بادشاہی صرف اور صرف اللہ کی ہے(لمن الملک الیوم)
قرآن مجیدمیں بہت سے مقامات پر قیامت کا ذکر ہے۔ اسی طرح کا ایک مقام سورہ المومن کی آیت نمبر ۱۶ ہے جس میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ‘‘ جس دن وہ خدا کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ان کی کوئی چیز بھی خدا سے چھپی نہ ہو گی۔ پوچھا جائے گا ، آج بادشاہی کس کی ہے ؟ اللہ واحد و قہار کی ’’۔یعنی لمن الملک الیوم کے جواب میں زبانیں گنگ رہ جائیں گی اور انسان ساکت و جامدکھڑارہ جائے گا تو اللہ خود ہی جواب دے گا للہ الواحد القہار۔ کرونا نے قیامت کا یہ منظرگویا ہمارے سامنے اسی دنیا میں قائم کر دیا ہے اور سائنسی ترقی و ٹیکنالوجی کے نشے میں مبتلا انسانوں کے غرور کو خاک میں ملا کر ان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بادشاہی صرف اور صرف اسی ایک اللہ کی ہے۔ کل بھی تھی ، آج بھی ہے اورہمیشہ رہے گی۔ ذرہ برابر اختیار پاکر انسان کو آپے سے باہر نہیں ہونا چاہے ، وہ مالک الملک جب چاہے ڈھیلی کی ہوئی لگام کھینچ سکتا ہے ۔
کوئی بھی نعمت چھوٹی نہیں ہوتی
کتنی باتیں ہماری روزمرہ کی روٹین میں شامل ہوتی ہیں اور ہمیں ان کی اہمیت کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ کرونا نے ایسی سب باتوں کی اہمیت کو بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے اور انسان یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ بے شک کوئی نعمت بھی چھوٹی نہیں ہوتی ۔کرونا کے لاک ڈاؤن نے انسانوں کو بہت اچھی طرح یا د دلا دیا ہے کہ چلنے پھرنے میں آزاد ہونا ، اپنی مرضی سے آنا اپنی مرضی سے جانا ، کسی سے ہاتھ ملانا ، کسی سے معانقہ کرنا، کسی کے گلے لگ جانا، کسی سے پیا ر کرنا ، کسی کے پاس بیٹھنا ،کسی سے باتیں کرنا، جہاں چاہے بیٹھ جانا جہاں چاہے کھڑے رہنا ،سورج کی روشنی میں بیٹھنا ، چاند کو جی بھر کے دیکھنا ، ساحل سمندرپہ گھومنا ، کہیں بھی سیر کے لیے چلے جانا، پارٹیاں دعوتیں اور فیسٹیول منعقد کرنا ، دوست احباب اور اقربا کے پاس بلا دھڑ ک چلے جانا،عبادت گاہوں میں جانااور جتنی دیر چاہے بیٹھے رہنا ، سکول کالج یونیورسٹی میں جانا ، ہر روز کاروباریا جاب پہ جانا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلی ہوا میں سانس لیناکتنی بڑی نعمتیں ہیں ۔اٹلی میں ایک نوے سالہ باباجی کرونا کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئے ۔ایک دن وینٹی لیٹر پہ بھی رہے لیکن صحت یاب ہو گئے۔ ہسپتال سے ڈسچارج کرتے ہوئے انہیں بل دیا گیا جس میں ایک دن کے وینٹی لیٹر کا بل پانچ سو یورو تھا۔بابا جی بل دیکھ کر رو دیے ۔ ڈاکٹر نے سمجھا کہ شاید یہ بل ادا نہیں کر سکتے ۔ تو انہیں کہا گیا کہ اگر آپ یہ بل ادا نہیں کر سکتے تو کوئی بات نہیں ہم سوشل ویلفیئر فنڈ سے ادا کر دیتے ہیں۔ بابا جی نے کہا نہیں میں یہ بل ادا کر سکتا ہوں۔