آواز دوست
اليكشن 2024، عوامی رويے پہ تحقيق كی ضرورت
محمد صديق بخاری
آٹھ فرور ی 2024 كے اليكشن كاتجزيہ ہمارے دانشوروں اور ميڈيا كے ہاں عموماً سياسی پارٹيوں كی ہارجيت كے گرد گھوم رہا ہے ليكن ميرے خيال ميں يہ ہار اور جيت ايك ضمنی بات ہے – اصل چيز جس كی طرف توجہ كی ضرورت ہے وہ اس اليكشن كے دوران ميں عوام كا رويہ اور عمل ہے اور يہی وہ رويہ اور عمل ہے جو سنجيدہ مطالعے كا متقاضی ہے- عوام ڈھيروں كے حساب سے اُس پارٹی كی حمايت ميں باہر نكلے اور اُ سی كو سيٹوں كی اكثريت عطا كی جس كی كاركردگی ہميشہ سے صفر ہے اور آئندہ بھی صفر رہنے كے واضح امكانات ہيں -وہ جماعت جو " كے پی كے" ميں پندرہ برس اور وفاق ميں ساڑھے تين برس تك بلا شركت غيرے حكومت كی مالك رہی ،مگر نہ تو" كے پی كے "ميں اور نہ ہی مركز ميں كوئی كاركردگی دكھا سكی – اسی ليے ہر صاحب عقل يہ سوچنے پہ مجبور ہے كہ آخر عوام كے ہاں ان كی مقبوليت كی وجہ كيا بنی- اس ليے ضرورت اس امر كی ہے كہ ماہرين نفسيات اسے باقاعدہ ايك موضوع بنا كر تحقيق كريں تا كہ يہ راز معلوم ہو سكے كہ پاكستانی عوام كس چيز سے متاثر ہوتے ہيں اور ان كی رائے كو كس طرح تبديل كيا جا سكتا ہے –
اليكشن كے نتائج كو سامنے ركھيں تو يہ كہنا بے جا نہ ہوگا كہ يہ امر تو بڑی حد تك طے ہو گيا ہےكہ زمينی حقائق اور حقيقی كاركردگی اس قوم كے نزديك كوئی حيثيت نہيں ركھتی – يہ كچھ اور ہی فيكٹر ہيں جن سے يہ قوم متاثر ہوتی ہے اور اس كی رائے تشكيل پاتی ہے –
ميرے خيال ميں ان ميں سے پہلا فيكٹر ہماری حد سے بڑھی ہوئی جذباتيت ہے – ہم دماغ كے بجائے جذبا ت سے سوچتے ، جذبات سے ديكھتے، جذباتی بات سنتے اور جذبات كے زير اثرہی فيصلے كرتے ہيں – سنجيدہ تجزيے ،تحقيق اور دور انديشی سے ہم دور بھاگتے ہيں -ظواہر كوكافی سمجھتے ہوئے انہيں كی "پوجا" كرتے رہتے ہيں-ہم چيزوں كا گہرائی سے جائزہ لينے كے عادی نہيں- جس پہ دل آجائے اس كی ہر برائی بھی ہمارے ليے نيكی بن جاتی ہے اور جس پہ دل نہ آئے اس كی ہر خوبی بھی برائی كے كھاتے ميں ڈال كر فارغ ہو جاتے ہيں پی ٹی آئی نے عوام كی اس رمز كو پا ليا ہے اس ليے انہوں نے صرف اور صرف جذبات کی سیاست کی ہے اور وہ بھی منفی اور نفرت كے جذبات كی سیاست۔ اس جماعت نے سیاست دانوں کو سیاہ اور سفید میں تقسیم کركے خود كو سفيد اور باقی سب كو سياہ قرار دے ديا اور برسہا برس كی تكرار سے عوام كو باور كر ا ديا كہ ہم كچھ كريں يانہ كريں نجات دہندہ ہم ہی ہيں-
