کچھ دن پہلے کینسر کے علاج کے حوالے سے مارتونگ خیبر پختونخواہ کے ایک حکیم صاحب کے بارے کسی بھائی کی پوسٹ شیئر کی جس پر بہت اچھا ردعمل آیا اور ڈیڑھ ہزار سے زائد دوستوں نے اسے شیئر کیا۔ آج میں انفرٹیلٹی یعنی اولاد کی نعمت سے محرومی کے علاج کے حوالے سے ایک حکیم صاحب کے بارے میں پوسٹ لگا رہا ہوں جن سے میں ذاتی طور پر مستفید ہوا ہوں۔
میری شادی کے ابتدائی چھ سال ہم میاں بیوی اولاد کی نعمت سے محروم رہے، دو بار رحمت کی امید ہوئی لیکن ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی امید جاتی رہی اور "مس کیرج" ہو گیا۔ اس دوران ہم میاں بیوی نے اپنے مکمل ٹیسٹ کروائے، اہلیہ کا نامکمل بیضے بننے کا مسئلہ سامنے آیا، لیپرو سکوپی سے لے کر مصنوعی طریقے سے حمل ٹھرانے جیسے جدید ڈاکٹری علاج بھی کروائے لیکن امید بر نہ آئی۔پھر ایک دوست نے انفرٹیلٹی کے حوالے سے حمید لطیف ہسپتال کا بتایا۔ وہاں ڈاکٹر راشدلطیف سے وقت لیا۔ ڈاکٹر صاحب کے کمرے تک پہنچنے سے پہلے انکی ایک اسسٹنٹ لیڈی ڈاکٹر نے مکمل ہسٹری لے کر ایک فائل تیار کی اور ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں ہم اپنی باری پر داخل ہوگئے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب ہماری فائل کا مطالعہ ہی کر رہے تھے کہ اچانک میرا موبائل بج اٹھا۔ فون دیکھا تو میرے چھوٹے بھائی کی کال تھی، میں خاصہ چونکا کہ بھائی تو عموماً مجھے کال نہیں کرتا لیکن اللہ خیریت کرے آج اس نے مجھے کیسے کال کر دی؟ میں نے غیر ارادی طور پر فون اٹھا لیا تو بھائی نے بتایا کہ فلاں کلائنٹ کی طرف سے جو چیک آیا تھا وہ باؤنس ہو گیا ہے آپ اسے فون کرکے گلہ کریں۔ میں نے محض اتنا کہہ کر فون بند کر دیا کہ ابھی میں ڈاکٹر صاحب کے پاس ہوں فارغ ہو کر فون کرتا ہوں۔ زیادہ سے زیادہ تیس سیکنڈ۔ کال جونہی ختم ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب کو انتہائی غضبناک انداز سے خود کو گھورتے پایا اور وہ انتہائی غصے سے مجھ سے مخاطب ہوئے کہ "اگر تمھاری کاروباری باتیں ختم ہو گئی ہوں تو کچھ بات کریں؟ اب اگر تمھارافون بجا تو میں تمھیں کمرے سے باہر نکال دوں گا" ڈاکٹر صاحب کا یہ رویہ دیکھ کر میں خاصا حیران ہوا اور معذرت کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ سر اگر آپکی اسسٹنٹ ڈاکٹر مریض کی فائل دیکھتے ہوئے موبائل فون بند رکھنے یا کمرے سے باہر موبائل جمع کروانے کی ہدایت بھی دے دے تو یقیناً اس طرح مستقبل میں آپکو زحمت نہ اٹھانا پڑے گی۔ میں نے یہ بات محض نیک نیتی سے ایک مشورے کے طور پر کہی تھی اور میرا لہجہ انتہائی معذرت خواہانہ تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب تو کسی اور ہی موڈ میں تھے میری بات سن کر یہ کہتے ہوئے بیل بجائی کہ "اب تم مجھے سکھاؤ گے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟" بیل کی آوازسن کر انکی اسسٹنٹ ڈاکٹر اندر آئی تو ڈاکٹر صاحب نے ہماری فائل اسے تھماتے ہوئے کہاکہ انھیں باہر لے جاؤ اور انکی فیس واپس کر دو، میں انھیں نہیں دیکھ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ رویہ دیکھ کر میرا اور میری مسز کا رنگ سفید پڑ گیا، ہم دونوں کا یہ حال تھا کہ جیسے شرم سے زمین میں گڑ جائیں گے۔ ہمیں انتہائی ہتک محسوس ہوئی۔ بہرحال ہم مزید ایک لفظ بھی منہ سے نکالے باہر آگئے۔ میں اپنی بیوی سے شرم اور ہتک کی وجہ سے نظریں بھی نہ ملا پارہا تھا۔ چپ چاپ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی میرے آنسو نکل آئے اور بے اختیار میں نے اللہ سے فریاد کی کہ اللہ دنیا کی ہر نعمت تو تیرے پاس ہی ہے اور ہم تجھ ہی سے کرم کی امید رکھتے ہیں اور علاج محض تیرے نبی کی سنت سمجھ کر کروا رہے ہیں لیکن اللہ یہ معالج شاید خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں اور تیری مجبور مخلوق کی یوں بے عزتی کرتے ہیں۔ اے اللہ اب میں کسی معالج کے پاس نہیں جانا، اگر میری قسمت میں اولاد ہے تو تو مجھے عطا فرما دے وگرنہ میں تیری رضا میں راضی ہوں۔
