سات تراجم نو تفا سیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : مارچ 2014

قسط۰۱۱
نورالقرآن 
 سات تراجم، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری

 

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر‘ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

 

سورہ المائدہ 
۱۴۔۰۵
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَایَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ  یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓااٰمَنَّا بِاَفْوَاھِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لا لَمْ  یَاْتُوْکَ ط یُحَرِّفُوْنَ  الْکَلِمَ  مِنْ م  بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ ج یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ھٰذَافَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا ط وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَہُمْ ط لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْی’‘ صلے ج وَّلَھُمْ فِی  الْاٰخِرَۃِ   عَذَاب’‘  عَظِیْم’‘  ہ۱۴   سَمّٰعُوْنَ   لِلْکَذِبِ   اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ط فَاِنْ جَآءُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ ج وَاِنْ   تُعْرِضْ  عَنْھُمْ  فَلَنْ   یَّضُرُّوْکَ  شَیْءًا ط وَاِنْ  حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ طاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ہ۲۴ وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ  وَعِنْدَھُمُ التَّوْرٰءۃُ  فِیْھَا  حُکْمُ  اللّٰہِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَآاُولٰٓءِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ ہع ۳۴ اِنَّآاَنْزَلْنَا التَّوْرٰءۃَ  فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْر’‘ ج یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ  اَسْلَمُوْا  لِلَّذِیْنَ  ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ  وَالْاَحْبَارُ  بِمَا  اسْتُحْفِظُوْا  مِنْ کِتٰبِ  اللّٰہِ وَکَانُوْا  عَلَیْہِ   شُہَدَآءَ ج  فَلاَ  تَخْشَوُا النَّاسَ  وَاخْشَوْنِ  وَلَا  تَشْتَرُوْا  بِاٰیٰتِیْ  ثَمَنًا  قَلِیْلاً ط وَمَنْ لَّمْ  یَحْکُمْ  بِمَآ  اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ  الْکٰفِرُوْنَ ہ۴۴  وَ کَتَبْنَا  عَلَیْھِمْ  فِیْھَآ  اَنَّ  النَّفْسَ بِالنَّفْسِ لا  وَالْعَیْنَ  بِالْعَیْنِ  وَالْاَنْفَ  بِالْاَنْفِ  وَالْاُذُنَ  بِالْاُذُنِ  وَالسِّنَّ  بِالسِّنِّ لا وَالْجُرُوْحَ  قِصَاص’‘ ط فَمَنْ تَصَدَّقَ  بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃ’‘  لَّہٗ ط  وَمَنْ  لَّمْ  یَحْکُمْ  بِمَآ  اَنْزَلَ  اللّٰہُ  فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ہ۵۴  وَقَفَّیْنَا  عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ  بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ  مُصَدِّقًا  لِّمَابَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰءۃِ ص وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ  ھُدًی وَّنُوْر’‘ لا وَّمُصَدِّقًا   لِّمَا  بَیْنَ   یَدَیْہِ  مِنَ  التَّوْرٰءۃِ  وَ ھُدًی   وَّ مَوْعِظَۃً  لِّلْمُتَّقِیْنَ ہط ۶۴ وَلْیَحْکُمْ  اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ  فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ  الْفٰسِقُوْنَ ہ۷۴  وَاَنْزَلْنَآ  اِلَیْکَ  الْکِتٰبَ  بِالْحَقِّ  مُصَدِّقًا  لِّمَا  بَیْنَ  یَدَیْہِ  مِنَ  الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآاَنْزَلَ اللّٰہُ  وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَھُمْ عَمَّاجَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا ط وَلَوْشَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآاٰتٰئکُمْ   فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط  اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ  بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ  ہلا ۸۴ وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ  بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ  وَلَا  تَتَّبِعْ  اَھْوَآءَ ھُمْ  وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ م بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ  اِلَیْکَ ط فَاِنْ  تَوَلَّوْا  فَاعْلَمْ  اَنَّمَا یُرِیْدُ  اللّٰہُ  اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ  ذُنُوْبِھِمْ ط  وَاِنَّ  کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ ہ۹۴ اَفَحُکْمَ  الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ  یُّوْقِنُوْنَ  ہع ۰۵  


تراجم
    ۱۔۱۴۔اے رسول! تو غم نہ کھا ان پر، جو دوڑ کر لگتے ہیں منکر ہونے، وہ جو کہتے ہیں،ہم مسلمان ہیں اپنے منہ سے، اور اس کے دل مسلمان نہیں۔ اور وہ جو یہودی ہیں، جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کو، اور جاسوس ہیں دوسری جماعت کے، جو تجھ تک نہیں آئے۔ بے اسلوب کرتے ہیں بات کو، اس کا ٹھکانا چھوڑ کر۔ کہتے ہیں، اگر تم کو یہ ملے تو لو، اور اگر یہ نہ ملے تو بچتے رہو۔ اور جس کو اللہ نے بچلانا (آزمانا) چاہا سو تو اس کا کچھ نہیں کر سکتا اللہ کے ہاں، وہی لوگ ہیں، جن کو اللہ نے نہ چاہا، کہ دل پاک کرے۔ ان کو دنیا میں ذلت ہے، اور ان کو آخرت میں بڑی مار ہے۔ ۲۴۔بڑے جاسوس جھوٹ کہنے کو، اور بڑے حرام کھانے والے۔ سو اگر آویں تجھ پاس، تو حکم کر دے ان میں، یا تغافل کر ان سے۔ اور تو ”تغافل کرے گا، تو تیرا کچھ نہ بگاڑ یں گے۔ اور اگر حکم کرے تو حکم کر ان میں انصاف کا۔ اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔۳۴۔اور کس طرح تجھ کو منصف کریں گے؟ اور ان کے پاس توریت ہے، جس میں حکم اللہ کا، پھر اس پیچھے پھرے جاتے ہیں۔ اور وہ ماننے والے نہیں۔ ۴۴۔ہم نے اتاری توریت، اس میں ہدایت اور روشنی۔ اس پر حکم کرتے، پیغمبر جو حکم بردار تھے، یہود کو (یہودیوں کے لیے) اور درویش اور عالم، اس واسطے کہ نگہبان ٹھہرائے تھے اللہ کی کتاب پر، اور اس کی خبرداری پر تھے۔ سو تم نہ ڈرو لوگوں سے، اور مجھ سے ڈرو، اور مت خرید کرو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔ اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کے اتارے پر، سو وہی لوگ ہیں منکر۔۵۴۔اور لکھ دیا ہم نے ان پر اس کتاب میں، کہ جی کے بدلے جی، اور آنکھ کے بدلے آنکھ، اور ناک کے بدلے ناک، اور کان کے بدلے کان،ا وردانت کے بدلے دانت، اور زخموں کا بدلہ برابر۔ پھر جس نے بخش دیا، تو اس سے وہ پاک ہوا۔ اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کے اتارے پر، سو وہی لوگ ہیں بے انصاف۔۶۴۔اور پچھاڑی میں بھیجا ہم نے، انہی کے قدموں پر، عیسیٰ مریم کا بیٹا، سچ بتاتا توریت کو، جو آگے سے تھی۔ اور اس کو دی ہم نے انجیل، جس میں ہدایت اور روشنی، اور سچا کرتی اپنی اگلی توریت کو، اور راہ بتاتی، اور نصیحت ڈر والوں کو۔ ۷۴۔اور چاہے کہ حکم کریں انجیل والے اس پر، جو اللہ نے اتارا اس میں۔ اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کے اتارے پر، سو وہی لوگ ہیں بے حکم۔۸۴۔اور تجھ پر اتاری ہم نے کتاب، تحقیق سچا کرتی اگلی کتابوں کو، اور سب پر شامل سو تو حکم کر ان میں، جو اتارا اللہ نے، اور ان کی خوشی پر مت چل، چھوڑ کر حق راہ، جو تیرے پاس آئی۔ ہر ایک کو تم میں، دیا ہم نے ایک دستور، اور راہ۔ اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک دین پر کرتا، لیکن تم کو آزمایا چاہے اپنے دئے حکم میں، سو تم بڑھ کر لو خوبیاں۔ اللہ کے پاس تم سب کو پہنچنا ہے، پھر جتا دے گا جس بات میں تم کو اختلاف تھا۔ ۹۴۔اور یہ فرمایا کہ حکم کر ان میں جو اللہ نے اتارا، اور مت چل ان کی خوشی پر، اور بچتا رہ ان سے، کہ تجھ کو بہکا نہ دیں، کسی حکم سے جو اللہ نے اتارا تجھ پر۔ پھر اگر نہ مانیں، تو جان لے، کہ اللہ نے یہی چاہا ہے، کہ پہنچا دے ان کو کچھ سزا ان کے گناہوں کی، اور لوگوں میں بہت ہیں بے حکم۔۰۵۔اب کیا حکم چاہتے ہیں کفر کے وقت کا؟ اور اللہ سے بہتر کون ہے حکم کرنے والا؟ یقین رکھتے لوگوں کو،(شاہ عبدالقادرؒ)
    ۲۔۱۴۔اے رسول جو لوگ کفر میں دوڑ دوڑ گرتے ہیں، آپ کو مغموم نہ کریں خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنے منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کے دل یقین نہیں لائے، اور خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو کہ یہودی ہیں۔ یہ لوگ غلط باتوں کے سننے کے عادی ہیں آپ کی باتیں دوسری قوم کی خاطر کان دھر دھر سنتے ہیں جس قوم کے یہ حالات ہیں وہ آپ کے پاس نہیں آئے کلام کو بعد اس کے کہ وہ اپنے موقع پر ہوتا ہے بدلتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہ حکم ملے تب تو اس کو قبول کر لینا اور اگر تم کو یہ حکم نہ ملے تو احتیاط رکھنا اور جس کا خراب ہونا خدا ہی کو منظور ہو، تو اس کے لیے اللہ سے تیرا کچھ زور نہیں چل سکتا یہ لوگ ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ان کے دلوں کا پاک کرنا منظور نہیں ہوا، ان لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے سزائے عظیم ہے  ۲۴۔یہ لوگ غلط باتوں کے سننے کے عادی ہیں بڑے حرام کھانے والے ہیں تو اگر یہ لوگ آپ کے پاس آویں تو خواہ آپ ان میں فیصلہ کر دیجئے یا ان کو ٹال دیجئے اور اگر آپ ان کو ٹال ہی دیں تو ان کی مجال نہیں کہ آپ کو ذرا بھی ضرر پہنچاسکیں اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کیجئے، بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔۳۴۔اور وہ آپ سے کیسے فیصلہ کراتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے پھر اس کے بعد پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ ہر گز اعتقاد والے نہیں۔ ۴۴۔ہم نے توریت نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت تھی اور وضو ح تھا۔ انبیاء جو کہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے اس کے موافق یہود کو حکم دیا کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی بوجہ اس کے کہ ان کو اس کتاب اللہ 

