حمد رب جليل
تو خدا ہے خدا ، تو کہاں ، میں کہاں
میں ہوں بندہ ترا ، تو کہاں ، میں کہاں
تو ہی معبود ہے ، تو ہی مسجود ہے
میں ہوں وقفِ ثنا ، تو کہاں ، میں کہاں
نور ہی نور ہے ذاتِ باری تری
خاک سے میں بنا ، تو کہاں ، میں کہاں
کیا حقیقت مری ، میں فنا ہی فنا
تو بقا ہی بقا ، تو کہاں ، میں کہاں
خالق و خلق کے بیچ موجود ہے
اک بڑا فاصلہ ، تو کہاں ، میں کہاں
تیرے اوصاف کا کب احاطہ ہوا
تو گماں سے سوا ، تو کہاں ، میں کہاں
تیرے اسرارِ پنہاں سمجھنے سے ہے
ذہن عاجز مرا ، تو کہاں ، میں کہاں
تو مخاطب ہے شام و سحر اور میں
بے زباں ، بے نوا ، تو کہاں ، میں کہاں
میری اوقات کیا ، ہے نبی بھی مرا
نام لیوا ترا ، تو کہاں ، میں کہاں
کیا ملائک ترے ، کیا فراغِؔ حزیں
سب کی ہے یہ صدا ، تو کہاں ، میں کہاں