس کو قصداً مارے گا تو اس کا بدلہ اسی طرح کا جانور ہے جیسا کہ اس نے مارا ہے ،جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر کریں گے ۔یہ نیاز کی حیثیت سے خانہ کعبہ کو پہنچایا جائے یا کفارہ دینا ہوگا ۔مسکینوں کو کھانا یا اسی کے برابر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے۔جو ہو چکا اللہ نے اس سے درگزر کیا ۔لیکن جو کوئی پھرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والاہے ۔(۹۵)اور تمھارے لیے دریا کا شکار اور اس کا کھانا جائز کیا گیا ،تمھارے اور قافلوں کے زادراہ کے لیے ۔اور خشکی کا شکار جب تک تم احرام میں ہو ،تم پر حرام کیا گیا ہے ۔اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں سب حاضر کیے جاؤ گے ۔(۹۶)اللہ نے کعبہ ،حرمت والے گھر کو،لوگوں کے لیے مرکز بنایا اور حرمت کے مہینوں ،قربانی کے جانوروں اورگلے میں پٹے پڑے جانوروں کو شعیرہ ٹھہرایا ۔یہ اس لیے کہ تم جانو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔(۹۷)جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا اور مہر بان بھی ۔(۹۸)رسول پر صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ،اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو ۔(۹۹)کہہ دو کہ ناپاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہو سکتے ۔اگرچہ ناپاک کی کثرت تمھیں فریفتہ کرنے والی ہو ،پس اللہ سے ڈرتے رہو اے اہل عقل تاکہ تم فلاح پاؤ ۔(۱۰۰) اے ایمان والو! ایسی باتوں سے متعلق سوال نہ کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں گراں گزریں اور اگر تم ا ن کی بابت ایسے زمانے میں سوال کرو گے جب قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی ۔اللہ نے ان سے درگزر فرمایا اللہ بخشنے والا اور بردبار ہے ۔(۱۰۱)اسی طرح کی باتیں تم سے پہلے ایک قوم نے پوچھیں تو وہ ان کے منکر ہو کے رہ گئے ۔(۱۰۲)اللہ نے تو نہ بحیرہ مشروع کیا ،نہ سائبہ ،نہ وصیلہ ،نہ حام ۔جنھوں نے کفر کیا ہے وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان میں سے اکثر سمجھ سے عاری ہیں ۔(۱۰۳)اور جب ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف آؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔کیا اس صورت میں بھی جب کہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے رہے ہوں نہ ہدایت پر رہے ہوں ؟(۱۰۴)اے ایمان والو !تم اپنی فکر رکھو ،اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہو ا وہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑے گا ۔اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے ،وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو ۔(۱۰۵)اے ایمان والو ،تمھارے درمیان گواہی بوقت وصیت جب کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچا ہو اس طرح ہے کہ دو معتبر آدمی تم میں سے گوا ہ ہوں ۔یا دو دوسرے تمھارے غیروں میں سے اگر تم سفر میں ہو اور وہیں تمھیں موت کی مصیبت آپہنچے ۔تم ان کو نماز کے بعد روک لو ۔پس وہ اللہ کی قسم کھائیں ۔اگر تمھیں شک ہو کہ ہم اس کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہیں کریں گے اگرچہ کوئی قرابت دارہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے ۔اگر ہم ایسا کریں تو بے شک ہم گنہگار ٹھہریں ۔(۱۰۶)پس اگر پتہ چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دوسرے دو ان میں سے کھڑے ہوں جن کی مقدم گواہوں نے حق تلفی کی ہے پس وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ راست ہے اور ہم نے کوئی تجاوز نہیں کیا ہے ،اگر ہم نے ایسا کیا ہے تو ہم ظالم ٹھہریں ۔(۱۰۷)یہ طریقہ اس امر کے قرین ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ان کی گواہی کے بعد ان کی گواہی رد ہو جائے گی اور اللہ سے ڈرو اور سنو ۔اللہ نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کرتا ۔(۱۰۸)اس دن کو یاد رکھو جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا پھر پوچھے گا کہ تمھیں کیا جواب ملا ؟وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں ،غیب کی باتوں کا جاننے والا تو بس تو ہی ہے ۔(۱۰۹)جب کہ اللہ کہے گا ،اے عیسیٰ ابن مریم !میرے اس فضل کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کیا ۔جب کہ میں نے روح القدس سے تمھاری تائید کی ۔تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گہوارے میں بھی اور ادھیڑ ہو کر بھی ۔اور یاد کرو جب کہ میں نے تمھیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی ۔اور یاد کرو جب کہ تم مٹی سے ایک صورت پرندے کی صورت کی مانند میرے حکم سے بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے ۔اور یاد کرو جب کہ تم مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتے تھے ۔اور یاد کرو جب کہ بنی اسرائیل کے شرکو میں نے تم سے دور رکھا جب کہ تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو ان کے کافروں نے کہا کہ یہ تو بس صریح جادو ہے ۔(۱۱۰)اور یاد کرو جب کہ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو وہ بولے کہ ہم ایمان لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔ (۱۱۱) یاد کرو جب کہ حواریوں نے کہا کہ اے عیسی ابن مریم کیا تمہارا رب یہ کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اتارے ۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم سچے مومن ہو۔ (۱۱۲) وہ بولے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہم یہ جان لیں کہ تو نے سچ کہا اور ہم اس کی گواہی دینے والے بنیں۔ (۱۱۳) عیسی ابن مریم نے دعا کی ، اے اللہ ، ہمارے پروردگار ، تو ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار جو ہمارے لیے ایک یادگار بن جائے ، ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے اور تیری طرف سے ایک نشانی ٹھہرے ۔ عطا فرما تو بہترین عطا فرمانے والا ہے۔ (۱۱۴) اللہ نے فرمایا ، میں یہ خوان ضرور تم پر اتاروں گا لیکن اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا تو میں اس کو سزا بھی وہ دوں گا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا۔ (۱۱۵) اور یاد کرو جب کہ اللہ پوچھے گا کہ اے عیسی ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ ۔ وہ جواب دے گا تو پاک ہے ، میرے لیے کیسے روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ کہی تو تو اسے جانتا ہے ۔ تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے ، پر میں نہیں جانتا جوتیرے دل میں ہے ۔ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو بس تو ہی ہے۔ (۱۱۶) میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ۔ اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران رہا اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے ہی۔ (۱۱۷) اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے۔ (۱۱۸) اللہ فرمائے گا آج سچوں کو ان کی سچائی کے نفع پہنچانے کا دن ہے۔ ان کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ (۱۱۹) آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (۱۲۰) (مولانا امین احسن اصلاحیؒ)
۷۔ ایمان والو، جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمھارے لیے جائز کی ہیں، اُنھیں حرام نہ ٹھیراؤ اور نہ حدود سے تجاوز کرو۔ اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (۸۷) و حلال و طیب چیزیں اللہ نے تمھیں بخشی ہیں، اُنھیں کھاؤ پیو اور (اپنے) اُس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان لائے ہو۔(۸۸) (تم میں سے بعض لوگ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں، سو جان لو کہ) اللہ تمھاری اُن قسموں پر کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو، لیکن جو قسمیں دل کے پختہ ارادے سے کھاتے ہو، اُن پر ضرور مواخذہ کرے گا۔ (سو اِس طرح کی قسم اگر توڑ دی جائے) تو اُس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اُس معیار کا کھانا کھلایا جائے جو تم عام طور پر اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا اُنھیں پہننے کے کپڑے دیے جائیں یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔ پھر جسے یہ میسر نہ ہو، اُس کے لیے تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھا بیٹھتے ہو۔ (اِسے ادا کرو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اللہ اِسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اُس کے شکر گزار رہو۔ (۸۹) ۲۔ ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، سب گندے شیطانی کام ہیں، سو اِن سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(۹۰) شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوے میں لگا کر تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا (اِن چیزوں سے) باز آتے ہو؟(۹۱) (اِن سے باز آ جاؤ) اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے) بچتے رہو۔ لیکن (ہماری اِس ہدایت سے) منہ موڑو گے تو جان لو کہ ہمارے پیغمبر پر تو اِس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ وضاحت کے ساتھ پہنچا دے۔ (۹۲) (تم میں سے) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اچھے عمل کرنے لگے ہیں، اُنھوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا، اُس پر کوئی گناہ نہیں ہے، جب کہ اُنھوں نے تقویٰ اختیار کیا، ایمان لائے اور اچھا عمل کرتے رہے، پھر مزید یہ کہ تقویٰ اختیار کیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے، پھر یہی نہیں، تقویٰ اختیار کیا اور (خدا کے ہر حکم پر) خوبی کے ساتھ عمل پیرا ہوئے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ خوبی کا رویہ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (۹۳) ۳۔ ایمان والو، اللہ کسی ایسے شکار کے ذریعے سے تمھیں آزمایش میں ڈالے گا جو تمھارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا تاکہ اللہ دیکھ لے کہ تم میں سے کون بن دیکھے اُس سے ڈرتا ہے (اور کون نہیں ڈرتا)۔ پھر جس نے اِس تنبیہ کے بعد بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کیا، اُس کے لیے ایک درد ناک سزا ہے۔(۹۴) ایمان والو، احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ (یہ ممنوع ہے)، اور (یاد رکھو کہ)تم میں سے جس نے جانتے بوجھتے اُسے مارا، اُس کا بدلہ (تمھارے مواشی میں سے) اُسی کے ہم پلہ کوئی جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ یہ نیاز کی حیثیت سے کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارے میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا اِسی کے برابر روزے رکھنا ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔ اِس سے پہلے جو کچھ ہو چکا، اُسے اللہ نے معاف کر دیا ہے، لیکن اب اگر کسی نے اُسے دہرایا تو اللہ اُس سے بدلہ لے گا۔ اللہ زبردست ہے، وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔(۹۵) مھارے لیے دریا کا شکار اور اُس کا کھانا جائز ہے، تمھارے اور تمھارے قافلوں کے زادراہ کے لیے۔ جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، خشکی کا شکار، البتہ حرام کیا گیا ہے۔ (اِس کے قریب نہ جاؤ) اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں تم سب حاضر کیے جاؤ گے۔(۹۶)
اللہ نے حرمت والے گھر، کعبہ کو لوگوں کے لیے مرکز بنایا ہے اور حرمت کے مہینوں، قربانی کے جانوروں اور اُن سب جانوروں کو شعیرہ ٹھیرا دیا ہے جن کے گلے میں (نذر کی علامت کے طور پر) پٹے ڈال دیے گئے ہوں۔ یہ اِس لیے (شعیرہ ٹھیرائے گئے ہیں) کہ تم پر واضح رہے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔(۹۷) خبردار ہو جاؤ، اللہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔(۹۸) پیغمبر پر تو صرف پہنچا دینے کی ذ مہ داری ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ چھپاتے ہو۔(۹۹) کہہ دو کہ پاک اور ناپاک، دونوں یکساں نہیں ہیں، اگرچہ ناپاک کی کثرت تمھیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ سو اللہ سے ڈرتے رہو، عقل والو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (۱۰۰) ۴۔ ایمان والو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تم پر گراں ہوں، اور ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے، تم اُنھیں پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔ (اِس وقت تو) یہ چیزیں اللہ نے معاف کر دی ہیں اور اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔(۱۰۱) تم سے پہلے ایک قوم نے اِسی طرح کی باتیں پوچھیں، پھر اُنھی کے منکر ہو کر رہ گئے تھے۔ (۱۰۲) (تمھارے سوال کا جواب یہ ہے کہ) اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ، نہ حام، مگر یہ منکرین اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اِن میں زیادہ وہ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۱۰۳) اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ اتارا ہے، اُس کی طرف آؤ اور (اللہ کے) رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی جب کہ باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں؟(۱۰۴) ایمان والو، تم اپنی فکر کرو، تم راہ ہدایت پر ہو تو کسی دوسرے کی گمراہی تمھارا کچھ نہیں بگاڑے گی۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ (۱۰۵) ۵۔ ایمان والو، تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اُس کے لیے گواہی اِس طرح ہو گی کہ تم میں سے دو ثقہ آدمی گواہ بنائے جائیں یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت آ پہنچے تو تمھارے غیروں میں سے دو گواہ لے لیے جائیں۔ (پہلی صورت میں) اگر کوئی شبہ ہو جائے تو تم اُنھیں نماز کے بعد روک لو گے، پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم اِس گواہی کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہ کریں گے، اگرچہ کوئی قرابت مند ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے۔ ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔(۱۰۶) پھر اگر پتا چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اُن کی جگہ دو دوسرے آدمی اُن لوگوں میں سے کھڑے ہوں، جن کی اِن پہلے گواہوں نے حق تلفی کی ہے۔ پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی اِن دونوں کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ ہم نے ایسا کیا تو ہم ظالموں میں سے ہوں گے۔(۱۰۷) اِس طریقے سے زیادہ توقع ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا کم سے کم اِس بات سے ڈریں کہ اُن کی گواہی دوسروں کی گواہی کے بعد رد ہو جائے گی۔ اللہ سے ڈرو اور (جو حکم دیا جائے، اُس کو) سنو۔ (ایسا نہیں کرو گے تو یہ صریح نافرمانی ہے) اور اللہ نافرمانوں کو کبھی راستہ نہیں دکھاتا۔ (۱۰۸) (اللہ کی گواہی جن لوگوں نے چھپائی ہے، وہ) اُس دن کو یاد رکھیں جب اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا، پھر پوچھے گا کہ (تمھاری امتوں کی طرف سے) تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ وہ کہیں گے: ہمیں کچھ علم نہیں، تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ (۱۰۹) جب اللہ کہے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ، میری اُس عنایت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری ماں پر کی تھی، (اُس وقت) جب میں نے روح القدس سے تمھاری مدد کی، تم گہوارے میں بھی (اپنی نبوت کا) کلام کرتے تھے اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی۔ اور یاد کرو، جب میں نے تمھیں قانون اور حکمت سکھائی، یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دی۔ اور یاد کرو، جب تم میرے حکم سے پرندے کی ایک صورت مٹی سے بناتے تھے، پھر اُس میں پھونکتے تھے اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے۔ اور یاد کرو، جب تم مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتے تھے۔ اور یاد کرو، جب میں نے بنی اسرائیل کے ہاتھ تم سے روک دیے، جب تم کھلی ہوئی نشانیاں لے کر اُن کے پاس آئے اور اُن کے منکروں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے ۔ (۱۱۰) اور یاد کرو، جب میں نے حواریوں کو ایما کیا کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ تو اُنھوں نے کہا:ہم ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ (۱۱۱) یاد کرو، جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ ابن مریم، کیا تمھارا پروردگار یہ کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (کھانے کا) ایک خوان اتارے؟ عیسیٰ نے کہا: خدا سے ڈرو، اگر تم سچے مومن ہو۔(۱۱۲) اُنھوں نے جواب دیا: ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ اِس خوان سے کھائیں اور (اِس کے نتیجے میں) ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہم یہ جان لیں کہ تونے سچ کہا اور ہم اِس پر گواہی دینے والے بن جائیں۔(۱۱۳) اِس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے اللہ، اے ہمارے پروردگار، تو ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر دے جو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک یادگار بن جائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو۔ (پروردگار)، عطا فرما اور تو بہترین عطا فرمانے والا ہے۔ (۱۱۴) اللہ نے فرمایا: میں اِس کو ضرور نازل کر دوں گا، مگر اِس کے بعد جو تم میں سے منکر ہوں گے، اُنھیں ایسی سخت سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہو گی۔(۱۱۵) اور یاد کرو، جب (یہ باتیں یاد دلا کر) اللہ پوچھے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا تم مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو۔ وہ عرض کرے گا: سبحان اللہ، یہ کس طرح روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، (اِس لیے کہ) آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور آپ کے دل کی باتیں میں نہیں جانتا۔ تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔(۱۱۶) میں نے تو اُن سے وہی با ت کہی تھی جس کا آپ نے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔(۱۱۷) اب اگر آپ اُنھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔(۱۱۸) اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی ا ن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (۱۱۹) زمین و آسمان اور اُن کے اندر تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (۱۲۰) (محترم جاویداحمد غامدی)
تفاسیر
یایھا الذین امنوا……………… انتم بہ مومنون
طیبات کی وضاحت
طیبت مآ احل اللّٰہ لکم
’’اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں ہمارے لیے حلال ٹھہرائی ہیں اگرچہ وہ سب طیبات کے حکم میں ہیں اس وجہ سے یہاں اس لفظ کے اضافہ کی بظاہر ضرورت نہیں معلوم ہوتی لیکن اس کا ایک خاص فائدہ ہے وہ یہ کہ بعض اوقات چیز تو فی الاصل جائز ہوتی ہے لیکن کسی خارجی سبب سے اس کو خباثت لاحق ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک جانور حلال ہے لیکن اس کو ذبح نہیں کیا گیا یا ذبح تو کیا گیا لیکن اس پر غیراللہ کا نام لیا گیا یا اس کو کسی تھان یا استھان کی نذر کیا گیا تو ان صورتوں میں وہ جانور جائز ہونے کے باوجود طیب و پاکیزہ نہیں رہے گا۔ اس وجہ سے وہ ناجائز قرار پائے گا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)
اعتداء کا مفہوم
‘‘لا تعتدوا یہاں لا تحرموا کا مقابل ہے، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کی جائز کردہ چیزوں میں سے طیبات کو حرام ٹھہرانا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا لینا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ ‘اعتداء’ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز ہے۔ ‘ پسند نہیں کرتا، یعنی ان سے نفرت کرتا ہے۔ لفظ ‘اعتداء’ کا یہی مفہوم آگے آیت ۹۴ میں بھی ہے۔ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)
بعض سوالوں کے جواب
‘‘ اس سورہ کے شروع میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان سے متعلق جو سوالات بعد میں پیدا ہوئے یا پیدا ہوسکتے تھے۔ اب آخر میں ان کی وضاحت کردی گئی ہے۔مثلاً یہ کہ اگر اللہ کے نام پر باندھے ہوئے عہدوپیمان کی پابندی کی اہمیت دین میں اس درجہ ہے تو کوئی شخص اگر شریعت الٰہی کے خلاف کسی چیز کو اپنے اُوپر حرام یا حلال ٹھہرانے کی قسم کھا بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے یا کوئی شخص اپنی کھائی ہوئی قسم کو توڑ دے تو اس کے باب میں کیا ہدایت ہے؟ اگر شعائر الٰہی، ہدی اور قلائد وغیرہ کی حرمت کی اس درجہ تاکید ہے تو جو جانور قدیم زمانے سے مذہبی رسوم ہی کی بنا پر محترم چلے آرہے ہیں، مثلاً بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام، ا ن کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ یہ اور ان کے علاوہ دوسرے متعدد سوالات ابتدا میں بیان کردہ احکام سے متعلق پیدا ہوئے۔ اب یہ قرآن نے ان سوالوں کو لیا ہے اور آگے کی آیات میں ان کے جواب دیے ہیں۔ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۷، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘تحریم’ کا مفہوم
‘‘سب سے پہلے یہ جامع اور اصولی بات فرمائی کہ خدا کی شریعت نے جو چیز جائز ٹھہرائی ہے اس کو نہ تو حرام قرار دو اور نہ جن چیزوں سے روکا ہے ان کو جائز بناؤ۔ ‘حرام ٹھہرانے’ سے مراد کسی شے کو اس حیثیت سے اپنے لیے یا دوسروں کے لیے ممنوع ٹھہرانا ہے کہ اس کے متعلق وہ یہ گمان یا دعویٰ کرے کہ یہ خدا کا حکم ہے، یا اس پر عذاب و ثواب مترتب ہوتا ہے یا یہ نیکی اور فضیلت میں داخل ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی بات نہ ہو بلکہ مجرد ذوق یا باقتضائے صحت یا بربنائے احتیاط و کفایت کسی چیز کا استعمال کوئی شخص ترک کر دے تو یہ چیز تحریم میں داخل نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۸، فاران فاونڈیشن لاہور)
اپنے جی سے تحریم و تحلیل حدودِ الٰہی میں مداخلت ہے
‘‘یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تحریم و تحلیل حاکمیت الٰہی کے حدود میں مداخلت اور نقضِ میثاق کا نہایت وسیع دروازہ ہے۔ یہ مداخلت جس طرح حرام کو حلال کرنے کی راہ سے ہوئی ہے اسی طرح حلال کو حرام قرار دینے کی راہ سے بھی ہوئی ہے۔ حرام کو حلال کرنے کی راہ تو زیادہ تر خواہشاتِ نفس کی تحریک سے کھلی ہے لیکن حلال کو حرام ٹھہرانے کے معاملہ میں زیادہ دخل مشرکانہ عقائد و اوہام کو رہا ہے۔ چنانچہ مشرکینِ عرب نے اپنے مشرکانہ تصورات کے تحت بہت سی چیزیں اپنے اُوپر حرام کر لی تھیں۔ آگے آیت ۱۰۳ میں بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا ذکر آ رہاہے۔ مزید تفصیل سورۂ انعام میں یوں آئی ہے:وقالوا ھذہ انعام……………… انہ حکیم علیم (۳۸-۱۳۹)
(اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں چوپائے اور فلاں فلاں قسم کی زمینی پیداوار حرام ہے، ان کو نہیں کھا سکتے، مگر وہی جن کو ہم بتائیں۔ ان کا یہ دعویٰ محض اٹکل پُچو ہے۔ اور کچھ جانور ہیں جن پر سواری حرام کر دی گئی ہے اور کچھ پر خدا کا نام نہیں لیتے، خدا پر جھوٹ باندھتے ہوئے، اللہ ان کے اس افترا کا ان کو جلد بدلہ دے گا اور وہ کہتے ہی کہ جو بچے فلاں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں وہ خاص مردوں ہی کے لیے جائز ہیں، عورتوں کے لیے وہ حرام ہیں اور اگر وہ مُردہ پیدا ہوں تو مرد اور عورت دونوں ان کو کھا سکتے ہیں، اللہ ان کے اس فتوے کی ان کو جلد سزا دے گا، وہ حکیم و علیم ہے)۔ اسی طرح یہود کے متعلق بھی قرآن میں بیان ہوا ہے کہ بہت سی چیزیں اُنھوں نے اپنے من گھڑت فتووں، اپنے لایعنی سوالات اور اپنے مشرکانہ اوہام کی بنا پر اپنے اُوپر حرام کرلیں۔ قرآن نے اس قسم کی خودمختارانہ تحریم و تحلیل کو توحید اور ایمان کے منافی قرار دیا۔ فرمایا کہ تمام حلال و طیب چیزیں جو خدا نے تمہیں بخشی ہیں ان کو کھاؤ پیو اور برتو، اپنے زمانۂ جاہلیت کے توہمات کی بنا پر ان سے احتراز نہ کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس پر ایمان لائے ہو۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۸، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘ ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو صاف طور پر اس سے روک دیا کہ وہ کسی لذیذ حلال و طیب چیز کو اپنے اُوپر عقیدۃً یا عملاً حرام ٹھیرا لیں۔ نہ صرف یہ ہی بلکہ ان کو خدا کی پیدا کی ہوئی حلال و طیب نعمتوں سے متمتع ہونے کی ترغیب دی ہے مگر سلبی اور ایجابی دو شرطوں کے ساتھ (۱) اعتداء نہ کریں (حد سے نہ بڑھیں)۔ (۲) اور تقویٰ اختیار کریں (خدا سے ڈرتے رہیں)۔ اعتداء کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: حلال چیزوں کے ساتھ حرام کا سا معاملہ کرنے لگیں اور نصاریٰ کی طرح رہبانیت میں مبتلا ہوجائیں۔ یا لذائذ و طیبات سے تمتع کرنے میں حدِ اعتدال سے گزر جائیں، حتیٰ کہ لذات و شہوات میں منہمک ہوکر یہود کی طرح حیاتِ دنیا ہی کو اپنا مطمح نظر بنالیں۔ الغرض غلو و جفا اور افراط و تفریط کے درمیان متوسط و معتدل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ نہ تو لذائذ دنیوی میں غرق ہونے کی اجازت ہے اور نہ ازراہِ رہبانیت مباحات و طیبات کو چھوڑنے کی۔ ‘‘ازراہِ رہبانیت’’ کی قید ہم نے اس لیے لگائی کہ بعض اوقات بدنی یا نفسی علاج کی غرض سے کسی مباح سے عارضی طور پر پرہیز کرنا ممانعت میں داخل نہیں۔ نیز مسلمان تقویٰ کے مامور ہیں جس کے معنی ہیں خدا سے ڈر کر ممنوعات سے اجتناب کرنا، اور تجربہ سے معلوم ہے کہ بعض مباحات کا استعمال بعض اوقات کسی حرام یا ممنوع کے ارتکاب کی طرف مفضی ہوجاتا ہے۔ ایسے مباحات کو عہدوقسم یا تقرب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق احتیاط اگر کوئی شخص کسی وقت باوجود اعتقاد اباحت ترک کردے تو یہ رہبانیت نہیں بلکہ ورع و تقویٰ میں شامل ہے۔ حدیث میں ہے: لا یبلغ العبد ان یکون من المتقین حتٰی یدع مالا باس بہ حذراً مما بہ بأس (ترمذی) الحاصل ترکِ اعتداء اور اختیار تقویٰ کی قید کو ملحوظ رکھ کر ہرقسم کے طیبات سے مومن مستفید ہوسکتا ہے اور زندگی کے ہرشعبہ میں ترقیات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔’’( تفسیر عثمانی ، ص ۱۶۴ ، پاک کمپنی لاہور)
لا یواخذکم اللہ……………… لعلکم تشکرون
شریعتِ الٰہی میں قَسم کی اہمیت