کی نگہداشت کا حکم دیا تھا اور وہ اس کے اقراری ہو گئے تھے سو تم بھی لوگوں سے اندیشہ مت کرو اور مجھ سے ڈرو اور میرے احکام کے بدلے میں متاع قلیل مت لو اور جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے سو ایسے لوگ بالکل کافر ہیں۔۵۴۔اور ہم نے ان پر اس (تورات) میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو جاوے گا، اور جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے سو اسیے لوگ بالکل ستم ڈھا رہے ہیں۔ ۶۴۔اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو اس حالت میں بھیجا کہ وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق فرماتے تھے۔ اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور وضوح تھا اور وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق کرتی تھی اور وہ سراسر ہدایت اور نصیحت تھی خدا سے ڈرنے والوں کے لیے۔ 
۷۴۔اور انجیل والوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم کیا کریں اور جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے تو ایسے لوگ بالکل بے حکمی کرنے والے ہیں۔ ۸۴۔اور ہم نے یہ کتاب، آپ کے پاس بھیجی ہے۔ جو خود بھی صدق کے ساتھ موصوف ہے اور اس سے پہلے جو کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان کتابوں کی محافظ ہے تو ان کے باہمی معاملات میں اسی بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجئے اور یہ جو سچی کتاب آپ کو ملی ہے اس سے دور ہو کر ان کی خواہشوں پر عملدرآمد نہ کیجئے تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت تجویز کی تھی اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتے لیکن ایسا نہیں کیا تا کہ جو جو دین تم کو دیا ہے اس میں تم سب کا امتحان فرما دیں۔ تو مفید باتوں کی طرف دوڑو، تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے پھر وہ تم سب کو جتلا دے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔۹۴۔اور ہم (مکرر) حکم دیتے ہیں کہ آپ ان کے باہمی معاملات میں اس بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرما یا کیجئے اور ان کی خواہشوں پر عملدرآمد نہ کیجئے اور ان سے یعنی ان کی اس بات سے احتیاط رکھیے کہ وہ آپ کو خدا تعالیٰ کے بھیجئے ہوئے کسی حکم سے بچلا دیں پھر اگر یہ لوگ اعراض کریں تو یہ یقین کر لیجئے کہ بس خدا ہی کو منظور ہے کہ ان کے بعضے جرموں پر ان کو سزا دیں اور زیادہ آدمی تو بے حکم ہی ہوتے ہیں۔ ۰۵۔یہ لوگ پھر کیا زمانہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے میں اللہ سے کون اچھا ہو گا یقین رکھنے والوں کے نزدیک۔(مولاناتھانویؒ)
    ۳۔۱۴۔اے رسول تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پر دوڑتے ہیں، جو کچھ وہ اپنے منہ سے کہتے ہیں اہم ایمان لائے اور ان کے دل مسلمان نہیں، اور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے ہیں اور لوگوں کی خوب سنتے ہیں، جو تمہارے پاس حاضر نہ ہوئے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو، اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہر گز تو اللہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا وہ ہیں کہ اللہ نے ان کا دل پاک کرنا نہ چاہا انہیں دنیا میں رسوائی ہے اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب۔ ۲۴۔بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور، تو اگر تمہارے حضور حاضر ہوں، تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے منہ پھیر لو، اور اگر تم ان سے منہ پھیر لو گے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے، اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو بے شک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں۔ ۳۴۔اور وہ تم سے کیو نکر فیصلہ چاہیں گے حالانکہ ان کے پاس توریت ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، بایں ہمہ اسی سے منہ پھیرتے ہیں، اور وہ ایمان لانے والے نہیں۔ ۴۴۔بے شک ہم نے توریت اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے اس کے مطابق یہود کو حکم دیتے تھے ہمارے فرماں بردار نبی اور عالم اور فقیہ کہ ان سے کتاب اللہ کی حفاظت چاہی گئی تھی، اور وہ اس پر گواہ تھے تو لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہ لو، اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں۔ ۵۴۔اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا، کہ جان کے بدلے جان، اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کرا وے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا، اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ ۶۴۔اور ہم ان نبیوں کے پیچھے ان کے نشان قدم پر عیسیٰ بن مریم کو لائے تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے پہلے تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے توریت کی کہ اس سے پہلی تھی اور ہدایت، اور نصیحت پرہیز گاروں کو۔ ۷۴۔اور چاہیے کہ انجیل والے حکم کریں اس پر جو اللہ نے اس میں اتارا، اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں۔ ۸۴۔اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے، اور اے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا، اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے، تو بھلائیوں کی طرف سبقت چاہو تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتا وے گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے۔ ۹۴۔اور یہ کہ اے مسلمان اللہ کے اتارے پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ چل اور ان سے بچتا رہ کہ کہیں تجھے لگذش نہ دے دیں کسی حکم میں جو تیری طرف اترا پھر اگر وہ منہ پھیریں، تو جان لو کہ اللہ ان کے بعض گناہوں کی، سزا ان کو پہنچایا چاہتا ہے، اور بے شک بہت آدمی بے حکم ہیں۔ ۰۵۔تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے لیے۔ (مولانااحمد رضا خانؒ)
    ۴۔۱۴۔اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان منافقوں میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل با ایمان نہیں، اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں جو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے۔ وہ کلمات کے اصلی موقعہ کو چھور کر انہیں بے اسلوب اور متغیر کر دیا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر تم یہی حکم دیئے جاؤ تو قبول کر لینا اور اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ رہنا اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں، ان کے لیے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔ ۲۴۔یہ کان لگا لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے خواہ ان کے آپس کا فیصلہ کرو خواہ ان کو ٹال دو، اگر تم ان سے منہ بھی پھیرو گے تو بھی یہ تم کو ہر گز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو یقینا عدل والوں کے ساتھ اللہ محبت رکھتا ہے۔ ۳۴۔تعجب کی بات ہے کہ وہ اپنے پاس تورات ہوتے ہوئے جس میں احکام الٰہی میں تم کو حکم بناتے ہیں پھر اس کے بعد بھی پھر جاتے ہیں، دراصل یہ ایمان و یقین والے ہیں ہی نہیں۔ ۴۴۔ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیاء (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں ا للہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے، اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میریا ٓیتوں کو تھورے تھورے مول پر نہ بیچو، جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ پورے اور پختہ کافر ہیں۔ ۵۴۔اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف رک دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہ کرے، وہی لوگ ظالم ہیں۔ ۶۴۔اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور وہ اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ سراسر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کے لیے۔ ۷۴۔اور انجیل والوں کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق حکم کریں اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ بدکار فاسق ہیں۔۸۴۔اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ اس لیے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجئے، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی ہے  اگر منظور مولیٰ ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو، تم سب کار جوع اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو۔ ۹۴۔آپ ان کے معاملات میں خدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی حکم کیا کیجئے ان کی خواہشوں کی تابعداری کیجئے اور ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کریں اگر یہ لوگ منہ پھیر لیں تو یقین کریں کہ اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں ا ن کے بعض گناہوں کی سزا دے ہی ڈالے اور اکثر لوگ بے حکم ہی ہوتے ہیں۔۰۵۔کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟(مولاناجوناگڑھیؒ)

    ۵۔اے پیغمبرؐ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں۔ خواہ وہ اُن میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے، یا اُن میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں اور دوسرے کی خاطر، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے، سُن گُن لیتے پھرتے ہیں، کتاب اللہ کے الفاظ کو ان کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں، اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا۔ (۱۴) 
یہ جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں، لہذا اگر یہ تمہارے پاس (اپنے مقدمات لے کر) آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو۔ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (۲۴) اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ (۳۴) ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مُسلِم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی اور اَحبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنا یا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس(اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (۴۴) تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ (۵۴) پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریم علیہ السلام کے بیٹے عیسی کو بھیجا۔ تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ (۶۴) 
ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (۷۴) پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے او رالکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو…… ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی۔ اگر چہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ لہذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخرکار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ (۸۴) پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔ (۹۴) (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (۰۵) (مولانامودودیؒ)
    ۶۔اے پیغمبر،ان لوگوں کی روش تمھیں غم میں نہ ڈالے جو کفر کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں،ان لوگوں میں سے جو زبان سے تو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں حالانکہ ان کے دلوں نے ایمان قبول نہیں کیا ہے اور لوگوں میں سے جنھوں نے یہودیت اختیار کی ہے۔یہ جھوٹ کے رسیا اور دوسروں کی باتیں ماننے والے ہیں،جو خود تمھارے پاس نہیں آتے۔وہ کلام کو اس کا موقع ومحل معین ہونے کے باوجود اس کے محل سے ہٹادیتے ہیں،کہتے ہیں اگر تمھارے معاملے کا فیصلہ یہ ہو تب تو قبول کر لینا اور اگر یہ نہ ہو تو اس سے بچ کے رہنا۔اور جس کو اللہ فتنہ میں ڈالنا چاہے تو تم اللہ کے مقابل اس کے معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہیں چاہا،ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔(۱۴)یہ جھوٹ کے رسیا اور پکے حرام خور ہیں۔اگر یہ تمھارے پاس آئیں تو تمھیں اختیار ہے،خواہ ان کے معاملے کا فیصلہ کرو یا ان کو ٹال دو۔اگر تم ان کو ٹال دو گے تو یہ تمھیں کوئی نقصا ن نہ پہنچا سکیں گے اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان کے درمیان قانون عدل کے مطابق فیصلہ کرو،اللہ قانون عدل پر عمل کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے۔(۲۴)اور یہ تمھیں حکم کس طرح بناتے ہیں جب کہ تو رات ان کے پاس موجود ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے،پھر حکم بنانے کے بعد بر گشتہ ہوجاتے ہیں!یہ ہر گز با ایمان لو گ نہیں ہیں۔(۳۴)بے شک ہم ہی نے تو رات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے،اسی کے مطابق خداکے فرمانبردار انبیاء ربانی علما اور فقہا یہود کے معا ملات کے فیصلے کرتے تھے،بوجہ اس کے کہ وہ کتا ب الہٰی کے امین اور اس کے گواہ ٹھہرائے گئے تھے کہ لوگوں سے نہ ڈریو،مجھی سے ڈریو اور میرے احکام کو سنیا کی متاع حقیر کے عوض نہ فروخت کی جیو اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں تو یہی لوگ کافر ہیں۔(۴۴)اور ہم نے اس میں ان پر فرض کیا کہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک،کان کے بدلے کان،دانت کے بدلے دانت اور اسی طرح دوسرے زخموں کابھی قصاص ہے۔سو جس نے اس کو معاف کردیا تو وہ اس کے لیے کفار ہے اور اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں گے تو وہی لوگ ہیں جو ظالم ٹھہریں گے۔(۵۴)اور ہم نے ا ن کے پیچھے،انہی کے نقش قدم پر عیسٰی ابن مریم کو بھیجا مصداق پیشتر سے موجودتو را ت کے اور ہم نے اس کو عطاکی انجیل،ہدایت اور روشنی پر مشتمل۔مصداق اپنے سے پیشتر موجودتو رات کی اور ہدایت و نصیحت خدا ترسوں کے لیے۔(۶۴)اور واجب ہے کہ اہل انجیل بھی فیصلہ کریں اس کے مطابق جو اللہ نے اس میں اتارا اور جوا للہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔(۷۴)اور ہم نے تمھاری طرف کتاب اتاری حق کے ساتھ،مصداق اس سے پیشتر سے موجود کتاب کی اور اس کے لیے کسوٹی بنا کر،تو ان کے درمیان فیصلہ کرو اس کے مطابق جو اللہ نے اتارا اور اس حق سے ہٹ کر،جو تمھارے پاس آچکا ہے،ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک ضابطہ اور ایک طریقہ ٹھہرایا۔اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس نے چاہا کہ اس چیز میں تمھاری آزمائش کرے جو اس نے تم کو بخشی،تو بھلائیوں کے لیے ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی کوشش کرو۔اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے تو وہ تمھیں آگاہ کرے گا اس چیز سے جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔(۸۴)اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور ان سے ہوشیار ہو کہ مبادا وہ تمھیں اس چیز کی کسی بات سے پھسلا دیں جو اللہ نے تمھاری طرف اتاری ہے۔پس اگر وہ اعراض کریں تو سمجھ لو کہ اللہ ان کو ان کے بغض گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے اور بے شک ان لوگوں میں سے بیشتر نافرمان ہی ہیں۔(۹۴) کیا یہ جاہلیت کے فیصلہ کے طالب ہیں اور اللہ سے بڑھ کر کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین کرنا چاہیں۔(۰۵)(مولانا اصلاحیؒ)
    ۷۔تمھیں آزردہ نہ کریں وہ لوگ، اے پیغمبر  جو(خدا کی شریعت کے) منکر ہوجانے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ بھی جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، دراں حالیکہ اُن کے دل ایمان نہیں لائے اور وہ بھی جو یہودی ہوچکے ہیں۔ یہ جھوٹ پر کان لگاتے ہیں، اُن لوگوں کے جھوٹ پرجو اِن سے الگ ایک دوسرا گروہ ہیں، جو کبھی تمھارے پاس نہیں آئے،  بات کا موقع و محل متعین ہوجانے کے باوجود اُس کو اصل معنی سے پھیر دیتے ہیں،   کہتے ہیں کہ تمھارے معاملے کا فیصلہ یہ ہو تو مانو اور نہ ہو تو اُس سے بچ کر رہو۔ (یہ فتنے میں پڑچکے ہیں) اور جس کو اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے، (وہ اُس میں پڑ کر رہتا ہے)، اِس لیے کہ اللہ کے مقابل میں تم اُس کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔  یہی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے نہیں چاہا کہ اِن کے دلوں کو پاک کرے۔   اِن کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ایک بڑی سزا ہے۔(۱۴)  یہ جھوٹ پر کان لگاتے اور (جھوٹی گواہی کے لیے) بغیر کسی تردد کے حرام کھاتے ہیں،    لہٰذا (فیصلوں کے لیے) تمھارے پاس آئیں تو تمھیں اختیار ہے کہ اِن کا فیصلہ کرویا ٹال دو۔ تم اِنھیں ٹال دوگے تو یہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے   اور اگر فیصلہ کروگے تو تم پر لازم ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اللہ اُنھی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو انصاف کا فیصلہ کرتے ہیں۔(۲۴)  یہ تم سے کس طرح فیصلہ کراتے ہیں، دراں حالیکہ اِن کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا فیصلہ موجود ہے، 

