وما یعلم جنود ربک الا ہو
آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=TNy5YWbYAyA
تبلیغی جماعت کے احباب سے کئی باریہ روایت سننے کو ملی کہ ایک بار فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے ہمارے مالک اگر یہ کائنات تیری نافرمانی پہ اتر آئے تو توُ کیا کرے گا ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنے جانوروں میں سے ایک جانور کو حکم دوں گا، وہ اس پوری کائنات کا ایک لقمہ بنا لے گا۔ فرشتوں نے حیران ہو کر اللہ جل جلالہ سے پوچھا کہ مالک تیرے اتنے بڑے بڑے جانور کہاں رہتے ہیں۔ اللہ عز و جل نے فرمایا کہ وہ میری چراہ گاہوں میں سیر کر رہے ہیں اور کھا پی رہے ہیں۔
اس روایت کی علمی اوراستنادی حیثیت پہ تو علما ہی گفتگو کر سکتے ہیں مگرکرونا کی وبا نے اس روایت کا مفہوم اور اس کی حقیقت بالکل کھول کے رکھ دی ہے ۔سائنس و ٹیکنالوجی کی عظمت اور انسا ن کا کبر و نخوت دھرے کا دھرا رہ گیا ہے ۔ایک ذرّہِ حقیر نے آن کی آن میں اللہ کے مقابلے میں انسان کا عجز و بے بسی واضح کر کے رکھ دی ہے اور انسا ن بزبان خود اس اعتراف پہ مجبورہو گیاہے کہ اللہ کا حکم نہ ہوتو اس کے ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم اورمیزائل سب مٹی ہیں، وہ سب مل کر کے بھی ایک وائرس نہیں مار سکتے اور دوسری طرف اللہ کا حکم ہو تو ایک ذرہ بے جان بھی انسا ن کی ساری اکٹر فوں اور عظمت کو پل بھر میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔
کرونا نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ انسان اس بات کو جان لے کہ اس کائنات کا نظم و نسق آج بھی تن تنہا اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے اور رہے گا۔وہ جب چاہے ، جس طرح چاہے اور جیسے چاہے اپنی مخلوق کو استعمال کر سکتا ہے ۔ سائنس ، اسبا ب اور چیزیں سب اپنی تاثیر میں اُسی ایک ذات کی محتاج ہیں جو سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے اورباقی سب ، سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر سکتے اگر اس کا حکم اورارادہ شامل حال نہ ہو۔اس کے ارادے کا نام وجودہے ۔ وہ جب ارادہ کر لیتا ہے تو فرعون اپنے تمام تر ارادوں ، افواج اور پلاننگ کے باوجود موسیٰ علیہ السلام کی پرورش اپنے محل میں کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ ہوائیں ، پانی ، آگ ، زلزلے ، کیڑے مکوڑے ، مینڈک ، ٹڈی دل ، جوئیں ، حتی کہ آواز بھی اسی کی مخلوق ہے اور وہ اپنی مخلوق کو استعمال کرنے میں مختارکل ہے اور کسی سے مشورے کا پابند نہیں۔یہ سب اسی کے لشکر ہیں ۔
شایدآج کے انسان کا خیال تھا کہ بنی اسرائیل ، قوم نوح ، قوم ثمود ، قوم لوط اورقوم عاد بس پہلی قوموں کے قصے ہیں اور اس دور کی باتیں ہیں جب سائنس و ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہ تھی ،آج تو ہمارے پاس اتنے وسائل و آلات ہیں کہ اس طرح کی آفات کو قابو کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ شایداسی لیے اب کی بار اللہ رب العزت نے اپنی عظمت ، قدرت اور طاقت کے اظہار کے لیے اپنی مخلوق میں سے ایک ایسی کمزور اور بے بس مخلوق کا انتخاب کیا ہے جو انسانی جسم سے باہر ہو تو بے بس اور بے جان اور انسانی جسم کے اندر ہو تو با اختیار اور فرمانروا۔ستاروں پہ کمندیں ڈالنے والا انسان اپنے چہروں پہ ماسک چڑھائے حیران و پریشان پھررہا ہے کہ اللہ کے ان لشکروں کامقابلہ کیسے کرے ۔مقابلہ، ہا ں مقابلہ تو ان سے کیا جاتا ہے جو اپنے جیسے ہوں ، جو سمجھ میں آتے ہوں، جو دکھائی دیتے ہوں ، جو سامنے آتے ہوں ۔ اور جونہ اپنے جیسے ہوں ، نہ سمجھ میں آتے ہوں، نہ دکھائی دیتے ہوں اور نہ سامنے آتے ہوں ان سے مقابلہ کیسا؟ اور پھرسب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہوں بھی اللہ کے لشکر ۔۔۔ جبکہ اللہ نے تو خو د کہہ دیا ہے کہ‘‘ وما یعلم جنود ربک الا ہو’’ اور تیرے رب کی لشکروں کو کوئی نہیں جانتا سوائے اسی کے۔اس لیے اس کا حل یہی ہے کہ انسان سچی ندامت کے ساتھ اپنے عجز ، بے بسی ، لاعلمی اور کمزوری کا اعتراف کر کے مالک کے آگے جھک جائے تو وہ خود ہی سارے راستے کھول دے گا۔ ویکسین کا راستہ بھی نظر آجائے گا اور ان لشکروں کو پسپا کرنے کے دیگر راستے بھی کھل جائیں گے ۔ انسان کو اپنی عاجزی کا اعتراف تو بہر حال کرنا پڑے گا آج کرے یا کل ۔بہتر ہے کہ بستیوں کی بستیاں اجڑنے سے پہلے ہی یہ اعتراف کر لیا جائے ۔اجڑنے کے بعد مانا تو کیا مانا۔ سچ فرمایا میرے رب نے وللہ جنود السماوات والار ض و کان اللہ عزیزا حکیما (یہ اللہ سے بے پروا ہیں تو اللہ کو بھی اِن کی کوئی ضرورت نہیں ہے)۔ زمین اور