‘‘لا یؤاخذکم………… عقدتم الایمان، اس ٹکڑے میں جو مضمون بیان ہوا ہے، یہی مضمون، معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ، سورۂ بقرہ آیات ۲۲۴-۲۲۵ میں گزر چکا ہے۔ وہاں مسئلہ ایلا کے تعلق سے قسم کی اہمیت کا ذکر ہوا تھا۔ یہاں اُوپر کی بیان کردہ تحریم و تحلیل کے تعلق سے اس کا ذکر ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی غیرارادی قسموں پر تو کوئی مؤاخذہ نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں دل کے عزم و ارادہ سے ظہور میں آئیں گی، جن کے ذریعہ سے کوئی عہدوپیمان بندھے گا، جن سے حقوق و فرائض پر کوئی اثر مترتب ہوگا، جو کسی پہلو سے شریعت کی تحریم و تحلیل پر اثرانداز ہوں گی، ان پر اللہ ضرور مواخذہ فرمائے گا۔ اللہ کے نام کو، جیساکہ بقرہ میں فرمایا ہے، خلافِ شرع یا جھوٹی قسموں کا ہدف بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ قسم، قول و قرار، شہادت اور عہدوپیمان کی بنیاد ہے اور عہدوپیمان نہ صرف تمام معاشرتی،اجتماعی اور سیاسی حقوق و فرائض کی اساس ہے بلکہ، اس عہدومیثاق کی بھی اساس ہے جو ہم نے اپنے رب کے ساتھ باندھا ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ آدمی قسم کے معاملہ میں نہایت محتاط رہے، کوئی قسم بے ضرورت یا خلافِ شرع نہ کھائے، جو قسم کھائے، خلافِ شرع نہ ہو تو وہ پوری کرے، اگر کوئی قسم کھانے کے بعد توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے تاکہ وہ قسم کے معاملے میں سہل انگار، بے پروا اور بالکل غیرثقہ اور ناقابلِ اعتبار آدمی بن کے نہ رہ جائے۔ اس لیے کہ اس قسم کا آدمی نہ معاشرے کی ذمہ داریوں کا اہل ہے نہ میثاقِ الٰہی کی ذمہ داریوں کا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۹، فاران فاونڈیشن لاہور)
قسم کاکفارہ
‘‘فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکن۔۔۔، اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جس معیار کا کھانا وہ اپنے اہل و عیال کو کھلاتا ہے یا ان کو کپڑے پہنائے یا ایک غلام آزاد کرے۔ اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھ دے۔ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۹، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘ایمان جمع ہے یمین کی۔ اور یہ یمن بمعنی برکت سے ماخوذ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ قسم سے بھی حقوق محفوظ ہوتے ہیں۔ معاہدے پورے کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے یمین (برکت والی چیز) کہہ دیا گیا۔ یمین لغو وہ ہے جس میں قسم اُٹھانے کی نیت نہیں ہوتی بلکہ اثناء کلام میں واللہ باللہ کے الفاظ بلاسوچے سمجھے منہ سے نکل جاتے ہیں۔ ایسی قسم کا کوئی کفارہ نہیں لیکن وہ قسمیں جو نیت اور ارادہ سے اُٹھائی گئی ہوں اور پھر اُنھیں پورا نہ کیا جائے تو اس قسم کو توڑنے پر بازپُرس ہوگی اور کفارہ دینا پڑے گا۔ کفارہ کی تین صورتیں ہیں: (۱) دس آدمیوں کو کھانا کھلا دے (۲) یا اُنھیں کپڑے پہنا دے جن سے ان کے جسم کا اکثر حصہ ڈھک جائے مثلاً چادر اور کُرتہ یا چادر اور صافہ (۳) یا غلام آزاد کرے اور اگر ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہیں رکھتا تو پھر تین دن لگاتار روزہ رکھے۔’’(ضیاء القرآن، ج۱ ، ص ۵۰۶ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
قرآن میں توضیحی آیات کا مفہوم
کذلک یبین اللّٰہ لکم ایتہٖ لعلکم تشکرون
‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ توضیحی آیات ہیں جو بعد میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب میں نازل ہوئیں۔ شریعت و ہدایت تمام تر اللہ تعالیٰ کے بندوں پر فضل و احسان ہے اور اگر اس کے کسی اجمال کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوجائے تو یہ اس کا مزید احسان ہے، پھر اس توضیح میں اگر بندوں کے لیے سہولت کے بھی بہت سے پہلو ملحوظ ہوں، جیساکہ غیرارادی قَسموں اور کفارہ کے معاملہ میں یہاں ملحوظ ہیں، توگویا احسان کے گوناگوں پہلو جمع ہوگئے۔ اس کا فطری تقاضا یہی ہوسکتا ہے کہ بندے اپنے پروردگار کے زیادہ سے زیادہ شکرگزار نہیں اگر اس ساری توضیح و تفصیل کے بعد بھی انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو یہ انتہائی کفرانِ نعمت ہے۔ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص۵۸۹، فاران فاونڈیشن لاہور)
یایھا الذین امنوا……………… فھل انتم منتھون
ہر نشہ آور چیز خمر ہے
‘‘خمر اور میسر پر بقرہ ۲۱۹ میں اور انصاب و ازلام پر، مائدہ ۳ میں بحث گزر چکی ہے۔ شراب اور جوا، دونوں قوام بیماریاں ہیں۔ کم از کم عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں ان کی حیثیت یہی تھی۔ ‘خمر’ کے متعلق یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ اس کا اطلاق صرف انگوری شراب ہی پر ہوتا ہے۔ کلام عرب سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور ہو بھی تو شراب کی حُرمت کی اصل علّت، جیساکہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہے۔ اس کے اندر نشہ کا پایا جانا ہے۔ اس وجہ سے ہر نشہ آور چیز کا حکم یہی ہوا، خواہ وہ انگوری ہو یا غیرانگوری۔ اور شریعت کے اس حکیمانہ اصول کے مطابق کہ جس کی مقدار کثیر حرام ہے اس کی مقدار قلیل بھی حرام ہے، اس کی ہرمقدار حرام ہوگی تاکہ فتنہ کا دروازہ کلیتہً بند ہوجائے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
جوا اور شراب شیطانی ایجادات سے ہیں
‘‘رجس من عمل الشیطن،‘رجس’ اور ‘نجس’ معناً ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ من عمل الشیطن، یعنی یہ شیطان کی ایجادات اور اس کی کارستانیوں میں سے ہیں اور یہ حربے اس نے اس لیے ایجاد کیے ہیں کہ بنی آدم کو شریعت کی صراط مستقم سے بہکانے کا جو عہد اس نے کر رکھا ہے اس کو پورا کرسکے۔ ان کے اندر اگر کوئی پہلو نفع کا نظر آتا ہے تو یہ محض ایک نظرفریب ملمع ہے۔ ان کا ضرر ان کے نفع کے مقابلہ میں اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے اس حقیر نفع کی کوئی قیمت نہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘ہر مدہوش کر دینے والی شراب کو خمر کہتے ہیں۔ عصیر عنب سے اس کی تخصیص تعسف ہے کیونکہ مدینہ طیبہ میں جو شراب استعمال ہوتی تھی وہ انگور، گندم، جَو، کھجور اور شہد سے کشید ہوا کرتی تھی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو کسی صحابی نے بھی یہ نہیں سمجھا کہ صرف انگوری شراب ہی حرام ہے حالانکہ وہ اہلِ زبان تھے۔ میسر: مطلقاً جوا کو کہتے ہیں خواہ اس کی صورت کیسی ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ الشطرنج من المیسرکہ شطرنج بھی جوا ہے۔ انصاب: ان پتھروں کو انصاب کہا جاتا تھا جو حرم میں کعبہ کے اردگرد نصب تھے اور کفار ان کے لیے جانور ذبح کرتے اور ان کا خون ان پتھروں پر مَل دیتے۔ ازلام: وہ تیر جن کے ذریعہ فالیں نکالی جاتی تھیں۔ نیز وہ تیر جن کے ساتھ جوا کھیلا جاتا تھا۔ اس آیت میں مقصود تو شراب اور جوا کی حُرمتِ قطعی بیان کرنا ہے لیکن انصاب اور ازلام کو ان کے ساتھ ذکر کر کے ان کی قباحت کو اور زیادہ عیاں کر دیا۔ چنانچہ حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: اے شراب! تیرا ذکر تو جوئے اور انصاب و ازلام کے ساتھ ملا کر کیا گیا ہے۔ بعدًا لک وسحقاً،تیرا ستیاناس ہو۔ تیرا خانہ خراب ہو۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص۵۰۸، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
جوئے اور شراب کے اثرات معاشرے پر
‘‘انما یرید الشیطن ان یوقع ……………… فی الخمر والمیسر میں ‘فی’اشتغال و انہماک کے مضمون پر دلیل ہے۔ یعنی شیطان نے یہ فتنے اس لیے ایجاد کیے ہیں کہ تمہیں ان میں لگا کر تمہارے درمیان برابر دشمنی اور انتقام کی آگ بھڑکاتا رہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں یہ وبا پھیل جائے اس میں یا تو عفت، عزت، ناموس اور وفا و حیا کا احساس مٹ جاتا ہے اور یا آئے دن تلواریں کھنچی رہتی ہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
خدا سے غفلت زندگی کے حقائق سے غفلت ہے
‘‘ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ، ذکراللہ کے بعد ‘صلوٰۃ’ کا ذکر عام کے بعد خاص کا ذکر ہے جس سے ان دونوں کاربط واضح ہوتا ہے۔ جو شخص خدا سے غافل ہوا اور وہ خود اپنی قدروقیمت سے بالکل بے خبر ہوجاتا ہے۔ نسوا اللّٰہ فانسھم انفسھم میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ کی یاد کا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کو زندگی کی اصل حقیقتوں سے بھی بے پروا نہیں ہونے دیتی جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کبھی راہ سے بے راہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو خدا کی یاد اس کو سنبھال لیتی ہے۔ برعکس اس کے شراب کا اصل اثر جو انسان پر پڑتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اس کو زندگی کی اصل حقیقتوں سے ہٹا کر ایک خیالی دنیا میں لے جاکر پھینک دیتی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۱ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
عربی میں ‘استفہام’ کے مختلف مفہوم
‘‘فھل انتم منتھون ،استفہام عربی زبان میں، جیساکہ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسالیب القرآن میں وضاحت فرمائی ہے، تاکید، اقرار، تنبیہ، انکار، زجر، امر اور تحقیر کے مفہوم کے لیے آتا ہے۔ یہاں موقع دلیل ہے کہ یہ امر کے مفہوم میں ہے، جس طرح سورۂ ہود، آیت ۱۴ میں فھل انتم مسلمون ہے۔ (تو کیا اب تم مسلمان بنتے ہو) اس اسلوب میں امر کے ساتھ زجر، موعظت، تاکید و تنبیہ اور اتمامِ حجت کا مضمون بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہاں غور کیجیے تو اسلوبِ کلام اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ شراب اور جوئے کے مفاسد کی تفصیل اتنے مختلف مواقع پر اور اتنے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے آچکی ہے کہ اب اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے تو بتا ؤ اب بھی اس سے باز آتے ہو یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ امر کے سادہ اسلوب میں یہ سارا مضمون نہیں سما سکتا تھا۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۱ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
واطیعو اللہ واطیعوا الرسول………………علی رسولنا البلغ المبین
‘‘یہ اُوپر والی تنبیہ کی مزید تاکید ہے کہ شیطان کے بچھائے ہوئے جال سے نکل کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہوجاؤ اور نافرمانی و سرکشی سے بچو۔ اگر اس توضیح و تنبیہ کے بعد بھی تم نے اعراض کیا تو ذمہ داری تمہاری ہوگی۔ رسول کی ذمہ داری تو صرف خدا کے امرونہی سے واضح طور پر آگاہ کر دینا ہے اور یہ فرض رسول نے ادا کردیا جس کے بعد تم پر اللہ کی طرف سے حجت پوری ہوچکی۔ اس اتمامِ حجت کے بعد اب جو بے راہ روی اختیار کریں وہ اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوکرکریں۔ اس لیے کہ اتمامِ حجت کے بعد اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۲ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
لیس علی الذین امنوا…………………… واللہ یحب المحسنین
شریعتِ الٰہی کا مطالبہ
‘‘ فھل انتم منتھون کے اسلوب میں جو زجر و توبیخ مضمر ہے اس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ اسلوبِ بیان کی اس شدت نے ان لوگوں کو متاثر کیا ہوگا جو شراب کے معاملے میں اُس رخصت سے اب تک فائدہ اُٹھاتے رہے تھے جو انھیں حاصل تھی۔ انھوں نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ شراب کے باب میں بالکل پہلی ہی تنبیہ پر دوسرے بہت سے محتاط اور پیش بین صحابہؓ کی طرح انھں نے بھی شراب سے یک قلم توبہ کرلی ہوتی توخوب ہوتا، ممکن ہے یہ تاخیر جو ان سے ہوئی آخر میں ان کی کوتاہی میں محسوب ہو اور اس پر کوئی گرفت ہوجائے۔ خاص طور پر اس دوران میں جو لوگ وفات پاچکے ہوں گے ان کے باب میں محتاط لوگوں کے اندر تشویش پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ آیت زیربحث نے اس قسم کے سارے شبہات دُور کر دیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پرسش کسی ایسی چیز کے کھانے پینے پر نہیں ہوگی جس کے بارے میں کسی صریح ممانعت کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں ہوا ہے۔ شریعتِ الٰہی کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جس چیز کے باب میں جو حد جب معین ہوگئی لوگ اس حد کا احترام کریں، پھر اگر اس حد میں کچھ اضافہ شریعت کی رُو سے ہوجائے تو اس کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرلیں اور اگر اس پر مزید اضافہ ہوجائے تو اس کو بھی اختیار کرلیں اور پھر پوری خوبی، پوری احتیاط اور پورے اخلاص کے ساتھ اس کو نباہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۲ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
شریعت میں تدریج بندوں کی سہولت کے لیے ہے
‘‘اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ شریعت الٰہی میں احکام کا نزول بالتدریج ہوا ہے اور یہ تدریج بندوں کی سہولت کے پہلو سے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں پر وہ گرفت نہیں فرمائے گا جنھوں نے اس کی بخشی ہوئی سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں کو سبقت الی الخیر کا درجہ ملے گا جنھوں نے کسی باب میں ہوا کا رُخ پہچان کر اس کے پہلے ہی مرحلے میں احتیاط اور تقویٰ کا آخری قدم اُٹھا دیا۔ مثلاً شراب کی حُرمت کا حکم بالتدریج نازل ہوا لیکن دین کے معاملے میں جن کی حس زیادہ تیز تھی وہ پہلے ہی مرحلہ میں اس سے تائب ہوگئے۔ یہ ان کے کمال درجہ فطرت اسلام پر ہونے کی دلیل ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر بھی رحم فرمائے گا جنھیں اگرچہ یہ درجۂ کمال تو حاصل نہ ہوسکا لیکن انھوں نے کسی مرحلہ میں حدودِ الٰہی سے تجاوز نہیں کیا۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۲ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
تدریج کے مراحل