ر فیصلے کے لیے رجوع کرلینے کے بعد اُس سے بھی برگشتہ ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے والے لوگ ہی نہیں ہیں۔ (۳۴) یہ تورات ہمیں نے اتاری، جس میں ہدایت بھی تھی اور روشنی بھی۔ اللہ کے فرماں بردار نبی،  ربانی عالم اور فقیہ اِن یہودیوں کے فیصلے اِسی کے مطابق کرتے تھے، اِس لیے کہ اُنھیں اِس کتاب الٰہی کا نگہبان اور اِس پر گواہ ٹھیرایا گیا تھا۔  پھر (یہ ہدایت بھی اِس کے بارے میں کی گئی تھی کہ) لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کو تھوڑی قیمت کے عوض نہ بیچو اور  (یاد رکھو کہ) جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی منکر ہیں۔ (۴۴) اور اِسی کتاب میں ہم نے اِن پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اِسی طرح دوسرے زخموں کا بھی قصاص ہے۔   پھر جس نے معاف کر دیا تو وہ اُس کے لیے کفارہ بن جائے گا۔  اور (یہ بھی کہ) جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔ (۵۴) اِنھی (پیغمبروں) کے نقش قدم پر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا، اُس سے پہلے جو تورات موجود تھی، وہ اُس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اُس کو انجیل عطا فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات کی تصدیق کرنے والی تھی جو اُس سے پہلے موجود تھی،   خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت کے طور پر۔ (۶۴)  اور اِس فرمان کے ساتھ کہ اہل انجیل بھی اُسی کے مطابق فیصلے کریں جو اللہ نے اُس میں نازل کیا ہے اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی فاسق ہیں۔(۷۴)  پھر ہم نے، (اے پیغمبر) تمھاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے، قول فیصل کے ساتھ اور اُس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے  اور اُس کی نگہبان بنا کر، اس لیے تم اِن کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور جو حق تمھارے پاس آچکا ہے، اُس سے ہٹ کر اب اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔    تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت،یعنی ایک لائحہئ عمل مقرر کیا ہے۔  اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر اُس نے یہ نہیں کیا، اِس لیے کہ جو کچھ اُس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں تمھاری آزمایش کرے۔ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔   تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔(۸۴)  (دین و شریعت کے معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے) اور یہ بھی کہ اِن کا فیصلہ اُس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور اِن سے ہوشیار رہو کہ مبادا یہ لوگ تمھیں ہدایت کی کسی بات سے بہکا دیں جو اللہ نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔   پھر اگر اعراض کریں تو جان لو کہ اللہ اِن کو اِن کے کچھ گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے   اور حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے زیادہ نافرمان ہیں۔ (۹۴) (خدا کی شریعت کو چھوڑ کر) پھر کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟  دراں حالیکہ اُن لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہو سکتا ہے جو (خدا اور آخرت پر) یقین رکھتے ہیں۔ (۰۵)    (محترم جاویدا حمد غامدی)
تفاسیر
نظم کلام
”آگے چند آیات میں منافقین اور یہود کی اس ملی بھگت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو انھوں نے شرعی احکام و قوانین، بالخصوص تعزیرات، حدود کی گرفت سے بچنے اور ایک دوسرے کو ان سے بچانے کے لیے باہم کر رکھی تھی۔ چنانچہ منافقین اور یہود اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ شرارت کرتے کہ جن معاملات میں ان کی توقع ہوتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے فیصلہ ان کے حسبِ منشا ہوجائے گا ان کے لیے آنحضرت صلعم سے رجوع کرتے لیکن جن میں اپنے حسب منشا فیصلہ ہونے کی توقع نہ ہوتی ان کے لیے یہودی عدالتوں کی طرف رجوع کرتا تاکہ جھوٹے گواہوں اور رشوت کے ذریعے سے اپنے حسب منشا فیصلے حاصل کرسکیں۔ قرآن نے ان کی اس بدبختانہ روش پر افسوس کیا ہے اور آنحضرت صلعم کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر اس قسم کے اشرار اپنے معاملات آپ کی عدالت میں لائیں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ ان کے مقدمے لیں یا نہ لیں۔ البتہ اگر لیں تو فیصلہ اسی قانونِ عدل کے مطابق کریں جو اللہ نے اُتارا ہے۔اس کے بعد یہود کی حالت پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے کہ فلاں معاملے میں تورات کا حکم کیا ہے تمہیں حکم بناتے ہیں پھر تم جو فیصلہ کرتے ہو اس سے مُکر جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا ایمان کسی چیز پر بھی نہیں ہے، وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔اس کے بعد پہلے تورات و انجیل کا حوالہ دیا ہے کہ اللہ نے یہ صحیفے ہدایت اور روشنی بنا کر اُتارے۔ پھر قرآن کا ذکر فرمایا کہ اب اللہ نے یہ کتاب اُتاری ہے جو تمام اختلافات کے درمیان قولِ فیصل اور سابق صحیفوں کے لیے معیار اور کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے تو اب تم ہرمعاملے کا فیصلہ اسی کی روشنی میں کرو، یہود و نصاریٰ کی بدعات کی پروا نہ کرو۔ آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید تاکید فرمائی کہ خواہ یہود و نصاریٰ کتنا ہی زور صرف کریں تم کسی حال میں بھی کتابِ الٰہی کے بالمقابل ان کی بدعات و خواہشات کی پروا نہ کرنا۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۵۱۵، فاران  فاونڈیشن لاہور)
شان نزول
”آیاتِ مذکورہ کے نزول کا سبب دو واقعات ہیں، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمبارک میں مدینہ کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودی قبائل میں پیش آئے۔ ایک واقعہ قتل و قصاص کا اور دوسرا واقعہ زنا اور اس کی سزا کا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے پہلے حوالیِ مدینہ میں یہود کے دو قبیلے بنوقریظہ اور بنونضیرآباد تھے۔ ان میں سے بنونضیر قوت و شوکت اور دولت و عزت میں بنوقریظہ سے زیادہ تھے۔ یہ لوگ آئے دن بنوقریظہ پر ظلم کرتے رہتے تھے اور وہ چاروناچار اس کو سہتے تھے، یہاں تک کہ بنونضیر نے بنوقریظہ کو اس ذلت آمیز معاہدہ پر مجبور کیا کہ اگر بنونضیرکا کوئی آدمی بنوقریظہ کے کسی شخص کو قتل کردے تو اس کا قصاص یعنی جان کے بدلے میں جان لینے کا اُن کو حق نہ ہوگا، بلکہ صرف ستر وسق کھجوریں اس کے خوں بہا کے طور پر ادا کی جائیں گی۔ (وسق عربی اوزان کا ایک پیمانہ ہے، جو ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً پانچ من دس سیر کا ہوتا ہے) اور اگر معاملہ برعکس ہو کہ بنوقریظہ کا کوئی آدمی بنونضیر کے کسی شخص کو قتل کردے تو قانون یہ ہوگا کہ اس کے قاتل کو قتل بھی کیا جائے گا اور ان سے خون بہا بھی لیا جائے گا، اور وہ بھی بنونضیر کے خون بہا سے دوگنا یعنی ایک سو چالیس وسق کھجوریں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ ان کا مقتول اگر عورت ہوگی تو اس کے بدلہ میں بنوقریظہ کے ایک مرد کو قتل کیا جائے گا، اور اگر مقتول مرد ہے تو اس کے معاوضہ میں بنوقریظہ کے دو مردوں کو قتل کیا جائے گا اور اگر بنونضیر کے غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلہ میں بنوقریظہ کے آزاد کو قتل کیا جائے گا، اور اگر بنونضیر کے آدمی کا کسی نے ایک ہاتھ کاٹا ہے، تو بنوقریظہ کے آدمی کے دو ہاتھ کاٹے جائیں گے، ایک کان کاٹا ہے تو اُن کے دو کان کاٹے جائیں گے، یہ قانون تھا جو اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کے درمیان رائج تھا تھا اور بنوقریظہ اپنی کمزوری کی بنا پر اس کے ماننے پر مجبور تھے۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور مدینہ ایک دارالاسلام بن گیا، یہ دونوں قبائل ہنوز نہ اسلام میں داخل ہوئے تھے نہ کسی معاہدہ کی رُو سے اسلامی احکام کے پابند تھے، مگر اسلامی قانون کی عدل گستری اور عام سہولتوں کو دُور سے دیکھ رہے تھے۔ اس عرصہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنوقریظہ کے ایک آدمی نے بنونضیر کے کسی آدمی کو مارڈالا تو بنونضیرنے معاہدہ مذکور کے مطابق بنوقریظہ سے دُوگنی دیت یعنی خوں بہا کا مطالبہ کیا۔ بنوقریظہ اگرچہ نہ اسلام میں داخل تھے، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت کا کوئی معاہدہ تھا، لیکن یہ لوگ یہودی تھے، ان میں بہت سے لکھے پڑھے لوگ بھی تھے، جو تورات کی پیشن گوئیوں کے مطابق جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخرالزماں ہیں، جن کے آنے کی خوش خبری توریت نے دی ہے، مگر تعصب مذہبی یا دنیوی لالچ کی وجہ سے ایمان نہ لائے تھے، اور یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ آپؐ کا مذہب مساواتِ انسانی اور عدل و انصاف کا علم بردار ہے، اس لیے بنونضیر کے ظلم سے بچنے کے لیے ان کو ایک سہارا ملا اور انھوں نے دوگنی دیت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم تم ایک ہی خاندان سے ہیں، ایک ہی وطن کے باشندے ہیں، اور ہم دونوں کا مذہب بھی ایک یعنی یہودیت ہے، یہ غیرمنصفانہ معاملہ جو آج تک تمہاری زبردستی اور ہماری کمزوری کے سبب ہوتا رہا، اب ہم اس کو گوارا نہ کریں گے۔اس جواب پر بنونضیر میں اشتعال پیدا ہوا، اور قریب تھا کہ جنگ چھڑ جائے، مگر پھر کچھ بڑے بوڑھوں کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ اس معاملہ کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرایا جائے، بنوقریظہ کی تو یہ عین مراد تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنونضیر کے ظلم کو برقرار نہ رکھیں گے، بنونضیر بھی باہمی گفت و شنید اور صلح کی بناء پر اس کے لیے مجبور تو ہوگئے، مگر اس میں یہ سازش کی کہ آپؐ کے پاس مقدمہ لے جانے سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کو آگے بھیجا جو اصل میں تو انھی کے ہم مذہب یہودی تھے، مگر منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے تھے، اور مطلب ان کا یہ تھا کہ یہ لوگ کسی طرح مقدمہ اور اس کے فیصلہ سے پہلے اس معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عندیہ اور نظریہ معلوم کرلیں، اور یہی تاکید ان لوگوں کو کردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مطالبہ کے موافق فیصلہ فرما دیا تو اس کو قبول کرلینا اور اس کے خلاف کوئی حکم آیا تو ماننے کا وعدہ نہ کرنا۔سببِ نزول کا یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بغوی نے نقل کیا ہے، اور مسنداحمد و ابوداؤد میں 

