حمد باری تعالی
افلاک پہ تاروں کے چمکتے ہیں طلسمات
اور رُو زمیں پر گُل و ریحان و نباتات
یہ حور پری دیو ملک اور یہ جنات
ہر شے میں ہیں یا رب تری قدرت کے نشانات
یہ عرش سے تا فرش نئے روپ نئے رنگ
حیوان عجوبہ ہیں تو انسان کرامات
یہ شاہد و مشہود یہ الفت یہ محبت
ہر وقت نئے جلوے ہر آن حجابات
جب آئی اجل کوئی بھی ٹھہرا نہ جہاں میں
قصوں میں ہی پھر رہ گئے سب حرف و حکایات
جب فضل و کرم ہوتا ہے معبودِ ازل کا
اٹھ جاتے ہیں پھر آنکھوں سے یہ طُرفہ حجابات
ہٹتے ہیں حجابات حقیقت کے جو رخ سے
تب لطف میں ڈھل جاتے ہیں آفات و بلایات
ذرات میں آتا ہے نظر مہر درخشاں
یا مہر درخشاں میں نظر آتے ہیں ذرات
اس عمرِ دو روزہ میں اگر ہو سکے اے دوست
تسخیر کریں آؤ یہی ارض و سماوات
کیا حمد ہو اس کی جو محمد کا خدا ہے
مدحت کا خلاصہ ہے یہ سو باتوں کی اک بات
سمجھا نہ ضمیر اس کو کوئی دہر میں لیکن
آتی ہیں نظر نورِ محمد میں علامات
ضمیر اختر نقوی