‘‘ آیت کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس تدریج کے تین مدارج ہیں: یہ بات ایک کلیہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ عمومیت کے لحاظ سے ہے۔ بعض معاملات میں قطعی اور آخری حکم پہلی ہی مرتبہ میں آگیا ہے، بعض میں د وسری مرتبہ میں اور بعض میں حکم کی تکمیل تیسری بار میں ہوئی ہے۔ مثلاً کھانے پینے کے سلسلہ کی حرمتوں کا اجمالی ذکر سورۂ انعام میں بھی ہوا ہے، جو ایک مکی سورہ ہے، اس کے بعد اس کی تفصیل اس سورہ (مائدہ) کے آغاز میں آئی ہے جس سے انعام کے بعض اجمالات کی وضاحت ہوئی ہے پھر اس سلسلہ میں کچھ مزید سوالات پیدا ہوئے ہیں جن کی تقریب سے بعض چیزوں کی حُرمت، جیساکہ واضح ہوگا، یہاں اس سورہ کے خاتمہ میں بیان ہوئی اور یہ سورہ، جیساکہ ہم واضح کرچکے ہیں، احکامِ شریعت کے باب میں آخری سورہ ہے۔ اس وجہ سے گویا اس تیسرے مرحلہ میں کھانے پینے سے متعلق احکام کی تکمیل ہوگئی۔ یہ آیت یہ واضح کر رہی ہے کہ جو لوگ ان تینوں مرحلوں میں اللہ کے نازل شدہ احکام و حدود کی پیروی کرتے آئے ہیں ان سے ان چیزوں کے کھانے پر کوئی گرفت نہیں ہوگی جو انھوں نے اس وقت کھائی ہیں جب ان کی صریح حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۳ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
تقویٰ، ایمان اور احسان
‘‘ اس آیت میں تین بار تقویٰ کا ذکر ہوا ہے۔ پہلی بار تقویٰ کے ساتھ ایمان و عمل صالح کا ذکر ہے، دوسری بار ایمان کا ذکر ہے، تیسری بار احسان کا ذکر ہے۔ تقویٰ کا مفہوم ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اصلاً یہ لفظ حدودِ الٰہی کی نگہداشت کے لیے آتا ہے۔ یہاں تین بار اس کا حوالہ احکام کے ان تدریجی مراتب کے لحاظ سے ہوا ہے جن کی طرف ہم نے اُوپر اشارہ کیا۔ رہا تقویٰ کے ساتھ ایمان و عملِ صالح کا حوالہ تو وہ اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر صرف کسی چیز سے بچنا نہیں بلکہ وہ بچنا معتبر ہے جو ایمان و عمل صالح کے ساتھ ہو۔ اس قید کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ بہت سی چیزوں سے بچنے کے معاملے میں (بالخصوص کھانے پینے کی چیزوں کے معاملے میں) بہت سے لوگ بڑے محتاط اور متقشف ہوتے ہیں حالانکہ ایمان و عملِ صالح سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جوگیوں، سنیاسیوں اور راہبوں سے قطع نظر جو لوگ اعمالِ سفلیہ کے دلدادہ ہوتے ہیں،وہ بھی اپنے اُوپر بہت سی پابندیاں عائد کر رکھتے ہیں اور بڑی سختی کے ساتھ ان کی نگہداشت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس چیز کا دین میں کوئی اعتبار نہیں۔ اعتبار صرف اس احتیاط کا ہے جو ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ ہو۔ آخر میں تقویٰ کے ساتھ احسان کی جو شرط ہے وہ اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ دین میں جو تقویٰ مطلوب و مقبول ہے وہ صرف ظاہرداری اور رسوم کی خانہ پُری سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے آخری شرط احسان ہے۔ احسان کا مدعا یہ ہے کہ آدمی اللہ کے حدود کی خلاف ورزی سے اس طرح بچے جس طرح اس سے بچنے کا حق ہے۔ وہ ہرحکم کی تعمیل اس طرح کرے گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے اور اس یقین سے اپنے باطن کو منور رکھے کہ اگر وہ خدا کو نہیں دیکھ رہا ہے تو خدا تو بہرحال اس کو دیکھ رہا ہے۔ یہی احسان تقویٰ کی اصل روح اور حدودِ الٰہی کا اصل پاسبان ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان تقویٰ اور پرہیزگاری کی نمائش کرتے ہوئے حددوِ الٰہی کے توڑنے کے لیے ہزار چور دروازے پیدا کرسکتا ہے۔ آخر یہود نے دینداری کے مظاہرے کے ساتھ خدا کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو جائز کرنے کی کتنی راہیں کھول لیں۔ سبت کے لیے جو حیلۂ شرعی انھوں نے ایجاد کیا اس کی طرف یہاں بھی آگے اشارہ آرہا ہے۔ یہی صورت اس اُمت میں بھی پیش آئی۔ یہاں تک کہ کتاب الحیل ہماری فقہ کا ایک جزو بن گئی۔ ایسے دین بازمدعیان تقویٰ کی خدا کے ہاں کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو احسان کی صفت سے متصف ہوں۔ واللّٰہ یحب المحسنین،میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۳ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
یایھا الذین امنوا لیبلونکم……………… الذی الیہ تحشرون
‘‘سورہ کے شروع، آیت ۱ میں حالت احرام میں شکار کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس سے متعلق بعض تفصیلات اور بعض سوالوں کے جواب جو بعد میں نازل ہوئے وہ ان آیات میں بیان ہو رہے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
لیبلونکم اللّٰہ بشی من الصید تنالہ ایدیکم ورما حکم
پیش آنے والی آزمائشوں سے آگاہی
‘‘یہ اس آزمائش سے آگاہ فرمایا جا رہا ہے جو حالتِ احرام میں دفعتہ شکار نظر آجانے کی وجہ سے پیش آسکتی ہے چونکہ یہ ممانعت اصلاً کی ہی اس لیے گئی ہے کہ لوگوں کے ایمان و تقویٰ کو جانچا جائے اس لیے پہلے سے خبردار کردیا گیا کہ ایسے مواقع پیش آئیں گے کہ تم احرام باندھے ہوئے ہو گے اور تمہیں نظر آئے گا کہ ہرنوں یا نیل گائے کی پوری ڈار کی ڈار ہے جو بالکل تمہارے نیزوں کی زد میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آزمائش کے ان مواقع پر اپنے عزم و ایمان کی حفاظت کرنا، اس طرح پھسل نہ جانا جس طرح بنی اسرائیل سبت کے معاملے میں پھسل گئے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
اس تنبیہ کی اہمیت
‘‘اس تنبیہ کی اہمیت اچھی طرح سمجھنے کے لیے چند باتیں ذہن میں مستحضر کرلیجیے۔ ایک تو یہ کہ شکار بجائے خود بڑی رغبت کی چیز ہے بالخصوص اہلِ عرب کے لیے جن کی تفریح اور معاش دونوں چیزوں کا انحصار بڑی حد تک اس زمانے میں شکار ہی پر تھا۔ دوسری یہ کہ جب کسی مرغوب چیز پر کوئی پابندی عائد ہوجائے تو اس کی رغبت اور زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔ عربی میں مثل ہے: الانسان حریص علیٰ ما مُنع،انسان جس چیز سے روک دیا جائے اس کا بڑا حریص ہوجایا کرتا ہے۔ اس حرص کا نفسیاتی اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جس طرح ساون کے اندھے کو ہر جگہ ہرا ہرا نظر آتا ہے۔ اسی طرح اس کو بھی ہرجگہ وہی چیز نظر آتی ہے جس سے وہ اپنے کو محروم پاتا ہے۔ تیسری یہ کہ یہ منا ہی جب اصلاً امتحان کے لیے ہوئی ہے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا فرمائے کہ اس امتحان کا مقصد پورا ہو۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
بنی اسرائیل اور اُمت مسلمہ کے امتحان کی مماثلت
‘‘یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ اس اُمت کے لیے یہ امتحان بنی اسرائیل کے اس امتحان سے مشابہ ہے جو ان کو سبت کے معاملے میں پیش آیا۔ قرآن میں اس کا ذکر اس طرح ہوا:اذ یعدون………… بما کانوا یفسقون(اعراف: ۱۶۳)ان دونوں مقامات پر غور کیجیے تو دونوں کی مماثلت بالکل واضح ہوجائے گی۔ بنی اسرائیل کی آزمائش کی نوعیت یہ تھی کہ جو دن ان کے سبت کا ہوتا اس دن مچھلیاں منہ اٹھائے سطح آب پر نظر آتیں لیکن جو دن سبت کا نہ ہوتا اس دن وہ نظر نہ آتیں۔ اس چیز نے ان کو اس فتنے میں ڈال دیا کہ انھوں نے سبت کے دن شکار کے لیے ایک حیلہ ایجاد کرلیا۔ اسی طرح اُمت کے امتحان کے بارے میں فرمایا ہے کہ حالتِ احرام میں بسااوقات تمہیں ایسا نظر آئے گا کہ شکار بالکل تمہارے ہاتھوں اور تمہارے بھالوں کے نیچے ہے۔ مبادا یہ چیز تمہیں اسی طرح کے کسی فتنہ میں مبتلا کر دے جس طرح کے فتنہ میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے۔یہاں بشیءٍ کے لفظ، بالخصوص اس کی تنکیرسے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ ہرچند یہ آزمائش پیش تو آئے گی لیکن یہ بہت سخت نہیں بلکہ ہلکی ہوگی۔ یہ چیز اس آخری شریعت کے مزاج کو ظاہر کرتی ہے کہ اس کے ہر پہلو میں انسانی فطرت کی پوری پوری رعایت ملحوظ ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۵ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
لیعلم اللّٰہ من یخافہ بالغیب
ابتلائی احکام کااصلی پہلو
‘‘یہ اس آزمائش کا مقصد بیان ہوا ہے۔ علم یعلم کے معنی ہم دوسری جگہ بیان کرچکے ہیں کہ ممیز کرنے کے بھی آتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ امتحان اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ممیز کرے جو غیب میں رہتے ہوئے خدا سے ڈرتے ہیں۔ یہاں مقابل کا جملہ محذوف ہے یعنی ان لوگوں سے ممیز کرے جو غیب میں رہتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے۔ ابتلائی احکام سے متعلق ہم یہ حقیقت اس سورہ کے آغاز میں واضح کرچکے ہیں کہ ان کا اصلی مقصود خدا کے ساتھ بندوں کی وفاداری کا امتحان ہوتا ہے۔ بظاہر وہ بندوں کے مصالح کے نقطۂ نظر سے ایک عام آدمی کو بے حکمت نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں ایمان بالغیب اور خشیت بالغیب کے جانچنے کے لیے وہی اصلی کسوٹی ہوتے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۵ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
یایھا الذین امنوا……………… منکم معتمدا
حالتِ احرام میں عمداً شکار کا کفارہ
‘‘ اب یہ اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص حالتِ احرام میں ہونے کے باوجود عمداً اس گناہ کا ارتکاب کربیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے۔ ارشاد ہے کہ ایسا شخص کفارہ ادا کرے جس کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ جس طرح کا جانور اس نے شکار کیا ہے اسی قبیل کا جانور گھریلو چوپایوں میں سے کفارہ کی قربانی کے لیے خانہ کعبہ بھیجے۔ اگر یہ متعذر ہو تو اس جانور کی قیمت کی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلائے، اگر یہ اس کے لیے دشوار ہو تو آخری درجے میں اتنے روزے رکھ دے جتنے مسکینوں کو کھانا کھلانا اس پر عائد ہوتا ہے۔ رہا اس امر کا فیصلہ کہ شکار کردہ جانوروں کا مثل اور بدل پالتو چوپایوں میں سے کون چوپایہ ہوسکتا ہے تو اس کا فیصلہ اور اس کے متعذر ہونے کی صورت میں اس کی قیمت یامساکین یا روزوں کی تعداد کا فیصلہ تو یہ کام مسلمانوں میں سے دو ثقہ آدمی کریں گے تاکہ جرم کے مرتکب کے لیے اپنے نفس کی جانبداری کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۶ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
خطا کی صورت میں حکم اور بعض متعلق مسائل
‘‘ اکثر لوگ اس معاملے میں خطا اور عمد کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ مجھے الفاظ قرآن کی روشنی میں سعید بن جبیر کا مذہب مضبوط معلوم ہوتا ہے جو خطا کی صورت میں کفارہ کے قائل نہیں۔ اس کی تائید میں ایک قول حضرت حسنؓ کا بھی ہے۔ اسی طرح جو لوگ شکار کردہ جانور کی مثلیت کا فیصلہ بہرشکل قیمت ہی کے ذریعہ سے کرنے کے قائل ہیں، اس کے بعد وہ اختیار دے دیتے ہیں کہ چاہے کوئی شخص اس قیمت کے جانور کی قربانی دے، چاہے اسی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا روزے رکھ دے تو یہ بات بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں معلوم ہوتی۔ جب واضح طور پر پالتو جانوروں میں شکار کے جانوروں کے بدل موجود ہیں مثلاً ہرن کی جگہ بکری، دُنبہ، مینڈھا وغیرہ، نیل گاؤ اور گورخر کی جگہ گائے وغیرہ تو مثلیت کے فیصلہ کے لیے قیمت ہی کیوں معیار قرار پائے؟ شکار کردہ جانور کا بدل موجود نہ ہو تب تو بلاشبہ قیمت ہی اس کا بدل ہوسکتی ہے لیکن ہرحالت میں اسی کو معیار قراردینا الفاظِ قرآن کے خلاف ہے۔ یہ بات بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں معلوم ہوتی کہ کفارہ کی مذکورہ تینوں شکلوں کا کفارہ دینے والے کو یکساں اختیار ہے، چاہے روزے رکھ دے چاہے مسکینوں کو کھانا کھلا دے، چاہے قربانی کردے بلکہ ان میں ترتیب معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات کہ او تخییر کے لیے آتا ہے اگرچہ صحیح ہے لیکن اگر قرینہ موجود ہو تو یہ ترتیب کو بھی مستلزم ہے جیساکہ اسی سورہ کی آیت ۱۰۶ میں ہے۔ اس وجہ سے میں امام احمدؒ اور زفرؒ کے مذہب کو قوی سمجھتا ہوں جو یہاں ترتیب کے قائل ہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۶ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ومن عاد فینتقم اللّٰہ منہ
ایک سخت تنبیہ
‘‘اسی طرح کی تنبیہ ہے جس طرح کی تنبیہ فمن اعتدی بعد ذٰلک فلہ عذاب الیم کے الفاظ میں وارد ہوئی ہے۔ یہ تنبیہ بہت سخت اور اس سختی کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم اُوپر اشارہ کرآئے ہیں کہ یہ اسی طرح کا امتحان ہے جس طرح کا امتحان سبت کے معاملے میں بنی اسرائیل کا ہوا اور جس میں فیل ہونے پر ان کو نہایت عبرت انگیز سزا ملی۔ یہ کفارہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ جورکھا ہے تو یہ نافع اسی شکل میں ہے جب اس کے ساتھ مخلصانہ توبہ پائی جائے۔ اگر دل کا رجوع اس کے ساتھ شامل نہ ہو بلکہ آدمی یہ خیال کرکے نافرمانی کرتا رہے کہ گرفت ہوئی تو کفارہ دے لیں گے تو ایسے لوگ خدا کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۶ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
اُحل لکم صید البحر……………………ما دمتم حرما
بنی اسرائیل اور اُمت مسلمہ کے امتحان میں فرق
‘‘مذکورہ بالانہی سے جو شکار مستثنیٰ ہے، یہ اس کا بیان ہے۔ یہود کے لیے، جیساکہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا، سبت کے دن دریائی شکار بھی ممنوع تھا، اس اُمت کے لیے حالتِ احرام میں خشکی کا شکار ممنوع ہوا، لیکن دریائی شکار مباح رہا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ فرق اس بنیاد پر ہو کہ اہلِ عرب کے لیے زیادہ کشش خشکی کے شکار میں تھی اور یہود کے لیے، ان کے جائے وقوع کے لحاظ سے، دریائی شکار ہیں۔ یہ ایک امتحان ہے اور امتحان میں اگر یہ پہلو ملحوظ ہو تو یہ اس کے مزاج سے مناسبت رکھنے والی بات ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
صید کالفظ مصدری معنی میں