میں تو یہ سوچ کے رویا کہ ایک دن کی آکسیجن کا بل پانچ سو یوروہے تو میں جو پچھلے نوے سال سے اللہ کی ہوا اور آکسیجن کھا رہا ہوں تو میں اس رب کا کتنا قرض دار ہوں ، اس کا میں نے کبھی حساب ہی نہیں کیا۔ اکثر نعمتوں کے بارے میں ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے اور ہم غالباً اپنا استحقاق سمجھ کر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جب یہ نعمت چھن جاتی ہے تو تب پتا چلتا ہے کہ یہ کتنی بڑی نعمت تھی ۔کرونا نے یہ حقیقت بہت اچھی طرح واضح کر دی ہے ۔کوئی اب بھی نہ سمجھے تو یہ اسی کی کم نصیبی اور اسی کا نقصان ہے ۔
نہ میر ا جسم نہ میری مرضی
کرونا نے میرا جسم میری مرضی کا نظریہ بھی خاک میں ملا کے رکھ دیا ہے ۔ اگرچہ یہ نعر ہ ایک خاص پس منظر میں لگا یا گیا تھااور ایک خاص مقصد کے لیے اسے استعمال کیا گیا لیکن اپنی اصل میں یہ مادر پدر آزادی کا نظریہ ہے کہ ہم جب چاہیں ، جیسے چاہیں اپنے جسم کو استعمال کر سکتے ہیں لیکن کرونا نے واضح کر دیا ہے کہ اگر اس جسم پر تمہاری مرضی چلتی تو پھر میں بھی تمہاری مرضی کے بغیر تمہارے جسم میں داخل نہیں ہو سکتا تھا لیکن دیکھ لو کہ میں کیسے لاکھوں اجسام میں ان کی مرضی کے بغیر دندناتا پھر رہا ہوں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ جسم تمہارا نہیں بلکہ کسی کا دیا ہوا ہے اور جس نے دیا ہے اسی نے مجھے بھیجا ہے اسی لیے مجھے پوری آزادی ہے کہ میں جیسے چاہوں اور جس کے جسم کو چاہوں استعمال کروں۔ کرونا پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ بتاؤ تم یہ جسم کہاں سے لائے ہو ، تمہارا اس کی تخلیق میں کتنا حصہ ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر اس بات کو تسلیم کیوں نہیں کرلیتے کہ یہ جسم امانت ہے اور جس کی امانت ہے ، اسی کی مرضی چلے گی ۔گویا کہ اصل یہ ہے کہ نہ میرا جسم اور نہ میری مرضی ۔ مالک کی دی ہوئی اک امانت اور مالک کی ہی مرضی۔
پیر ،بابے اورآستانے کچھ نہیں کر سکتے
مرادوں سے انسانوں کی جھولیاں بھر نے والے تمام پیر ، بابے اور آستانے دم بخود ہیں کہ کرونا کی وبا کامقابلہ کیسے کیاجائے کیونکہ نہ تو اس پر کوئی دم اثر کرتا ہے اور نہ ہی کوئی تعویذ۔ نہ کوئی چلہ موثر ہے اور نہ ہی حبس دم۔پوٹھوہار کے علاقے میں گونگوں کو زبان دینے والے ، بے اولادوں کو بیٹے دینے والے ، مفلوج و اپاہج زدہ کو آن کی آن میں چلا دینے والے اور انٹر نیٹ پہ انٹر نیشنل لیول پر اپنی پھونکوں سے مریضوں کو شفا دینے والے پیر صاحب نے بھی جب کرونا کا سنا تو اپنا آستانہ بند کر کے بھاگ گئے کہ اب کرونا کے بعد ملیں گے۔اب اس کے بعد بھی جن مریدوں کو‘‘ اللہ اکبر’’ سمجھ نہ آئے تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ صم بکم عمی فہم لا یعقلوناور اس کے بعدحق ہے کہ اللہ ان کے دلوں پہ مہر لگا دے ۔ختم اللہ علی قلوبھم۔۔۔۔اور ہاں یہ بھی جان لیجیے کہ یہ ختم قلوب، ایسی ہی نشانیوں کے بعد بھی، نہ ماننے والوں کے لیے ہوا کرتا ہے ۔