تاريخ
حروب صلیبیہ کا ایک اہم واقعہ
رسول اللہ کے جسد مبارک کو لیجانے کی کوشش تاریخ کے نکتہ نظر سے
مشتاق احمد
جمہور مورخین کا بیان ہے کہ: صلیبی جنگوں کے دوران میں جب بیت المقدس کے دروازہ پر مسلمانوں اور نصرانیوں کے خون سے زمین رنگین ہو رہی تھی ، تو اہل صلیب نے قدس شریف کے قبضہ کے بعد یہ بھی ارادہ کیا کہ کسی تدبیر سے روضۂ نبوی میں پہنچ کر جسد مبارک کو وہاں سے نکال کے لیجانا چاہئیے چنانچہ سلطان نور الدین شہید کے عہد میں(557) دو فرنگی اس کام کے لئے منتخب کئے گئے اور ایک بڑا انعام ان کے لئے مقرر کیا گیا۔ یہ دونوں مدینہ منورہ گئے اور وہاں حجرۂ مبارکہ کے قریب ایک مکان میں قیام کیا۔ یہ لوگ دن کو روضۂ مقدس کے اندر نمازیں پڑھتے تھے لوگوں کو صدقات دیتے تھے اور رات سُرنگ کھودنے میں صرف کرتے تھے۔ جب چند دن کے بعد سرنگ قریب قریب مکمل ہو گئی تو ایک رات سلطان نور الدین نے خواب دیکھا کہ رسول اللہ اس کو مدد کے لئے طلب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے دو فرنگیوں سے بچاؤ۔ چنانچہ سلطان نورالدین فوراً مدینہ پہنچا اور تحقیق کرنے کے بعد ان دونوں کو گرفتار کر کے وہیں تہِ تیغ کر دیا اور ان کو لاشوں کو جلا ڈالا۔ بعض نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نورالدین نے روضۂ مبارک کے چاروں طرف سطح آب تک خندق کھود کر اس میں سیسہ بھروا دیا تھا تا کہ پھر کوئی شخص ایسی جرأت نہ کر سکے"
یہ ہے خلاصہ تمام مورخین کے بیانات کا ، لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا حقیقتاً ایسا ہو ابھی تھا یا نہیں اور اگر یہ غلط ہے تو اس واقعہ کی روایت کس نے کی اور کیوں؟
اس روایت میں تین خاص واقعات ہیں۔ ایک تو وہ فرنگیوں کا سُرنگ کھودنا دوسرے نورالدین کا رسول اللہؐ کو خواب میں دیکھنا اور تیسرے روضہ مبارک کے چاروں طرف سیسہ گلوا دینا۔
اگر اس تمام روایت سے خواب کا واقعہ حذف کر دیا جاے تو یہ سارا بیان بالکل تاریخ کے تحت آ جاتا ہے اور کسی مذہبی بحث کی گنجائش نہیں نکلتی لیکن چونکہ خوا ب کا واقعہ بھی اس میں شامل ہے اور بغیر اس کو شامل کئے ہوئے روایت مکمل ہو ہی نہیں سکتی اس لئے احتمال کذب فوراً نمایا ں ہو جاتا ہے اور از روئے روایت اس واقعہ کا لغو ہونا بالکل قرین قیاس ٹھہرتا ہے۔
اہل اسلام میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو رسول اللہ سے زیادہ کسی اور کو قوی ترین روحانیت کا مظہر قرار دے اور اس لئے یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ رسول اللہ کو نورالدین سے مدد طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ فرنگیوں کو ہلاک کر دینا یا اُن کی کاوشوں کو ناکام بنا دینا ایک زبردست روحانیت والے کے نزدیک ایسا مشکل امر نہ تھا اور نہایت آسانی سے اُن کوششوں کو برباد کیا جا سکتا تھا۔چونکہ ہمارے نزدیک اس روایت میں خواب کا واقعہ رسول اللہ کی شان سے گرا ہوا ہے، اس لیے یا تو یہ واقعہ ہی سرے سے غلط ہے اور اگر یہ واقعہ غلط نہیں ہے تو نور الدین کواس سرنگ کا علم کسی اور ذریعہ سے ہوا جس کے متعلق مورخین نے جاننے كی کوئی کاوش نہیں کی۔ احمد زکی پاشا نے اپنے ایک تاریخی مضمون کے سلسلہ میں جس سے یہ مضمون ماخوذ ہے اس واقعہ کے متعلق مورخانہ کاوش سے کام لے کر ثابت کیا ہے کہ تاریخی نکتہ نظر سے یہ روایت غلط معلوم ہوتی ہے اور اُس عہد کے کسی مسلمان یا عیسائی مورخ نے جس نے حروب صلیبیہ کی تاریخ یا نور الدین کے حالات لکھے ہیں، اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔
اُس عہد کے انگریزی ارمنی فرانسیسی اور اطالوی مورخین نے متعدد کتابیں صلیبی جنگوں کی تاریخ میں لکھی ہیں لیکن کسی نے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے شرم کے مارے اس کو قصداً ترک کر دیا، تو کم از کم مسلمان مورخوں کو تو ظاہر کرنا چاہئیے تھا لیکن قاضی ابن شداد، العماد الکاتب، ابوشامہ اور ابن اثیر نے بھی کہیں اس کا ذکر نہیں کیا اسی طرح حیات نور الدین کے مرتب کرنے والے مورخین نے بھی اس کا اظہار کہیں نہ کیا حالانکہ اس سے زیادہ اہم واقعہ اس کی زندگی کا اور کیا ہو سکتا تھا۔
اب رہ گئے وہ مورخ جنہوں نے مدینہ منورہ کے حالات لکھے ہیں۔ سو وہ دو گروہ میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ایک متقدمین جن کا زمانہ اس واقعہ کے قریب تھا اور دوسرے متاخرین جو بہت بعد کو ہوئے ہیں۔ سو متقدمین میں سے کسی نے بھی اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا اور ابن نجار کی کتاب "الدرۃ الثمینتۃ اخبار المدینہ" میں بھی یہ حادثہ کہیں بیان نہیں کیا گیا حالانکہ یہ قریب تر زمانہ کا مورخ تھا۔ متاخرین کی کتابوں میں بےشک اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور بعض نے خندق اور سیسہ کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ متاخرین میں سب سے پہلا وہ مورخ جس نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے جمال الدین المطری ہے۔ اس نے اپنی کتاب التعریف بماسست الہجرۃ من معالم دارالہجرۃ" میں لکھا ہے کہ اس واقعہ کو اس نے بعض لوگوں کی زبانی سُنا اور اسی کے ساتھ یہ بھی ظاہر کیا کہ "میں نے یعقوب بن ابی بکر کی زبانی اس کو سنا ہے، جس کو یہ روایت اپنے باپ سے پہونچی تھی" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصدر روایت اور اصل حادثہ کے درمیان 97 سال کا زمانہ گزر چکا تھا، لیکن اس مدت میں کوئی اور راوی پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کے مطری کی وفات تک کسی اور مورخ کو یہ روایت پہونچی۔ مطری نے خندق اور سیسہ کا ذکر بالکل نہیں کیا۔اس کے بعد زین الدین ابوبکر المراغی نے ایک کتا ب "تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دار الہجرۃ" لکھی ۔ یہ کتاب ابن نجار کی تلخیص تھی" اس نے بھی مطری کے حوالہ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے لیکن خندق کا بیان اس میں بھی نہ تھا۔اس کے بعد جمال الدین الاسنوی نے ایک رسالہ لکھا اور اس میں اس قصہ کا ذکر کر کے اس قدر اضافہ اور کیا کہ "نور الدین نے بہت سے سیسہ جمع کرنے کا حکم دیا اور حجرہ مبارک کے چاروں طرف ایک بڑی خندق کھدوا کر سیسہ گلا کر بھر دیا اس کے بعد وہ مکہ چلا گیا"