حضرت عبداللہ بن عباس سے اس کاخلاصہ منقول ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا واقعہ زنا کا ہے، جس کی تفصیل بغویؒ نے اس طرح نقل کی ہے کہ خیبر کے یہودیوں میں یہ واقعہ پیش آیا اور تورات کی مقرر کردہ سزا کے موافق ان دونوں کو سنگسار کرنا لازم تھا، مگر یہ دونوں کسی بڑے خاندان کے آدمی تھے۔ یہودیوں نے اپنی قدیم عادت کے موافق یہ چاہا کہ ان کے لیے سزا میں نرمی کی جائے، اور ان کو یہ معلوم تھاکہ مذہبِ اسلام میں بڑی سہولتیں دی گئی ہیں، اس بنا پر اپنے نزدیک یہ سمجھا کہ اسلام میں اس سزا میں بھی تخفیف ہوگی، خیبر کے لوگوں نے اپنی برادری بنی قریظہ کے لوگوں کے پاس پیغام بھیجا کہ اس معاملہ کا فیصلہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کرا دیں، اور دونوں مجرموں کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ منشاء ان کا بھی یہ تھا کہ اگر آپؐ کوئی ہلکی سزا جاری کردیں تو مان لیا جائے ورنہ انکار کر دیا جائے۔ بنوقریظہ کو پہلے تو تردّد ہوا کہ معلوم نہیں آپؐ کے ساتھ فیصلہ کریں اور وہاں جانے کے بعد ہمیں ماننا پڑے، مگر کچھ دیر گفتگو کے بعد یہی فیصلہ رہا کہ ان کے چند سردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان مجرموں کو لے جائیں اور آپؐ ہی سے اس کا فیصلہ کرائیں۔چنانچہ کعب بن اشرف وغیرہ کا ایک وفد ان کو ساتھ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور سوال کیا کہ شادی دہ مرد و عورت اگر بدکاری میں مبتلا ہوں تو ان کی کیا سزا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم میرا فیصلہ مانو گے؟ انھوں نے اقرار کیا، اس وقت جبرئیل امین ؑاللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے، کہ ان کی سزا سنگسار کرکے قتل کر دینا ہے، ان لوگوں نے جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلا گئے، اور ماننے سے انکار کر دیا۔جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ ان لوگوں سے یہ کہیں کہ میرے اس فیصلہ کو ماننے یا نہ ماننے کے لیے ابن صوریا کو حَکم بنا دو، اور ابن صوریا کے حالات وصفات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دیئے، آپؐ نے آنے والے وفد سے کہا کہ کیا تم اس نوجوان کو پہچانتے ہو جو سفید رنگ مگر ایک آنکھ سے معذور ہے، فدک میں رہتا ہے، جس کو ابن صوریا کہا جاتا ہے۔ سب نے اقرار کیا، آپؐ نے دریافت کیا کہ آپؐ لوگ اس کو کیسا سمجھتے ہیں؟انھوں نے کہا کہ علماء یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا کوئی عالم نہیں، آپؐ نے فرمایا: اس کو بلاؤ۔چنانچہ وہ آگیا، آپؐ نے اس کو قسم دے کر پوچھا کہ اس صورت میں تورات کا حکم کیا ہے؟ یہ بولا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپؐ نے مجھ کو دی ہے، اگر آپؐ قسم نہ دیتے اور مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ غلط بات کہنے کی صورت میں تورات مجھے جلا ڈالے گی، تو میں یہ حقیقت ظاہر نہ کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمِ اسلام کی طرح تورات میں بھی یہ ہی حکم ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کرکے قتل کرایا جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم پر کیا آفت آئی کہ تم تورات کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو۔ ابن صوریا نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ زنا کی سزا شرعی تو ہمارے مذہب میں یہ ہی ہے، مگر ہمارا ایک شہزادہ اس جرم میں مبتلا ہوگیا۔ ہم نے اس کی رعایت کرکے چھوڑ دیا، سنگسار نہیں کیا، پھر یہی جرم ایک معمولی آدمی سے سرزد ہوا، اور ذمہ داروں نے اس کو سنگسار کرنا چاہا تو مجرم کے جتھہ کے لوگوں نے احتجاج کیا کہ اگر شرعی سزا اس کو دینی ہے تو اس سے پہلے شہزادے کو دو، ورنہ ہم اس پر یہ سزا جاری نہ ہونے دیں گے، یہ بات بڑھی تو سب نے مل کر صلح کرلی کہ سب کے لیے ایک ہی ہلکی سزا تجویز کردی جائے، اور تورات کا حکم چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ہم نے کچھ مارپیٹ اور منہ کالا کرکے جلوس نکالنے کی سزا تجویز کر دی، اور اب یہی سب میں رواج ہوگیا۔ یہودیوں کی یہ پرانی خصلت تھی کہ کبھی اقرباء پروری کے تحت، کبھی جاہ و مال کے لالچ میں لوگوں کی خواہش کے مطابق فتویٰ بنا دیا کرتے تھے، خصوصاً سزاؤن کے معاملہ میں یہ عام رواج ہوگیا تھا کہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم سرزد ہوتا تو تورات کی سخت سزا کو معمولی سزا میں تبدیل کر دیتے تھے، ان کے اسی حال کو آیتِ مذکورہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے: یحرفون الکلم من بعد مواضعہ۔“(معارف القرآن،ج۳، ص۹۳۱، ادارۃ المعارف کراچی)
یایھا الرسول لایحزنک……………… عذاب عظیم 
رسول کی ذمہ داری
”یایھا الرسول،لفظ ’رسول‘ سے خطاب یہاں اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ رسول کی اصل ذمہ داری صرف اللہ کے دین کی تبلیغ اور انذار و تبشیر کے فریضہ کی ادائیگی ہے۔ اس امر کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے کہ لوگ اس کی دعوت کے معاملے میں رویہ کیا اختیار کرتے ہیں۔ اگر رسول نے اپنا فرض رسالت ادا کر دیا ہے تو وہ عنداللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا۔“ (تدبر قرآن، ج۲، ص ۱۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)


یسارعون فی الکفر
منافقین کی یہود دوستی
”یسارعون فی الکفر،’کفر‘ میں سبقت سے اشارہ یہاں منافقین کی یہود دوستی کی طرف ہے“ (تدبر قرآن،ج۲، ص ۱۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
سمعون للکذب
منافقین کا من بھاتا کھاجا
”سمعون للکذب،’سمع‘ کے معنی جس طرح سننے کے آتے ہیں اسی طرح قبول کرنے کے بھی آتے ہیں اور ’ل‘ یہاں اضافت کے مفہوم کو ظاہر کر رہا ہے۔ یہ منافقین کی وہ صفت بیان ہوئی جس سے ان کی سبقت الی الکفر کی توجیہ ہورہی ہے کہ ان کا من بھاتا کھاجا جھوٹ ہے، یہ جھوٹ کے رسیا اور جھوٹ کے گاہک ہیں، انھیں جھوٹی گواہی، جھوٹی عدالت اور جھوٹا فیصلہ چاہیے۔ اس وجہ سے یہ پیغمبر کی عدالت سے گھبراتے ہیں اور یہود کی طرف بھاگتے ہیں اس لیے کہ یہ جس جنس کے خریدارہیں اس کی فراوانی اسی بازار میں ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲، ص ۲۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”سماعون کے معنی ہیں بہت زیادہ سننے والے اور کان دھرنے والے، پھر ”بہت زیادہ سننا“ کبھی تو جاسوسی پر اطلاق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے معنی ہوتے ہیں ”بہت زیادہ قبول کرنے والا“ جیسے سمع اللّہ لمن حمدہ، میں سننے کے معنی قبول کرنے کے ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے یہاں پہلے معنی مراد لیے ہیں لیکن ابن جریر وغیرہ محققین نے دوسرے معنی پر حمل کیا ہے۔ سماعون للکذب، یعنی جھوٹ اور باطل کو بہت زیادہ ماننے اور قبول کرنے والے۔ سماعون لقوم اخرین،یعنی دوسری جماعت جس نے ان کو بھیجا اور خود تمہارے پاس نہیں آئی ان کی بات بہت زیادہ ماننے والے۔“ (تفسیر عثمانی،ص ۲۵۱، پاک کمپنی لاہور)
سمعون لقوم اخرین لم یاتوک
منافقین یہود کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی
”یہ ان منافقین کی دوسری صفت ہے اور چونکہ بعینہٖ پہلی صفت ہی کا پرتو ہے تو اس وجہ سے حرف عطف کے بغیر مذکور ہوئی۔ یعنی یہ منافقین اگر آپ کے پاس آتے ہیں تو اپنے ذوق و شوق سے اور حق و انصاف کے لیے نہیں آتے بلکہ دوسروں کے بھیجے ہوئے اور ان کے سکھائے پڑھائے ہوئے آتے ہیں۔ اشارہ یہود کے علما اور لیڈروں کی طرف ہے جن کا حال یہ بیان ہوا ہے کہ وہ خود سامنے نہیں آتے بلکہ پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے ان کٹھ پتلیوں کو نچاتے ہیں اور یہ ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں یہ اسی کو مانتے ہیں اور جو کچھ ان کا ایما ہوتا ہے یہ اسی کی تعمیل کرتے ہیں۔“(تدبر قرآن،ج۲، ص۲۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”ماشاء اللہ حضرت مترجم قدس سرہ نے بہت صحیح ترجمہ فرمایا۔ اس مقام پر بعض مترجمین  و مفسرین سے لغزش واقع ہوئی کہ انھوں نے لقوم کے لام کو علت قرار دے کر آیت کے معنی یہ بیان کیے کہ منافقین و یہود اپنے سرداروں کی جھوٹی باتیں سنتے ہیں۔ آپ کی باتیں دوسری قوم کی خاطر سے کان دھر کر سنتے ہیں جس کے وہ جاسوس ہیں مگر یہ معنی صحیح نہیں اور نظمِ قرآنی اس سے بالکل موافقت نہیں فرماتی بلکہ یہاں لام من کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے سرداروں کی جھوٹی باتیں خوب سنتے ہیں اور لوگوں یعنی یہود خیبر کی باتوں کو خوب مانتے ہیں جن کے احوال کا آیت شریف میں بیان آرہا ہے۔“ (تفسیر ابوالسعود وجمل)(خزائن العرفان،ص ۵۰۲، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،)
یحرفون الکلم من بعد مواضعہ………… وان لم توتوہ فاحذروا
کلام کو اس کے واضح محمل سے ہٹانا تحریف دین ہے
”یہ ان یہود کی پس پردہ سازشوں سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ان کی ایک کارستانی تو یہ بتائی کہ یحرفون الکلم من بعد مواضعہ  مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا موقع و محل اور اس کا محمل و مصداق متعین ہوجانے کے باوجود اس کو اس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں جس سے حکم کا مقصد بالکل فوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ اگر کسی حکم کا موقع و محل اور محمل و مصداق واضح نہ ہو جس کے سبب سے قاضی و مفتی تطبیق میں غلطی کرجائیں تو ان کو معذور ٹھہرایا جاسکتا ہے، لیکن محمل و مصداق کے تعین کے باوجود اس حکم کو اس کے موقع و محل سے ہٹانا صریح تحریفِ دین ہے۔ خاص طور پر تعزیرات و حدود کے باب میں تو انھوں نے اس خنجر تحریف کو اس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا کہ شریعت کی کوئی حد و تعزیر بھی اس سے سلامت نہ رہ سکی۔ اور افسوس ہے کہ تحریف کی 

