اصلاح و دعوت
ميں ہی كيوں؟
محمد صديق بخاری
آرتھر رابرٹ ايشے ٹینس کا وہ امریکی کھلاڑی تھا جس نے تین بار grand slam کا ٹائٹل جیتا- یوں وہ امریکہ کا ہمیشہ کے لیے مایہ ناز کھلاڑی قرار پایا- اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اگر ہر کھیل کے بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے تو آرتھر کا شمار دنیا کے پہلے 21 کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے- اس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیاسے بے شمار شہرت عزت اور دولت كمائی-
ایک سرجری کے دوران ميں اسے infected blood ملا جس سے وہ ایڈز کے مرض کا شکار ہو گیا اور کچھ دیر اس میں مبتلا رہ کر فروری 1993 میں 50 برس کی عمر میں موت کی آغوش ميں چلا گیا- اس کی بیماری کے زمانے میں اسے دنیا بھر سے محبت بھرے پیغامات پر مبنی ڈھیروں خطوط موصول ہوئے -ان میں سے ایک خط میں لکھا تھا کہ آخر اللہ نے اتنی موذی مرض کے لیے تمہارا ہی انتخاب کیوں کیا؟ آرتھر نے اس کے جواب میں لکھا ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال پانچ کروڑ بچے ٹینس کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں -پانچ کروڑ میں سے 50 لاکھ ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں- ان میں سے صرف پانچ لاکھ پروفیشنل ٹینس تک پہنچ پاتے ہیں اور ان پانچ لاکھ میں سے 50 ہزار ہی سرکٹ تک جا پاتے ہیں پھر صرف پانچ ہزار گرینڈ سلیم تک پہنچ پاتے ہیں اور ان پانچ ہزار میں سے بھی صرف 50 ومبليڈن تک پہنچتے ہیں پھر چار سیمی فائنل میں پہنچتے ہیں، دو فائنل میں اور جب میں فائنل جیت کر تن تنہا کپ اٹھائے ہوئے تھا تو میں نے خدا سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آخر اتنی بڑی کامیابی کے لیے آپ نے پانچ کروڑ لوگوں میں سے میرا انتخاب ہی کیوں کیا- اسی طرح جب کامیابی اور نعمت کے وقت میں نے اللہ سے یہ نہ پوچھا کہ آخر میں ہی کیوں ؟تو آج بیماری اور تکلیف میں بھی مجھے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ آخر اس بیماری کے لیے میں ہی کیوں؟
انسانی طبیعت کی یہ کمزوری ہے کہ وہ نعمت اور راحت کو تو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتا رہتا ہے مگر جب کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو پھر شکایت کرتا ہے کہ کیا اس مصیبت کے لیے وہی رہ گياتھا- عموماً انسانوں کی زندگی میں اچھے حالات کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے لیکن برے حالات کے وقت وہ اس دورانیے کو یکسر بھول جاتے ہیں اور برے حالات کا يہ تھوڑا سا وقت اچھے حالات کے زیادہ وقت كے ليے حجاب بن جاتا ہے اور يہ حجاب انسان كو شكر ِنعمت سے محروم كر ديتا ہے -
ایک دوست نے دوسرے سے کہا کہ جب اللہ لوگوں کو بنگلے اور گاڑیاں تقسیم کر رہا تھا تو میں کہاں تھا- دوسرا دوست اسے ہسپتال لے گیا اور اس سے کہا اب بتاؤ جب اللہ ان لوگوں میں بیماریاں اور تکلیفیں تقسیم کر رہا تھا تو تم کہاں تھے؟ یہ تمہارے حصے میں کیوں نہیں آئيں؟ جس طرح تکلیف میں ہم پوچھتے ہیں کہ میں ہی کیوں اس طرح اگر راحت میں بھی خیال کر لیا کریں کہ میں ہی کیوں تو انسان اس ناشکری سے بچ جائے گا جس کا وہ اکثر شکار ہوتا رہتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنا بندہ ہونا اور خدا کا خالق اور مالک ہونا بھول جاتا ہے تو اس کو اس طرح کی شکایت پیش آتی ہے -مالک کو اپنی مِلک پر پورا اختیار ہوتا ہے وہ اسے جیسے اور جس حال ميں بھی رکھے، مِلك کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ شکایت کرے- اللہ ہمارا مالک ہے اگر وہ اچھے حالات میں رکھے تو یہ اس کا احسان ہے ہمارا حق ہرگز نہیں- اگر وہ برے حالات میں رکھے تو یہ مالک کا حق ہے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ شکایت کریں- جس طرح اچھے حالات کو خوشی سے قبول کرنے میں ہم کوئی تامل نہیں کرتے اسی طرح برے حالات کو بھی تسلیم و رضا سے قبول کر کے ہمیں اس کا بندہ ہونے کا عملی اظہار کرنا چاہیے- یہی وہ پیغام ہے جسے آرتھر نے بہت خوبصورتی سے بیان کر دیا ہے اگرچہ قرآن و حدیث بھی اسی پیغام سے بھرے پڑے ہیں لیکن اچھی بات جہاں سے بھی ملے لے لینی چاہیے كہ میرے نبی ﷺکی تعلیم بھی يہی ہے-