‘‘صید کا لفظ جس طرح غیر محلی الصید،میں مصدری معنی میں ہے، چنانچہ وہاں واذ احللتم فاصطادوا،کہہ کر اس کے مصدری معنی میں ہونے کو واضح بھی کر دیا ہے۔ اسی طرح ہمارے نزدیک یہاں بھی مصدری معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک خشکی کا تعلق ہے، اس کاشکار کرنا تو محرم کے لیے ممنوع ہے لیکن کسی غیرمحرم کا کیا ہوا شکار کھانا، اگر کسی پہلو سے اس شکار میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے، اس کے لیے ممنوع نہیں ہے۔ رہا دریا کا شکار تو اس کا شکار کرنا اور دوسرے کا کیا ہوا شکار کھانا دونوں محرم کے لیے جائز ہے۔ یہ رخصت اللہ تعالیٰ نے اس لیے عطا فرمائی ہے کہ محرمین اور اہلِ قافلہ کو زادِ راہ کے معاملے میں آسانی ہو۔ خشکی کے سفر میں اگر زادِ راہ تھڑ جائے تو اس کے حاصل کرنے کی راہیں کھلی رہتی ہیں۔ دریائی سفر میں اگر یہ زحمت پیش آجائے تو شکار کے سوا کوئی اور راہ باقی نہیں جاتی۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہود کو جو شکار کی ممانعت تھی وہ تو صرف ہفتہ میں ایک دن کے لیے تھی۔ اس وجہ سے کسی ناقابلِ حل زحمت کے پیش آنے کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ اس اُمت کو یہ ممانعت پورے دورانِ احرام کے لیے ہوئی۔ دریائی سفر کرنے والے قافلوں کو بعض حالات میں ناقابلِ حل مشکل پیش آسکتی تھی اس وجہ سے دریائی شکار کے معاملے میں یہ رعایت ہوئی۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
جعل اللّٰہ الکعبۃ البیت الحرام قیما……………… یاولی الالباب لعلکم تفلحون
تمام شعائر کے احترام کی تاکید
‘‘اُوپر والی بات اصلاً شعائر الٰہی کے احترام سے تعلق رکھنے والی بات ہے اس وجہ سے اس کے بعد دوسرے معروف شعائر، بیت اللہ،شہر حرام اور ہدی اور قلائد کی بھی یاد دہانی فرما دی کہ ان کے احترام سے متعلق بھی جو ہدایات دی گئی ہیں ان کو بھی حرزِ جاں بناؤ۔ کسی پہلو سے ان کی حرمت میں کوئی فرق نہ آئے۔ ‘کعبہ’ کی وضاحت ‘بیت الحرام’ کے لفظ سے یہاں اسی پہلو کی طرف توجہ دلانے کے لیے کی گئی ہے کہ یہ خدا کا محترم ٹھہرایا ہوا گھر ہے، اس کے احترام کے حدود و قیود مقرر ہیں۔ ان حدود و قیود کی ہرحال میں نگہداشت رہے۔ قیاماً للناس پر سورۂ بقرہ کی تفسیر میں مثابۃ للناس وامنا کے تحت ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ ذُریت ابراہیم ؑ کی تمام دینی، سیاسی اور معاشی شیرازہ بندی اسی گھر کی بدولت تھی اور بعثت نبوی کے بعد یہی گھر ہے جو تمام اُمت کا قبلہ اور مرکز ہے: الشھر الحرام سے مراد یہاں کوئی مخصوص مہینہ نہیں بلکہ تمام اشہر حرم کے لیے یہ بطور اسم جنس کے استعمال ہوا ہے۔ ان مہینوں کی دینی و دنیوی برکات پر ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں گفتگو کرچکے ہیں۔ ہدیٰ اور قلائد کی وضاحت اسی سورہ کے آغاز میں ہوچکی ہے۔ ہمارے نزدیک تقدیر کلام یوں ہے: جعل اللّٰہ الکعبۃالبیت الحرام قیما للناس والشہر الحرام قیما للناس والشہر الحرام والہدی والقلائد شعائر، یعنی اللہ نے کعبہ بیت محترم کو لوگوں کے لیے مرکز اور شہر حرام، ہدیٰ اور قلائد کو شعائر کا درجہ دیا۔ چونکہ یہ بات سیاقِ کلام سے بالکل واضح تھی اس وجہ سے لفظ شعائر کو حذف کر دیا۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۸ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ذلک لتعلموا ان اللّٰہ یعلم۔۔۔
شعائر کی حکمت
‘‘ ذلک کا اشارہ مذکورہ بالا شعائر کی طرف ہے اور یہ حکمت بیان ہوئی ہے ان شعائر کے مقرر کیے جانے کی کہ اللہ نے یہ اس لیے مقرر فرمائے ہیں کہ تمہارے اندر خدا کے فعلاً و صفتاً علیم و خبیر ہونے کا عقیدہ پوری طرح راسخ ہوجائے۔ ہم آیت ۹۴ میں لیعلم اللّٰہ من یخافہ بالغیب کے تحت اشارہ کرچکے ہیں کہ شعائر درحقیقت ابتلاء و امتحان کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے امتحان کرتا ہے کہ کون اس سے غیب میں رہتے ڈرتے ہیں، کون نہیں ڈرتے۔ ظاہر ہے کہ اس امتحان میں پورے وہی اُترتے ہیں اور وہی اُتر سکتے ہیں جن کے اندر یہ علم راسخ ہوتا ہے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب کو خدا جانتا ہے جن کے اندر یہ عقیدہ پختہ ہوتا ہے وہی ہیں جو غیب میں رہتے اور خدا سے ڈرتے ہیں اور یہی غیب میں رہتے خدا سے ڈرنا تمام خشیت و تقویٰ اور سارے اسلام و ایمان کی روح ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کو فعلاً بھی بیان کیا ہے اور صفتاً بھی اس لیے کہ خدا کا علم ماضی، حاضر، مستقبل، ظاہر، باطن، غائب، موجود، مضمر سب پر محیط ہے اور انسان کا خدا کے علم کے متعلق یہی عقیدہ ہے جو اس کے اندر خشیت بالغیب پیدا کرتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۸ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
اعلموا ان اللہ……………… غفور رحیم
تنبیہ اور بشارت
‘‘یہ تنبیہ اور بشارت دونوں ساتھ ساتھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا سے بے خوف ہوکر اس کے شعائر کی بے حرمتی کریں۔ اللہ ان کو سخت سزا دے گا اور جو لوگ غیب میں رہتے اس سے ڈرتے رہیں گے اور اس کے شعائر کا کماحقہ، احترام کریں گے ان کے لیے وہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۹ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ما علی الرسول الا البلاغ
‘‘یہ دوسری تنبیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے رسول پر ذمہ داری صرف واضح طور پر ہماری ہدایات کو پہنچا دینے کی ہے۔ یہ فرض رسول نے ادا کر دیا۔ اب آگے ذمہ داری تمہاری ہے۔ تم مانو یا نہ مانو۔ مانو گے تو اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے، نہ مانو گے تو اس کا انجام خود دیکھو گے۔ یاد رکھو کہ جو تم ظاہر کرتے ہو، خد اس کو بھی جانتا ہے اور جو چھپاتے ہو اس سے باخبر ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۹ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
کسی برائی کی کثرت اس کے جواز کی دلیل نہیں
‘‘قل لا یستوی الخبیث………… لعلکم تفلحون
‘‘ خدا کے نزدیک خیروشر، نیکی اور بدی، فسق اور تقویٰ، نیکوکار اور بدکار، دونوں یکساں نہیں ہیں۔ خدا خیر مطلق اور سراپا حق و عدل ہے۔ اس وجہ سے وہ صرف خیر کو پسند کرتا ہے، شر کو پسند نہیں کرتا، ولو عجبک کثرۃ الخبیث کہہ کر اس راہ کے سب سے بڑے فتنہ سے آگاہ فرما دیا۔ وہ یہ کہ بہت سے نادانوں کے لیے کسی برائی کی کثرت نہ صرف اس کی تقلید کے لیے محرک بلکہ اس کے جواز و استحسان کی ایک دلیل بن جاتی ہے۔ جو فتنہ عام ہوجاتا ہے اور بدی فیشن میں داخل ہوجاتی ہے وہ اپنے دروازے بھی اس کے لیے چوپٹ کھول دیتے ہیں۔ اول تو ان کا ضمیر اس سے کوئی انقباض محسوس ہی نہیں کرتا اور اگر شروع شروع میں کچھ محسوس کرتا بھی ہے تو وہ اس کو اس طفلی تسلی سے مطمئن کرلیتے ہیں کہ بھلا اس زمانے میں کوئی اپنے آپ کو اس چیز سے کس طرح الگ رکھ سکتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو حمام میں ننگا دیکھ کر وہ خود بھی ننگے ہوجاتے ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ پورا معاشرہ ننگوں کا معاشرہ بن جاتا ہے اور پھر حالت یہ ہوجاتی ہے کہ شریف اور مہذب وہ نہیں کہلاتا جو کپڑے پہن کر نکلتا ہے بلکہ وہ کہلاتے ہیں جو اپنی عریانی کی نمائش کرتے یا کرتی ہیں۔ یعنی اکثریت کا عمل ان کے لیے دلیلِ راہ بن جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ سے یہاں یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اگرچہ کسی برائی کا غلبہ اور خبیث کی کثرت اپنے اندر کشش تو رکھتی ہے لیکن اس کشش سے مغلوب ہو کر جو اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں وہ سب سفہا اور حمقا میں داخل ہیں، اولوالالباب اور اہلِ عقل وہ ہیں جو اس وبائے عام میں بھی اس کے اثرات سے محفوظ اور تقویٰ کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں اس لیے کہ خدا کے ہاں نہ خبیث و طیب دونوں یکساں ہوں گے اور نہ خبیث اس لیے طیب بن جائے گا کہ اس کی مقدار بہت زیادہ ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۹ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء……………… ثم اصبحوا بھا کفرین
غیر ضروری سوالوں کی ممانعت
‘‘یہ بھی برسرِموقع ایک تنبیہ ہے۔ یہ تنبیہ فرمائی کہ جو مفید سوال تھے ان کے جواب دے دیے گئے لیکن ایسے سوال نہ کرو جن کے جواب اگر دے دیے جائیں تو تمہارے مزاج اور تمہاری خواہش کے خلاف پڑنے کے سبب سے وہ تمہیں بُرے لگیں۔ یہ اس اُمت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے غیرضروری سوالوں کو نظرانداز فرما کر ہمں اصرار و اغلال سے بچایا ہے اور ان معاملات کو ہمارے عقل و اجتہاد پر چھوڑ دیا جن میں ہماری عقل و فطرت ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ یہ شریعت آخری اور کامل شریعت ہے، اس میں کوئی بات بھی معیار سے مختلف نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں تھا جو اس کو معیار پر لاتا۔ اس کے برخلاف یہود کی شریعت ایک وقتی شریعت تھی، اس میں اگر اصرواغلام تھے تو وہ، جیساکہ قرآن میں تصریح ہے، آخری پیغمبرؐ کے ذریعے سے دُور ہوگئے۔
قد سالھا میں ضمیر کا مرجع مذکورہ سوال ہے لیکن اسے یہ لازم نہیں آتا کہ انھوں نے بعینہٖ وہی سوالات کیے جن کی طرف اُوپر اشارہ ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس نوعیت کے سوالات کیے۔ عربی میں ضمیروں کا استعمال اس طرح بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ما جعل اللّٰہ من بحیرۃ……………… بما کنتم تعملون
غیرمشروع شعائر سے اجتناب کی ہدایت
‘‘ یہ ان مشرکانہ چیزوں کا ذکر ہو رہا ہے جن کو مشرکین نے شعائر کا درجہ دے کر مذہبی تقدس کا جامہ پہنا رکھا تھا۔ گویا مشروع کے بیان کے بعد اس کے مقابل کی غیرمشروع چیزوں کا بھی ذکر فرما دیا تاکہ مسلمان ان سے اجتناب کریں۔ما جعل اللّٰہ، جعل یہاں مشروع کرنے کے معنی میں ہے، یعنی اللہ نے یہ چیزیں مشروع نہیں فرمائی ہیں۔بحیرہ،اس اُونٹنی کو کہتے جس سے پانچ بچے پیدا ہوچکے ہوتے اور ان میں آخری نر ہوتا۔ ایسی اُونٹنی کے کان چیر کر اس کو آزاد چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس کا دودھ دوہتے۔سائبۃ،اس اُونٹنی کو کہتے جس کے متعلق اس کا مالک اپنی کسی بیماری میں یہ منت مانتا کہ اگر اس کو شفا ہوگئی تو وہ اس کو آزاد چھوڑ دے گا، نہ اس پر سواری کریگا نہ اس کا دودھ دوہے گا۔وصیلۃ، بکری اگر مادہ جنتی تواسکو اپنا حصہ سمجھتے، نر جنتی تو اس کو اپنے معبودوں کا حصہ سمجھتے اور اگر نر و مادہ دونوں ایک ساتھ جنتی تو اس کو وصیلہ کہتے اور ایسے نر کو بتوں کی نذر کے قابل نہ سمجھتے۔حام، اس سانڈ اُونٹ کو کہتے جس کی صلب سے کئی پشتیں پیدا ہوچکی ہوتیں۔ ایسے سانڈ کو بھی آزاد چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کرتے، نہ بوجھ لادتے۔یہ سب عرب جاہلیت کی قدریں اور منتیں تھیں۔ اس قسم کے جانور آزاد چھوٹے پھرتے، جس گھاٹ سے چاہتے پانی لیتے اور جس کی چراگاہ میں چاہتے پھرتے۔ نہ ان کو کوئی روک سکتا نہ چھیڑ سکتا۔ ان کو مذہبی تقدس کا ایسا درجہ حاصل تھا کہ ہرشخص ان کے چھیڑنے کے وبال سے لرزہ براندام رہتا۔ قرآن نے واضح فرما دیا کہ ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ شرعی حیثیت صرف ہدی اور قلائد کی ہے۔ یہ چیزیں صرف اوہام کی ایجاد ہیں، جن کی شریعت کی طرف منسوب کرنا اللہ اور اس کی شریعت پر صریح اتہام ہے جو لوگ عقل سے عاری ہیں انھوں نے ان احمقانہ چیزوں کو اللہ سے نسبت دے رکھی ہے۔’’(تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
واذ قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللّٰہ۔۔۔
اندھی روایت پرستی کی مذمت
‘‘ یہ واکثرھم لا یعقلون،(ان میں اکثر ناسمجھ ہیں) کی دلیل بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ ان لایعنی باتوں کو چھوڑ کر اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کے بتائے ہوئے طریقہ کی طرف آؤ تو بڑے غرے سے جواب دیتے ہیں کہ حسبنا ما وجدنا علیہ ابآء نا،ہم نے اپنے باپ دادا کو جس طریقے پر پایا ہے ہمارے لیے وہی کافی ہے۔ فرمایا کہ کیا اس صورت میں بھی وہ باپ دادا ہی کی روایت کو حجت بنائیں گے جب کہ ان کے باپ دادا کو نہ تو کچھ علم رہا ہو اور نہ وہ ہدایت کی راہ پر رہے ہوں؟ یعنی کسی طریقہ کی صحت کی دلیل مجردیہ چیز تو نہیں بن سکتی کہ وہ باپ دادا سے چلا آرہا ہے، اس کے متعلق یہ معلوم کرنا بھی تو ضروری ہے کہ باپ دادا نے اس کو کسی علم اور کسی دلیل پر اختیار کیا تھا یا یونہی اختیار کرلیا تھا۔ اگر یہ تمیز غیرضروری ہوجائے تو پھر تو یہ عقل، جو انسانیت کا وصف امتیازی ہے، بالکل فالتو چیز بن کے رہ جائے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۲ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
یایھا الذین امنوا علیکم……………… بما کنتم تعملون۔۔۔
مسلمانوں کو تسلی کہ تمہاری ذمہ داری صرف حق پہنچا دینے کی ہے