بغير كسی كاركردگی كے عوام كے جذبات سے كس طرح كھيلا جاتا ہے یہ انتخابات اس بات کا مکمل مظہرہیں۔ ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے فیصلہ کسی کو نیچا دکھانے کے جذبے سے کیا ہے۔ کیا یہ انتخابی نتائج تعمیر وطن کے حق میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بالكل بھی نہیں ۔
دوسرا فيكٹر پراپيگنڈہ اور جھوٹ كی طاقت ہے – خاں صاحب نے كمال مہارت اور استقامت سے جھوٹ كے دامن كو تھام كے ركھا- بغیر کسی معاشی ترقی ،صنعتی پروجیکٹ يا انفرا سٹركچر كے، ملکی قرضوں كو دگنا چوگنا كر كے ، تنخواہوں میں اضافہ نہ کركے ، اربوں كہہ كر ايك بھی درخت نہ لگاكے ، ايك كروڑ كہہ كر ايك بھی ملازمت نہ دينے ، ملک کو ڈیفالٹ كے دہانے پر پہنچانے ، اور مقدس الفاظ كی بے حرمتی كرنے كے باوجود وہ نوجوانوں کو محض پراپیگنڈے ، گالی گلوچ ، ناچ گانے ، بد تہذيبی اور بدتميزی کے زیراثر اپنے ساتھ ملائے کھڑے ہيں- اور مزيد ستم يہ كہ نوجوان پراپيگنڈے كے زير اثر يہ بھی سمجھنے لگے ہيں كہ اسی بد تميزی كو شايد سياسی شعور كہتے ہيں -
تيسرا فيكٹر افواج پاكستان كا سياست ميں پر اسرار كردار ہے-يہ کردار جس رفتار سے بڑھا عوام میں افواج کی قبولیت اسی رفتار سے کم ہوتی چلی گئی ہے، اور اب قومی زوال کی سب سے بڑی وجہ اسے ہی سمجھا جانے لگا ہے۔ ان عوامی جذبات كو بھی خان صاحب نے كيش كروايا اور باوجود اس كے كہ وہ خود جرنيلوں كے خوشہ چيں رہے اور انہی كے سر پر دھرنے دينے اور حكومت بنانے ميں كامياب ہوئے ليكن جب بات نہ بن سكی تو يہاں بھی اپنی ثقہ منافقت كو بروئے كار لاتے ہوئے عوامی جذبات كی جانب جا كھڑے ہوئے –جرنيلوں كے حوالے سے ہی انہوں نے ملكی سالميت پر بھی سب سے خوفناك وار كيايعنی جرنيلوں كو دو حصوں ميں تقسيم كر كے ان كولڑانے كی سازش كی – وہ تو اللہ نے اپنے فضل سے بچا ليا ورنہ يہ ملك سوڈان بن چكا ہوتا-ملكی سالميت كے حوالے سے خاں صاحب غير ملكی اداروں او رملكوں كو بھی مداخلت كی دعوت دينے سے نہيں چوكتے – حال ہی ميں انہوں نے آئی ايم ايف كو خط لكھ مارا كہ پاكستان كو قرض نہ ديا جائے اسی طرح اُسی امريكہ كو بار بار كہہ رہے ہيں كہ پاكستان ميں مداخلت كی جائے كہ جس امريكہ كا نام استعمال كركے عوام كی جھوٹی غيرت كو بيدا ركر كے اسے اپنے حق ميں كاميابی سے استعمال كيا- ماضی ميں وہ دھرنے دے كر ان غير ملكی وفود كے دوروں كو ناكام كرنے ميں بھی اپنا ثانی نہيں ركھتے تھے كہ جن كے بارے ميں يہ امكان ہوتا تھا كہ وہ پاكستان كے ساتھ كچھ تجارتی يا صنعتی معاہدے كرليں گے-ملكی معيشت اور سالميت كے ليے واضح خطرہ كھڑا كرنے والی شخصيت كے پيچھے چلنا ايك ايسا فيكٹر ہے جس پر مطالعہ كی ضرورت ہے -
