آواز دوست
مسلمان سوسائٹی کے غیر محسوس فائدے
محمد صديق بخاری
پچھلے تیس برس سے وہ جرمنی کے شہر فرینفکرٹ میں مقیم ہے۔اگرچہ اپنی ذاتی زندگی میں وہ ایک اچھاخاصا باعمل مسلمان ہے مگر غیر مسلم سوسائٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات بہت مغموم ہو جاتا ہے لیکن معاشی مشکلا ت کی زنجیریں پھر بھی اسے اُس سوسائٹی کا حصہ بنے رہنے پر مجبور کیے رکھتی ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ یہاں کے ماحول میں برسوں ہم اذان کی آواز نہیں سن پاتے اور جب کبھی پاکستان میں یہ آوازسننی نصیب ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہت بڑاخزانہ مل گیا ہو ۔کہنے لگا کہ ایک بار میرا ترک ہمسایہ جو مسلمان ہے ،اذان کی آواز کو اتنا ترس گیا کہ اس نے مجھے تجویز دی کہ تم فجر کے وقت برفباری کے دوران کھڑکی سے باہر سر نکال کر اذان دیا کرو ،میں سنا کروں گا۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو یہ نہ کر سکا لیکن وہ ترک منہ اندھیرے سخت سردی میں یہ عمل کرنے لگا اور میں اُسے سنتا تو ایسا لگتا کہ جیسے یہ آواز جنت سے آرہی ہو۔
وہ تلاش روزگا رمیں افریقہ کے دورافتادہ ملک میں مقیم ہے ۔اسے وہاں حلا ل گوشت کے حصول کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے لیکن پھر بھی معاملہ مشکوک ہی رہتا ہے ۔ ایک بار ہوٹل میں ’’حلال ‘‘ گوشت کھانا نصیب ہوا لیکن بعد میں معلوم ہو اکہ وہ جسے ’’حلال‘‘ سمجھ کے کھا رہا تھا ،وہ اصل میں مینڈک تھا۔
یو۔کے میں اگرچہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے مگر بہر حال وہاں بھی سوسائٹی یعنی معاشرہ مسلم نہیں ہے اس لیے وہاں بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔ وہ بتاتا ہے کہ اسے تراویح پڑھنے کے لیے روزانہ ڈیڑھ گھنٹہ کی ڈرائیو کر کے جانا پڑتا تھا اور باقی پانچ نمازوں کاباجماعت نصیب ہونا تو ممکن ہی نہ تھاکیونکہ دن میں پانچ بار کہاں اتنا ٹائم ہوتا ہے کہ مسجد تک کا سفر کیا جائے ۔
وہ امریکہ کے جس فلیٹ میں رہتا ہے اس کے تین کمر ے ہیں جبکہ کچن مشرکہ ہے ۔ ہر کمرے میں دو تین غیر مسلم مقیم ہیں جبکہ یہ ایک ہی مسلم ہے ۔ وہ کہتاہے کہ وہ لوگ کچن میں خنزير پکاتے ہیں جس کی بدبو سے دماغ خراب ہو جاتا ہے او ر بعض اوقات تو وہ بھی انہی برتنوں کو دھو کر پکانے پر مجبو ر ہوتا ہے کہ جس میں تھوڑ ی دیر قبل سور پکایا گیا ہوتا ہے ۔
میں نے اسے پوچھاکہ تم کوریا سے کیوں واپس آ گئے تو اس نے کہا کہ اگرچہ وہاں معقول آمدن ہو رہی تھی لیکن وہاں پورے شہر میں کتوں کے پکنے کی بو پھیلی رہتی ہے ۔ اس نے کہاکہ خاص طو رپر جب آپ ناشتے کے وقت شہر کا دورہ کریں تواس ’’بھینی بھینی ‘‘ خوشبو سے آپ اور بھی زیادہ’’ لطف اندوز‘‘ ہو سکتے ہیں۔ نماز کے لیے مسجد اور اذان کا تو سوال ہی کیا ،اس طرح کے معاملات ہی طبیعت کو بوجھل بنائے رکھتے ہیں۔