‘‘ آیت ۹۹ میں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی تھی کہ رسول کی ذمہ داری صرف واضح طور پر حق پہنچا دینے کی ہے، اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ قبول نہ کریں گے اس کی پرسش خود ان سے ہونی ہے نہ کہ رسول سے۔ اسی طرح اس آیت میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ اپنی عقل بیچ کر باپ دادا کی اندھی تقلید پر اڑ گئے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑو، تم نے کلمہ حق پہنچا دیا، اگر وہ نہیں مانتے تو اپنا بگاڑیں گے، تمہارا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔ انعام کی آیات ۱۵، ۴۸، ۵۱، ۵۲، ۶۹ کے تحت ہم اس پر مزید بحث کریں گے۔بعض لوگوں کو اس سے یہ شبہ ہوا کہ مسلمانوں کو دوسروں کی ہدایت و ضلالت سے کوئی سروکار نہیں ہے، انھیں بس اپنے نفس کی فکر کرنی چاہیے لیکن یہ خیال قطع نظر اس سے کہ مسلمانوں کے فریضۂ منصبی--- شہادت علی الناس کے خلاف ہے، خود اس آیت سے بھی بالکل بے جوڑ ہے۔ اس آیت سے جو بات نکلتی ہے وہ تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ کے صحابہؓ بھی کفار کی حق بیزاری دیکھ کر کبھی کبھی یہ خیال فرمانے لگتے کہ کہیں یہ چیز اس امر کا نتیجہ نہ ہو کہ جو فرض ابلاغ ان پر عائد ہوتا ہے اس میں کوئی کوتاہی ہورہی ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے اسی طرح صحابہ کو بھی تسلی دی کہ اس میں قصور تمہارا نہیں بلکہ یہ ان کے اپنے مزاج کا فساد ہے۔ تم نے اپنا فرض بخوبی انجام دے دیا، اب ان کے کفروایمان کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ اس باب میں کوئی پرسش تم سے نہیں ہونی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۲ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘کفار کا عناد اور کفر پر ان کا اصرار دیکھ کر صحابہ کرام بہت رنجیدہ خاطر رہا کرتے تھے۔ ان کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ تم اپنی اصلاح اور سلامت روی کے ذمہ دار ہو۔ اگر تم راہِ راست پر ثابت قدم رہے تو کسی کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی۔ ہرشخص اپنے اعمال کی جزا و سزا بھگتے گا، لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ جب ہم خود نیکوکار اور صالح ہیں تو کسی کو نیکی کا حکم کرنا اور بُرائی سے روکنا ہم پر لازم نہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کا پہلے ہی ازالہ فرما دیا تھا۔ آپ ایک روز خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے۔ حمدوثنا کے بعد فرمایا: تم یہ آیت علیکم انفسکم الخ پڑھتے ہو اور اس کا غلط مفہوم ذہن میں رکھتے ہو۔ میں نے حضوؐر کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ان الناس اذا رأوا المنکر ولم یغیروہ یوشک ان اللّٰہ عزوجل ان یعمھم بعقابہ، (سنن اربعہ) لوگ جس وقت برائی کو دیکھیں اور پھر اس کو درست نہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔’’(ضیا القرآن ، ج۱ ، ص۵۱۷، ضیاالقرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘ بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہہ پیدا ہو کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امربالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کردے گا تو اس کا تارکِ ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا؟ جب کہ قرآن نے اذا اھتدیتم (جب تم خود ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اسی لیے جب حضرت ابوبکر صدیق کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے فرمایا کہ ‘‘لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ‘‘جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے’’ (مسنداحمد، جلد۱،ص ۵۔ ترمذی، رقم ۲۱۶۸، ابوداؤد، رقم ۴۳۳۸)۔ اس لیے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور بُرائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اس صورت میں فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان کے تحت اس کی گنجائش ہے۔ آیت بھی اس صورت کی محتمل ہے’’ (احسن البیان، ص ۱۶۱، دارالسلام لاہور)
یایھا الذین امنوا……………… انا اذا لمن الاثمین
تمام ابوابِ شہادت پر میثاق
‘‘یہ بھی ایک تکمیلی و اتمامی حکم ہے جس کی نوعیت ابتدائے سورہ میں بیان کردہ بعض احکام کی وضاحت کی ہے۔ سورہ کے شروع، آیت ۸ میں، مسلمانوں کو یہ ہدایت ہوئی ہے۔ یایھا الذین امنوا کونوا قوامین ……………… خبیر بما تعملون،وہاں، جیساکہ ہم اس آیت کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں، اس عمومی شہادت کا بیان ہے جس کی ذمہ داری اس اُمت پر تمام خلق سے متعلق ڈالی گئی ہے۔ اب یہ اس شہادت کا عمل مسلمانوں کے آپس کے ایک جزوی معاملہ میں بیان کرکے اس باب کی گویا تکمیل فرمائی ہے اور اس آیت کو اس شہادت کبریٰ کے بیان کے ساتھ جوڑ دیا ہے جس کا ذکر آیت ۱۰۹ سے آرہا ہے اور جو اس عظیم سورہ کا آخری مضمون ہے جس پر یہ سورہ ختم ہوئی ہے۔ اس آیت کا اس مقام میں جگہ پانا ایک تو اس حقیقت کو ظاہرکر رہاہے کہ جب اس تکمیلی حکم پر میثاق لے لیا گیا تو گویا تمام ابواب شہادت پر میثاق لے لیا گیا، دوسرے اس امر کو ظاہر کررہا ہے کہ ہرچند یہ حکم ایک جزوی حکم ہے لیکن باعتبار اپنی اصل کے یہ بھی اسی شہادتِ کبریٰ کا ایک جزو ہے جس پر انبیاء علیہ السلام مامور ہوئے اور جس کو انھوں نے اس دنیا میں بھی انجام دیا اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ اُنھیں آخرت میں بھی کھڑا کرے گا۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۳ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
شہادتِ وصیت سے متعلق ہدایات
‘‘یایھا الذین امنوا ……………… ذوا عدل منکم - اذا حضر احدکم الموت اور حین الوصیۃ، یہ دونوں ظرف شہادۃ بینکم سے تعلق رکھتے ہیں اور اثنن ذوا عدل منکم اسی طرح کی ترکیب ہے جس طرح ولکن البر من اٰمن باللّٰہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی موت کا وقت آجائے اور اسے اپنے مال سے متعلق کوئی وصیت بھی کرنی ہے تو اس کے لیے وہ مسلمانوں میں سے دو ثقہ آدمی کو گاوہ بنا لے۔او اٰخرن من غیرکم……………… مصیبۃ الموت،اگر کوئی شخص سفر میں ہے اور سفر ہی میں اس کو موت کا مرحلہ پیش آجاتا ہے اور گواہ بنانے کے لیے اسے دو مسلمان نہیں مل رہے ہیں تو بدرجہ مجبوری غیرمسلموں ہی میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنا سکتا ہے۔تحبسونھما من بعد الصلوۃِ فیقسمن باللہ……………… اذا لمن الاثمین،یہ ہدایت اصل حکم اثنان ذوا عدل منکم سے متعلق ہے، یعنی اپنوں میں سے جن دو معتبر گواہوں کی گواہی کے لیے منتخب کرو، اگر اندیشہ ہو کہ وہ اپنی گواہی کسی کی جانب داری میں کہیں بدل نہ دیں تو اس کو موکد کرنے کے لیے یہ تدبیر کرسکتے ہو کہ کسی نماز کے بعد مسجد میں انھیں روک لو اور ان سے اللہ کے نام پر قسم لے لو کہ وہ اپنی گواہی کسی نفع دنیوی کی خاطر اور کسی کی جانبداری میں، خواہ وہ ان کا عزیز ہی کیوں نہ ہو، بدلیں گے نہیں اور اگر وہ اس کو بدلیں تو وہ گنہگار ٹھہریں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘ان تین آیتوں کو اعراب، معنی اور حکم کے اعتبار سے مشکل ترین آیات شمار کیا گیا ہے۔ ان کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو اور اس کی موت کا وقت قریب آجائے تو دو معتبر مسلمانوں کو بلاکر اپنے مال کی وصیت کرے اور اگر اس وقت مسلمان نہ مل سکیں تو دو غیرمسلموں کو بلا کر ہی اس کی وصیت کردے۔ اور جب وہ وصی اس کے گھر پہنچیں اور وارثوں کو شک پڑ جائے کہ اُنھوں نے صحیح حالات نہیں بتائے تو نمازِعصر کے بعد جب لوگ نماز سے فارغ ہوجائیں تو ان وصیوں کو بلاکر قسم لی جائے کہ اُنھوں نے کسی قسم کی خیانت نہیں کی اور وصیت کو صحیح طور پر بیان کردیا ہے کیونکہ وارث اس صورت میں مدعی تھے لیکن ان کے پاس ان وصیوں کے خلاف گواہ موجود نہ تھے۔ اس لیے وصی جو منکر تھے ان سے قسم لی گئی۔ لیکن اگر بعد میں ان کی خیانت پکڑی جائے اور ان کا جھوٹ ظاہر ہوجائے تو پھر وارثوں میں سے دو آدمی قسم اُٹھائیں کہ پہلے وصیوں کا بیان غلط تھا اور جو ہم کہہ رہے ہیں وہ زیادہ صحیح ہے۔ پھر ان وارثوں کی قسم کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ وہ خاص واقعہ جس کے بارے میں یہ احکام نازل ہوئے۔ اس کے ذکر سے مزید وضاحت ہوجائے گی۔ اس لیے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بدیل نامی ایک مسلمان دو عیسائیوں تمیم الداری اور عدی کے ہمراہ ملک شام میں تجارت کی غرض سے گئے۔ جب بدیل شام پہنچے تو اچانک بیمار ہوگئے اور انھوں نے اپنے سامان کی فہرست لکھ کر سامان میں رکھ دی اور اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع نہ دی۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو انھوں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو بلاکر وصیت کی کہ میرا سامان میرے گھر پہنچا دینا۔ چنانچہ ان کا انتقال ہوگی۔ تمیم اور عدی نے ان کا سامان سنبھالا۔ اس میں ایک چاندی کا پیالہ تھا جس پر سنہری نقش و نگار تھے وہ ان کو پسند آیا اور اسے نکال لیا۔ مدینہ واپس پہنچ کر بدیل کا سامان ان کے گھر پہنچا دیا۔ گھروالوں کو سامان کی وہ فہرست مل گئی۔ جب سامان کو اس فہرست کے مطابق کیا گیا تو پیالہ مفقود تھا۔ ان سے دریافت کیا۔ انھوں نے بے خبری کا اظہار کیا۔ چنانچہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی۔ حضوؐر نے عصر کی نماز کے بعد ان دونوں کو بلایا اور ان سے قسم لی۔ وہاں بھی انھوں نے قسم اُٹھا لی۔ کچھ عرصہ بعد وہ پیالہ مکہ کے ایک سنار کے پاس گیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے تو یہ پیالہ تمیم اور عدی سے ایک ہزار درہم میں خریدا ہے۔ چنانچہ پھر مقدمہ بارگاہِ رسالت میں پیش ہوا۔ اس آیت کے مطابق اس دفعہ بدیل کے وارثوں سے قسم لی گئی کہ یہ پیالہ بدیل کا ہے اُس نے فروخت نہیں کیا بلکہ عدی اور تمیم نے خیانت کی ہے۔ چنانچہ ان دونوں کے خلاف فیصلہ صادر ہوا اور ان سے ہزار درہم لے کر بدیل کے وارثوں کو دیاگیا۔’’(ضیا القرآن،ج۱ ،ص ۵۱۷، ضیاالقرآن پبلی کیشنز لاہور)
من بعد الصلوٰۃ
‘‘ اسمیں صلوٰۃ سے مراد کوئی مخصوص نماز نہیں بلکہ یہ لفظ اسمِ جنس کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ جس نماز کے بعد بھی وصیت کرنے والے کو موقع میسر آجائے، یہ کام کرسکتا ہے۔ نماز کی قید کا فائدہ یہ ہے کہ جو قول و قرار اور جو شہادت و قسم نماز کے بعد اور مسجد میں نمازیوں کی موجودگی میں انجام پائے، ایک صاحب ِ ایمان سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ وہ اس پر مضبوطی سے قائم رہے گا۔ کسی ترغیب و تحریص سے اس کو بدلے گا نہیں۔ چنانچہ قسموں اور معاہدوں کے باب میں زمانۂ قدیم سے یہ رواج رہاہے کہ ان کی تکمیل بالعموم معبدوں کے سامنے ہوتی۔ چونکہ اس چیز کی اثرانگیزی ایک فطری چیز ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے بھی اس کو اہمیت دی ہے۔ یہاں ایک شرط بھی مذکور ہے، وہ یہ کہ اگرگواہوں کے بارے میں کوئی شک ہو، تب یہ قسم لی جائے۔ اگر کوئی اندیشہ نہ ہو، گواہ ثقاہت و عدالت کے اعتبار سے ایسے مرتبہ کے ہوں کہ ان کے بارے میں کسی سوء ظن کا احتمال نہیں ہے تو خواہ مخواہ ان سے قَسم لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لانکتم شھادۃ اللّٰہ،میں اس گواہی کو شہادۃ اللّٰہ، سے تعبیر کر کے اس کی عظمت واضح فرمائی ہے اس لیے کہ مومن کی ہرگواہی، چھوٹی ہو یا بڑی، کونوا قوامین للّٰہ شہدآء بالقسط کی رُو سے اس عظیم فریضۂ منصبی کا ایک جزو ہے جس پر اللہ نے اس کو مامور فرمایا ہے، اگر اس میں ادنیٰ خیانت بھی اس سے صادر ہو تو وہ صرف بندوں ہی کا خائن نہیں بنتا ہے بلکہ اپنے رب کا بھی خائن بن جاتا ہے۔ہم نے اس قَسم کو اصل حکم یعنی اس صورت سے متعلق مانا ہے جب گواہ اپنوں، مسلمانوں میں سے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیرمسلموں کے لیے نماز، مسجد، اللہ کے نام پر قَسم اور وہ بھی ان الفاظ میں کہ لانکتم شھادۃ اللّٰہ انا اذا لمن الاثمین، (ہم اس شہادتِ الٰہی کو چھپائیں گے نہیں، اگر ہم ایسا کریں تو ہم گنہگاروں میں سے ٹھہریں) بالکل غیر مؤثر چیزیں ہیں۔ اوّل تو وہ اپنے مذہبی جذبات کے خلاف ان باتوں کو گوارا کیوں کریں گے اور کربھی لیں تو اس کا اثر ان پر کیا ہوگا؟ ان کی گواہی تو ایک مجبوری کی صورت میں گوارا کی گئی ہے اور ایک شاذ حالت سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے ان کی گواہی کی حفاظت کے لیے یہ اہتمام ایک بالکل بے جوڑ سی چیز ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
فان عثر علٰی انھما……………… اذا لمن الظلمین
‘‘عثر عثرا وعثورا علی السر کے معنی ہیں وہ راز سے آگاہ ہوا۔‘اولیان’ ، ‘اولیٰ’ کا مثنیٰ ہے جس کے معنی احق کے ہیں (ان اولی الناس بابراھیم) ‘الاولیان’یعنی ‘الاولیان بالشہادۃ’ شہادت کے زیادہ حق دار۔ ان سے مراد وہ دونوں گواہ ہیں جو وصیت کے ابتدائی گواہ بنائے گئے۔ چونکہ اپنے منصب کے اعتبار سے گواہی کے اصل حق دار وہی ہیں اس وجہ سے ان کو ‘الاولیان’ کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ یہاں اس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ جب وہ اولیٰ بالشہادۃ ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے اس منصب کی لاج رکھیں اور کسی ایسی بدعنوانی کے مرتکب نہ ہوں کہ اولیٰ بالشہادۃ ہوتے ہوئے بھی ان کی شہادت دوسروں کی قسم سے باطل ہوجائے۔یہ ان گواہوں پر ایک مزید احتساب اور چیک (check) ہے۔ فرمایا کہ اگر یہ بات علم میں آئے کہ انھوں نے وصیت کرنے والے کی وصیت کے خلاف کسی کی جانب داری یا کسی کی حق تلفی کی ہے تو جن کی حق تلفی ہوئی ہے ان میں سے دو آدمی اُٹھ کر قسم کھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں اولیٰ بالشہادت گواہوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔ ہم نے ذرا بھی حق سے تجاوز نہیں کیا ہے، اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم ظالموں میں سے ٹھہریں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۵ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ذٰلک ادنٰی ان یاتوا ……………… لا یھدی القوم الفسقین
‘‘یہ اس احتساب کا فائدہ بتایا ہے کہ اقرب ہے کہ اس احتساب کے خیال سے وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں ورنہ انھیں ڈر ہوگا کہ اگر ان سے کوئی بدعنوانی صادر ہوئی تو ان کی قسمیں دوسروں کی قسموں سے باطل ہوجائیں گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن کی حق تلفی ہوئی ہے اگر وہ مذکورہ قسم کھا لیں گے تو وصیت کے اصل گواہوں کی گواہی ان کے اولیٰ بالشہادت ہونے کے باوجود رد ہوجائے گی۔ ترد ایمان بعد ایمانکم میں ایمان کی تنکیر اسی طرح کی ہے جس طرح نطس وجوھاً میں ہے جس پر گفتگو ہوچکی۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۵ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
