خواتین اور رمضان کی تیاری

مصنف : افشاں نوید

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : مئی 2019

فون پر آج انکی گفتگو کا موضوع رمضان کی تیاری تھی۔ میری قریبی عزیزہ ہیں بیمار بھی رہتی ہیں۔ وہ فکرمند تھیں کہ رمضان بس قریب ہی آگیا ہے اور رمضان کی تیاری نہیں کر پا رہی ہیں، بیرون ملک سے بیٹی آگئی ہے لہذا گھر کے معمولات خاصے ڈسٹرب ہیں۔۔۔!میں نے جاننا چاہا کہ ایسی کیا تیاری ہے جس کے لئے وہ اتنی فکرمند ہیں تو وہ بولیں کہ رمضان سے پہلے کچن سیٹ ہو جاتا ہے تو سہولت رہتی ہے کیونکہ رمضان میں کھانا پکانا نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ افطار پارٹی پر بھی دوست احباب آتے  ہیں لہذا کچھ نئی کراکری کی ضرورت ہو گی۔ اچھی خاصی فکر کرنا ہوتی ہے رمضان سے قبل اور ظاہر ہے یہ مردوں کی فکریں تو ہیں نہیں۔رمضان سر پر آگیا اور تیاری کچھ نہیں بس روز سوچتی ہوں بازار نکل جاؤں مگر وقت ہی نہیں مل پا رہا لگ رہا ہے اس بار بغیر تیاری ہی کے رمضان آجائے گا۔

میں سوچنے لگی رمضان کے استقبال کی فکر کتنی مبارک فکر ہے لیکن کیا مذکورہ خاتون کی فکر حقیقی فکر ہے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو شعبان میں جمع کر کے رمضان کی تیاری کی طرف متوجہ کیا کرتے تھے۔ لیکن ہمارے ہاں بھی فکر ہوتی ہے لیکن وہ جو اوپر ذکر ہوئی  عام طور پر معاشرے میں استقبال رمضان کی تیاریوں میں گھروں کی اضافی جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے یہ اپنی جگہ کوئی معیوب بات نہیں لیکن ہماری فکر اور شعور کی یہ انتہا نہیں کہ بس گھر صاف ستھرا ہوجائے۔کچن کے اضافی برتن اور اضافی راشن آگیا تو بحیثیت خاتون خانہ میری ذمہ داری پوری ہو گئی۔اس ساری صفائی اور تیاری میں اہم ترین بات یہ کہ روزے کا مقصد بیان کیا گیا ہے ”لعلکم تتقون“تاکہ تم تقوٰی حاصل کرو. کسی نے پوچھا اللہ کے نبی تقوٰی کا مقام کیا ہے؟ آپ نے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”تقوٰی یہاں ہے“ تقوٰی جس کا مقام دل ہے اس دل کی صفائی مطلوب نہیں کیا رمضان سے قبل؟ 
اس شیشہ دل میں بھی تو کتنا گردو غبار آچکا ہے اپنے قریبی عزیزوں سے مراسم کتنی بار شکستہ ہوئے کتنی بار دل ان رشتوں سے ٹوٹ ٹوٹ گیا۔شیشہ کو صاف نہ کریں توکب اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔اس دل پر کتنے جالے لگے ہیں بدگمانیوں کے، نفرتوں کے، حسد کے اور بغض کے۔مانا کہ غلطیاں دوسروں کی بھی تھیں لیکن مجھے تو فکر بس اپنے دل کی مطلوب ہے کہ اسکو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا کرلوں کہ رمضان میں تو اپنے رب کا جلوہ دیکھ سکوں۔اسکی معرفت سے فیضیاب ہو سکوں۔بس معاف کر دیں سبکو کہ میں شب قدر کی عظیم راتوں میں کیسے استغفار طلب کروں گی جب میں خود اسکے بندوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں تو اسکے سامنے معافی کا دامن کیسے پھیلاؤں یا اس لئے معاف کر دوں تاکہ مجھے بھی اس در سے معافی مل جائے!