اس قسم کے ارتکاب میں یہ امت بھی یہود سے کچھ پیچھے نہیں رہی۔ان کی دوسری کارستانی یہ بتائی کہ یہ ان منافقین کو یہ سکھا کر آپ کے پاس بھیجتے ہیں کہ اگر تمہارے قضیے کا فیصلہ یہ ہو تب تو قبول کرلینا اور اگر یہ فیصلہ نہ ہو تو اس کو قبول نہ کرنا۔ گویا اوّل تو وہ خود ہی تحریف کے چور دروازے سے مجرم کے لیے فرار کی راہ نکال دیتے ہیں اور اگر اس میں کچھ زحمت محسوس ہوتی ہے تو آنحضرت صلعم کی عدالت میں معاملہ کو بھیج دیتے ہیں لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ فیصلہ حسب منشا ہو تب تو قبول کرلینا ورنہ اس سے کترا جانا۔ مطلب قرآن کا اس ساری پردہ دری سے یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے فتنہ کاروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور خود بھی فتنہ پسند ہیں ان کو ان کی قسمت پر چھوڑ دو، ان کی اس حالت پر غم نہ کرو۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۳۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
ومن یرد اللّٰہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللّٰہ شیئاً
ہدایت و ضلالت کے باب میں سنتِ الٰہی
”یہ ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الٰہی کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل اور خیروشر میں امتیاز کی صلاحیت اور انسان کو اختیار کی نعمت دے کر اس کو دونوں طرح کے حالات سے آزمایا، اس کے سامنے نفس اور شیطان کی طرف سے شروباطل بھی آتا ہے اور فطرت اور خدائے رحمن کی طرف سے خیر اور حق بھی۔ اس طرح اس کے عقل و ارادے کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ خیر اور حق کو اختیار کرتا ہے یا شروباطل کو۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اور دیکھتے سنتے شر کو خیر پر اور باطل کو حق پر ترجیح دیتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے ضمیر اور اپنے عقل و ارادے کو اس درجہ کند اور بے حس بنا لیتے ہیں کہ ان کے اندر حق کی طرف بڑھنے کا کوئی عزم و حوصلہ سرے سے باقی رہ ہی نہیں جاتا۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس فتنہ ہی میں اوندھے منہ پڑے چھوڑ دیتا ہے جس میں وہ پڑچکے ہوتے ہیں۔ پیغمبر اپنی دل سوزی اور محبت حق کی وجہ سے اپنا پورا زور لگاتا ہے کہ ان کو جگائے اور جب یہ نہیں جاگتے تو بعض اوقات اس کو یہ غم ہوتا ہے کہ مبادا ان کا یہ نہ جاگنا خود اس کی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہو۔ اسی طرح کا احساس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہوتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ کفر کی راہ میں ان لوگوں کی بھاگ دوڑ اس بات کا نتیجہ ہے کہ یہ سنتِ الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور جب یہ سنتِ الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں تو بھلا کس کے امکان میں ہے کہ ان کو باطل سے موڑ کر حق کی راہ پر لاسکے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۳۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
اولئک الذین لم یرد اللّٰہ ان یطھر قلوبھم
ختم قلوب کا مرحلہ
”یہ اشارہ ہے اس سنتِ الٰہی کی طرف جو قرآن میں ”ختم قلوب‘ یا ’رین‘ کے الفاظ سے تعبیر ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں کی تطہیر اور ان کے تزکیہ کے لیے اللہ کے ہاں ایک خاص ضابطہ ہے جو لوگ نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلتے ہیں۔ اگر اثنائے راہ میں ان کو کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے، وہ گر پڑتے ہیں، لیکن گرنے کے بعد پھر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور توبہ و اصلاح کے ذریعے سے دامن جھاڑ کے پھر چل کھڑے ہوتے ہیں تو خواہ ہزار بار گریں اور اُٹھیں لیکن ان کے دامنِ دل پر میل جمنے نہیں پاتا، اللہ ان کی توبہ واصلاح کو ان کے کفارہ سیئات بناتا رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ برائی اور نافرمانی ہی کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور گناہوں کی کیچڑ ہی میں لت پت رہنے میں لذت و راحت محسوس کرتے ہیں، آہستہ آہستہ ان کے دلوں پر اتنی سیاہی جم جاتی ہے کہ ان پر کوئی صیقل بھی کارگر نہیں ہوتا، پھر خدا انھیں جہنم کی بھٹی ہی کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۴۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”باقی یہ شبہ کہ خدا تو اس پر قادر تھا کہ ان کی سب شرارتوں اور غلط کاریوں کو جبراً روک دیتا اور مجبور کردیتا کہ وہ کوئی ضد اور ہٹ کر ہی نہ سکیں۔ تو بے شک میں تسلیم کرتا ہوں کہ خدا کی قدرت کے سامنے یہ چیز کچھ مشکل نہ تھی۔ ولو شآء ربک لامن من فی الارض کلھم جمیعا (یونس، رکوع ۰۱) لیکن اس دنیا کا سارا نظام ہی ایسا رکھا گیا ہے کہ بندوں کو خیروشر کے اکتساب میں مجبور محض نہ بنایا جائے۔ اگر صرف خیر کے اختیار پر سب کو مجبور کر دیا جاتاتو تخلیق عالم کی حکمت و مصلحت پوری نہ ہوتی اور حق تعالیٰ کی بہت سی صفات ایسی رہ جاتیں کہ ان کے ظہور کے لیے کوئی محل نہ ملتا۔ مثلاً عفو، غفور، حلیم، منتقم، ذوالبطش الشدید، قائم بالقسط، مالک یوم الدین وغیرہ حالانکہ عالم کے پیدا کرنے سے غرض ہی یہ ہے کہ اس کی تمامی صفاتِ کمالیہ کا مظاہرہ ہو، کوئی مذہب یا کوئی انسان جو خدا کو فاعل مختار مانتاہے انجامِ کار اس کے سوا کوئی دوسری غرض نہیں بتلا سکا۔ لیبلوکم ایکم احسن عملا (سورۂ ملک، رکوع۱)“ (تفسیر عثمانی،ص۴۵۱، پاک کمپنی لاہور)
چور دروازوں کی نشا ندہی۔مسلمانوں کے لیے تنبیہ
”اجزائے کلام کو سمجھ لینے کے بعد نظم کے پہلو سے، پھر ایک بار یہ بات ذہن میں تازہ کرلیجیے کہ میثاقِ الٰہی کی ان دفعات کو بیان کرنے کے بعد جو دوسری ملتوں کے لیے مزلّہ قدم ہوئیں، اب یہ ان چور دروازوں کی نشان دہی کی جارہی ہے جن سے انھوں نے پہلے بھی فرار کی راہیں اختیار کیں اور اب بھی ان کو استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ ان چور دروازوں کی نشان دہی سے مقصود، جیساکہ فحوائے کلام سے واضح ہے، اس اُمت کو یہ آگاہی دینا ہے کہ تم بھی پچھلی اُمتوں کی طرح خدا کے میثاق سے فرار اختیار کرنے والے نہ بن جانا، بلکہ ہر حالت میں اس پر قائم و استوار رہنا۔ ورنہ جس طرح ان کے لیے دنیا کی رسوائی اور آخرت کا عذابِ عظیم ہے اسی طرح تم بھی اس کے مستحق ٹھہرو گے۔ خدا کا قانون سب کے لیے یکساں اور بے لاگ ہے۔“(تدبر قرآن،ج۲،ص ۴۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
سمعون للکذب اکلون………… یحب المقسطین 
’سحت‘ کا مفہوم، رشوت
”اکلون للسحت، سحت کے معنی کسبِ حرام کے ہیں۔ کسب حرام کی یوں تو مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں لیکن اس لفظ کا غالب استعمال رشوت کے لیے ہے۔ اس معنی میں یہ یہاں بھی استعمال ہوا ہے اور قرآن میں جہاں کہیں بھی استعمال ہوا ہے اسی معنی میں ہوا ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲، ص۴۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”سُحت کا لغوی معنی ہلاکت و بربادی ہے۔ مالِ حرام کو اِس لیے سُحت کہا جاتا ہے کہ وہ نیکیوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ مسلمانوں کو بھی حرام کھانے سے بارہا منع کیا گیا۔ چنانچہ حضور کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا: کل لحم نبت بالسحت فالنار اولی بہ قالوا یارسول اللّٰہ وما السحت؟ قال الرشوۃ فی الحکم،جو گوشت سُحت سے پیدا ہو، اُسے آگ ہی جلائے گی۔ عرض کی گئی: اے اللہ کے رسولؐ! سُحت کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: فیصلہ کرتے وقت رشوت لینا۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: اذا ارتشی الحاکم انعزل فی الوقت وان لم یعزل کہ حاکم رشوت لیتے ہی معزول ہوجاتا ہے خواہ اسے بظاہر معزول نہ بھی کیا جائے۔ رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی کا حق ضائع کرنے کے لیے اور ناحق کوئی چیز خود لینے کے لیے کسی حاکم کو دیا جائے۔ فاما ان ترشی لتدفع عن دینک ودمک وما لیس فلیس بحرامٍ، (لیکن اپنے دین، جان اورمال کی حفاظت کے لیے دی جائے تو حرام نہیں۔ یہاں لینے والا گنہگار ہوگا)۔“ (ضیا القرآن،ج۱،ص ۱۷۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
حاملِ شریعت اُمت کا اصلی فریضہ
”شہدآء علی الناس اور قوامین بالقسط پر سب سے بڑا خدائی فرض یہی عائد ہوتا ہے کہ وہ حق کی گواہی دینے والے، حق پر قائم رہنے والے اور حق کے مطابق بے لاگ فیصلہ کرنے والے بنیں۔ یہی اس عہدومیثاق کے قیام و استحکام کی بنیاد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر اس اُمت سے لیا ہے جس کو اپنی کتاب و شریعت سے نوازا ہے لیکن اس فرض کی ادائیگی اسی وقت تک ممکن ہے جب تک جھوٹ اور رشوت کی چاٹ لوگوں کو نہ لگے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۵۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
فان جآء و ک فاحکم بینھم۔۔۔۔۔ فلن یضروا شیئا
یہود کی ایک چال اور اس کا توڑ
”فرمایا کہ یہ لوگ جو دوسروں کے بھیجے ہوئے تمھارے پاس آتے ہیں اور دل میں یہ ارادہ لے کر آتے ہیں کہ فیصلہ ان کے حسبِ منشا ہوگا تب تو قبول کریں گے ورنہ رد کر دیں گے تو ایسے لوگوں کے بارے میں تمھیں اختیار ہے کہ تم ان کے مقدمے  کے فیصلے کی ذمہ داری لو یا نہ لو۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اُوپر قیام عدل و قسط کی ذمہ داری اصلاً صرف انھی لوگوں سے متعلق ہے جو تمہارے دائرہ اقتدار و اطاعت کے اندر ہیں۔ فرمایا کہ تم ان کو رد کردو گے تو یہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔ یہ اطمینان اس لیے دلایا گیا کہ یہود اس طرح کے معاملات و مقدمات آنحضرت صلعم کے پاس بھیجتے یا لاتے تو اس میں ان کی کوئی نہ کوئی مفسدانہ غرض ضرور پوشیدہ ہوتی، وہ اس سے آپؐ کے خلاف سیاسی فائدے اٹھانے کی کوشش کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلا دیا کہ تم ان کا معاملہ تو بہرحال اس کا فیصلہ اسی قانون عدل و قسط کے مطابق کرو جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے اور اگر ان کو رد کردو تو اس کا بھی تمہیں اختیار ہے، یہ تم کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، حق پر قائم رہنے والے کی اللہ حفاظت کرتا ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۵۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ان اللّٰہ یحب المقسطین
اُمت کو ہر حال میں حق پر قائم رہنے کی ہدایت
”یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے پوری اُمت سے گویا عہد لیا گیا ہے کہ فیصلہ اپنوں کے کسی معاملے کا ہو یا غیروں کے، بہرحال بے لاگ لپیٹ، قانون عدل و قسط کے مطابق ہو۔ قوامین بالقسط کا فریضہ منصبی یہی ہے اور اسی کی خاطر اللہ نے پچھلی اُمتوں کو معزول کرکے اس اُمت کو برپا کیا ہے۔ ان اللہ یحب المقسطین میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی محبت کسی نسل و خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ عدل و قسط قائم کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو گروہ جب تک اس پر قائم رہے گا اور اس کو قائم کرے گا اللہ اس کو دوست رکھے گا اور جس کو اللہ دوست رکھے وہی دنیا اور آخرت دونوں میں برومند اور فلاح یاب ہوگا۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۶۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
وکیف یحکموتک………… وما اولئک بالمومنین
شریعت سے فرار کے لیے یہود کی دہری شرارت
 ”یہ تعجب کا اظہار اس بات پر نہیں ہے کہ وہ تورات رکھتے ہوئے اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے آپ کو حَکم کس طرح بناتے ہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ وہ آپ کو حَکم بنا کر آپ کے فیصلے سے مکرتے کس طرح ہیں جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے فیصلے شریعتِ الٰہی کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اول تو احکام، بالخصوص تعزیرات و حدود، بنیادی طور پر تورات و قرآن دونوں میں یکساں ہیں، پھر آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جن امور میں قرآن کی کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہوتی ان میں آپ فیصلہ احکامِ تورات کے مطابق فرماتے اور ان یہود کو اچھی طرح علم ہوتا کہ آپ کا فیصلہ تورات کے قانون کے مطابق ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیسی بے حیائی اور ڈھٹائی کی بات تھی کہ آپ کو حَکم بھی بنایا جائے اور آپ کا فیصلہ اس قانونِ الٰہی کے مطابق بھی ہو جس پر ایمان کا دعویٰ ہے لیکن پھر اس فیصلہ سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ تفسیر کی کتابوں میں زنا کے ایک مقدمے کا ذکر ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بالکل تورات کے قانون کے مطابق تھا لیکن علمائے یہود نے اس طرح کے معاملات میں امیر اور غریب کے لیے چونکہ الگ الگ ضابطے بنا رکھے تھے اس وجہ سے وہ تورات کے اصل قوانین کو چھپاتے تھے۔ چنانچہ اس معاملے میں بھی انھوں نے یہی کوشش کی لیکن بالآخر ان کو اصل حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ روش ہر پہلو سے دعوائے ایمان کے منافی ہے۔ اوّل تو آپ کی عدالت میں مقدمہ کو لے جانا ہی اس خواہش کے ساتھ تھا کہ تورات کے قانون سے فرار کی شاید کوئی شکل نکل آئے، لیکن جب وہاں سے کوئی شکل نہیں نکلی تو یہ جانتے بوجھتے کہ آپ کا فیصلہ بالکل تورات کے حکم کے مطابق ہے، اس سے گریز کی کوشش کی۔ فرمایا کہ وما اُولئک بالمومنین، یہ لوگ کسی چیز پربھی ایمان نہیں رکھتے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۶۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
انا انزلنا التوراۃ……………… فاولئک ھم الظلمون 
تورات کا مرتبہ
”انا انزلنا التورءۃ فیھا ھدی ونور،یہ تورات کی قدروقیمت واضح فرمائی گئی کہ اللہ نے اس کو اتارا تھا تو بازیچہئ اطفال بنانے کے لیے نہیں اُتارا تھا بلکہ زندگی کے اعلیٰ اقدار کے تحفظ کا وسیلہ، خدا اور اس کے نبیوں کے بتائے ہوئے طریقوں کی طرف رہنمائی کا ذریعہ، صراطِ مستقیم کی ہدایت اور خواہشات و بدعات کی تاریکیوں سے نکالنے والی روشنی بنا کر اُتارا تھا۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۷۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
یحکم بھا النبیون
کتابِ الٰہی کا حقیقی مقصد
”یحکم بھا النبیون میں مضارع سے پہلے عربیت کے عام قاعدے کے مطابق کان کا صیغہ محذوف ہے۔ یعنی کان یحکم بھا النبیون (انبیاء اس کے ذریعہ سے یہود کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے) ’حَکم‘ کے لفظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کتابِ الٰہی کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ زندگی کے معاملات و نزاعات میں امروحکم اور فیصلہ و قضا کا ذریعہ بنے اور تمام اجتماعی و سیاسی اور قانونی معاملات اسی کی ہدایات کے مطابق اور اسی کی روشنی میں انجام پائیں۔ اگر اس کی یہ حیثیت باقی نہ رہے بلکہ وہ صرف تبرک بنا کے رکھ چھوڑی جائے، یا اس کے الفاظ کی تلاوت کرلی جائے یا اس کو صرف مُردے بخشوانے کا وسیلہ سمجھ لیا جائے، زندگی کے معاملات و مسائل سے نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی تعلق باقی نہ رہے بلکہ صریحاً اس کے احکام کے خلاف احکام و قوانین بنائے جائیں تو یہ اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۷۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
الذین اسلموا
یہود پر ایک لطیف تعریض
”انبیاء کے لیے الذین اسلموا کی صفت سے اس حقیقت کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ انبیاء جو تورات کے احکام کے مطابق یہود کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے، صرف دوسروں ہی کے لیے تورات کو واجب العمل نہیں سمجھتے تھے بلکہ خود بھی خدا کے فرمانبردار اور تورات کے احکام و قوانین کے پابند تھے۔ اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ ان علمائے یہود پر جنھوں نے اوّل تو تورات کو زندگی کے معاملات سے بالکل بے دخل کر رکھا تھا اور اگر کسی دائرے میں اس کو جگہ دی بھی تھی تو اس کی نوعیت یہ تھی کہ دوسروں کو تو اس کا حکم دیتے تھے لیکن خود اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتے تھے۔ قرآنِ مجید نے اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے الفاظ سے ان کی اسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۸۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
ربانی اور احبار
یہود کو ایک یاد دہانی
”ربانی‘ اور ’احبار‘ عربی زبان میں اہلِ کتاب سے آئے ہوئے الفاظ ہیں۔ ’ربانی‘ سے مراد علما ہیں اور ’احبار‘ کا غالب استعمال فقہا اور قضاۃ کے لیے ہے۔ یہ دونوں الفاظ یہاں اپنے حقیقی مفہوم یعنی علمائے حقانی اور دیانت دار و راست باز فقہا و قضاۃ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا کے فرماں بردار انبیاء ٹھیک تورات کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتے رہے ہیں اسی طرح حق پرست علماء اور راست باز فقہا بھی اپنے فتوے اور فیصلے اس کی روشنی میں صادر کرتے رہے ہیں۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۸۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
بما استحفظوا من کتب اللّٰہ وکانوا علیہ شھدآء
عہدالٰہی کی پاسبان خشیت الٰہی ہے
”اس آیت میں اس ذمہ داری کا بیان ہے جس کے وہ حامل بنائے گئے تھے۔وہ یہ کہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب کا محافظ اور امین اور خلق کے سامنے اس کا شاہد اور گواہ بنایا تھا اور ہر گروہ جو اللہ کی کتاب کا حامل بنایا جاتا ہے وہ درحقیقت اس کا محافظ اور گواہ ہی ہوتا ہے۔ یہ الفاظ بھی وقت کے یہود اور ان کے علماء و فقہاء کو یاد دہانی کر رہے ہیں کہ وہ ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ پاسبان ہوکر انھوں نے خدا کے حرم میں کس طرح نقب لگائی ہے اور گواہ ہوکر کس طرح کتمان شریعت میں مہارت دکھائی ہے۔“ (تدبر قرآن ،ج۲،ص۸۲۵،فاران فاونڈیشن لاہور)
فلا تخشوا الناس واخشون ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا
”عام طور پر مفسرین نے اس ٹکڑے کو اُوپر کے سیاق و سباق الگ کر کے وقت کے یہود سے خطاب کے مفہوم میں لیا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے لیکن میرا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا تعلق بھی اُوپر کے ٹکڑے ہی سے ہے۔ البتہ قرآن کے معروف طریقہ کے مطابق یہاں اسلوب غائب کے بجائے حاضر کا ہوگیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ بات غائب کے صیغے سے کہتے کہتے اچانک اسلوب حاضر کا آجاتا ہے۔ یہ تبدیلی کلام میں تنوع بھی پیدا کردیتی ہے اور صورتِ حال کا نقشہ سامنے آجانے کے سبب سے قاری اور سامع پر اس کا اثر بھی پڑتا ہے۔ مثلاً سورۂ انعام میں ہے: ویوم یحشرھم جمیعاً یامعشر الجن قد استکثرتم من الانس، (اور جس دن جن و انس سب کو اکٹھا کرے گا، اے جنوں کے گروہ تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنے دام میں پھنسا لیا) پھر آگے ہے: وکذلک نولی بعض الظالمین بعضاً بما کانوا یکسبون، یامعشر الجن والانس (۰۳۱) (اور اسی طرح ہم ظالموں میں سے ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کی پاداش میں مسلط کردیتے ہیں، اے جنوں اور انسانوں کے گروہ……)یہی اسلوب سورۂ بقرہ کی آیت واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (۵۲) میں بھی استعمال ہوا ہے۔  ہمارے نزدیک یہی اسلوب مائدہ کی اس آیت میں بھی ہے، یعنی یہ بات ان شہداء سے خطاب کر کے کہی گئی تھی جن کا ذکر پہلے گزرا لیکن اس کو غائب کے صیغہ سے بیان کرنے کے بجائے حاضر کے صیغہ میں فرمایا تاکہ کلام زیادہ مؤثر ہوجائے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص۹۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون
حقیقی کافر
’”اس ٹکڑے کا عطف چونکہ اُوپر والے ٹکڑے ہی پر ہے اس وجہ سے جو حکم اس کا ہے وہی حکم اس کا بھی ہے۔ یعنی یہ نتیجہ بھی اس تنبیہ کا ایک حصہ ہے جو اُوپر مذکور ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جن کو شریعت کا امین اور گواہ بنایا ہے اگر انھی کے معاملات کے فیصلے شریعت کے مطابق نہ ہوئے تو حقیقی کافر وہی ہیں۔ اس تاکید اور زور کے ساتھ ان کے کافر قرار دینے کی وجہ وہ اہتمام ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی شریعت اور کتاب کی تعلیم دینے، اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے اور اس راہ کے خطرات سے متنبہ کرنے کے لیے فرمایا۔ جو لوگ اس سارے اہتمام کے بعد بھی راہِ حق سے بھٹک گئے انھوں نے گویا پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھائی اس وجہ سے یہ تمام اندھوں سے بڑھ کر اندھے ہیں۔ یہ آیت اگرچہ ہے تویہود سے متعلق لیکن بعینہٖ یہی جرم اگر مسلمانوں کے کسی گروہ سے صادر ہو کہ وہ اختیار و آزادی رکھتے ہوئے کتابِ الٰہی کے مطابق معاملے کا فیصلہ نہ کریں، بلکہ علی الاعلان اس سے انحراف اختیار کریں تو ان کا حکم بھی یہی ہوگا اور یہی ہونا چاہیے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۹۲۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”یہاں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ اِسی رکوع کی آیت نمبر۵۴ میں ایسے لوگوں کو ظالم کہا گیا اور آیت نمبر۷۴ میں ایسے لوگوں کو فاسق کہا گیا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ آیات صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئیں۔ لیکن یہ درست نہیں کیونکہ کسی خاص شخص کے متعلق کسی آیت کے نازل ہونے کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آیت بس اسی سے مخصوص ہو کر رہ گئی۔ اس کا حکم اب کسی دوسرے شخص پر نافذ نہیں ہوگا۔ اس لیے صحیح یہی ہے کہ اسے یہود کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اس کا مفہوم عام رکھا جائے۔ چنانچہ علماء اہلِ سنت نے من لم یحکم بما انزل اللّٰہ مستھینا بہ منکرا لہ،یعنی جو شخص اللہ کے حکم کی توہین اور تحقیر کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ کافر ہوگا۔ کیونکہ احکامِ شرعیہ کی توہین اور تحقیر کی صرف وہی جرأت کرسکتا ہے جس کا دل ایمان و یقین کے نور سے خالی ہو۔ علامہ بیضاویؒ نے ایسے شخص کو کافر، ظالم اور فاسق کہنے کی بڑی لطیف وجہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں: فکفرھم لانکارہ وظلمھم بالحکم بخلافہ وفسقھم بالخروج عنہ،یعنی اس وجہ سے کہ انھوں نے احکامِ الٰہیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا وہ کافر ٹھیرے اور اِس وجہ سے کہ انھوں نے اس قانون کو چھوڑ دیا جو عین عدل و انصاف تھا وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور اس لیے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حدوں کو توڑا وہ فاسق کہلائے۔ اس کے بعد بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ بھی جائز ہے کہ یہ تینوں لفظ کفر، ظلم اور فسق احکامِ الٰہیہ سے سرتابی کرنے والوں کے مختلف حالات کے پیش نظر کہے گئے ہیں، یعنی اگر اس نے یہ سرتابی ازراہِ تمرد و تحقیر کی تو وہ کافر ہے اور اگر دل میں انکار تو نہیں بلکہ ویسے حکم عُدولی ہوگئی تو وہ ظالم و فاسق ہوگا۔ ویجوز ان یکون کل واحدۃ من الصفات الثلاث باعتبار حال انضمت الی الامتناع عن الحکم بہ ملائمۃ لھا (بیضاوی) سچ تو یہ ہے کہ ان آیات کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنے لیے، اپنی قوم اور اپنی رعایا کے لیے ایسے قوانین تجویز کرے جو احکامِ خداوندی کے خلاف ہوں۔“(ضیا القرآن،ج۱،ص ۴۷۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
وکتبنا علیھم فیھا ان النفس
”یہ تورات کے اس قانون کا حوالہ ہے جو خروج ۱۲:۳۲-۵۲، احبار ۴۲:۰۲، استثنا ۹۱:۱۲ میں مذکور ہے۔ دراصل یہ حدود ہی کے معاملات تھے جو یہود کے لیے سب سے زیادہ مزلّہ قدم ثابت ہوئے۔ اوّل تو انھوں نے تحریف کر کے ان کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ پھر جو احکامِ تحریف کی دستبرد سے بچ رہے ان سے بھی فرار کے لیے انھوں نے مختلف قسم کے حیلے نکال لیے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۰۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”ان آیتو ں کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتوں میں جو احکامِ الٰہیہ نافذ تھے، جب تک قرآن یا وحی الٰہی نے ان کو منسوخ نہ کیا ہو، وہ بدستور باقی رہتے ہیں، جیساکہ یہود کے مقدمات میں قصاص کی مساوات اور سزائے زنا میں سنگساری کا حکم تورات میں بھی تھا، پھر قرآن نے بھی اس کو بعینہٖ باقی رکھا۔اسی طرح دوسری آیت میں زخموں کے قصاص کا حکم جو بحوالہئ تورات بیان کیا گیا ہے اسلام میں بھی یہی حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا، اسی بنا پر جمہور علماء اسلام کے نزدیک ضابطہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتوں کے وہ احکام جن کو قرآن نے منسوخ نہ یا ہو وہ ہماری شریعت میں بھی نافذ اور واجب الاتباع ہیں، یہی وجہ ہے کہ آیات مذکورہ میں اہلِ تورات کو تورات کے مطابق اور اہلِ انجیل کو انجیل کے مطابق حکم دینے اور عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں کتابیں اور ان کی شریعتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد منسوخ ہوچکی ہیں، مطلب یہ ہے کہ تورات و انجیل کے جو احکام قرآن نے منسوخ نہیں کیے وہ آج بھی واجب الاتباع ہیں۔
تیسرا حکم ان آیات میں یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام کے خلاف حکم دینا بعض صورتوں میں کفر ہے جبکہ اعتقاد میں بھی اس کو حق نہ جانتا ہو، اور بعض صورتوں میں ظلم و فسق ہے، جبکہ عقیدہ کی رُو سے تو ان احکام کو حق مانتا ہے، مگر عملاً اس کے خلاف کرتا ہے۔چوتھا حکم ان آیات میں یہ آیا ہے کہ رشوت لینا مطلقاً حرام ہے، اور خصوصاً عدالتی فیصلہ پر رشوت لینا اور بھی زیادہ اشد ہے۔ پانچواں حکم ان آیات سے یہ واضح ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی شریعتیں اصول میں تو بالکل متفق اور متحد ہیں، مگر جزوی اور فروعی احکام ان میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔“(معار ف القرآن،ج۳،ص ۴۶۱، ادارۃ المعارف کراچی)
فمن تصدق بہ فھو کفارۃٌ لہ
لہ کا مرجع
”اس آیت میں میں لہ کے مرجع کے بارے میں اصحابِ تاویل کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا مرجع شخص مجروح ہے۔ یعنی اگر مجروح اپنے مجرم کو بخش دے، اس سے بدلہ نہ لے، تو اس کی یہ نیکی اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بنے گی، گویا یہ ٹکڑا مجروح کے لیے ترغیب ہے کہ وہ مجرم کو معاف کردے تو یہ بہتر ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک جس میں ابن عباس، مجاہد اور ابراہیم و شعبی جیسے اکابر تفسیرشامل ہیں، اس کا مرجع جارح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مجروح (اور بصورت قتل، اولیائے مقتول) مجرم کو معاف کردے تو یہ معافی مجرم کے لیے کفارہ بن جائے گی، حکومت اس پر کوئی گرفت نہیں کرے گی اور اگر مجرم توبہ کرلے تو عنداللہ بھی یہ معافی اس کے لیے کفارہ بن جائے گی۔ میرا رجحان اسی دوسری تاویل کی ہے۔ قرآن کے الفاظ سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔“ (تدبر قرآن،ج ۲،ص۰۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الظلمون
اصلی ظالم
”اُوپر یہی مضمون بیان کرتے ہوئے کافرون کا لفظ آیا ہے۔ یہاں ظلمون کا لفظ ہے۔ لفظ ’ظلم‘ہلکے معنی میں نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ قرآن میں خدا اور بندوں کے سب سے بڑے حقوق کے تلف کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ شرک کو ظلم سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جو لوگ اللہ کی کتاب اور اس پر عمل کی آزادی رکھتے ہوئے اس کے قانون کو نظرانداز کرتے ہیں وہ خدا کا بھی سب سے بڑاحق تلف کرتے اور خود اپنے نفس اور اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی سب سے بڑا حق تلف کرتے ہیں اور درحقیقت اصل ظالم یہی لوگ ہیں۔ یہ آیت بھی اگرچہ یہود کے جرائم کے بیان کے سیاق میں ہے لیکن یہی جرم مسلمانوں سے صادر ہو (جس کی شہادت ہر مسلمان ملک میں موجود ہے) تو میں نہیں سمجھتا کہ اس کا حکم اس سے الگ کس بنیاد پر ہوگا۔ خدا کا قانون تو سب کے لیے ایک ہی ہے؟“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۰۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
آیت قصاص محکم ہے یا منسوخ؟
”یہ آیت قصاص، جیساکہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا، تورات کے ایک حکم کے حوالہ کے طور پر وارد ہوئی ہے لیکن کوئی اشارہ چونکہ اس کے منسوخ ہونے کا موجود نہیں ہے بلکہ اندازِ بیان اس کے محکم ہونے پردلیل ہے۔ اس وجہ سے یہی قانون اس اُمت کے لیے بھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے عمل سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں لفظ قصاص پر بحث کرتے ہوئے ہم لکھ چکے ہیں کہ اپنے عام استعمال میں یہ لفظ قصاص جانی و مالی دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اگر دیت پر راضی نامہ ہوجائے یا دیت ہی تقاضائے انصاف قرار پائے تو دیت ہی قصاص سمجھی جائے گی۔ تفصیلات اس کی فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص۱۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
وقفینا علیٰ آثارھم……………… فاؤلئک ھم الفسقون 
انبیاء کی باہمی مماثلت ایک علامتِ شناخت ہے
”قفیت علٰی اثرہ بفلان کے معنی ہوں گے، میں نے اس کو اس کے پیچھے بھیجا۔ مطلب یہ ہے کہ انھی انبیاء کے نقشِ قدم پر جن کا ذکر اُوپر گزرا، ہم نے عیسٰی ؑ بن مریم کو بھیجا جو بعینہٖ اسی مقصد کے ساتھ آئے جس مقصد کے لیے ان کے پیشرو انبیا آئے تھے۔ علٰی اثارھم کے لفظ سے انبیاء کی دعوت، ان کے مقصد، ان کے مزاج، کردار اورطریق کار کی یکسانی اور ان کی باہمی مشابہت کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ چیز منجملہ علاماتِ نبوت کے ہے۔ جس طرح ایک ہی شجرہئ طیبہ کے برگ و بار میں مماثلت ہوتی ہے۔ اسی طرح اس مقدس گروہ کے افراد میں مماثلت ہوتی ہے کہ جو ان میں سے ایک کو پہچان گیا وہ گویا سب کو پہچان گیا۔ ان کی شناخت کے معاملے میں التباس انھی کو پیش آتا ہے جو یا تو اندھے ہوتے ہیں یا اندھے بن جاتے ہیں، جن کے اندر بصیرت ہوتی ہے وہ کبھی دھوکا نہیں کھاتے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۱۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
واتینہ الانجیل فیہ ھدی……………… فیہ ھدی ونور
نبی اپنی دعوت سے کوئی الگ چیز نہیں 
”فیہ ہدی و نور کا جملہ چونکہ حال واقع ہوا ہے اس وجہ سے مصدقاً کا عطف اس پر موزوں ہوا۔ یہاں حضرت مسیحؑ اور انجیل دونوں کی شان میں فرمایا ہے کہ مصدقاً لما بین یدیہ من التوراۃاس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نبی اپنی دعوت و رسالت سے کوئی الگ چیز نہیں ہوتا،دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ کی پیشنگوئی ان کے پیشرو انبیا کے صحیفوں میں موجود تھی جس کی آپ کی بعثت سے تصدیق ہوئی تھی اور یہ چیز منجملہ آپ کے دلائلِ نبوت کے تھی، تیسری یہ کہ انجیل نے، جہاں تک شریعت کا تعلق ہے، کوئی نئی شریعت نہیں دی ہے بلکہ یہود کی بعض بدعات کی اصلاح کے ساتھ پوری سابق شریعت کی تصدیق کر دی ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص۱۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللّٰہ
انجیل دیتے وقت اہلِ انجیل کو ہدایت
”یعنی اہلِ انجیل کو انجیل دیتے وقت یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے معاملات کے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کریں گے، ورنہ وہ فاسق ٹھہریں گے۔ مقصود اس کا، جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، یہ واضح کرنا ہے کہ خدا نے اپنی جو کتاب بھی اُتاری اسی مقصد سے اُتاری کہ زندگی کے معاملات و نزاعات میں لوگ اس کو حکم بنائیں، نہ اس لیے کہ جزو دان ان میں لپیٹ کر بالائے طاق رکھ دیں اور آپس میں جو قضیے پیدا ہوں ان کو طاغوت کے پاس لے جائیں، یا ان کو طے کرنے کے لیے من مانے طریقے ایجاد کریں۔ بعض لوگوں نے ولیحکم کو لیحکم بھی پڑھا ہے۔ہمارے نزدیک قرأت کے اس قسم کے سارے اختلافات تاویل کے اختلاف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی اس قرأت سے بھی یہی بات سمجھانی چاہی ہے کہ اہلِ انجیل کو بھی انجیل اس لیے دی گئی تھی کہ یہ اس کی روشنی میں اپنے معاملات کے فیصلے کریں۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۲۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)

اصلی فاسق
”فاسق‘ کا لفظ یہاں خدا سے غداری، عہدشکنی اور سرکشی کے مفہوم میں ہے۔ گویا جو لوگ جانتے بوجھتے اور آزادی و اختیار رکھتے ہوئے اللہ کے احکام و قوانین کے خلاف فیصلے کرتے اور کراتے ہیں وہ کافر، ظالم اور فاسق ٹھہریں گے۔(تدبر قرآن، ج۲،ص ۲۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
وانزلنا الیک الکتب بالحق……۔۔۔ حکما لقوم یوقنون
حاملینِ قرآن کی ذمہ داری
”اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ بعینہٖ انھی ذمہ داریوں اور اسی عہدومیثاق کے ساتھ یہ کتاب تمہارے حوالے کی جارہی ہے تو تم ان کے درمیان بہرحال اللہ کی اس کتاب کے مطابق ہی فیصلہ کرو۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۲۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
مھیمن کا مفہوم
”مھیمن اصل میں ما امن ہے۔ دوسرا ہمزہ ی سے اور پہلا ہ سے بدل گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے (حشر:۳۲) اور قرآن کی صفت کے طور پر بھی۔ ھیمن الطائر علی فراخہٗ کا مطلب یہ ہوگا کہ پرندہ اپنے بچوں کے اُوپر پَر پھیلائے ہوئے منڈلا رہا ہے، گویا ان کو اپنی حفاظت میں لیے ہوئے ہے۔ ھیمن فلان علی کذا، فلاں اس چیز کا محافظ اور نگران بن گیا۔ اپنے سے سابق صحیفہ پر قرآن کے مھیمن ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قرآن اصل معتمد نسخہ کتابِ الٰہی کا ہے، اس لیے وہ دوسرے صحیفوں کے حق و باطل میں امتیاز کے لیے کسوٹی ہے۔ جو بات اس کسوٹی پر کھری ثابت ہوگی وہ کھری ہے، جو اس پر کھوٹی ثابت ہوگی وہ محرف ہے۔ یہاں الکتاب کا لفظ واحد استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن سے پہلے اصل شریعت کے اعتبار سے کتاب الٰہی کی حیثیت درحقیقت تورات ہی کو حاصل ہے، بقیہ صحائف اس کے اجزا و فروع کی حیثیت رکھتے ہیں۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۳۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
فاحکم بینھم ………… جاء ک من الحق
”قرآن سے متعلق یہ اسی طرح کا عہدومیثاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطہ سے آپؐ کی اُمت سے لیا گیا ہے جس طرح کا عہد تورات اور انجیل سے متعلق ان کے حاملین سے لیاگیا اور جس کا ذکر اُوپر گزرا۔اوریہ بات یہاں بغیر کسی اظہار کے ظاہر ہے کہ اس حق کو چھوڑ کر کسی باطل کے مطابق معاملات کے فیصلے کرنا اسی طرح کفر، ظلم اور فسق ہے جس طرح اُوپر تورات و انجیل سے متعلق مذکور ہوا۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۳۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
اہل کتاب سے روداری نہیں بلکہ بیزاری
لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنہاجا……………… فاستبقوا الخیرات،
 ”ولکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات کا ٹکڑا، جیساکہ ہم اپنی تفسیر میں واضح کرچکے ہیں، اہلِ کتاب کے ساتھ رواداری کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ ان کے رویہ سے بیزاری کے اظہار کے لیے ہے۔ اسی طرح مائدہ کی زیربحث آیت میں لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھاجاً کا ٹکڑا بھی اہلِ کتاب کے ساتھ اظہار رواداری کے لیے نہیں بلکہ ان کے رویہ سے اظہار بیزاری اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے تسکین وتسلّی اور راہِ حق میں سبقت کی دعوت کے لیے ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۴۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
مختلف اُمتوں کی شریعت کے اختلاف کی حکمت
”جہاں تک دین کے حقائق کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے غیرمتغیر ہیں اور غیرمتغیر ہی رہیں گے لیکن شریعت کے ظواہر و رسوم ہر اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقرر فرمائے تاکہ یہ چیز اُمتوں کے امتحان کا ذریعہ بنے اور وہ دیکھے کہ کون ظواہر و رسوم کے تعصب میں گرفتار ہوکر حقائق سے منہ موڑ لیتا ہے اور کون حقیقت کاطالب بنتا ہے، اور اس کو ہر اس شکل میں قبول کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے جس میں وہ خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس کے سامنے آتی ہے۔ سورۂ بقرہ میں قبلہ کی بحث میں اس امتحان کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:وما جعلنا القبلۃ……………… لروف رحیم (البقرہ ۲:۳۴۱)یہ حکمت واضح فرمائی گئی ہے اس بات کی کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اول اول اہلِ کتاب کے قبلہ پر باقی رکھا، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کو چھوڑ کر بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا؟ ایسا کیوں نہ ہوا کہ پہلے ہی روز سے بیت اللہ ہی کو قبلہ قرار دے دیا جاتا؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کی متقضی ہوئی کہ یہ تبدیلی مخلصین و منافقین کے درمیان امتیاز کا ایک ذریعہ بنے۔ اس امتحان کے ذریعہ سے اس نے حق کے طالبوں اور رسول کے مخلص پیرووں کو ان لوگوں سے الگ کر دیا جو محض ظاہردارانہ طور پر رسول کے ساتھ ہوگئے تھے، فی الحقیقت انھوں نے کوئی تبدیلی قبول نہیں کی تھی بلکہ بدستور اپنے پچھلے رسوم و قیود میں گرفتار تھے۔ اسی طرح آیت زیربحث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ منافقین اور یہود جو تم سے اور تمہاری لائی ہوئی شریعت سے بدکتے ہیں تو تم ان کی پروا نہ کرو۔ یہ اپنے پچھلے رسوم و قیود میں گرفتار ہیں، ان کا تعصب ان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان سے آزاد ہوکر اس حق کو شرح صدر کے ساتھ اپنا لیں جو تم نے ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ اللہ نے ہر اُمت کے لیے شرعت اور منہاج الگ الگ بنائے ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو سب کو ایک ہی منہاج دیتا لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہواکہ منہاج کی اس تبدیلی کو لوگوں کے امتحان کا ذریعہ بنائے اور دیکھے کہ کون حق کا طالب بنتا ہے اور کون صرف لکیر کا فقیراور رسوم و ظواہر کا غلام بن کے رہ جاتا ہے۔  یہاں یایھا الرسول لایحزنک الذین یسارعون فی الکفر والے ٹکڑے کو پھر ذہن میں تازہ کرلیجیے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر منافقین اور ان کے مرشد یہودِ کفر کی راہ میں مسابقت کر رہے ہیں تو ان کی اس بدبختی پر غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اہلِ ایمان، ایمان کے میدان میں بازی جیتنے کی کوشش کریں۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۵۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”شرعۃ اور شریعۃ ہم معنی ہیں۔ شریعتِ لُغت میں اس راستے کو کہا جاتا ہے جو پانی کی طرف لے جاتا ہو۔ الشریعۃ فی اللغۃ: الطریق الذی یتوصل منہ الی الماء۔ اسی مناسبت سے شرعہ اور شریعہ اس راستہ کو کہا جاتا ہے جو نجاتِ دارین کی طرف رہنمائی کرتا ہو۔ والشریعۃ: ما شرع اللّٰہ لعبادہ من الدین اور منہاج کہتے ہیں واضح اور روشن راستہ کو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ عقائد اور کلیات جن پر انسان کی نجات کا انحصار ہے وہ تو تمام آسمانی کتابوں میں یکساں ہیں لیکن شریعت کے احکام اور ان کی تفصیلات، عبادات اور ان کی شکل و صورت، حلّت و حُرمت کے قواعد، ان میں اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف انبیاء ؑ کی اُمتوں کی ذہنی سطح، اُن کا مخصوص ماحول، ان کے معاشرہ کے تقاضے، ان کی سیاسی اور اقتصادی ضروریات کیونکہ مختلف تھیں اس لیے ان فروعات میں اختلاف ناگزیر تھا“(ضیا القرآن، ج ۱، ص۷۷۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
 عطف اور جملہ معترضہ
”وان احکم بینھم بمآ انزل اللّٰہ۔۔۔،مجھے بار بار یہ خیال ہوتا ہے کہ اس ٹکڑے کا عطف اُوپر فاحکم بینھم بمآ انزل اللّٰہ ولا تتبع اھواء ھم عما جآء ک من الحق، والے ٹکڑے پر ہے۔ بیچ میں لکل جعلنا منکم شرعۃ۔۔۔، والا ٹکڑا بطور ایک جملہ معترضہ آگیا ہے۔ جملہ معترضہ کے ختم ہونے کے بعد سلسلہ کی اصل بات کا ازسرِنو حوالہ دے کر مزید تنبیہ فرمائی کہ واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللّٰہ الیک،ہوشیار رہو کہ مبادا وہ تمھیں فتنہ میں ڈال کر خدا کی اُتاری ہوئی کسی بات سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس مزید تنبیہ کی ضرورت اس لیے تھی کہ یہ مرحلہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ مخالف قوتیں آسانی سے سپرانداز ہونے والی نہیں تھیں۔ فتنہ کا لفظ خود اشارہ کر رہا ہے کہ وہ پیغمبر اور مسلمانوں کو میثاقِ الٰہی سے ہٹانے کے لیے اپنا پورا زورلگا دیں گی۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے آگاہ فرما دیا کہ وہ خواہ کتنا ہی زور لگائیں اور کتنا ہی دباؤ ڈالیں تمھیں بہرحال اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت ہی کی پیروی کرنی ہے، اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات و بدعات کی پیروی نہیں کرنی ہے۔“ (تدبر  قر آن،ج۲،ص ۶۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
فان تولوا فاعلم۔۔۔
مخالفین کو تہدید
فان تولوا فاعلم۔۔۔،مطلب یہ ہے کہ تم موقفِ حق پر جمے رہو، اگر شریعت الٰہی کو چھوڑ کر یہ شریعت جاہلیت ہی کی پیروی پر اُڑے رہے تو سمجھ لو کہ ان کی شامت آئی ہوئی ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان کے بعض جرائم کی سزا میں ان پر خدا کا عذاب آدھمکے۔ یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ قوموں کے اجتماعی جرائم کی سزا اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں لوگ اپنی انفرادی حیثیتوں میں اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوں گے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۶۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
افحکم الجاھلیۃ یبغون۔۔۔
”یعنی خدا کی اُتاری ہوئی شریعت کو چھوڑ کر اگر یہ کہیں اور سے فیصلہ چاہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کی شریعت پر جاہلیت کے قانون کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی مدعی شریعت گروہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ جو لوگ خدا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا کے قانون اور خدا کے فیصلے سے بڑھ کر کس کا قانون اور کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک کوئی اور قانونِ خدا کے قانون سے بڑھ کر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو خدا اور آخرت کسی چیز پر بھی یقین نہیں ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۷۳۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
خدا کے قانون کے خلاف ہر قانون قانونِ جاہلیت ہے
”یہاں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ حکم الجاھلیۃ کا لفظ مآ انزل اللّٰہ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ اس وجہ سے ہر وہ قانون جو خدا کے اُتارے ہوئے قانون کے خلاف ہے وہ جاہلیت کا قانون ہے، خواہ وہ قرونِ مظلمہ کی تاریکی میں وجود پذیر ہو یا بیسویں صدی کی روشنی میں۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۷۳۵، فاران  فاونڈیشن لاہور)
مترجمین۔۱۔شا ہ عبد القادرؒ،  ۲۔مولانا اشرف علی تھانویؒ،  ۳۔مولانا احمد رضا خاں ؒ،  ۴۔مولانا محمد جونا گڑھیؒ،۵۔سیدّابوالاعلی مودودیؒ، ۶۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ۷۔محترم جاویداحمد غامدی
تفاسیرومفسرین۱۔ تفسیر عثمانی،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن، مفتی محمد شفیع ؒ،۳۔خزائن العرفان،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ،۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ،۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف،۶۔ضیا ء القرآن، پیرکرم شاہ الازہری ؒ،۷۔ تفسیر ماجدی، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی،۸۔ تدبر قرآن، مولانا امین احسنؒ اصلاحی،۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی

    

قارئین سے دعا کی درخواست
ہمارے محترم دوست عالمِ باعمل جناب مبشر نذیر صاحب جدہ میں ایک ہولناک حادثے میں بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ الحمدللہ جسمانی زخم اب کافی حد تک ٹھیک ہو گئے ہیں تا ہم دماغی چوٹ کی وجہ سے ان کی یادداشت واپس نہیں آر ہی اور وہ کسی کو پہچان نہیں پارہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ان کے لیے خصوصی دعا فرمائیں کہ اللہ کریم کر م فرمائے اور ان کو صحت کاملہ نصیب فرمائے ا ور ایک بار پھر انکو اپنے اہل خانہ،دوست احباب اور تمام متعلقین میں خوشیاں اور علم بانٹنے والا بنائے۔
                                             درخواست گزار، محمد صدیق بخاری