ساؤتھ سی آئی لینڈ کے وحشی قبائل میں صدیوں سے یہ دلچسپ رسم چلی آتی ہے کہ جب وہ آپس میں لڑتے ہیں، تو اپنے سروں پر سیی مچھلی کا بنا ہوا خود پہنتے ہیں۔ اس خود میں یہ خاصیت ہے کہ نیزے، کلہاڑی اور تلوار کا اس پر قطعاً اثر نہیں ہوتا۔ اس علاقے میں یہ مچھلی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اس کی شکل و صورت اور جسم بالکل خارپشت کی طرح ہوتا ہے۔ یہ پانی کی سطح پر تیرتی ہے اور کبھی کبھی کنارے پر آ کر آرام کرتی ہے۔ اس وقت اس کے بیرونی کانٹے کھال کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں، لیکن جونہی مچھلی خطرہ محسوس کرتی ہے، یہ نوکیلے اور لمبے کانٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مچھلی اپنی جسامت سے دوگنی نظر آنے لگتی ہے۔ دور سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ کوئی غبارہ ہے۔ اس مچھلی کے خود بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ پھولی ہوئی ہو تو اس وقت اسے ہلاک کر دیا جائے اور اسے دھوپ میں سکھالیا جائے۔ سوکھنے کے بعد اس کا سر اور آنتیں علیحدہ کر دی جاتی ہیں اور اس ٹوپی نما کھال کے اندر گھاس پھونس رکھ کر اسے کافی آرام دہ بنا لیا جاتا ہے۔ بس خود تیار ہے۔ سوکھنے کے بعد یہ کھال ایسی مضبوط اور سخت ہو جاتی ہے کہ شدید سے شدید ضرب بھی اس پر اثر نہیں کرتی۔ اس کھال کی دوسری عجیب خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہایت شفاف اور چمکدار ہوتی ہے۔ اسی لیے جاپانی لوگ اس کی نہایت خوبصورت قندیلیں بنا کر فروخت کرتے ہیں جو تمام دنیا میں گھروں کی آرائش اور سجاوٹ کے لیے مشہور ہیں۔
شارک مچھلی کو دنیا کی مختلف اقوام میں بیشمار طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی کھال بھی نہایت مضبوط اور سخت ہوتی ہے اور اس کی زرہیں اور خود آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ شارک کے دانتوں کو دستانوں کے اوپر لگایا جاتا ہے اور یہ دستانے دشمن سے مقابلے کے وقت پہن لیے جاتے ہیں۔ یہ دانت قدرتی طور پر ریزر بلیڈ کی مانند تیز اور فولاد کی مانند سخت ہوتے ہیں اور ان کا گھاؤ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ قدیم ترین اقوام کے جو جنگی ہتھیار اب تک پائے گئے ہیں۔ ان میں شارک مچھلی کی کھال سے بنی ہوئی زرہیں، سر پر پہننے کے خوداور دستانے موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی کھال تلواروں، کلہاڑوں، نیزوں اور خنجروں کے دستے پر بھی منڈھی جاتی ہے تاکہ کھردرے پن کے باعث ہاتھ کی گرفت مضبوط ہو سکے۔
تلواروں کے دستوں پر شارک کی کھال چڑھانے کے رواج نے بھی بہت زور پکڑا پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک یہ حال تھا کہ جرمنی میں شارک کی اتنی کھالیں فروخت کے لیے عالمی منڈی میں بھیجی گئیں کہ وہ تیس ہزار تلواروں کے دستوں میں کام آ سکتی تھیں۔ اس کھال کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ کھردری لکڑی کو نہایت صاف اور شفاف بنانے کے لیے اچھے اچھے بڑھئی شارک کی کھال کو ریگ مال کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ متواتر استعمال کے بعد بھی یہ اپنی پہلی حالت پر قائم رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شارک کی کھال کے اوپر ہڈی کے بے شمار باریک اور نوکیلے دانے دانے سے ابھرتے ہیں۔ یہ دانے دراصل ایک قسم کے دانت ہی ہوتے ہیں۔ شارک کی کھال بھی عام مچھلیوں کی نسبت ذرا موٹی ہوتی ہے اور اس پر کھپچے نہیں ہوتے۔ لکڑی پر اگر یہ کھال رگڑ دی جائے تو وہ شیشے کی مانند چمکنے لگتی ہے۔
شارک مچھلیاں پکڑنے والا مشہور عالم انگریز شکاری کیپٹن ولیم ۔ ای ینگ اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ لکھتا ہے:
‘‘ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں نے یکے بعد دیگرے سات شارک مچھلیاں پکڑیں اور انھیں خالی کشتی کے اندر پھینک دیا۔ وہ دیر تک تڑپتی اور اچھلتی رہیں۔ کنارے پر آ کر جب میں نے ان مچھلیوں کو باہر نکالا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کشتی کے اندر کی وہ تمام جگہ جہاں یہ مچھلیاں تڑپ کر ادھر سے ادھر اچھلتی رہی تھیں،ایسی ہو گئی ہے جیسے کسی بڑھئی نے اچھی طرح ریگ مال پھیر دیا ہے۔ رنگ و روغن سب اڑ چکا تھا اور نیچے سے لکڑی صاف شفاف ہو کر شیشے کی طرح چمک رہی تھی۔’’
شارک کی کھال کا سب سے زیادہ حیران کن استعمال اس کے بٹوے بنانے میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ بٹوے ‘‘جیب تراش پروف’’ کہلاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس کھال کے بنے ہوئے بٹوے کو ماہر سے ماہر جیب تراش بھی نہیں نکال سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جونہی کوئی شخص آپ کی جیب میں انگلیاں ڈال کر بٹوہ اڑانے کی کوشش کرتا ہے کھال کے اوپر اگے ہوئے باریک دانت جیب کے کپڑے میں کانٹوں کی طرح پھنس جاتے ہیں اور بٹوہ باہر نہیں نکل سکتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس بٹوے کو ریزر بلیڈ یا قینچی سے بھی آسانی سے نہیں کاٹا جا سکتا۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ میں شارک کی کھال سے بنے ہوئے بٹوے بہت استعمال ہو رہے ہیں اور جیب کتروں کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان بٹوؤں کے مالکوں کو بھی جیب سے بٹوہ نکالنے کے لیے پہلے خاصی مشق کرنا پڑتی ہے اور اس احتیاط سے نکالنا پڑتا ہے کہ بٹوے پر لگے ہوئے دانت کپڑے کو چھونے نہ پائیں۔
امریکہ کے جنگلوں کی سیاحت کرنے والوں کو وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے تو ضرور یاد رہ جاتے ہیں جو اچانک سیکڑوں کی تعداد میں ٹانگوں اور گردن پر جونک کی طرح چمٹ جاتے ہیں اور جب تک انھیں نوچ کر نکال نہ دیا جائے ایسی تکلیف ہوتی ہے کہ بیان سے باہر۔ چونکہ یہ کیڑے بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے انھیں نوچ نوچ کر نکالنا بھی آسان کام نہیں۔ بعض کیڑے تو گوشت کے اندر تک اتر جاتے ہیں۔ مقامی باشندے اس عذاب کا علاج ایک خاص قسم کی چھوٹی مچھلی سے کرتے ہیں جو ان کیڑوں کو چن چن کر ہڑپ کر جاتی ہے۔ ایک سفید فام سیاح جس کے ساتھ مقامی باشندے بھی تھے اچانک ان خون آشام کیڑوں کا شکار ہو گیا۔ مقامی باشندوں نے اسے ہدایت کی کہ فوراً اپنے کپڑے اتار کر قریبی تالاب میں چھلانگ لگا دے۔ اگرچہ اس کے لیے یہ علاج نہایت عجیب تھا لیکن تکلیف سے مجبور ہو کر اسے تالاب میں چھلانگ لگانی ہی پڑی اور وہ گہرے پانی میں چلا گیا، اس کے بعد کیا ہوا یہ آپ خود اسی کے الفاظ میں سنیے:
‘‘چند منٹ بعد میں نے محسوس کیا کہ چھوٹی چھوٹی بے شمار مچھلیاں میرے ارد گرد جمع ہو گئی ہیں اور بار بار میرے جسم پر منہ مارتی ہیں۔ میں نے بڑی احتیاط سے سر جھکا کر دیکھا، تو سرخ رنگ کی مچھلیاں جن کی لمبائی ڈھائی تین انچ سے زائد نہ ہو گی میرے جسم سے چمٹ گئیں اور اس دوران میں انھوں نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔’’
شمالی امریکہ کے ریڈ انڈینز شمالی بحرالکاہل میں پائی جانے والی ایک مچھلی کو مشعل کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اس مچھلی کے اندر چربی بہت زیادہ ہوتی ہے اور اگر اسے خشک کرکے آگ دکھائی جائے تو فوراً جل اٹھتی ہے۔ یہ قبائل ایسی مچھلیاں پکڑ کر سکھا لیتے ہیں اور ان کے جسم کے اندر ایک موٹا دھاگہ ڈالنے کے بعد مشعل تیار کر لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مچھلی کی چربی بارہ گھنٹے تک بخوبی جل سکتی ہے اور اس کی روشنی میں پچاس ساٹھ گز دور تک کی چیزیں صاف نظر آتی ہیں۔
