آواز دوست
یوم آزادی اور وطن سے پیار
محمد صديق بخاري
جسے سنو یہی گلہ،وطن نے مجھ کو کیا دیا، وطن نے تجھ کو کیا دیا
کوئی نہیں جو یہ کہے، وطن کو میں نے کیا دیا، وطن کو تو نے کیا دیا
ایک عرب ملک میں ٹیکسی پاکستانی سفارت خانے کی طرف جارہی تھی۔جوںہی ٹیکسی اس ایریا میں داخل ہوئی جس میں بہت سے ملکوں کے سفارت خانے ہیں اور ہر عمارت پر متعلقہ ملک کاجھنڈا لہر ار ہاہے، تو ایک مقام پر ڈرائیور نے یکدم ٹیکسی رو ک دی اور پاکستانی سفارت خانے کی عمارت پر لہراتے ہوئے پاکستانی پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسافر سے کہنے لگا، وہ دیکھو، پاکستانی جھنڈا کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ وہ بڑے جذبے سے کہہ رہاتھا، کسی ملک کا جھنڈا اتنا خوبصورت نہیں جتنا ہمار اہے، دیکھو کیسے وقار سے لہرا رہاہے۔ مسافر آنکھوں میں نمی لیے اس پاکستانی ڈرائیور کے جذبے کو سلام کر رہاتھا اور اس کا دل دعا کر رہاتھا کہ یا رب اس پرچم کو تا بہ ابد یوں ہی لہرائے رکھنا۔
ایک انٹر نیشنل سکول میں بچوں کی تقریب تھی اور ہر ملک کے بچے اپنے مقامی لباس میں مارچ کرتے ہوئے اپنی ثقافت پیش کر رہے تھے۔ جوں ہی پاکستانی بچوں کا گروپ اس کے سامنے سے گزرا تو وہ بے اختیاررونے پر مجبور ہو گیا۔ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ اسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے جبکہ اسے وطن کے گلی کوچے یا دآرہے تھے۔
وطن عزیز کا ایک بڑاعالم دین اور دانشور حالات کی ستم ظریفی سے پردیس میں رہنے پر مجبور ہو گیا۔وہاں علامہ اقبال کے حوالے سے ایک تقریب میں اسے مدعو کیا گیا۔ تقریب میں جب پاکستانی ترانہ پڑھا گیا تو یہ دانشور باوجود اپنی تمام تر وجاہت، وقار اور سنجیدگی کے رونے لگ گیا۔
درج بالا احساسات کا تجربہ کم وبیش ہر اس پاکستانی کو ہوتا ہے جو معاشی، تعلیمی یا سیاسی حالات کی وجہ سے پردیس میں رہنے پر مجبور ہوتاہے۔پردیس میں رہتے ہوئے اس کا صحیح ادراک ہوتا ہے کہ ’’اپنا‘‘ دیس جیسا بھی ہو ’’اپنا‘‘ ہوتا ہے۔ اس’’اپنے پن‘‘ کی آزادی کا مقابلہ دنیا کی کوئی بھی نعمت نہیں کرسکتی۔لیکن اس کا احساس تب ہی ہوتا ہے جب یہ نعمت چھن جاتی ہے یا اپنے سے دور ہو جاتی ہے۔
ایک صاحب علم شخص نے کہا کہ جب تک وہ حیدرآباد (سندھ) میں تعینات تھا تو وطن گریز قوتوں کی حمایت میں بولا کرتا تھالیکن جب سے وہ پردیس آیا ہے تو اپنے خیالات پر نظر ثانی کر نے پرمجبور ہو گیا ہے اور بقول اس کے،اس تبدیلی کی بڑی وجہ انڈین مسلمانوں کی علمی و عملی، فکری اور نفسیاتی صورت حال ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو دیکھ کر میں ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتارہتاہوں اور ان لوگوں کے لیے دعاکیاکرتاہوں جنہوںنے اس خطہ ارضی کو حاصل کر نے کے لیے اپنا تن من دھن سب قربان کردیا۔ بیج اُنہوں نے بویا، محنت انہوں نے کی جب کہ پھل ہم کھا رہے ہیں۔ اور پھل کھانے کے باوجود بھی ہم نا شکرے ہیں۔تف ہے ہم پر! اب یہ صاحب علم پاکستان اور پاکستانیت کی حمایت میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ایک بار جب ایک پڑھے لکھے صاحب نے کہا کہ وہ تو پاکستان میں رقم بھیجتے ہوئے ہنڈی کو ترجیح دیتے ہیں اور بنک کے ذریعے اس لیے نہیں بھجواتے کہ یہ رقم بقول ان کے، ہمارے کرپشن زدہ حکمران طبقے کی نذر ہو جاتی ہے تو ہمارے یہ حیدر آبادی صاحب علم اس کو برداشت نہ کر سکے اور ان صاحب سے اس وقت تک ٹھوس دلائل سے مسلح ہو کر بحث میں مصروف رہے جب تک وہ ان کی رائے کے قائل نہ ہو گئے۔
اس دنیا میں ایمان و عمل اور صحت و سلامتی کے بعد سب سے بڑی نعمت اپنے وطن کا ہونا ہے اور اس کی صحیح اہمیت اور قدر وہی لوگ بتا سکتے ہیں جن کا اپنا وطن نہیں مثلاً فلسطینی۔راقم کا ایک فلسطینی کولیگ پچھلے دس سال سے اپنے وطن نہیں جا سکا کیونکہ جب بھی وہ جانے کی کوشش کرتا ہے یا تو مصری حکومت سرحد بند کر دیتی ہے اور یا پھرغزہ میں حالات خراب ہو جاتے ہیں۔
وطن کی محبت ایسی فطری محبت ہے کہ اللہ کے رسول بھی اس سے مبرا نہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کے وقت مکہ سے باہر تشریف لائے تو مکے پہ الوداعی نظر ڈالتے ہوئے فرمانے لگے جس کا مفہو م کم وبیش یہ ہے کہ اے مکہ تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن کیا کروں تیرے باسی مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔وطن چھوڑتے ہوئے جو تکلیف ہوتی ہے وہ اس تکلیف سے کم نہیں جو اپنے والدین، بیوی بچوں یا بہن بھائیوں کو چھوڑتے ہوئے ہوتی ہے۔ اور وطن واپسی پرباوجود اس کے کہ ائیر پورٹ پر موجود مختلف محکموں کے انسان نما بھیڑیوں کا خوف لاحق ہوتا ہے پھر بھی جب جہاز لینڈ کرتا ہے توخوشی اور سکون کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ خصوصا ً پی آئی اے کے طیاروں میںلینڈ کرتے ہوئے جب’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ کی دھن بجائی جاتی ہے تو اس وقت ہرصاحبِ دل پاکستانی پر جوکیفیت گزرتی ہے وہ بیان سے باہرہے۔صرف وہی اس کیفیت سے محروم رہتا ہے جس کی فطرت ہی مسخ ہو چکی ہو۔
اگرچہ کرپشن، بد دیانتی، ظلم و ستم، ناانصافی، جھوٹ، غبن، فراڈ، دھوکہ،رشوت، بدمعاشی، سینہ زوری، چور بازاری،ملاوٹ، لا قانونیت، عدم برداشت اور اقربا پروری جیسی بیماریا ں ہمارے وطن میں اوپر سے لے کر نیچے تک پھیل چکی ہیں مگر پھر بھی اپنا، اپنا ہے۔ ہماری ساری عزتیں، سارے وقار، سارے مان اور سارے بھرم اسی ارض سے وابستہ ہیں اور ہم چاہیں بھی تو اسے تبدیل نہیںکر سکتے۔ اللہ جس خاندان اور جس دھرتی پہ انسان کو پیدا کرتا ہے اس کی تقدیر اسی سے وابستہ ہوتی ہے۔ اپنے خاندان اور اپنی دھرتی کو چھوڑ کر انسان بغیر جڑوںکا درخت بن جاتا ہے اور جس درخت کی جڑیں زمین میں نہ ہوں،اس کی بربادی لازم ہے۔ شاخ بریدہ بہار کی امید رکھے تو یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
ایک پردیسی کہنے لگے یہ کیا تم نے ہر وقت پاکستا ن پاکستان لگا رکھا ہے۔مجھے نہیں ضرورت پاکستان کی، مجھے بس یہیں رہنا ہے۔راقم نے کہا، نہ صرف تمہیں بلکہ تمہاری آنے والی ساری نسلوں کوبھی پاکستان کی ضرور ت ہے۔ تمہیں پاکستان کی ضرورت نہیں، تو اپنا یہ پاسپورٹ پھینک دو، پھر میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں یہاں کون رہنے دیتا ہے۔ تمہیں اس ملک سے ایسے باہر نکال دیا جائے گا جیسے مکھن سے مر ی ہوئی مکھی۔تم یہاں اس گرین پاسپورٹ ہی کی صدقے رہ رہے ہو۔تمہاری جو بھی عزت ہے اسی وجہ سے ہے۔تم نے غلامی یا غلامانہ نسلیں نہ دیکھی ہیں نہ پڑھی ہیں اگر اس کا ذرہ بھی دیکھا یا پڑھاہوتا تو تمہاری زبان پہ یہ الفاظ ہر گز نہ آتے۔اگر ہمارے حکمران کرپشن زدہ یا بدنام ہیں تو اس میں سرزمین پاکستان کا کیا قصور ہے؟ وہ تو ہماری ہے اور ہماری رہے گی اس لیے بہتر ی اسی میں ہے کہ ہم اسے حقیقت کو تسلیم کریں اور اسے تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے عزت و عظمت کی راہیں تلاش کریں۔
آبشاروں، جھیلوں،بل کھاتے دریائوں، سرسبز کوہساروں،مبہوت کر دینے والے قدرتی نظاروں، معدنیات سے مالا مال میدانوںاور پہاڑوں، لہلہاتی فصلوں، اور زرخیز ذہنوں سے مالا مال وطن کی ستم ظریفی اورالمیہ یہ ہے کہ یہاں ہر بات کی محنت کی گئی، نہیں کی گئی تو دو باتوں کی محنت نہیں کی گئی۔ایک خود کو اور اپنی نسلوں کو اچھا انسان بنانے کی محنت اور دوسرے خود کو اور اپنی نسلوں کو پاکستانی بنانے کی محنت۔ اس ملک کے دکھوں کا علاج یہی ہے کہ ہم وطن کو بہت سے چھوٹے چھوٹے صوبوں میں تقسیم کر کے نئی نسلوں کے ذہن میں پاکستانیت پیدا کرنے کی کوشش کریں تو پھر ہو سکتا ہے کہ آنے والی کسی دہائی میں ہماری قسمت بدل جائے۔چلیے ہم نہ سہی ہماری نسلیںہی ایک باوقار، با عزت پاکستا ن دیکھنے کے قابل ہو جائیں گی جو نہ صرف کرپشن زدہ طبقات او رخود غرض حکمرانوں سے آزاد ہو گا بلکہ وہاں سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی یا لوگوں کی بھیڑ اور ہجوم نہیں ہو گا بلکہ صرف اور صرف انسان ہو ں گے اورانسان بھی وہ جو پاکستانی ہو ں گے۔ لیکن وہ دن تب آئے گا جب ہم اس طرف سفر شروع کریں گے ابھی تو ہماراسفر الٹے رخ جا رہا ہے اسی لیے ہر آنے والا دن ہمیں منزل سے دور کرتا جا رہا ہے۔اس یوم آزادی پر ہمیں اس بات کا ادراک کر لینا چاہیے کہ کوئی کرے نہ کرے، کوئی کہے نہ کہے، کوئی سنے نہ سنے بہر حال ہمیں تو پاکستان کی بات کرنی ہے۔ اکیلے ہیں تو کیا ہوا؟ ایک سے ہی گیارہ بنا کرتے ہیں۔کیوں نہ ہم وہ پہلے ایک بن جائیں جس سے بعد میں گیارہ، ایک سو گیارہ اور ایک ہزار ایک سوگیارہ۔۔۔۔۔بنیں گے۔شمع سے شمع جلائیے۔روشنی شمع جلانے سے ہوتی ہے نہ کہ اندھیرے پہ کوڑے برسانے سے۔