ساتویں جماعت میں، اس طالب علم کو آئے ہوئے ابھی تیسرا دن تھا ، اور پچھلے تین دن سے ہی میں یہ نوٹ کر رہا تھا کہ وہ طالب علم کلاس میں غیر ضروری سر گرمیوں میں مصروف رہتا ہے ۔اسے سرزنش کرنے کے لیے میں نے اسے ایک ہلکی سی چپت رسید کر دی ۔وہ فوراً بھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھے کیوں مارا؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ، اس کے ساتھ بیٹھے طالب علم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھایا اور اسے خوبصورت انگریزی میں کہنے لگا ، ابے تو نہیں جانتا ، سر کا ہاتھ مارتا ہے دل نہیں مارتا۔دوسرے طالب علم کا یہ کہنا میرے لیے ایک ایسا compliment تھا کہ جس کا مزہ میں تا دیر محسوس کرتا رہا۔
طلحہ بارہویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہیڈ ماسٹر کے آفس میں موجود ہے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی بات پر بحث ہو رہی ہے ۔ بعد میں ، میں نے طلحہ سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ آج تم اپنی والدہ کو لے کر آئے تھے ۔ کہنے لگا کہ فلاں سر نے مجھے مارا تھا، ان کی شکایت کرنے کے لیے میں اپنی امی کو لے کر آیا تھا۔میں نے کہا اس میں شکایت کی کیا بات تھی ، میں بھی تو تمہیں ما ر لیتا ہوں ۔ اس کے جواب میں اس نے عجیب بات کہی ۔کہنے لگا سر، آپ مجھے گراؤنڈ میں کھڑا کر کے سب کے سامنے جوتے ماریں میں کچھ بھی نہیں کہوں گا۔ لیکن فلاں سر کی سرزنش میں برداشت نہیں کر سکتا ۔ میں نے کہا آخر ان میں اور مجھ میں کیا فرق ہے ؟ سب استاد ہیں۔ کہنے لگا سر آپ نہیں جانتے ،وہ سر مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ان دونوں واقعات میں نفرت یا محبت کے اظہارکے لیے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ دل کی بات دل تک پہنچی اور اپنااثر چھوڑے بغیر نہ رہ سکی۔
اپنے جذبات کے اظہار کے لیے الفاظ کا استعمال ایک اچھی بات ہے لیکن یہ الفاظ اپنے دیرپا اثرات کے لیے ہمیشہ اس بات کے محتاج رہیں گے کہ یہ الفاظ محض زبان سے نہیں بلکہ دل سے بھی ادا ہو رہے ہوں۔دل ساتھ نہ ہو تو اعلیٰ سے اعلیٰ الفاظ بھی خلا میں ضائع ہو کر رہ جائیں گے اور دل ساتھ ہو تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی وہ کام کر جائیں گے جو شاید فصیح وبلیغ جملے بھی نہ کر سکیں۔ تبلیغی جماعت اپنے آغاز میں ان پڑھ میواتیوں کی جماعت تھی لیکن یہ ان پڑھ میواتی علی گڑھ جیسے ادارے سے بھی محض دل سے کہی بات کی بنا پر لوگوں کو وصول کر لیتے تھے۔
ہمارے ایک دوست اس ضمن میں اپنا تجربہ یوں بیان کرتے ہیں کہ انہیں اپنے ایک کولیگ سے نفرت تھی لیکن ان کے اثر و رسوخ کی بنا پر ان کے سامنے اس نفرت کے اظہار کی ہمت نہ تھی ۔ کہتے ہیں کہ میں جب بھی انہیں دیکھتا توان کی بڑی تعریف کرتا لیکن دل ہی دل میں انہیں بر ا بھلا کہتا ۔کہتے ہیں کہ ،لیکن میری اس تعریف نے ہمیشہ الٹا اثر کیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ میرے خلاف ہو جاتے ۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے شعوری کوشش کر کے اپنا رویہ بدلا اور ان کے لیے راتوں کو اٹھ کر اللہ سے دعا کرنا شروع کی اور انہیں دل سے بھی برا بھلا کہنا بند کر دیا ۔جوں ہی میرے دل کے جذبات تبدیل ہوئے ، دوسری طرف سے بھی رویہ تبدیل ہو گیا۔
راقم الحروف پندرہ برس پہلے بغیر کسی تجربے اور پروفیشنل ڈگری کے تعلیم و تدریس کے میدان میں محض ایک خوبصورت اتفاق کے نتیجے میں آن وارد ہو ا تھا۔یہاں دیکھا کہ لوگ bloom taxonomy اور ماڈرن pedagogical skills کا ایک انبار سروں پہ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ان سب کے درمیان الحمد للہ محض اپنے طالب علموں سے دلی محبت اور راتوں کو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کی بنا پر ایک باعزت جگہ بنا لی ۔ جدید communication skills کا حصول ایک اچھی بات ہے لیکن صرف product بیچنے کی حدتک ۔ انسانو ں کو اگر بدلنا ہو تو اس کے ساتھ ساتھ دل کو بھی شامل کر نا ہو گاکیونکہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔۔۔پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے