جب ایک افریقی ملک میں رات کی خاموشی میں سینکڑوں لوگ پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : عجیب وغریب

شمارہ : اگست 2024

عجيب  و غريب

جب ایک افریقی ملک میں رات کی خاموشی میں سینکڑوں لوگ پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے

بی بی سی

دُنیا بھر میں متعدد ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کے بارے میں بہت سے سوالات نے جنم لیا لیکن ان کے جوابوں کے لیے آج بھی ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ افریقی مُلک کیمرون میں بھی پیش آیا کہ جہاں ایک تاریک رات میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔کیمرون میں اُس رات اس پراسرار واقعے میں بچ جانے والے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’رات کے تقریبا گیارہ بجے جب میری آنکھ کُھلی، تو میں اپنے حواس میں ہونے کے باوجود بستر سے اُٹھنے کے قابل نہیں تھا۔ میری طبعیت ایک عجیب سی اُلجھن کا شکار تھی، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔‘

یہ 21 اگست 1986 کی بات ہے۔ صبح ہوتے ہی شمال مغربی کیمرون کے متعدد گاؤں کے مکینوں کو بیدار ہونے پر پتا چلا کہ ان کے بہت سے دوست اور پڑوسی رات کی تاریکی میں مر چکے ہیں۔عینی شاہد نے بتایا کہ ’جب صبح میں اپنے گھر سے باہر نکلا تو گلی اور محلے میں کئی لوگ بے ہوشی کے عالم میں پڑے تھے۔ ان میں سے بہت سے مر چکے تھے۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اُس رات ہمارے گاؤں میں 75 لوگ ہلاک ہوئے۔‘تاہم کہا یہ جاتا ہے کہ اُس تاریک رات میں ہلاک ہونے والوں کی بتائی جانے والی تعداد سے مجموعی تعداد کہیں زیادہ تھی۔

اس رات ہوا کیا تھا، تو ماہرین نے اس کے جواب میں کہا کہ اُس رات آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کی وجہ سے بننے والے گڑھے میں ایک جھیل سے آنے والی زہریلی گیسوں نے یہ سب کیا۔بتایا جاتا ہے کہ اس جھیل سے اُٹھنے والی زہریلی گیسوں کی وجہ سے 1746 افراد اُس ایک رات میں ہلاک ہوئے اور یہ معاملہ یہاں رُکا نہیں بلکہ اس میں تقریباً 3،500 مویشیوں بھی ہلاک ہوئےہلاک ہونے والے یہ تمام لوگ نائجیریا کے ساتھ ملک کی سرحد کے قریب جھیل نیوس کے آس پاس کے گاؤں میں رہتے تھے۔

یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ کیمرون کے صدر نے بین الاقوامی دُنیا سے مدد کی اپیل بھی کی۔