اس بات کو کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ والدہ کو ایک شادی میں میری رشتے کی پھوپھی ملی، استفسار پر انھیں والدہ نے میرے بارے میں بھی بتایا۔ ان پھوپھی صاحبہ کو خود اللہ تعالیٰ نے بیس سال بعد ایک حکیم صاحب کے علاج سے اولاد کی نعمت سے نوازا تھا۔ انھوں نے فوراً والدہ کو مجھے ان حکیم صاحب کے پاس بھیجنے کا مشورہ دیا تو والدہ نے انھیں مجھ سے خود بات کرنے کا کہا۔ اگلے ہی دن انکا مجھے فون آگیا اور انھوں نے مجھے انتہائی تیقن سے حکیم صاحب کے پاس جانے کا مشورہ دیا اور اپنی مثال دی۔ میں نے جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں علاج سے توبہ کر چکا ہوں تو انھوں نے مجھے خاصا سمجھایا کہ تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اور اللہ نے اپنے بندوں کو ہی دنیا میں ایک دوسرے کی مدد کا وسیلہ بنا رکھا ہے تم ایک دفعہ میرے کہنے پر ضرور جاؤ۔ انکے بیحد اصرار اور سمجھانے پر میں نے جانے کی حامی بھر لی۔
حکیم صاحب کا تعلق سیالکوٹ کے قریب بروال کے علاقے سے ہے جہاں وہ مستقل بیٹھتے ہیں، جبکہ لاہور میں مہینے کی پہلی تین تاریخوں کو وہ شاہدرہ موڑ کے قریب مطب پر بیٹھتے ہیں۔ میں لاہور میں مقررہ تاریخوں پر اپنی اہلیہ کو لے کر انکے مطب پہنچ گیا اور انکی ہدایات کے مطابق اپنی تمام ٹیسٹ رپورٹس ساتھ لے کر گیا۔ انھوں نے انتہائی عمدہ اخلاق سے مجھے خوش آمدید کہا اور رپورٹس دیکھنے سے پہلے، بغیر ہماری ہسٹری جانے محض میری اور میری اہلیہ کی نبض دیکھ کر تمام مسئلہ بتا دیا جو رپورٹس کی صورت ہمیں پہلے سے معلوم تھا۔ انھوں نے مجھے اہلیہ کے بغیر اگلے دن آکر دوائی لے جانے کا کہا اور پہلی بار دوائی کیلیے (تقریباً آٹھ سال پہلے) محض آٹھ سو روپے لیے۔ جبکہ حمل ٹھہرنے تک ہر ماہ دوائی لینا ہوگی جسکے پیسے مریض حسب منشاء دینے کا مجاز تھا۔
اگلے دن حکیم صاحب نے مجھے کچھ سفوف کی پڑیاں، تعویذ اور ایک آئل کی بوتل دی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ ہم روحانی و جسمانی علاج ساتھ ساتھ کرتے ہیں۔ پڑیاں پانی کے ساتھ اہلیہ اور میں نے کھانا تھیں جبکہ تیل اہلیہ کے پیٹ پر ملنا تھا۔ جبکہ تعویز کا بھی کوئی بھلا سا استعمال تھا جو اب میں بھول گیا ہوں۔ ہم نے اللہ سے دعا کرکے دوا لینی شروع کی تو پہلے ہی ماہ کی دوائی میں اللہ نے شفاء رکھ دی اور اللہ نے ہمیں بخیر و خوبی ایک پیاری سے بیٹی سے نوازا۔ آج میری تین بیٹیاں ہیں اور دوبارہ حمل ٹھرنے اور مس کیرج کا کبھی مسئلہ نہیں ہوا۔
حکیم صاحب کا میں نے کافی دوستوں کو بتایا اور ایک دوست تو ایسے بھی تھے جنکا "سپرم کاؤنٹ" صفر تھا۔ حکیم صاحب کی چند ماہ کی دوا کے بعد انکا سپرم کاؤنٹ لاکھوں میں پہنچ گیا۔ اسی طرح میرے انگلینڈ میں مقیم کزن نے بھی حکیم صاحب سے علاج کروایا اور انھیں بھی اللہ نے اولاد سے نوازا۔ کچھ دوستوں کا علاج کے نتیجے میں جسمانی خامیاں تو دور ہو گئیں لیکن پھر بھی اللہ کی طرف سے اولاد کے حوالے سے حکم نہ ہوا۔بہرحال شفا خالصتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اللہ نے حکیم صاحب کو ایک انتہائی خوبصورت دل عطا کر رکھا ہے اور انکے بیٹے بھی انکی بھرپور معاونت کرتے ہیں اور وہ بھی علاج میں انکا ہاتھ بٹاتے ہیں اور شاید اب بیٹے ہی مطب میں علاج کا سلسلہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ حکیم صاحب کا نام سید شہباز شاہ ہے اور انکا نمبر 03004554184 ہے۔ دوست اس نمبر پر رابطہ کرکے مزید معلومات لے سکتے ہیں۔