ایک عرصے تک پیرس کی فیشن ایبل خواتین نے نہایت چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیوں کو اپنے میک اپ کے سامان میں شامل کر رکھا تھا۔ شیشے کے بہت خوبصورت اور نازک گلاسوں میں پانی بھر کر ان مچھلیوں کو بند کر دیا جاتا تھا اور ان سے ہار بنائے جاتے تھے۔ بعد ازاں یہ ہارگلے میں پہنے جاتے تھے۔ بہت سی عورتیں ان زندہ مچھلیوں کے بندے بنا کر پہنتی تھیں۔
دنیا کے بعض ممالک ایسے ہیں جو اپنے گھروں کی سجاوٹ اور آرائش کے لیے مچھلیوں کے علاوہ حشرات الارض اور اڑنے والے پتنگوں، جگنوؤں اور تتلیوں کو کام میں لاتے ہیں۔ ملایا کی عورتیں اپنے بالوں کو خوشنما بنانے کے لیے رنگ برنگی تتلیوں کا جوڑا سر پر باندھتی ہیں۔ ان کے ہار گلے میں پہنتی ہیں۔ شمالی امریکہ کے ریڈ انڈینز کا پسندیدہ زیور ‘‘بھنوروں کا ہار’’ ہے۔ یہاں بمشکل کوئی ایسا آدمی ملے گا جس نے اپنے بازوؤں یا گلے میں بھنوروں کا ہار نہ پہن رکھا ہو۔ گویا وہاں اس ہار کو ‘‘قومی نشان’’ کی حیثیت حاصل ہے۔
کوسٹاریکا کی عورتیں رات کے وقت زندہ جگنوؤں کے جوڑے سروں پر باندھ کر باہر نکلتی ہیں اور اس وقت ان کی چمک دمک دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ننھے ننھے تاروں کے بے شمار تاج ہیں جو سروں پر رکھے ہوئے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں۔ مرد بھی ان جگنوؤں کی قندیلیں رات کے وقت جنگل میں سفر کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں ۔ ایک سیاح اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے:
‘‘ان ننھے منے جگنوؤں کے باعث کئی مرتبہ میری جان بچی ہے۔ میں جب سینٹ ڈومنگو کے علاقے میں سفر کر رہا تھا، تو تاریک راتوں میں یہ جگنو میری رہنمائی کرتے اور میرا گھوڑا جس راستے پر چلتا، وہ ان جگنوؤں کی وجہ سے روشن ہو جاتا۔ یہاں کے جنگل بڑے گھنے ہیں۔ قدم قدم پر جھیلیں اور کھائیاں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس علاقے کے باشندے جگنوؤں کی قندیلیں استعمال نہ کریں، تو رات کو سفر نہیں کر سکتے۔’’
بعض جنگلوں میں بھنورے کی ایک ایسی قسم پائی جاتی ہے جس کا سارا جسم رات کو تارے کی مانند چمکتا ہے۔ وہاں کے باشندے ایسے بھنوروں کو پکڑ کر کر ان کے ہار بناتے ہیں اور اپنے بازوؤں اور ٹخنوں میں باندھ کر رات کو سفر کرتے ہیں۔ ایک سیاح جسے چند سال قبل ایسے ہی ایک علاقے کی سیاحت کاموقع ملا تھا، بیان کرتا ہے:
‘‘میں رات کے وقت پتلے شیشے کی کئی بوتلیں سفر میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ان بوتلوں میں بھنوروں کو بند کر دیتا اور اتنی روشنی ہو جاتی کہ میں اخبار کی عبارت آسانی سے پڑھ لیا کرتا تھا۔’’
نیویارک کے امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے شعبے میں پانچ ہزار بھنورے بطور ملازم کام کر رہے ہیں۔ ان بھنوروں کا کام یہ ہے کہ بڑے بڑے جانوروں کی ہڈیوں کے ڈھانچوں پر جو سوکھا ہوا گوشت چمٹا رہتا ہے اسے صاف کر دیں۔ ہڈیوں کے یہ ڈھانچے جو سیکڑوں برس پرانے ہوتے ہیں جب کھدائی کے بعد دریافت ہوتے ہیں تو ان کی حالت اتنی نازک اور بوسیدہ ہوتی ہے کہ ہلکی سی ضرب سے ریزہ ریزہ ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان ڈھانچوں سے چمٹا ہوا گوشت اور مٹی جدا کرنے کے لیے بڑی احتیاط کی جاتی تھی۔ لیکن پھر بھی بہت سے ڈھانچے ضائع ہو جاتے تھے۔ آخر میوزیم کے ایک سائنس دان کو بھنوروں سے کام لینے کی تدبیر سوجھ گئی۔ اس نے ہڈیوں کے یہ ڈھانچے بھنوروں کے حوالے کر دیے جنھوں نے انھیں چاٹ چاٹ کر شیشے کی مانند چمکا دیا۔
بعض قبائل ان جنگلی بھنوروں سے اپنی بانسریاں تیار کرانے کا کام لیتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ لکڑی کے اندر سوراخ کرنے کے آلے بنانا نہیں جانتے، اس لیے انھوں نے یہ تدبیر اختیار کی کہ لکڑی کی ایک لمبی شاخ لے کر اس کے ایک سرے پر معمولی سا سوراخ کیا، بھنورے کا لاروا اس میں داخل کرکے سوراخ بند کر دیا۔ چند دنوں کے اندر یہ لاروا اندرونی حصہ کھا جاتا تھا اور شاخ کھوکھلی ہو جاتی تھی۔ اس کے بعد بھنورے کو آزاد کر دیا جاتا ہے یا اسے کسی دوسری شاخ میں قید کر دیا جاتا ہے اور اس طرح بانسریاں تیار ہوتی رہتی ہیں۔
ایک اور سیاح، جس نے شمالی افریقہ کی سیاحت کی تھی، افریقی بھنوروں کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں لکھتا ہے:
‘‘یہاں چھوٹے بھنوروں کی ایک ایسی عجیب قسم میں نے دیکھی جس سے مقامی باشندے زخموں پر ٹانکے لگانے کا کام بڑی خوبی سے لیتے ہیں۔ بھنوروں کو پکڑ کر زخم کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے اور یہ زخم کے دونوں کناروں کو اپنے منہ میں دبا کر ایک دوسرے سے ملا دیتے ہیں۔ جب زخم اچھی طرح بند ہو جاتا ہے، تو ان بھنوروں کی گردنیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ چند روز بعد زخم بھر جاتا ہے اور بھنوروں کے چمٹے ہوئے منہ الگ کر دیے جاتے ہیں۔’’
گیانا میں رہنے والے قدیم باشندے بھی زخموں پر اسی طرح ٹانکے لگایا کرتے تھے۔ وہاں بھنوروں کے بجائے یہ کام خاص قسم کی چیونٹیوں کے ذریعے لیتے ہیں، جنھیں ‘‘اتا’’ کہتے ہیں۔ جب یہ چیونٹیاں زخم کے کناروں کو ملا دیتی ہیں، تو انھیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ہلاک ہونے کے بعد بھی یہ زخم سے پیوست رہتی ہیں اور اس وقت تک نہیں اترتیں جب تک زخم اچھا نہ ہو جائے۔ بتاتے ہیں کہ تین دن کے اندر کتنا ہی بڑا زخم کیوں نہ ہو، اس طریقہ علاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ چند صدی قبل تک یہی طریقہ زخموں کو سینے کے لیے جنوبی فرانس اور شمالی اٹلی کے طبیب بھی استعمال کیا کرتے تھے۔
انڈونیشیا کے جزیرہ بالی کے لوگ ‘‘مرغ بازی’’ کا بڑا شوق رکھتے ہیں اور شرط بد بد کر مرغوں کے دنگل منعقد کرنا وہاں کا عام مشغلہ ہے۔ لڑائی کے بعد جب مرغ زخمی ہو جائے تو اس کا علاج یہ لوگ چیونٹیوں سے کرتے ہیں۔
مختلف کاموں میں حشرات الارض کا جیسا نادر اور انوکھا استعمال آسٹریلیا کے لوگ کرتے ہیں، وہ دنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ یہاں ہزاروں قسم کی چھوٹی بڑی مکڑیاں پائی جاتی ہیں اور قدیم باشندے انھیں پالنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ وہ مکڑیوں کے ذریعے ایسے جال بنوایا کرتے تھے جن سے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آسانی سے پکڑی جا سکتی تھیں۔ ان مکڑیوں کا کاتا ہوا ریشم حیرت انگیز طور پر باریک اور بے حد مضبوط ہوتاتھا اور اس میں ربڑ کی طرح پھیلنے اور سکڑ کر اصلی حالت پر واپس آجانے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔ تجربات شاہد ہیں کہ مکڑی کے کاتے ہوئے ریشم کا تار جو ایک سینٹی میٹر کا ۰۱. حصہ ہوتا ہے اسی گرام وزن سنبھال سکتا ہے۔
آسٹریلیا کا یہ خطہ اپنی مکڑیوں کے باعث مشہور ہے کیونکہ یہاں اتنی بڑی بڑی مکڑیاں پائی جاتی ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتیں۔ ایک سیاح لکھتا ہے کہ ‘‘میں نے یہاں ایک ایسی مہیب مکڑی دیکھی جو چھ فٹ لمبی تھی اور وہ اچھل کر آگے بڑھتی تھی۔ اتفاق سے میں نے اس مکڑی کا جالا بھی دیکھا جو مجھے دہشت زدہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس جالے کے ایک تار کی موٹائی اون کے دھاگے کے برابر تھی۔ وہ جالا اس قدر وسیع تھا کہ اس کے اندر یہ خوفناک مکڑی نہ صرف چھوٹے چھوٹے پرندوں کو قید کر لیتی تھی، بلکہ سانپوں کو بھی ہلاک کر کے ہڑپ کر جاتی تھی۔’’
مقامی باشندے ان مکڑیوں سے جالے کس طرح بنواتے ہیں، اس کا طریقہ بڑا دلچسپ ہے۔ یہ لوگ جنگل میں مختلف مقامات پر تین تین چار چار بانس گاڑ آتے ہیں اور چند روز کے اندر اندر مکڑیاں ان بانسوں کے اوپر اپنے جالے تن دیتی ہیں۔ بعد ازاں یہ بانس اکھاڑ لیے جاتے ہیں بس جال تیار ہے۔ یہ جال دریاکے اس حصے میں ڈالے جاتے ہیں جہاں پانی کا بہاؤ تیز نہیں ہوتا اور مچھلیاں بھی زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ ان جالوں کے ذریعے ایک ایک پونڈ وزن کی مچھلیاں آسانی سے پکڑ لی جاتی ہیں اور جال صحیح سلامت رہتا ہے۔ ۱۹۰۶ء میں مکڑی کے جال کے ذریعے مچھلیاں پکڑنے کا حال جب پڑھے لکھے لوگوں کے کانوں تک پہنچا تو انھوں نے اسے اس صدی کی بہترین گپ قرار دیا اور کہا کہ یہ بات ناممکن ہے۔ لیکن جب ۱۹۲۴ء اور ۱۹۳۶ء میں دو اور سیاحوں نے جن کے نام کیپٹن سی ۔اے مونکٹن اور میکون تھے اس حقیقت کی پر زور الفاظ میں تصدیق کی تو لوگوں کو یقین آیا۔ کیپٹن مونکٹن نے اپنی یادداشتوں میں یہاں تک لکھا کہ ‘‘میں نے خود ان باشندوں اور مکڑی کے جالوں کو دیکھا ہے جو دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ان کے اندر تین تین چار چار پونڈ وزن کی مچھلیاں پھنس جاتی تھیں۔ یہ جال پانی کے اندر پڑے ہوئے بالکل دکھائی نہیں دیتے اور نہ صرف مچھلیاں بلکہ ان کے ذریعے چڑیاں ، طوطے، تتلیاں اور چمگادڑیں بھی پکڑی جاتی تھیں۔’’
اس سے پیشتر ۱۸۸۷ء میں گوپی نامی ایک شخص نے جو جزائر فجی اور سولومن کی سیاحت کر چکا تھا، مکڑی کے ان جالوں کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔
شہد کی مکھیوں پر اب تک جس قدر تحقیق ہوئی ہے اور ان کے متعلق جتنا لکھا گیا ہے شاید کسی اور جانور پر نہیں لکھا گیا۔
ان مکھیوں سے انسان نے صرف شہد ہی حاصل نہیں کیا بلکہ وہ انھیں جنگ سے لے کر اسمگلنگ جیسے جرائم تک میں استعمال کرتارہا ہے۔ ہنری اول کے زمانے کا وہ واقعہ تو بے حد دلچسپ ہے جب ڈیوک آف لورین کے فوجی دستوں نے ہنری اول کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ محاصرے سے تنگ آ کر ایک روز ہنری کی فوجوں کے کمانڈر جنرل نے حکم دیا کہ شہد کی مکھیوں کے چھتے لائے جائیں چنانچہ عین حملے کے وقت یہ چھتے ڈیوک کے سپاہیوں پر پھینک دیے گئے اور ان مکھیوں نے وہ آفت مچائی کہ اس کی وجہ سے ڈیوک کے سپاہیوں کو بھاگتے ہی بنی اور انھوں نے محاصرہ اٹھا لیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جبکہ جرمن فوجیں مشرقی افریقہ میں امریکیوں سے لڑ رہی تھیں، ایک مقام پر جرمن فوجی دستے کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا اور انھیں خدشہ ہوا کہ وہ جان سے ہاتھ دھو کر بیٹھیں گے تو انھوں نے جنگل میں جا کر شہد کی مکھیوں کے چھتے توڑ دیے اور یہ لاکھوں مکھیاں اتفاق سے امریکی سپاہیوں کی طرف اڑنے لگیں۔ امریکیوں نے جب اس آفت کو اپنی جانب آتے دیکھا تو میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور جرمنوں نے اس طرح اپنی جانیں بچالیں۔
شہد کی مکھیوں کے ذریعے اسمگلنگ جیسے جرم کو سر انجام دینا اس صدی کا حیرت انگیز واقعہ ہے اور اس کا موجد سوئٹزرلینڈ کا رہنے والا ایک تاجر تھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران میں، اٹلی کی شکست کے بعد یہ کارنامہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ سوئٹزرلینڈ کا یہ شخص دراصل بڑے پیمانے پر شہد کا بیوپاری تھا اور اس کے پاس اپنی پالتو مکھیوں کے کافی چھتے تھے۔ اتفاق کی بات کہ اسے اٹلی کے شہد کی سخت ضرورت درپیش ہوئی۔ اس نے اٹلی کے ایک تاجر کو خط لکھا اور اس سے کہا کہ وہ کسی نہ کسی طرح دو سو پونڈ شہد روانہ کرے۔ اٹلی سے جواب آیا کہ چونکہ سرحدوں پر کسٹم کی شدید نگرانی ہے اس لیے شہد نہیں بھیجا جا سکتا۔ اب یہ تاجر سخت پریشان ہوا کہ شہد منگوانے کے لیے کیا تدبیر اختیار کرے۔ سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں ایک انوکھی تدبیر آئی۔ اس نے اٹلی کے تاجر کو ایک خفیہ خط بھیجا جس میں لکھا تھا:
‘‘تم ایسا کرو کہ فلاں تاریخ تک شہد کے تمام ڈبے لا کر ہماری سرحد سے کوئی ایک ہزارگز دور کسی خاص جگہ چھپا کر رکھ دو۔ ڈبوں کے منہ ضرور کھول دینا۔ اس کے بعد تم واپس چلے جانا۔ شہد مجھ تک پہنچ جائے گا۔’’
اٹلی کے تاجر نے ایسا ہی کیا۔ اس نے اٹلی اور سوئٹرزلینڈ کی سرحد پر ایک جگہ شہد کے ڈبے کھول کر رکھ دیے اور واپس چلا گیا۔ سوئٹرزلینڈ کا تاجر وقت مقررہ پر اپنی پالتو شہد کی مکھیوں کے چھتے لے کر وہاں پہنچا اور مکھیوں کو آزاد کر دیا۔ تین روز کے اندر اندر اٹلی سے دو سو پونڈ شہد سوئٹزرلینڈ پہنچ چکا تھا۔
عرب ممالک اور دوسرے صحرائی علاقوں کے اسمگلر، اسمگلنگ کے لیے اونٹوں کو استعمال کرتے ہیں۔ مصر میں عرصہ دراز سے افیون، حشیش اور کوکین اسمگل ہوتی ہیں۔ اور حکام کو قطعاً پتا نہ چلتا تھا کہ یہ منشیات کس طرح ملک میں آتی ہیں۔ انھوں نے اس کا سراغ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آخر ایک اسمگلرنے جو اپنے ساتھیوں سے ناراض ہو گیا تھا، پولیس کو اس راز سے آگاہ کر دیا۔ راز یہ تھا کہ سیسے کی چھ انچ لمبی اور ڈیڑھ انچ موٹی کھوکھلی سلاخیں تیار کی جاتی تھیں اور منشیات بھرنے کے بعد ان سلاخوں کو اونٹوں کے معدوں کے اندر پہنچادیا جاتا تھا جہاں یہ کئی کئی ہفتے تک محفوظ رہتیں۔ اس دوران میں اونٹ کئی سرحدوں سے گزرتے اور کسٹم کی دیکھ بھال سے نکلتے ہوئے مصر پہنچ جاتے۔ وہاں ان اونٹوں کو ایک ‘‘قصاب’’ خرید لیتا اور انھیں ذبح کرکے منشیات سے بھری ہوئی سلاخیں نکال لی جاتیں۔ چنانچہ مصری کسٹم پولیس نے ایکسرے کی نہایت طاقتور مشین کا انتظام کیا اور اس مشین کے ذریعے جب ایک موقع پر باہر سے مصرمیں آنے والے اونٹوں کے معدوں کا معائنہ کیا گیا تو ہر اونٹ کے معدے میں سے ستائیس ستائیس سلاخیں برآمد ہوئیں۔
پاک و ہند کے اکثر نقب زنوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جرائم کی وارداتوں میں چھپکلی نما ایک جانور استعمال کرتے تھے جس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے۔ اس جانور کو ان ملکوں کے لوگ سانڈا کہتے ہیں۔ عمودی دیواروں پر چڑھنے کے لیے یہ نقب زن سانڈے کی کمر میں مضبوط ڈوری باندھ کر اسے پوری قوت سے دیوار پر اس جگہ پھینکتے تھے جہاں کوئی سوراخ یا شگاف ہو۔ سانڈے کے پنجے جونہی دیوار کو چھوتے وہ اسے سختی سے پکڑ لیتا اور پھر نقب زن ڈوری کے سہارے دیوار پر چڑھ جاتا۔ اس چھوٹے سے جانور میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ پورے آدمی کا وزن سنبھال لیتا ہے۔
مینا کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا کہ وہ آوازوں کی نقل بہت اچھی طرح اتار لیتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ معلوم کرکے حیرت ہو گی کہ لوگوں نے اس پرندے کو بھی اپنے جرائم کا ذریعہ بنایا ہے۔ مینا کی ایک عادت یہ ہے کہ وہ ہر چمکنے والی چیز کو چونچ میں دبا کر گھونسلے میں لے جاتی ہے۔ شکاگو کی ایک جرائم پیشہ عورت نے اپنی پالتو مینا کی اس عادت سے فائدہ اٹھایا۔ جس عمارت میں یہ عورت رہتی تھی اس کے سامنے ہی ایک ہوٹل تھا جس میں شرفاء اور امیر کبیر لوگ آ کر قیام کرتے تھے ان لوگوں کی بیویاں ہاتھوں اور گلے میں ہیروں کی انگوٹھیاں اور ہار اکثر پہنے رہتیں اور نہانے یا منہ ہاتھ دھونے کے وقت اپنے زیور اتار کر کمرے یا غسل خانے میں کسی جگہ رکھ دیتیں۔ چنانچہ اس عورت نے اپنی مینا کو اس ہوٹل کے کمروں سے ‘‘چمکدار چیزیں’’ اڑا لانے کا گر سکھایا۔ آہستہ آہستہ اس ہوٹل میں چوری کی وارداتیں شروع ہوئیں۔ عورتوں کے زیور، گھڑیاں، ہار اور انگوٹھیاں غائب ہونے لگیں۔ کمال یہ تھا کہ کمرے کے دروازے اندر سے بند ہوتے اور چیزیں غائب ہو جاتیں۔ پولیس والے ان چوریوں سے تنگ آ گئے۔ انھوں نے ہوٹل کے چپے چپے کی نگرانی کی مگر چور نہ پکڑا گیا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ پراسرار چوریاں کون کرتا ہے؟
آخر ایک روز اتفاق سے چور کا پتا چل ہی گیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ہوٹل کی ایک مسافر عورت صوفے پر آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ اس نے اپنی سونے کی انگوٹھی قریب کی تپائی پر اتار کر رکھ دی۔ چند منٹ بعد کمرے کے اندر کسی پرندے کے اڑنے کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھلی تو اس نے بازار کے رخ کھلی کھڑکی کے پاس ایک مینا کو بیٹھے ہوئے پایا جو متلاشی نظروں سے کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ یکایک وہ اڑی اور کمرے میں چکر کاٹنے لگی۔ دفعتاً اس کی نگاہ سونے کی چمکدار انگوٹھی پر پڑی اور فوراً ہی اس نے انگوٹھی کو چونچ میں دبایا اور کھڑکی کے راستے باہر آ گئی۔ یہ عورت جلدی سے اٹھی اور مینا کو سامنے کی عمارت کے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔ اس نے اس واقعے کا ذکر فوراً ہوٹل کے منیجر سے کیا۔ منیجر نے پولیس کو اطلاع دی اور تھوڑی دیر بعد پولیس نے اس عمارت کے ایک کمرے سے بہت سے چوری شدہ زیور برآمد کر لیے۔
اس سے ملتا جلتا ایک اور دلچسپ واقعہ نیویارک کے اس حصے میں پیش آیا جسے اٹالین کوارٹر کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کے گھروں اور دکانوں میں یکایک چوری کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ دواؤں کی بوتلیں، کھانے پینے کی اشیاء کے سربند ڈبے، ڈبل روٹیاں، مٹھائی اور پھلوں سے بھری ہوئی ٹوکریاں، بستروں کی چادریں اور ربڑ کے بنے ہوئے کھلونے، پلاسٹک کے برتن اور اسی طرح کی گھریلو استعمال کی چھوٹی موٹی سیکڑوں چیزیں کثرت سے چوری ہونے لگیں۔ دو ماہ تک ان عجیب و غریب وارداتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس والوں نے چور کو پکڑنے کی انتہائی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے۔ ایک روز چھ سال کے ایک لڑکے نے چور کا سراغ لگا لیا۔ یہ ایک سپاہی کا بچہ تھا اور اپنے گھر سے باہر سڑک پر کھڑا تھا یکایک اس نے اپنے قریب سے گزرتے ہوئے ایک عجیب سے پستہ قامت آدمی کو دیکھا جو اچھلتا ہوا جا رہا تھا۔ لڑکے نے جب آگے بڑھ کر اسے دیکھا، تو ڈر کر پیچھے ہٹ گیا کیونکہ یہ آدمی نہیں بلکہ چمپینزی بندر تھا جس نے باقاعدہ کوٹ پتلون پہنچ رکھا تھا۔ گلے میں ٹائی بندھی ہوئی تھی اور پیروں میں جوتے تھے۔ بندر کے گلے میں کپڑے کا ایک خالی تھیلا بھی لٹک رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے یہ آدمی نما بندر ایک دکان میں گھس گیا۔ لڑکا بھی شوقِ تجسس میں اس کا تعاقب کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد جب یہ بندر باہر نکلا تو مختلف چیزوں سے اس کا تھیلا بھرا ہوا تھا۔ لڑکا اب بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ چند منٹ بعد بندر ایک گلی کے اندر گھسا اور پہلے مکان کی نچلی منزل میں داخل ہو کر غائب ہو گیا۔
لڑکا وہاں سے واپس اپنے گھر آیا اور رات کے کھانے پر جب گھر کے سب لوگ میز پر جمع ہوئے تو لڑکے نے بندر کو دیکھنے کا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ یہ قصہ سن کر اس کے والد کے کان کھڑے ہوئے اور وہ کھانے کے بعد لڑکے کو ساتھ لے کر اس خاص مکان کو دیکھنے کے لیے گیا۔ معلوم ہوا کہ نچلی منزل میں گرانڈی نام کا ایک شخص رہتا ہے اور یہ بندر اس کا ہے اس کے گھر کی جب تلاشی لی گئی تو وہاں سے وہ سارا سامان برآمد ہو گیا جو گزشتہ دو ماہ میں مختلف مکانوں اور دکانوں سے چوری ہو چکا تھا۔
گرانڈی نے عدالت میں اس بندر سے متعلق بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ بندر کی ذہانت دیکھتے ہوئے اس نے اس کا نام ‘‘سقراط’’ رکھا تھا۔ سقراط بچہ ہی تھا جب گرانڈی نے اسے خریدا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ بچوں کا دلچسپ ساتھی بن جائے گا۔ انھی دنوں گرانڈی کا روزگار جاتا رہا اور خاندان پر ابتلاء کا وقت آیا اور فاقے ہونے لگے ایک روز گھر کے سب لوگ بھوک سے نڈھال ہو کر اداس بیٹھے تھے کہ سقراط چپکے سے باہر نکل گیا اور آدھ گھنٹے بعد جب وہ واپس آیا، تو دو ڈبل روٹیاں اس کے ہاتھ میں تھیں اور ایک منہ میں دبی ہوئی تھی۔ گرانڈی نے اسی دن طے کر لیا کہ بندر کے ذریعے باہر سے مفت چیزیں آسانی سے منگوائی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ اس کے گلے میں تھیلا باندھ کر باہر بھیج دیتا اور ارد گرد کے مکانوں اور دکانوں سے بندر کو جو چیزیں ہاتھ لگتیں وہ انھیں تھیلے میں چھپا کر گرانڈی کے گھر لے آتا۔
عدالت نے مسٹر گرانڈی کو جیل اور مسٹر ‘‘سقراط’’ کو چڑیا گھر بھیج کر یہ معاملہ ختم کیا۔
آج سے دو ہزار سال پیشتر مصر کی وادی میں رہنے والے لوگ بندروں کے ذریعے درختوں سے پھل تڑوایا کرتے تھے۔ اس دور کے مقبروں پر کھدی ہوئی ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں بندر، ناریل اور کھجوریں توڑتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔
ملایا اور سماٹرا میں آج بھی بندروں سے بہت کام لیا جاتا ہے۔ ایک سیاح بورنیو کے سفر نامے میں لکھتا ہے:
‘‘بندرکی کمر میں دو سو فٹ لمبی رسی باندھ دی جاتی ہے اور اسے ناریل کے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کر دیا جاتا ہے۔ بندر بڑی پھرتی سے درخت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور پکے پکے ناریل توڑ کر نیچے پھینکنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ بندر ملائی زبان کے بہت سے الفاظ بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ مثلاً درخت پر چڑھ جاؤ، فلاں ناریل کچا ہے اسے مت توڑو۔ اب نیچے آجاؤ۔ یہ سب ناریل اٹھا کر اس ٹوکرے میں بھر دو، اسے گھر چھوڑ آؤ۔ وغیرہ وغیرہ۔
پرانے زمانے میں کبوتروں کے ذریعے نامہ بری کا کام لیا جاتا تھا اور اب بھی دنیا کے بعض علاقوں میں قاصد کبوتروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ان قاصد کبوتروں کے ذریعے دور دراز کے جزیروں میں خفیہ پیغامات کامیابی سے بھیجے گئے تھے۔ امریکہ کے مشہور ہفت روز اخبار ‘‘ٹائم’’ میں ایک مرتبہ دلچسپ خبر چھپی تھی کہ فرانس کا ایک شخص پیرس سے ساٹھ میل دور اپنے ایک دوست کے پاس ایسے ہی کبوتروں کے ذریعے کرنسی نوٹ بھیجنا چاہتا تھا لیکن اتفاق سے کبوتر راستہ بھول گیا اور پرواز کرتے کرتے نیوزی لینڈ تک جا پہنچا۔ وہاں کسی شخص نے اس کبوتر کو پکڑا اور اس کے پروں کو دیکھا تو اس میں فرانس کے کرنسی نوٹ بندھے ہوئے تھے۔ ان نوٹوں کے اندر ایک تحریر بھی تھی جس میں لکھا تھا: ‘‘یہ حقیر سی رقم تمھاری ضروریات کے لیے ارسال کر رہا ہوں، یہ رقم تمھیں مل جائے، تو اسی کبوتر کے ذریعے وصولیابی کی رسید مجھے بھیج دینا۔’’