واقعے کی تحقیقات

کئی ہفتوں تک یہ جاننے کی کوشش کی جاتی رہی کہ آخر ہوا کیا۔ اس علاقے میں ہونے والی تحقیق میں دُنیا بھر سے سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان میں برطانوی ڈاکٹر پیٹر بیکسٹر بھی شامل تھے جو اس سانحے کے تقریباً دو ہفتے بعد اس علاقے میں پہنچے تھے۔بیکسٹر نے بی بی سی کے ویٹنس ہسٹری پروگرام کو بتایا کہ ’جب وہ وہاں پہنچے تو تب بھی پہاڑوں پر لوگوں اور جانوروں کی لاشیں ہر جانب بکھری پڑی تھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم نیوس کے گاؤں میں پہنچے، جس میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے گھر تھے، وہاں مکمل خاموشی تھی، زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اور جب ہم جھیل نیوس کے قریب پہنچے، جو ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چڑھنے کے بعد آتی ہے تو ہم نے دیکھا کہ پانی پرسکون ہے مگر جھیل کے اس پُرسکون پانی کی سطح پر متعدد مردہ مچھلیاں، اور اس کے کناروں مردہ اور بے جان پودوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر پیٹر کا کہنا ہے کہ ’اس چھیل کے کناروں اور پانی میں اگر ہمیں کوئی چیز زندہ دیکھائی دی تو وہ مینڈک تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت جان ہوتے ہیں۔‘امریکہ کی مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر جارج کلنگ کو بھی اس تحقیق میں مدد کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم جھیل نیوس پہنچے، تو اس منظر کی وجہ سے مُجھ پر سکتہ طاری ہو گیا، میرا جسم ٹھنڈا ہونے لگا، ہر جانب موت دیکھائی دے رہی تھی، اس گاوں میں ہر جانب لوگ اور تمام جانور مر چکے تھے۔‘اُنھوں نے مزید کہا کہ ’وہاں ہر جانب بس خاموشی تھی، زندگی کے تو آثار نہیں تھے بس عمارتیں اس واقعے کی وحشت بیان کر رہی تھیں، اس گاوں کی خاموشی بہت تکلیف دہ تھی، یہاں کسی طوفان یا سیلاب یا اس طرح کی کسی اور قدرتی آفت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔جارج کلنگ نے بات آگے بڑھائی اور کہا کہ ’ہم نے تباہی کا منظر دیکھا۔ تباہی سے پہلے، جھیل ایک بہت ہی خوبصورت جگہ تھی، جس کا پانی انتہائی صاف اور شفاف تھا۔ ایک سال پہلے یہ وہی جھیل تھی کہ جس میں ہم تیراکی کر رہے تھے لیکن اب سب وہاں ایسا کُچھ بھی نہیں تھا، اس جھیل کے پانی کو دیکھ کر ایک عجیب سے وحشت طاری ہو رہی تھی یہاں اب سب کُچھ مختلف تھا۔‘پروفیسر جارج یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جھیل کی سطح کے پانی کی رنگت سرخ اور بھوری دکھائی دے رہی تھی، اس میں بہت سارے پودے تیر رہے تھے۔ یہ پودے جھیل کے کناروں سے اس میں پیدا ہونے والی بڑی لہروں کی وجہ سے ٹوٹ کر اس میں شامل ہوئے تھے، اس جھیل میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ سے اس میں پائی جانے والی تمام نباتات تقریباً ختم ہو چُکی تھیں۔‘

ایک معمہ

شواہد سے پتا چلتا ہے کہ جھیل کی تہہ میں تبدیلی کے نتیجے میں تقریبا 40 میٹر اونچی لہر پیدا ہوئی تھی لیکن ابھی تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی اور اس علاقے کے سیکڑوں رہائشیوں کی موت کیوں اور کیسے ہوئی۔تاہم، ایک مشتبہ بات جو سامنے آئی یا جس کا ذکر بار بار ہو رہا تھا وہ یہ تھی کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہلاکتیں آتش فشاں پھٹنے سے خارج ہونے والی گیسوں کی وجہ سے ہوئیں تاہم پیٹر بیکسٹر اس بات کے شواہد یا نشانات کی کمی کی وجہ سے انتہائی حیران تھے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے کسی بڑے دھماکے کی کوئی اطلاع نہیں تھی اور نہ ہی اس تباہی کے آثار تھے کہ جو آتش فشاں کے پھٹنے کی صورت میں پیدا ہوئے ہوں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے تھے جہاں بہت سے لوگوں کی موت ہو گئی تھی لیکن زمین اور ان عمارتوں کو بہت کم نقصان پہنچا تھا جس میں وہ رہتے تھے۔‘

’سڑے ہوئے یا گندے انڈے کی بو‘

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’میں موت کے بہت قریب تھا لیکن پھر میں نے زیتون کا تیل پینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے فورا بعد مجھے قے ہوئی جس میں میرے اندر سے کالے رنگ کا کوئی مادہ نکلا جس میں انڈے یا بارود جیسی کسی چیز کی بو شامل تھی۔‘یہ وہ وضاحت تھی کہ جس نے اس گاؤں میں ہونے والی پراسرار ہلاکتوں کی تہہ تک پہنچنے اور اس کی وجوہات جاننے میں مدد کی اور یوں ایک اہم سراغ ہاتھ لگا۔اس سب کہ بعد کہا گیا کہ ہزاروں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جھیل کی تہہ سے خارج ہوئی اور آتش فشاں کی ڈھلوان سے ہوتے ہوئے نیچے وادی تک پہنچی۔

 

پہلے تو سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ سلفر ہے جس کی ایک خاص ناگوار بو ہوتی ہے اور یہ آتش فشاں کے ذریعے بڑی مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔یونیورسٹی آف مشیگن کے پروفیسر کلنگ بتاتے ہیں کہ ’لیکن جب ہم جھیل میں گئے اور نمونوں کو دیکھنا شروع کیا تو ہم نے دیکھا کہ پانی میں سلفر نہیں تھا اور نہ ہی جھیل کے آس پاس کے پودوں میں جو گیس کے بادلوں کی زد میں آئے تھے اُن میں اس کے کوئی آثار موجود تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ان نتائج کو سمجھنا بہت مشکل تھا۔‘ایسا لگتا ہے کہ برسوں سے جھیل کی تہہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک ذخیرہ بن رہا تھا۔جارج کلنگ بتاتے ہیں کہ ’چونکہ جھیل بہت گہری ہے اور اوپری پرتیں نچلی پرتوں کے ساتھ نہیں مل پاتیں، اس لیے نچلی تہوں میں بننے والی گیس ان کے درمیان پھنس کر رہ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ بہت زیادہ دباؤ کے ساتھ ایک طویل عرصے کے بعد نکل کر سامنے آتی ہیں۔‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہی اثر اس وقت بھی ہوتا ہے جب آپ شیمپین کی بوتل ہلاتے ہیں اور پھر کارک کو ہٹا دیتے ہیں۔

زندہ بچ جانے والے

لیکن یہاں اس واقعے میں ایک اور بات جو انتہائی حیران کُن سامنے آئی وہ یہ تھی کہ سیکڑوں لوگ تو یہاں اس جھیل سے نکلنے والی گیسوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے لیکن کُچھ ایسے بھی تھے کہ جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زد میں آنے کے باوجود زندہ بچ گئے۔ان میں سے زیادہ تر بچے تھے۔ اس طرح، یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ گیس نے رات کے وقت گھروں کو ڈھانپ لیا تھا، جبکہ چھوٹے بچے اندر سو رہے تھے لیکن ان کے والدین ابھی بھی باہر تھے۔یہ بھی خیال کیا گیا تھا کہ بچے زیادہ جلدی نیم بےہوشی کی حالت میں چلے گئے جس کی وجہ سے اُنھوں نے تیزی سے سانس نہیں لیا اور اُن کے اندر گیس کی بڑی مقدار نہیں پہنچ سکی۔بیکسٹر کا کہنا ہے کہ ’زندہ بچ جانے والے کچھ افراد اپنے ارد گرد مردہ لوگوں کو دیکھ کر بیدار ہوئے۔ ’گیس کی زد میں آنے سے زندہ بچ جانا خوش قسمتی کی ہی بات تھی۔‘

بیکسٹر نے کہا کہ ’گیس آپ کو جلدی سے بے ہوش کر دیتی ہے اور جو لوگ زندہ بچ گئے انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ طویل عرصے تک بے ہوشی کے عالم میں تھے، 10 گھنٹے سے زیادہ، یہاں تک کہ وہ ہوش میں آ گئے۔ دن چڑھے کے ساتھ ہوا یہ کہ جیسے ہی سورج نے زمین کو گرم کرنا شروع کیا تو گیس ختم ہو گئی لیکن یہ ایک بہت ہی غیر معمولی صورتحال اور ایک انتہائی غیر معمولی کہانی ہے۔‘تباہی کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے ٹاسک فورس کے نتائج سازشی نظریات کو ابھرنے سے نہیں روک سکے۔بیکسٹر کہتے ہیں کہ ’کچھ مقامی لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بیرونی ممالک نے ایک خفیہ بم گرایا، اور یہ سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی سازش تھی۔‘تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ 1986 میں گیس کے اخراج کی اصل وجہ کیا تھی۔ سب سے زیادہ تسلیم شدہ مفروضے میں سے ایک یہ ہے کہ جھیل کی تہہ میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی۔نیوس خطے میں رہنے والے لوگوں کے لیے اب بھی یہ ایک ممکنہ خطرہ ہے۔ 1986 جیسے سانحے سے بچنے کی کوشش میں پائپوں کا ایک نظام نصب کیا گیا تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اگر نکالا جائے تو اس کے رخ کو بحفاظت طریقے سے کسی اور جانب موڑا جا سکے۔(بشكريہ بی بی سی ڈاٹ كام 24 مئی  2024 )