شیشم اور پانچ نسلیں
اس مختصر سی زندگی میں آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں۔کتنے ہی منظر ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتے ہیں اورلمحوں کی انگلی تھامے انسان کے سامنے کتنے ہی زمانے ہیں جو گزر جاتے ہیں۔انسانوں کی اکثریت کو تو اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا ہاں البتہ بعض خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو ان زمانوں کو کھلی آنکھوں سے نہ صرف چلتا دیکھتے ہیں بلکہ خو دبھی ان سے گزرتے ہیں ۔انہیں میں سے میرا ایک دوست بھی ہے جس کا آبائی گھر لاہور سے دورایک قصبے میں ہے ۔وہ کہتا ہے کہ یہ آبائی گھر اس کے والد صاحب نے اس وقت بنوایاتھا جب کہ وہ کالج میں ایڈمشن کے لیے لاہور آ چکا تھا۔وہ جب کبھی گھر جاتا تو والد صاحب کو گھر کے سامنے شیشم کے درخت کے نیچے منتظر پاتا ۔اپنی عمر کے آخری برسوں میں ان کا اکثر وقت اسی درخت کے سائے میں گزرتا تھا۔ آنے جانے والے انہیں سلام کہتے رہتے اور وہ آنے جانے والوں کا حال چال پوچھتے رہتے ۔ یہ شیشم کا درخت آج بھی وہیں کھڑا ہے لیکن کتنے ہی حال چال پوچھنے والے اور بتانے والے اس کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ جب دوست کے والد صاحب نوے برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہو ئے تو کتنے ہی دن یہ درخت بہت اداس رہا کہ اب اس کے سائے میں بیٹھنا والا کوئی بزرگ موجود نہ تھا لیکن جلد ہی اس کی اداسی دور ہو گئی کیونکہ اس کے سائے میں رکھی چارپائی کو ایک نیا مکین مل گیاتھا ۔یہ میرے دوست کے سب سے بڑے بھائی تھے۔ وہ ملتان جاب کیا کرتے تھے لیکن جب ریٹائر ہو کر اپنے گھر سدھارے توان کا مسکن بھی اسی درخت کا سایہ قرار پایا۔اب اس درخت کی دنیا ان کے دم سے آباد اور اس گھر کی رونق ان کی آواز قرار پائی ۔وہ بہت ہی متحر ک انسان تھے ۔ ایک پاؤں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا لیکن پھر بھی وہ کسی نہ کسی طرح اسے اپنے ساتھ لئے پھرتے۔ جب چلنے سے عاجز آ جاتے تو سائیکل پہ سارا شہر گھوم آتے لیکن جہاں بھی جاتے’ واپس لوٹتے تو چارپائی اور شجر کو اپنامنتظر پاتے ۔دن مہینے اور مہینے سال بن کر گزرنے لگے ۔جب یہ درخت ان سے بہت زیادہ مانوس ہو گیا تو ان کا بلاوا بھی آن پہنچا اور شیشم کو ایک بار پھرانہیں الوداع کہنا پڑا۔ شیشم کا خیال تھا کہ شاید ا ب جانے والے کا بیٹا ان کی جگہ لے لے گا لیکن اس کا یہ خیال سچ ثابت نہ ہوا ۔ یہ بیٹا شیشم کا خیال تو رکھتا ’ اسے پانی دیتا ’ اس کے پتے صاف کرتا ’ خشک ٹہنیوں سے اس کی جان چھڑاتا اور کبھی کبھا ر شام کو اس کے نیچے بچھی کرسی پہ بیٹھ بھی جاتا لیکن اس کے پاس اُس طرح کا وقت نہ تھا جس طرح کہ پہلے دو بزرگوں کے پاس تھا۔اسے اپنی جاب پہ بھی جانا تھا’ بچوں کو بھی وقت دینا تھا اور گھر کے دیگر کام کاج بھی کرنے تھے ۔شیشم بھی اس کی بھاگ دوڑ دیکھ کر ساری بات سمجھ گیا تھا اور اس بات پہ خوش بھی تھا کہ کم از کم گھر کے موجود ہ مالک کے بچے تواس کے نیچے کھیلنے لگے تھے اور اسے خو ب وقت دینے لگے تھے ۔شیشم دیکھ رہا تھا کہ اس گھر سے دو نسلیں رخصت ہو گئیں۔اب تیسری نسل زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصرو ف ہے جبکہ چوتھی نسل اس کے سائے میں کھیل رہی ہے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے نیچے کھیلنے والی یہ چوتھی نسل بھی جوان ہو گئی اور اب وہ ان کی جوانی ’ توانائی اوررعنائی دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک دن اس چوتھی نسل کی شادی ہو گئی یہ شادی بھی اسی کے سائے تلے ہو ئی تھی اور وہ بہت خوش ہو اتھا کہ چلو اس گھر کی رونق میں اور اضافہ ہو ا ۔ اور اُس دن تو وہ بہت ہی خوش ہو اتھا’ جب اس نے دیکھا تھاکہ چوتھی نسل اپنی آغوش میں ایک بچہ اٹھائے چلے آ رہی ہے ۔وہ دیکھ کر مسکرایا اور اپنے مقد ر پہ ناز کرنے لگا کہ وہ کھڑے کھڑے ایک ہی خاندان کی پانچویں نسل دیکھ رہا تھا۔
شیشم کی زبانی پانچ نسلوں کی یہ کہانی سنا کر میرا دوست خاموش ہو گیا ۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت اداس ہو گیا تھا۔ میں نے کہا دوست اداس کیوں ہوتے ہو ۔اس نے کہا کہ دیکھو ’ اس شیشم کے پیچھے جو گھر ہے وہ خود بھی تواسی گھر کی دوسری نسل ہے نا ۔اس کے دیکھتے ہی دیکھتے اس گھر میں پانچویں نسل کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلی نسلوں کو جگہ دینے کے لیے اسے اب رخصت ہو نا ہو گا ۔میں نے کہا نہیں ٹھہرو’ بلکہ یوں کہو کہ اگلی دنیا میں جگہ پانے کے لیے یہاں سے رخصت ہو نا ہو گا۔میں نے کہا کہ دیکھو یہ آنا جانا ہی تو زندگی ہے۔ یہاں کا جانا وہاں کا آنا ہے ’یہاں کاغروب وہاں کا طلوع ہے اور یقین جانو جب شیشم کا یہ درخت تمہیں یہاں سے رخصت کر رہا ہو گا تو کسی دوسری دنیا میں اس سے زیادہ بڑا ’ زیا دہ گھنا او رزیادہ خوبصورت شیشم کا درخت تمہارا استقبال کر رہا ہوگا۔
آواز دوست