مدینہ منورہ کی تاریخوں میں سمہودی کی کتاب "خلاصتہ الوفا فی اخبار دار المصطفیٰ" بہت مشہور ہے، اس نے بھی مطری مراغی اور اسنوی کے حوالہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ حیات نور الدین کے مولفین نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیا، جو نہایت حیرت انگیز بات ہے۔ اس کے بعد امام کبریت، بزررنجی اور شیخ محمد بیرمؔ نے بھی اپنی اپنی تاریخوں میں اس واقعہ کا ذکر کیا۔
اس لئے یہ حقیقت روشن ہے کہ اس روایت کا اصل مصدر مطری داسنوی ہیں اور بعد کے مورخین نے انھیں کے حوالہ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ان دونوں مورخین کے بیانات میں اختلاف ہے اور سب سے بڑا اختلاف مسلہ خندق میں ہے کہ مطری نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیا اور اسنوی نے اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے جس کی تاویل سمہودی نے یہ کی ہے کہ مطری نے اس واقعہ کا ذکر مختصراً کیا ہے ۔ حالانکہ مصدر اول اسی کا بیان ہے۔
برزنجی نے اپنی کتاب "نزہتہ الناظرین فی مسجد سید الاولین" میں جو 1287ھ کی تالیف ہے مطریؔ اور اسنوی کے اختلاف واقعات کو ہر ممکن تاویل کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کو باہم ملا کر ایک مسلسل واقعہ کی صورت میں مرتب کیا ہے لیکن سیسہ گلانے کے متعلق اس کو بھی حیرت ہے کیونکہ نور الدین کے زہد و تقویٰ کے بالکل خلاف تھا کہ مزار اقدس کے قریب سیسہ گلا کر حرارت پہونچائی جائے ، چنانچہ اس کی تاویل اس نے یہ کی ہے کہ "غالباً سیسہ کے ٹکڑے یوں ہی بغیر گلائے ہوئے بھر دئے ہوں گے"علاوہ اس کے یہ واقعہ یوں بھی حسبِ ذیل اعتراضات کی وجہ سے غلط معلوم ہوتا ہے؛-
1۔چونکہ مدینہ میں سیسہ کی کوئی کان نہیں ہے اس لئے اتنی کثیر مقدار سیسہ کی کہ مزار اقدس کے چاروں طرف سطح آب تک گلا دیا جائے وہاں کسی طرح میسر نہیں آ سکتی تھی۔
2۔اگر یہ کہا جائے کہ وہ خود اپنے ساتھ لایا تھا، تو یہ بھی خلاف قیاس ہے کیونکہ اسے کیا معلوم تھا کہ مدینہ پہونچ کر کیا واقعہ پیش آئے گا اور اسے کیا کرنا ہو گا۔
3۔ اگر اسے تسلیم کر لیا جائئے کہ وہ سیسہ کی روانگی کا حکم دے کر چلا تھا تو کم از کم 16 دن میں وہ مدینہ پہونچا ہو گا حالانکہ مطریؔ نے لکھا ہے کہ دونوں آدمیوں کی گردن قطع کرنے کے بعد وہ فوراً شام چلا گیا اور ایک دن بھی یہاں نہیں ٹھہرا۔
4۔سمہودی نے اپنی کتاب وفاالوفاء میں اُس واقعہ کا ذکر کیا ہے جب 654ھ میں اول مرتبہ حرم نبوی میں آگ لگی تھی اور اس کی تعمیر از سر نو کی گئی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ اس وقت حرم نبوی کے چاروں طرف زیر زمین سیسہ بھی گلا ہوا نظر آیا تھا۔
5۔خود سمہودی کے زمانہ میں صرف دو بارہ آگ لگی تو اس وقت کے واقعات اس نے نہایت تفصیل سے بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی سیسہ کا ذکر اس نے نہیں کیا۔
6۔اگر سیسہ گلایا گیا تو ظاہر ہے کہ خندق مسجد نبوی کے چاروں کھودی گئی ہو گی یا صرف مزار مبارک کے گردا گرد، اول صورت نا ممکن ہے کیونکہ مسجد بہت وسیع ہے اور دوسری صورت اس سے بھی زیادہ نا ممکن ہے کیونکہ یہ حرم نبوی کی حرمت کے منافی تھا۔
7۔ علاوہ اس کے سیسہ ایسی سخت دھات نہیں ہے کہ اس کے گلا دینے سے حفاظت سے مقصود ہوتی، کیونکہ سرنگ کھودنے والا سیسہ کی دیوار کو بھی آسانی سے کاٹ سکتا ہے البتہ اگر فولاد کی دیوار حائل کر دیجاتی تو یہ غرض پوری ہو سکتی تھی۔