ایک فکر کی بات یہ ہے کہ جب عام دنوں میں ہم تین وقت دستر خوان پر بیٹھتے ہیں اور رمضان میں صرف دو وقت تو پھر ہماری مصروفیات اور کچن کے اخراجات اور لوازمات کی فہرست اتنی لمبی کیوں ہوتی ہے۔۔۔۔؟رمضان میں بھوکا رہنے کی پریکٹس کرانے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم اس لذت دنیا سے باہر نکلیں جس نے ہمیں مادہ پرست بنا دیا ہے۔۔۔!ہم جسمانی لذتوں کے حصول میں ایسے منہمک ہوئے کہ روحانی تقاضوں کو بھول گئے اسلئے روزہ ہمیں دو اہم ترین جسمانی تقاضوں یعنی نیند اور بھوک پر کاری ضرب لگانا سکھاتا ہے لیکن بظاہر بھوکے رہ کر اگر سارا دن ہم افطار کے لوازمات اور اسکی تیاریوں کی فکر ہی میں لگے رہتے ہیں اور سہ پہر سے ہی کچن کا رخ کرتے ہیں کہ بچوں کی علیحدہ علیحدہ فرمائشیں پوری کرنا ہوتی ہیں تو پھر تو ہم نے روزے کے اصل مقصد کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی، پھر نفس میں کہاں ضبط آیا۔پھر جسمانی تقاضوں سے کہاں ناطہ کمزور ہوا؟
ہم تو رمضان میں اپنے نفس کی وہ وہ خواہشات پوری کرتے ہیں اسکے وہ وہ ناز اٹھاتے ہیں جو عام دنوں میں نہیں تو پھر کہاں تزکیہ کا مقصد حاصل ہوا؟ میری چھوٹی بہن کہنے لگی کہ وہ افطار سے گھنٹہ بھر قبل کچن میں جاتی ہے اور افطار سے فارغ ہو کر فوراً بعد تراویح کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے اور سب اھل خانہ مسجد میں تراویح کے لئے جاتے ہیں۔وہ بولی ہمارے میڈیا نے ہمیں یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ رمضان لذت کام و دہن کا مہینہ ہے۔طرح طرح کے پکوان، خوش ذائقہ اور مہنگی ڈشیں، کثرت سے تلی ہوئی چیزوں کی جو ترکیبیں نشر کی جاتی ہیں حالانکہ رمضان میں ہمیں سادگی کو فروغ دینا چاہئے“وہ بولی میں ایک دن ماسی کو ساتھ لگا کر مہینہ بھر کا لہسن ادرک اور سرخ پیاز پیس کر فریز کر لیتی ہوں۔سبزیاں جو کاٹ کر فریز کی جا سکتی ہیں فریز کرلیتی ہوں اور دستر خوان پر صرف ایک کھانا ہوتا ہے اورایک فروٹ۔ اور جس دن خاص افطاری بنانی ہوتی ہے اس دن کھانے کی چھٹی کیونکہ پیٹ تو ایک ہی ہے اسے اتنا کیوں بھر لیا جائے کہ تراویح میں ڈکاریں اور نیند آتی رہے۔گھر میں سبکوہدایت ہے کہ اپنی پلیٹ گلاس کپ اور چمچے خود دھو کر رکھیں۔میں تو کوشش کرتی ہوں کہ ماسی سے بھی کم مشقت لوں کیونکہ رمضان میں ملازمین سے کم مشقت لینے کا بھی بہت اجر ہے۔
حقیقت یہی ہے جو ہم نے اپنا لائف اسٹائل بنایا ہے اسکا تعلق ہمارے مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہے۔ہم جو سوچتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ میری ایک عزیزہ جن کے کئی بچے ہیں بولیں ”آدھا رمضان تو عید کی تیاری میں اور بازاروں کی نذر ہو جاتا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ رمضان میں عید کا کوئی تذکرہ کوئی تیاری نہیں کرنا کیونکہ عید تو انکی ہے جنہوں نے رمضان کا اور طاق راتوں کا پورا پورا حق ادا کیا ہو ورنہ تو پھر عید نہیں بلکہ وعید ہے اسلئے میں گھر کے تمام افراد کے عید کے کپڑے شعبان کے آخر میں استری کر کے ھینگ کر دیتی ہوں کہ اس طرف سے کوئی فکر نہ رہے۔ باقی میچنگ وغیرہ بچیوں کی شعبان میں ہی مکمل کرالیتی ہوں کہ رمضان کے بابرکت دن اور طاق راتوں میں ان دنیاوی فکروں سے تو ذہن یکسو ہو جائے کہ ہمارے روزو شب ہماری فکری صلاحیتوں اور ہماری منصوبہ بندی کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ ناقص منصوبہ بندی یا منصوبہ بندی کا فقدان ہماری زندگی کے معیار کو خاصا ڈسٹرب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ہمیں اس بات کا پورا شعور ہونا چاہئے کہ رمضان کے دن اور رات کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی ہم اسکا نعم البدل حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے ہر ایک اس پر قادر ہے کہ رمضان کے آغاز میں ہی ایک فہرست بنالیں کہ کون سے کام انتہائی اہم ہیں جو دوران رمضان انجام دینا ہیں اور کو ن سے وہ ہیں جنہیں ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ جان رکھئے کہ دنیا میں کامیابی انکو ملتی ہے جنکے پاس اپنی ترجیحات کا درست تعین موجود ہوتا ہے۔
جہاں ہم سحر و افطار میں بچوں کی غذا کی ضروریات کے لئے حساس ہو جاتے ہیں وہیں رمضان کو اپنے بچوں کی تربیت کا مہینہ بنائیں۔ انکے سامنے ایک مسلمان روزہ دار ماں کا آئیڈیل نمونہ پیش کریں جو کسی کی غیبت نہیں کرتی، جو کسی سے چلا کر بات نہیں کرتی، گھر کی ماسیوں پر غصہ نہیں کرتی، ٹی وی کے سامنے وقت ضائع نہیں کرتی، بچوں پر عام دنوں سے زیادہ شفقت اور مہربانی کرتی ہے۔ ہمارا رویہ ہی بچوں کو رمضان کی عظمت کا احساس دلائے گا اور وہ خود بھی بچنے کی کوشش کریں گے لغویات سے اور روزہ درحقیقت ہمیں بچانے کی پریکٹس کا ہی ذریعہ ہے کیونکہ تقوٰی کے معنی بچنے کے بھی ہیں۔ افطار سے قبل دعا کی قبولیت کا خاص وقت ہوتا ہے جس وقت عام طور پر خاتون خانہ کچن سے گرم پکوڑے و سموسہ دسترخوان پر بھیجنے میں مصروف ہوتی ہے اور گھر میں چیخ و پکار کہ شربت بھی ابھی نہیں بنا اور فروٹ چاٹ بھی ابھی مکس نہیں ہوئی۔ دسترخوان پر پلیٹیں اور گلاس بھی کم ہیں وغیرہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ افطار سے کم از کم 15 منٹ قبل تیاری مکمل کر کے آپ دستر خوان پر موجود ہوں۔ حدیث کی کوئی کتاب، قرآن کا کچھ حصہ اسوقت پڑھا جاسکتا ہے۔ دعاؤں کی بہترین کتابیں موجود ہیں، اجتماعی دعا کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ بہت انمول وقت ہوتا ہے جب سب اہل خانہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اسوقت کو ایک ماں سمجھداری سے تذکیر اور تربیت کے لئے بھی استعمال کر سکتی ہے۔ افطار کا وقت قبولیت دعا کا اہم ترین وقت ہوتا ہے، اسکو اسی لئے استعمال ہونا چاہئے۔
رمضان میں نیکیوں کا سالانہ میلہ لگتا ہے جو آپ کے لئے سالانہ امتحان کا درجہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ امتحان میں کامیابی صرف خواہشوں سے نہیں بلکہ امتحان کی بروقت اور بہترین تیاری سے مل سکتی ہے۔ وہ تیاری جو میرے اور آپ کے بس میں ہے، تو اٹھئے اور نیکیوں کے اس موسم بہار کے لئے اپنی اور اپنے اہل خانہ کے لئے تیاری کیجئے کہ اللہ نے آپکو ایک بار پھر یہ سعادت عطا فرمائی ہے کہ نیکیوں کا موسم بہار آپ کے دروازے پر دستک دینے کو ہے۔
٭٭٭