یوم یجمع اللّٰہ……………… انت علام الغیوب
میثاقِ الٰہی کی ذمہ داری دنیا اور آخرت دونوں میں
‘‘یہاں سے اس سورہ کا بالکل آخری ٹکڑا شروع ہورہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انبیاء کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی اپنی اُمتوں کو کیا تعلیم دی تھی اور ان کی اُمتوں نے اس تعلیم کے باب میں کیا رویہ اختیار کیا؟ یہ سورہ کے آخر میں گویا اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ میثاقِ الٰہی کی ذمہ داری نبی اور اُمت دونوں پر عائدہوتی ہے اور قیامت کے دن اس کے بارے میں دونوں سے سوال ہوگا۔ آگے ذکر اگرچہ صرف سیدنا مسیح سے سوال و جواب کا ہے لیکن آنجناب ؑ کا ذکر بطور مثال ہے۔ اس مثال سے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اسی طرح کے سوال و جواب ہر نبی سے اس کی اُمت کے بارے میں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ہر اُمت پر اس کے نبی کی موجودگی میں واضح فرما دے گا کہ اس نے اللہ کے عہد کے معاملے میں اپنے نبی کی تعلیم کی کیا کیا خلاف ورزیاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر سیدنا مسیحؑ کے انتخاب کی حکمت یہ ہے کہ وہ اسرائیلی سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ ان کی شہادت یہود و نصاریٰ کے لیے بھی سبق آموز ہوسکتی تھی اور اس اُمت کے لیے بھی۔ آنحضرتؐ کی شہادت اس مرحلہ میں اس لیے ذکر نہیں کی گئی کہ آپ کی اُمت ابھی دورِ تشکیل میں تھی، اس کا پورا کردار ابھی سامنے نہیں آیا تھا۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۶ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
انبیاء سے سوال ان کی اُمتوں کے رویہ سے متعلق
‘‘ماذا اُجبتم،کے سوال کا صحیح مفہوم موقع و محل سے واضح ہوتا ہے۔ انبیاء سے یہ سوال جو یہاں مذکور ہے ان کے منکروں سے متعلق نہیں کیا جائے گا بلکہ جیساکہ واضح ہوا، ان کی اُمتوں سے متعلق کیا جائے گا کہ جن لوگوں کو تم نے اللہ کے عہدومیثاق میں داخل کیا ان کا رویہ اور ردعمل کیا رہا؟ انبیاء علیہم السلام پر سوال کی یہ حقیقت چونکہ واضح ہوگی اس وجہ سے وہ اپنی لاعلمی کا اظہار کریں گے کیونکہ ان کا علم صرف دنیا میں اپنی موجودگی کے زمانے تک ہی محدود ہوگا اور اس سوال کے صحیح جواب کا انحصار اس امرپر ہے کہ انھیں اپنی اُمتوں کی بعد کی تبدیلیوں کا بھی علم ہو۔ چونکہ بعد کی تبدیلیوں کا انھیں علم نہیں ہوگا اس وجہ سے وہ اس جواب کے معاملے کو خدا ہی کی طرف تفویض کریں گے۔ آگے حضرت عیسٰی ؑکا ارشاد مذکور ہے : کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم وانت علی کل شی شہید (میں جب تک ان میں رہا ان پر گواہ رہا پھر جب تو نے مجھے اُٹھا لیا تو تو ان پر نگران رہا اور تو ہر چیز پر نگران ہے)’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۶ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
واذ کففت بنی اسرآئیل عنک
‘‘اشارہ بنی اسرائیل کی ان سازشوں کی طرف ہے جو انھوں نے سیدنا مسیحؑ کے قتل اور سولی کے لیے کیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
سوالات نصاریٰ کی فضیحت کے لیے
‘‘یہ تمام باتیں قیامت کے دن حضرت عیسٰی ؑکو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نصاریٰ پر حجت تمام کرنے کے لیے فرمائے گا گویا حضرت عیسٰی ؑکی موجودگی میں نصاریٰ پر یہ حقیقت واضح کردی جائے گی کہ حضرت عیسٰی ؑاور ان کی والدہ پر جو انعام بھی ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا، انھوں نے جو معجزے بھی دکھائے سب اللہ کے اذن و حکم سے دکھائے اور یہودیوں نے ان کو جن خطرات میں ڈالا ان سے ان کو اللہ تعالیٰ ہی نے نکالا۔ پھر جب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے کیا اور اس کے سب سے بڑے گواہ خود عیسٰی ؑہیں تو نصاریٰ بتائیں کہ انھوں نے کس کے کہنے سے ان کو خدا بنا ڈالا۔ یہاں باذنی (میرے حکم سے) کی تکرار نہایت بلیغ ہے۔ ایک ایک بات پر اللہ تعالیٰ اس کو دُہرائے گا اور ان میں سے ہر بات پر سیدنا مسیح امنا وصدقنا ہی کہیں گے تو ظاہر ہے کہ جن معجزات کے بل پر نصاریٰ نے حضرت عیسٰی ؑکو خدا بنایا، جب وہ سب خدا کے ‘اذن’ سے ہوئے اور اس کا اعتراف خود معجزات کا دکھانے والا ہی کرے گا تو نصاریٰ کے حصے میں فضیحت اور رسوائی کے سوا اور کیا باقی رہ جائے گا۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
اذ ایدتک بروح القدس
‘‘ گود میں جو کلام اس کا ذکر سورۂ مریم میں آئے گا: انی عبداللّٰہ اتانی الکتاب الی آخرہ، تعجب ہے کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح کے تکلم فی المہد کا کچھ ذکر نہیں کیا۔ البتہ یہ لکھا ہے کہ بارہ برس کی عمر میں یہود کے سامنے انھوں نے ایسی حکیمانہ دلائل و براہیم بیان فرمائیں کہ تمام علماء عاجز و مبہوت رہ گئے اور سامعین عش عش کرنے لگے۔ یوں تو ‘‘روح القدس’’ سے حسبِ مراتب سب انبیاء علیہم السلام بلکہ بعض مومنین کی بھی تائید ہوتی ہے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن کا وجود ہی ‘‘نفخہ جبریلیہ’’ سے ہوا، کوئی خاص قسم کی فطری مناسبت اور تائید حاصل ہے جسے تفضیل انبیاء ک صدد میں بیان فرمایا گیا۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علٰی بعض …… بروح القدس (بقرہ، رکوع ۳۳) ‘‘روح القدس’’ کی مثال ‘‘عالمِ ارواح’’ میں ایسی سمجھو جیسے عالمِ مادیات میں قوتِ کہربائیہ (بجلی) کا خزانہ، جس وقت اس خزانہ کا مدیر معین اصول کے موافق کرنٹ چھوڑتا اور جن اشیاء میں بجلی کا اثر پہنچاتاہے،ان کا کنکشن درست کردیتا ہے تو فوراً خاموش اور ساکن مشینیں بڑے زور سے گھومنے لگتی ہیں۔ اگر کسی مریض پر بجلی کا عمل کیا گیا تو مشلول اعضاء اور بے حس ہوجانے والے اعصاب میں بجلی کے پہنچنے سے حس و حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے بیمار کے حلقوم میں جس کی زبان بالکل بند ہوگئی ہو، قوتِ کہربائیہ کے پہنچانے سے قوتِ گویائی واپس کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ بعض غالی ڈاکٹروں نے تو یہ دعویٰ کردیا کہ ہرقسم کی بیماری کا علاج قوتِ کہربائیہ سے کیا جاسکتا ہے۔ (دائرۃ المعارف فرید وجدی) جب اس معمولی مادی کہربائیہ کا حال یہ ہے تو اندازہ کرلو کہ ‘‘عالمِ ارواح’’ کی کہربائیہ میں جس کا خزانہ روح القدس ہے کیا کچھ طاقت ہوگی، حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی کا تعلق روح القدس سے کسی ایسی خاص نوعیت اور اصول کے ماتحت رکھا ہے جس کا اثر کھلے ہوئے غلبہ روحیت، تجرد اور مخصوص آثارِ حیات کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ان کا ‘‘روح اللہ’’ سے ملقب ہونا، بچپن، جوانی اور کہولت میں یکساں کلام کرنا، خدا کے ہکم سے افاضہ حیات کے قابل کالبدِ خاکی تیار کرلینا، اس میں باذن اللہ روحِ حیات پھونکنا، مایوس العلاج مریضوں کی حیات کو باذن اللہ بدون توسط اسباب عادیہ کے کارآمد اور بے عیب بنا دینا، حتیٰ کہ مُردہ لاشہ میں باذن اللہ دوبارہ روحِ حیت کو واپس لے آنا، بنی اسرائیل کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا کر آپ کا آسمان پر اُٹھا لیا جانا،اور آپ کی حیاتِ طیبہ پر اس قدر طول عمر کاکوئی اثر نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب آثار اسی تعلقِ خصوصی سے پیدا ہوئے ہیں جو رب العزت نے کسی مخصوص نوعیت و اصول سے آپ کے اور روح القدس کے مابین قائم فرمایا ہے۔ ہرپیغمبر کے ساتھ کچھ امتیازی معاملات خدا تعالیٰ کے ہوتے ہیں، ان کے علل و اسرار کا احاطہ اسی علام الغیوب کو ہے۔ ان ہی امتیازات کو علماء کی اصطلاح میں ‘‘فضائل جزئیہ’’ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ایسی چیزوں سے کلُی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ چہ جائیکہ ‘‘اُلوہیت’’ ثابت ہو۔ واذ تخلق من الطین، میں خلق کا لفظ محض صوری اور حسی لحاظ سے استعمال کیا گیا ہے ورنہ خالقِ حقیقی ‘‘احسن الخالقین’’کے سوا کوئی نہیں۔ اسی لیے باذنی کا بار بار اعادہ کیا گیا اور ‘‘آلِ عمران’’ میں حضرت مسیح کی زبان سے باذن اللہ کی تکرار کرائی گئی۔ بہرحال جو خوارق ان آیات میں اور ان سے پہلے ‘‘آل عمران’’ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب ہوئے ہیں، ان کا انکار یا تحریف صرف اسی ملحد کا کام ہوسکتا ہے جو ‘‘آیات اللہ’’ کو اپنی عقلِ شخصی کے تابع کرنا چاہے۔ باقی جو لوگ قانونِ قدرت کا نام لے کر ‘‘معجزات و خوارق’’ کا انکار کرنا چاہتے ہیں، ان کا جواب ہم نے ایک مستقل مضمون میں دیا ہے، اس کے مطالعہ سے ان شاء اللہ تمام شکوک و شبہات کا ازالہ ہوسکے گا۔’’( تفسیر عثمانی ، ص ۱۶۹ ، پاک کمپنی لاہور)
واذ اوحیت الی الحوارین……………… احداً من العلمین
حواریین کو زیربحث لانے کی حکمت
‘‘وحی’ کا لفظ یہاں اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ لغوی معنی میں ہے۔ یعنی دل میں کوئی ارادہ ڈالنا۔ ‘حواری’ کے لفظ پر دوسرے مقام میں بحث ہوچکی ہے۔ یہی حواریین ہیں جو پوری قوم کے اندر سے حضرت عیسٰی ؑپر ایمان لائے، انھی نے دعوت کے کام میں آپ کی مدد کی اور انھی کو آنجناب کے خلفا کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ان کی اس اہمیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے سامنے بھی وہ حقائق پیش کرے گا جن سے نصاریٰ پر حجت پوری ہوگی۔ اس اتمامِ حجت کے چند پہلو یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ حواریین نے جس دین کو قبول کیا وہ نصرانیت و مجوسیت نہیں بلکہ اسلام ہے۔دوسرا یہ کہ حواریین حضرت عیسٰی ؑکو عیسٰی بن مریمؑ کہتے تھے، ان کی الوہیت کا کوئی تصور ان کے ذہن میں نہیں تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو حضرت عیسٰی ؑاور تمام کائنات کا رب مانتے تھے۔تیسرا یہ کہ وہ حضرت عیسٰی ؑ کو بالذات معجزات کا دکھانے والا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کو صرف ان کے ظہور کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے، چنانچہ انھوں نے مائدہ کے اُتارے جانے کے لیے جو درخواست کی وہ حضرت عیسٰی ؑسے نہیں کہ آپ ہمارے لیے مائدہ اُتاریں بلکہ یہ درخواست کی کہ اگر یہ بات آپ کے خداوند کی حکمت کے خلاف نہ ہو تو آپ اس سے درخواست کیجیے کہ وہ ہمارے لیے مائدہ اُتارے تاکہ اس سے ہمارے دلوں کو طمانیت حاصل ہو۔جب یہ ساری باتیں سیدنا مسیح، حواریین اور نصاریٰ کی موجودگی میں سامنے آئیں گی تو اس وقت وہ سارے جھوٹ آشکارا ہوجائیں گے جو مسیحیوں نے حضرت مسیحؑ یا حواریین پر باندھے ہیں اور جن کے ذریعے سے اپنی بدعات میں ان کو ملوث کیا ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۸ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘یعنی آسمان کی طرف سے بے محنت روزی پہنچ جایا کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خوانِ جنت ہی کا ہو۔’’(تفسیر عثمانی ، ص ۱۷۰ ، پاک کمپنی لاہور)
تکون لنا عیدا لاولنا۔۔۔
‘‘یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں، اس کی تعظیم کریں، خوشیاں منائیں، تیری عبادت کریں، شکر بجالائیں۔ مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا عبادتیں کرنا شکرالٰہی بجا لانا طریقہ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عیدمنانا اور میلاد شریف پڑھ کرشکرالٰہی بجا لانا اور اظہارِ فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔’’( خزائن العرفان ، ص ۲۲۸، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا ہے کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیساکہ آج کل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں بلکہ آسمانی شریعتوں میں اس کی حیچیت ایک ملّی تقریب کی ہوتی ہے جس کا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس روز پوری ملّت اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی تکبیر و تحمید کے زمزے بلند کرے۔ یہاں بھی حضرت عیسٰی ؑنے اس دن کو عید بنانے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے، اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تیری تعریف و تمجید اور تکبیروتحمید کریں۔ بعض اہلِ بدعت اس ‘‘عیدمائدہ’’ سے ‘‘عیدمیلاد’’ کا جواز ثابت کرتے ہیں حالانکہ اوّل تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے جسے اگر اسلام نے برقرار رکھنا ہوتا تو وضاحت کردی جاتی۔ دوسرے، یہ پیغمبر کی زبان سے ‘‘عید’’ بنانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ تیسرے، عید کا مفہوم و مطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ ‘‘عیدمیلاد’’ میں ان میں سے کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی، ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں ہے۔’’ (احسن البیان ، ص ۱۶۴، دارالسلام لاہور)
سوال خدا کی قدرت سے متعلق نہیں، اُس کی حکمت سے متعلق ہے