وہ ابو ظبی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے ، وہ انڈین مسلمان ہے لیکن اس کے پاس کینڈین پاسپورٹ ہے ۔ میں نے اسے کہا کہ تم کینیڈا میں کیوں نہیں رہتے اس نے کہاکہ اس نے وہاں رہ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر آپ وہاں مستقل رہ گئے تو آپ کی موجودہ نسل نہ سہی اس کے بعد آنے والی دوسری یا تیسری نسل ضرور غیر مسلم ہو جائے گی ۔ اس لیے اس نے کہا پاسپورٹ لے کر میں یہاں آگیا ہو ں اور بچوں کو اسی ماحول میں پروان چڑھاؤں گا کیونکہ یہ مسلم سوسائٹی ہے ۔
حقیقت یہی ہے مسلمان معاشرے میں رہنے سے بعض فائدے خو د بخود ہی حاصل ہو جاتے ہیں لیکن اس معاشرے میں رہنے والوں کو اس کاا حساس تک نہیں ہوتا کہ انہیں کتنی نعمتیں ہوا، پانی او رروشنی کی طرح مفت مل رہی ہیں ۔ اس کا احساس تب ہی ہوتاہے کہ جب ایک زندہ روح رکھنے والامسلمان ایک غیر مسلم سوسائٹی میں پھنس کر رہ جائے ۔مسلم سوسائٹی میں پلنے والے بچے مسجد ، قرآن ، نماز ، جمعہ ، قبرستان ، جنازہ او ردیگر بہت سی مسلم رسومات ، تہواراور آداب سے خود بخود ہی واقف ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے و الدین کو خاص تردد نہیں کرنا پڑتا جبکہ غیر مسلم سوسائٹی میں تو بچوںکو قرآن پڑھانے یاباجماعت نماز یا جمعہ پڑھانے کے لیے بھی پوری محنت کرنا پڑتی ہے حتیٰ کہ بعض کو صرف عید کی نماز ہی نصیب ہوتی ہے اور بعض کو وہ بھی نہیں۔
مسلم سوسائٹی میں اور نہ سہی کم ازکم انسان ایک کلچرل مسلما ن تو رہتا ہی ہے اور اتنا اسلام بھی آئندہ نسلوں کے ایمان کو بچائے رکھنے میں بڑامعاون ہوتا ہے ۔ جس طرح وطن عزیز کی ایک معروف علمی شخصیت نے ایک نجی محفل میں کہا کہ اس کا ا سلام سے کوئی تعلق نہیں ، چونکہ وہ ایک مسلم سوسائٹی میں رہ رہا ہے اس لیے وہ مجبوراًمسلما ن کہلاتا ہے اس نے کہا اسے اصلی مسلمان کے بجائے ایک کلچرل مسلمان سمجھا جائے۔
میں بھی دیا رغیر (ابو ظبی (میں ہوں لیکن چونکہ یہ ایک مسلم سوسائٹی ہے اس لیے باوجود نام نہاد ماڈرن ازم کی تما م قباحتوں کے یہاں آپ کو مسلمان بن کر جینے کے تمام مواقع اور سہولتیں وافر اور بسہولت ہر جگہ اور ہر وقت میسر ہیں۔ کوئی خود ہی فائدہ نہ اٹھانا چاہے تو الگ بات ہے ۔ اس لیے ہر ُاس مسلمان کے لیے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے اور آئندہ نسلیں بھی مسلمان ہی رہیں، میرا مشورہ ہے کہ اگر وہ باہر جانے کا سوچ رہا ہے تو اسے کسی مسلمان معاشر ے کا انتخاب کرنا چاہیے ورنہ وہ خواہ مخواہ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کو خطرے میں ڈال دے گا اگر چہ اب یہ خطرہ پاکستان اور دیگر مسلما ن ممالک میں بھی پوری طرح موجود ہے اور مسلمان نما انسان ہر وقت آپ کے درپے رہتے ہیں مگر بہر حال مسلم سوسائٹی میں آپ کو مسلم سہولتیں بھی پوری طرح حاصل ہوتی ہیں اور بعض فائدے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں آپ وہاں رہتے ہوئے محسوس ہی نہیں کر پاتے لیکن جوں ہی وہاں سے نکلیں گے تو اگر آپ کی روح زندہ ہوئی تو فوراً آپ کو ایک تشنگی او رپیا س کا احساس ہونا شروع ہو جائے گا۔