چوتھا فيكٹر خان صاحب كا نرگسيت زدہ ہونا ہے جس نے ان كی پارٹی اور كاركنوں كو بھی ايسا ہی كر ديا ہے -خاں صاحب سمجھتے ہيں كہ پاكستان كا مطلب عمران خان ہے-وہ اگر اقتدار ميں ہيں تو پاكستان كوقائم رہنا چاہيے اور اگر وہ نہيں تو پاكستان كی بھی ضرورت نہيں – اس كے ليے وہ بيرونی طاقتوں اور اداروں كو پاكستان ميں مداخلت كی كھلم كھلا دعوت ديتے رہتے ہيں- اس حد تك نرگسيت زدہ شخص كوباقاعدہ نفسياتی علاج كی ضرورت ہے –ليكن عوام اس طرح كے مريضوں سے آخر كيوں متاثر ہو تے ہيں –اس پہ بھی تحقيق كی ضرورت ہے -
پانچواں فيكٹر الفاظ كو نيا مفہوم عطا كرنا ہے – جس طرح انہوں نے اياك نعبد واياك نستعين ، رياست مدينہ ، صادق اور امين جيسے مقدس الفاظ كو نيا مفہوم عطا كيا يعنی ان الفاظ كا مصداق اس دور ميں ان كو قرار ديا جو ان الفاظ كے تاريخی مفہوم كے برعكس بلكہ غليظ كردار كے حامل تھے –اسی طرح انہوں نے اليكشن كے لفظ كو بھی نيا مفہوم عطا كيا-
ان كی پارٹی اور كاركن اب يہ سمجھتے ہيں كہ اليكشن كا مطلب صرف جيتنا ہوتا ہے -جس اليكشن ميں وہ اور ان كی پارٹی جيت جائے وہ اليكشن ہوتا ہے باقی سب فراڈ – پہلے ايك سياسی پارٹی كا مقابلہ دوسری سياسی پارٹی سے ہوتا تھا اور دونوں ايك دوسرے كے حريف ہوتے تھے ليكن خاں صاحب نے عوام كو سياسی پارٹيوں كے ساتھ ساتھ رياست كے مقابلے ميں بھی كھڑا كر ديا ہے اور اس پہ بجائے نادم ہونے كے خوش ہوتے ہيں-
يہ نفسياتی كايا پلٹ بھی يقيناً اس قابل ہے كہ اس كو باقاعدہ تحقيق كا موضوع بنايا جائے –كيا يہ واقعی اچنبھے كی بات نہيں كہ صديوں سے جو قوم يہ سمجھتی آئی ہو كہ صادق اور امين كے الفاظ نبی محترم ﷺ سے خاص ہيں اب ان كو اٹھا كر غليظ لوگوں پر منطبق كر ديا جائے اور يہ قوم خاموش رہے يا يہ كہ اياك نعبد و اياك نستعين پڑ ھ كر ڈانس گانا شروع كر ديا جائے اور يہ قوم خاموش رہے – اس قوم كے اندر يہ معكوس تبديلی كيا تحقيق كی محتاج نہيں؟
قصہ مختصر، ہمارے خيال ميں پاكستانی قوم كومتاثر كرنے اوران كی رائے كو اپنے حق ميں ہموار كرنے كے ليے جذباتيت كو مہميز دينا اور جھوٹے پراپيگنڈے پہ استقامت بنيادی عوامل ہيں جبكہ اس كے معاون و مددگار نرگسيت كی ترويج ، جرنيلوں كے خلاف منافقانہ آوازبلند كرنا، اور الفاظ كو نئے معانی و مفہوم پہنانا ہے-يہ اس تحقيق كا ہلكا سا خاكہ ہے جس كے بارے ميں ہم چاہتے ہيں كہ ماہرين نفسيات اس كو باقاعدہ موضوع بناكر آگے بڑھائيں – اگر واقعتاً ماہرين اس طرف قدم بڑھاسكے تو ہميں پورا يقين ہے كہ ان كے نتائج تحقيق كی صورت ميں ہمارے سامنے بہت سی ايسی باتيں آئيں گی كہ جن كا شايد ہم تصور بھی نہ كر سكيں-