‘‘ھل یستطیع ربک کے سوال کے باب میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حواریین کا سوال خدا کی قدرت سے متعلق نہیں بلکہ اس کی حکمت سے متعلق تھا کہ اس قسم کی کھلی ہوئی نشانی دکھانا اس کی حکمت کے مطابق بھی ہوگا یا نہیں؟ حواریین باایمان لوگ تھے، وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتے تھے کہ ان کی یہ درخواست مشابہ ہے اس مطالبہ سے جو بنی اسرائیل نے خدا کو دیکھنے کے لیے کیا تھا جس کے نتیجہ میں ان کو کڑک نے آدبوچا تھا۔ معجزات ہرچند خارق عادت ہوتے ہیں تاہم وہ اسباب کے پردے ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ تمام پردے اٹھا دیئے جائیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے مطالبات کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی جن میں خواہش ان حدود سے متجاوز ہوجائے جو معجزات کے ظہور کے لیے سنت اللہ میں مقرر ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ نے بھی اس سے روکا اور جب حواریین کی دوبارہ درخواست پر اس کے لیے درخواست فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے اس درخواست کو پسند نہیں فرمایا بلکہ ارشاد ہوا کہ اُتارنے کو تو میں مائدہ اُتار دوں گا لیکن یاد رکھو کہ جو لوگ اتنی کھلی نشانیاں دیکھنے کے بعد کفر میں مبتلا ہوں گے ان کو سزابھی وہ دوں گا جو کسی اور کو نہ دوں گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد حواریین اپنی اس درخواست سے باز آگئے۔ اہلِ تاویل میں سے بھی ایک گروہ کا یہی خیال ہے کہ اس کا نزول نہیں ہوا۔ انجیلوں میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۸ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
واذ قال اللّٰہ……………… انت العزیز الحکیم
نصاریٰ کی رسوائی آخرت میں
‘‘واذ قال اللّٰہ ۔۔۔ اُوپر جو باتیں مذکور ہوئی ہیں مقصود ان کے ذکر سے بھی اگرچہ، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، نصاریٰ کی تفضیح ہے لیکن وہ تفضیح بالواسطہ ہے۔ اب یہ اس سوال کا ذکر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰی ؑ سے نصاریٰ کی اصل گمراہی کے بارے میں پوچھے گا کہ کیا تم نے نصاریٰ کو یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ کے سوا مجھ کو اور میری ماں کو بھی معبود بناؤ۔ حضرت عیسٰی ؑجواب میں فرمائیں گے کہ بھلا میں ایسی بات زبان سے کس طرح نکال سکتا تھا جس کا مجھے کوئی حق نہیں تھا، نہ تو تو نے یہ کہنے کا مجھے مجاز کیا تھا، نہ دنیا کی خلق و تدبیر میں میری کوئی حصہ داری تھی کہ میں اس کا مدعی بنتا۔ مقصود اس سوال و جواب سے یہ ہوگا کہ نصاریٰ جنھوں نے حضرت مسیحؑ اور ان کی والدہ کو خدا کا شریک بنایا، بھرے مجمع میں پوری طرح رسوا ہوں۔ان عبدوا اللّٰہ ربی وربکم کے ٹکڑے پر آلِ عمران کی تفسیر میں ہم گفتگو کرچکے ہیں کہ یہ دراصل صحیح تعبیر ہے۔ سیدنا مسیحؑ کے ارشاد ‘‘میرا باپ اور تمہارا باپ ’’ کی ، اس کو وہاں دیکھیے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۹ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم
‘ ‘شہید’یہاں نگران کے معنی میں ہے۔مطلب یہ ہے کہ میں جب تک ان میں موجود رہا، اس وقت تک تو میں دیکھتا رہا کہ وہ کیا بنا رہے ہیں لیکن جب تو نے مجھے اُٹھا لیا تو مجھے کچھ پتہ نہیں کہ انھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا--- اُوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ ماذا اُجبتم کے سوال کا یہی پہلو ہے جس کی بنا پر انبیاء علیہم السلام اپنی لاعلمی کا اظہار فرمائیں گے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۹ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
نصاریٰ کی شفاعت سے سیدنا مسیحؑ کی برأت
ان تعذبھم فانھم عبادک
‘‘سیدنا مسیحؑ کے اس فقرے کی بلاغت کی تعبیر نہیں ہوسکتی۔ بظاہر دل چاہتا ہے کہ فقرہ یوں ہوتا۔ ان تغفرلھم فانھم عبادک ………… انت العزیز الحکیم،لیکن اگر یوں ہوتا تو یہ نہایت واضح الفاظ میں نصاریٰ کے لیے شفاعت بن جاتا اور انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ مشرکین کے لیے سفارش نہیں فرمائیں گے۔ اس وجہ سے سیدنا مسیحؑ بات ایسے اسلوب میں فرمائیں گے کہ بات سچی بھی ہو، دربارِ الٰہی کے شایانِ شان بھی ہو، دردمندانہ بھی ہو اور ان پر اس سے مشرکین و محرفین دین کی سفارش کی کوئی ذمہ داری بھی عائد نہ ہو۔ چنانچہ ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم، کے الفاظ پر غور فرمایئے تو معلوم ہوگا کہ اس فقرے میں وہ تمام خوبیاں بھی موجود ہیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا اور ساتھ ہی یہ پہلو بھی موجود ہے کہ سیدنا مسیحؑ اپنے آپ کو ان کی شفاعت کی ذمہ داری سے بَری کرلیں گے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۰۹ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ادب خداوندی
‘‘حضرت مسیحؑ کا جواب قابلِ غور ہے۔ الزام آپ پر لگ رہا ہے کہ آپ نے ایسا کہا۔ اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ اپنی صفائی میں لب کشائی نہیں کرتا بلکہ اپنے رب کی عظمت و پاکی کا اعلان کرتا ہے اور اپنی صفائی اپنے سب کچھ جاننے والے خدا کے سپرد کردیتا ہے۔ یعنی اے میرے رب! تجھ سے کوئی بات مخفی نہیں۔ زمین و آسمان کے سب چھپے ہوئے اسرار تجھے معلوم ہیں۔ میں کیا اپنی صفائی پیش کروں۔ تو جانتا ہے کہ میں نے یہ الفاظ ہرگز نہیں کہے اور تیرا یہ بندہ جس پر ہرلحظہ تیرے کرم کی بارش ہورہی ہے۔ کیا اتنا ناشکرگزاربن سکتا ہے اور یہ جرأت کرسکتا ہے کہ ایسی بات کا مدعی بنے جس کا اسے کوئی حق نہیں۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے بارگاہِ خداوندی میں ادب و تعظیم کی۔’’ (ضیا القرآن ، ج۱ ،ص۵۲۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
توفی
‘‘جب تک میں ان میں رہا اُس وقت تک میں ان کی نگہبانی کرتا رہا اور جب تو نے مجھے آسمان پر اُٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ یہاں بعض لوگوں نے توفیتنی کے لفظ سے حضرت عیسٰی ؑکی موت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ غلط ہے۔ کیونکہ توفی کا حقیقی معنی مارنا نہیں بلکہ کسی چیز کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لینا ہے۔ التوفی اخذ الشیئی وافیا، کسی چیز کو کامل طور پر اپنے قبضہ میں لے لینا (بیضاوی) وتوفاہ ای لم یدع منہ شیئا (تاج العروس) اور یہ لفظ موت کے معنی میں بطریق مجاز استعمال ہوتا ہے۔ ومن المجاز ادرکتہ الوفاۃ ای الموت (تاج العروس) چنانچہ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ لفظ وفات قرآن میں تین طرح استعمال ہوا ہے: ۱- وفاتِ موت ۲- واتِ نوم ۳- وفاتِ رفع۔ پہلی وجہ کی مثال اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتھا، یعنی اللہ تعالیٰ موت کے وقت نفسوں کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے۔ دوسری وجہ کی مثال وھو الذی یتوفاکم باللیل۔ اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو رات کو نیند کے وقت تمھارے نفسوں کو اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے۔ تیسری وجہ کی مثال یاعیسٰی انی متوفیک، اے عیسٰی ؑمیں تمہیں زمین سے اُٹھا کر اپنے قبضہ اور حفاظت میں لے لوں گا۔ قال الحسن الوفاۃ فی کتاب اللّٰہ عزوجل علٰی ثلثۃ اوجہ وفاۃ الموت ووفاۃ النوم ووفاۃ الرفع وذالک قولہ تعالی اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتھا - قال اللّٰہ تعالٰی وھو الذی یتوفاکم باللیل - قال اللّٰہ تعالٰی یعیسٰی انی متوفیک (قرطبی)
اب جب یہ لفظ ان متعدد معانی میں مستعمل ہوتا ہے تو اِس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کسی موقع پر ان متعدد معانی سے کون سا معنی مراد ہے۔ دوسرے قرائن کو دیکھنا ہوگا اور اگر حدیث صحیح سے کوئی معنی متعین ہوجائے تو پھر دوسرے معانی کا احتمال ختم ہوجائے گا اور صرف وہی معنی لیا جائے گا جو حضوؐر نے مقرر فرما دیا ہے۔ کیونکہ کتاب کے بیان کا حق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو تفویض فرمایا ہے۔ اس کے بعد کسی قیل و قال کی گنجائش نہیں رہتی۔ جب احادثِ نبویہ میں یہ صراحت موجود ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکو زندہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا تو اب آیاتِ قرآنی کو اپنے اغراض و اہواء کا لباس پہنانا سراسر بے دینی اور بے باکی ہے۔’’( ضیا القرآن ، ج۱ ، ص۵۲۵، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘ سوال ہمیشہ اسی لیے نہیں کیا جاتا کہ سائل کو اس چیز کا علم نہیں اور وہ اس سوال سے غیرمعمول چیز کو جاننا چاہتا ہے بلکہ سوال دوسرے فوائد کے لیے بھی ہوسکتا ہے یہاں اس استفسار سے مقصود یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکی زبان سے ان کروڑوں آدمیوں کو اپنی فحش غلطی پرآگاہ کیا جائے جس میں وہ مبتلا ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا شریکِ خدا یا فرزندِخدا بنائے ہوئے ہیں۔’’( ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۵۲۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ کلام چونکہ محشر میں ہوگا جہاں کفار کے حق میں کوئی شفاعت اور استدعاء رحم وغیرہ نہیں ہوسکتی،اسی لیے حضرت مسیح نے عزیز حکیم کی جگہ غفور رحیم وغیرہ صفات کو اختیار نہیں فرمایا۔ برخلاف اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیا میں اپنے پروردگار سے عرض کیا تھا: رب انھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم (اے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کردیا تو جو ان میں سے میرے تابع ہوا وہ میرا آدمی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو پھر تو غفور رحیم ہے) یعنی ابھی موقع ہے کہ تو اپنی رحمت سے آئندہ ان کو توبہ اور رجوع الی الحق کی توفیق دے کر پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے۔’’( تفسیر عثمانی ، ص ۱۷۲، پاک کمپنی لاہور)
قالوا امنا واشہد باننا مسلمون
‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین جس کی وہ دعوت دیا کرتے تھے وہ اسلام ہی تھا، یہ کوئی نیا دین نہیں ہے جو پہلے دینوں سے الگ ہو بلکہ انھی کی ایک کامل، توانا اور حسین صورت ہے۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ، ص۵۲۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
اللہم ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء
‘‘ بعض جلیل القدر تابعین، مجاہد اور حسن کی رائے تو یہ ہے کہ جب انھوں نے ناشکری پر سخت ترین عذاب کی دھمکی سنی تو اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔ لیکن جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ مائدہ بالفعل نازل ہوا۔ اس میں کون کون سے کھانے تھے؟ اس کی تفصیل کا نہ یقینی علم ہے اور نہ اس کے جاننے کی ضرورت۔ والمقطوع بہ انھا نزلت وکان علیھا الطعام یوکل واللّٰہ اعلم بتعیینہ (قرطبی)’’( ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۵۲۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
قال اللّٰہ ھذا ………………علی کل شی قدیر
‘‘صدق’ کے لفظ پر ہم آلِ عمران آیت ۱۷ کی تفسیر میں بحث کرچکے ہیں۔ یہاں ‘صادقین’ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے قول و قرار اور عہدومیثاق میں پورے راست باز ثابت ہوئے، اس میں انھوں نے کوئی تبدیلی اور تحریف نہیں کی، زندگی کے تمام نشیب و فراز میں عزم و جزم کے ساتھ اللہ کی شریعت پر قائم رہے۔ من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللّٰہ علیہ (اور مومنین میں وہ مردانِ کار بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے باندھے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا)۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۱۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
راست بازوں کی کامرانیوں کا دن
‘‘مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج کا دن تو راست بازوں کی فتح مندیوں اور کامرانیوں کا ظہور کا دن ہے۔ بدعہدوں، خائنوں اور جھوٹی آرزوؤں میں زندگی گزارنے والوں کے لیے آج حسرت و نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جنھوں نے اللہ کے ساتھ اپنے عہداخلاص وسچائی کے ساتھ پورے کیے ہیں ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یعنی ان کے رب نے جو کچھ ان سے چاہا انھوں نے اس کی رضا کے مطابق وہ پورا کر دکھایا اور انھوں نے اپنے رب سے جو اُمیدیں کیں ان کی توقعات اور ان کے تصورات سے ہزاروں لاکھوں درجہ اُوپر وہ پوری ہوگئیں۔ فرمایا کہ اصلی بڑی کامیابی یہی ہے۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج ۲، ص ۶۱۰ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘یہ آخری آیت گویا اس سورۂ کریمہ کے سر پر ریں تاج ہے۔ سب شبہات کا ازالہ، سب گمراہیوں کا رد اور سب حقائق کا حاصل اور نچوڑاِس میں بیان فرما دیا۔ فرمایا: زمین اور آسمان اور ان میں خاکی، ناری اور نوری، بے جان اور جان دار، بے شعور اور باشعور جو کچھ بھی ہے سب اللہ وحدہ لاشریک کی ملکیت ہے۔ اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں۔ کوئی خدائی میں شریک نہیں۔ کوئی اس کا بیٹا نہیں۔ سب اس کے بندے اور اس کے حکم کے پابند ہیں۔ ہرچیز اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ اگر کسی کو کوئی چیز نہ دے یا دے کر چھین لے تو کوئی دم نہیں مارسکتا اور اپنے محبوبوں کو خصوصاً اپنے محبوب ترین بندے سیدالمرسلین کو جو دنیا چاہے وہ دے دیتا ہے کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔(ضیاء القرآن،ج۱ ،ص ۵۲۷ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
مترجمین ۔۱۔شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔محترم جاویداحمد غامدی
تفاسیرومفسرین۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ،۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ،۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ،۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ،۶۔ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ،۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی،۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی،۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی