جواب :مان لیا جائے کہ حضور ﷺ نے اپنی عترت یا اہل بیت سے دین سیکھنے کا ہی حکم دیا ہے تو ان الفاظ کا مفہوم آخر صرف اولاد حضرت علیؓ تک ہی کیوں محدود کردیا گیا؟ اس میں ازروئے قرآن ازواج نبی بھی داخل ہیں اور ان میں آل جعفر، آل عقیل، آل عباس اور تمام بنو ہاشم بھی داخل ہیں جن پر حضور ﷺ نے صدقہ حرام کیا۔
پھر حضورﷺ نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ ترکت فیکم الثقلین -85 بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ‘‘علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین’’ (میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر چلو) اور یہ بھی فرمایا کہ ‘‘اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم’’ (میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے)۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے ایک ارشاد کو تو لیا جائے اور دوسرے ارشادات کو چھوڑ دیا جائے؟ کیوں نہ اہل بیت سے بھی علم حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ خلفائے راشدین اور اصحاب نبی رضی اللہ عنہم سے بھی؟عقل کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت و رفاقت میں سر انجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا، اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپﷺ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مردوں میں ایک حضرت علی ؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ ﷺ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرؓ، عثمانؓ، ابن مسعودؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کو ملا۔ پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟
اس سوال کو رد کرنے کے لیے بآلاخر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ معاذ اللہ منافق تھے۔ مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجود کس طرح اس کے قول کوجھٹلا رہی ہے اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآب اور آپؐ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔ کون معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے ۳۲ سال تک اپنے جن رفقا پر پورا اعتماد کیا اور جنہیں ساتھ لے کر عرب کی اصلاح کا اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا وہ سب منافق تھے؟ پھر کیا حضور ﷺ ان کے نفاق سے آخر وقت تک بے خبر رہے؟ اگر یہ سچ ہے تو حضور ﷺ کی مردم شناسی و فراست مشتبہ ہوجاتی ہے اور اگر یہ غلط ہے، اور یقیناً غلط ہے تو آخر کیوں دین کا علم حاصل کرنے میں ان سب کی معلومات معتبر نہ ہوں؟
آپ کو کسی نے بالکل غلط باور کرادیا ہے کہ آئمہ اہل سنت نے مسائل دین کی تحقیق میں نہ اہل بیت سے رجوع کیا، نہ ان سے کوئی مسئلہ پوچھا اور نہ ان سے کوئی حدیث کی روایت لی۔ یہ غلطی حضرات اہل تشیع نے ضرور کی ہے کہ معلومات کے ایک ہی ذریعے (یعنی اہل بیت -85 جنہیں انہوں نے بیت مانا) پر حصر کرلیا اور دوسرے تمام ذرائع کو چھوڑ دیا۔ مگر آئمہ اہل سنت نے یہ غلطی نہیں کی۔ انہوں نے تو وہ علم بھی لیا ہے جو اہل بیت کے پاس تھا اور وہ بھی لیا جو دوسرے صحابہ کرامؓ کے پاس تھا اور پھر پوری چھان بین کے بعد اپنے طرز تحقیق کے مطابق فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلہ میں کون سا طریقہ زیادہ صحیح اور معتبر ہے۔مثال کے طور پر امام ابو حنیفہؒ ہی کو لیجیے۔ وہ جہاں دوسرے صحابہ کرام و تابعین سے علم حاصل کرتے ہیں وہاں امام محمد باقرؓ، امام جعفر صادق ؓ، حضرت زید بن علی بن حسینؓ اور محمد بن حنیفہ کے علم سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ یہی حال دوسرے فقہا اور محدثین کا بھی ہے۔ حدیث کی کونسی کتاب ہے جس میں بزرگان اہل بیت کی روایات نہ پائی جاتی ہوں۔لیکن یہ کہنا کہ نماز یا کوئی دوسری چیز صرف وہی لی جاتی جو امام جعفر صادق ؓ کے پاس تھی، کیوں کہ انہوں نے امام محمد باقر ؓ سے اور انہوں نے امام زید العابدین ؓ سے اور انہوں نے امام حسین ؓ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے اسے لیا تھا، صحیح نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسی ذریعے پر حصر کیوں کیا جائے؟ دوسرے ہزاروں لوگ بھی تو موجود تھے جنہوں نے نمازیں پڑھتے ہوئے اور دوسرے دینی کام کرتے ہوئے سینکڑوں تابعین کو اور انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا اور ان سب نے نبیﷺ کو اپنی آنکھوں سے یہی کام کرتے دیکھا تھا۔ آخر ان کو چھوڑنے اور صرف اہل بیت سے تمسک کرنے کی کیا وجہ ہے؟ صاحب البیت ادریٰ بما فیہ کوئی آیت قرآنی یا حدیث تو نہیں ہے کہ اس کی پیروی اختیار کرکے اسی نبی کی زندگی کے بارے میں صرف اس کے گھر والوں کے علم پر انحصار کر لیا جائے جس کی زندگی کا ننانوے فیصدی حصہ گھر سے باہر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے ہزار ہا آدمیوں کو مختلف احوال و معاملات میں کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہو۔
لوگ مسائل دینی میں اختلافات کو دیکھ کر گھبرا اٹھے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ اختلافات نہ ہوتے اگر صرف اہل بیت کے علم پر اکتفا کر لیا جاتا۔ حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ نہ اختلافات کوئی گھبرانے کی چیز ہیں اور نہ اہل بیت کے متبعین ہی اختلاف سے بچ سکے ہیں۔ آپ اگر حضرات شیعہ کے مختلف فرقوں کے عقائد اور ان کے فقہی مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ ان کے ہاں اس سے زیادہ اختلافات ہیں، جتنے اہل سنت میں پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مسلک کا ماخذ اہل بیت ہی کے علم کو قرار دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس دین کو کروڑوں انسان اختیار کریں اور جس کے مآخذ کا ہزاروں لاکھوں انسان مطالعہ کرکے غور و فکر کریں، اس کی نصوص کی تعبیر اور احکام کی تفصیل اور جزئیات کی تحقیق میں کامل اتفاق کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ اختلاف تو ایسی صورت میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کے رونما ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن ان بے شمار اختلافات کے اندر ایک جوہری وحدت ہوتی ہے اور وہ ان اساسی عقائد و اصول اور ان بڑے بڑے احکام کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں سب متفق پائے جاتے ہیں۔ اگر لوگ اصل اہمیت اس بنائے وحدت کو دیں اور جزوی اختلافات کو اپنی جگہ پر رکھیں تو کوئی قباحت واقع نہیں ہوتی۔ مگر جب لوگوں کے لیے اصل اہمیت ان جزوی امور کی ہوجاتی ہے جن میں وہ آپس میں مختلف ہیں اور بنائے وحدت کو وہ خفیف سمجھنے لگتے ہیں تو پھر تفرقہ رونما ہوتا ہے۔مثلاً نماز ہی کو لیجیے اس میں بنائے وحدت یہ ہے کہ سب مسلمان اللہ واحد ہی کی عبادت کرتے ہیں، اس کے طریق ادا کا ماخذ اسی نماز کو مانتے ہیں جو نبیﷺ نے سکھائی، پانچ وقت کی نماز فرض مانتے ہیں، ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، وضو کو اس کے لیے شرط تسلیم کرتے ہیں، رکوع، سجدہ، قیام، قعدہ کو اس کی ہیئت کے اجزا مانتے ہیں اور اس میں تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس بنائے وحدت کے بعد ان میں اختلافات کن چیزوں میں ہیں؟ ہاتھ کہاں باندھے جائیں یا کھولے جائیں۔ آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ -85 امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں وغیرہ۔ ان جزوی امور میں جتنے بھی مختلف مذاہب ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے پاس یہ دلیل رکھتا ہے کہ اس کا طریقہ کسی نہ کسی سند کے ساتھ نبی ﷺ سے مروی ہے اور وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ کس کی سند ضعیف ہے اور کس کی قوی، دیکھنا یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس آخر نبی کریم ﷺ ہی کی سند تو ہے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ میں حضور ﷺ کے سوا کسی اور کی سند پر یہ کام کرتا ہوں۔ پھر آخر کیا مضائقہ ہے، اگر ہم ایک طریقے پر (جس پر بھی ہمارا اطمینان ہو)عمل کرتے ہوئے دوسرے کے طریقے کو بھی مبنی برحق سمجھیں اور بنائے وحدت پر متفق رہیں؟(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۷۳۱ھ، جون، جولائی ۲۵۹۱ء)
جواب :محمد اسامہ سرسری
اس سوال کا جواب اگر وہ لوگ دے رہے ہیں جنھوں نے اس میدان میں قدم ہی نہیں رکھا تو وہ عموماً یہ کہہ کر حرام ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں کہ ان اشتہارات میں میوزک اور عریانی سے بچنا ناممکن ہے سو یہ آمدنی حرام ہے۔ میں چونکہ ایک عرصے سے اس میدان سے وابستہ ہوں اس لیے اب تک جو تحقیق کی ہے وہ پیش کردیتا ہوں کہ شاید مفتیان کرام کے کام آجائے ۔
بات یہ ہے کہ یوٹیوب پر معتدل اہل علم کی جانب سے تعلیمی، تدریسی، دینی و ادبی چینلز بنانا وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ساری دنیا اب ہر چیز یوٹیوب پر سیکھ رہی ہے تو اگر درست لوگوں نے یہ چیزیں پیش نہیں کی ہوں گی تو نادرست لوگ متعلمین کے استاد بنتے جائیں گے جس سے دنیا میں جہل مرکب زیادہ پھیلے گا۔تو جیسے وقت کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہل مدارس حیلہ تملیک مسلسل کرتے چلے آئے ہیں، جیسے سیاست کے میدان میں کام کرنے والے نامحرم خواتین کے ہمراہ نشست و گفتگو کو گوارہ کرلیتے ہیں، جیسے بنات کے مدارس میں نامحرم تلمیذات کی آواز سن لیتے ہیں، جیسے تبلیغی جماعت والے دیگر مسالک والوں کے ساتھ اختلاط کرلیتے ہیں تو اس میدان میں کام کرنے والوں کو بھی پیش آمدہ قباحتوں کا حل نکالنا ہوگا نہ کہ میدان سے راہِ فرار اختیار کرنا۔
دوسری ضرورت جوکہ پہلی سے نسبتاً کم ہے وہ معاش ہے، اللہ تعالی نے ہر انسان میں معاش کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے الگ صلاحیت رکھی ہے تو جیسے بازار میں اختلاط مرد و زن کی قباحت ہے، پروڈیکٹس میں عریانی اور تصویری قباحتوں کا انبار ہے ویسے ہی یوٹیوب پر بھی یہ قباحتیں ہیں، جیسے دیگر تاجران اپنی پیش آمدہ قباحتوں کا حل کبھی برداشت اور کبھی توبہ سے نکالتے ہیں مگر آج تک کسی نے کاروبار بندنہیں کیا اسی طرح یوٹیوب سے معاشی ضرورتیں پوری کرنے والوں کو ان قباحتوں کا حل بتانا چاہیے نہ کہ راہِ فاقہ کہ اس سے افاقہ سائل کو نہیں مسؤل ہی کو ہوتا ہے۔ ان دو ضرورتوں کے پیش نظر یوٹیوب چینل بنانا اور اس سے دینی اور ذاتی ضروریات کو پورا
کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
اب اگر کوئی صرف دینی ضرورت پوری کرنے کے لیے چینل بناتا ہے اور چینل کو مونیٹائز نہیں کرتا تو یوٹیوب پھر بھی اس کی ویڈیوز پر نازیبا اشتہارات چلاتا ہے۔
اب یہ جانیے کہ یہاں معاشی کمائی متعدد طریقوں سے ہوتی ہے:
(1) اپنے کورسز یا پروڈیکٹس کی تشہیرسے
(2) اپنے ادارے یا برانڈ کی تشہیرسے
(3) دیگر لوگوں اور کمپنیوں کے اشتہارات
(4) یوٹیوب اشتہارات
پہلی تین صورتیں بالاتفاق جائز ہیں کیونکہ وہ ہمارے اختیار میں ہوتی ہیں تو ہم نہ ان میں میوزک ڈالتے ہیں نہ عریانی۔صرف چوتھی صورت یعنی یوٹیوب اشتہارات کی آمدنی کا مسئلہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آمدنی صرف تب حرام ہوگی جب اشتہار کسی حرام پروڈیکٹ کا ہو جیسے فلم، ڈراما، میوزک، جوا، شراب وغیرہ میں نے ایڈ فلٹر کرکے ان تمام حرام پروڈیکٹس کے اشتہارات کو بند کردیا ہے، یعنی یہ قباحت تو بآسانی ختم کی جاسکتی ہے۔رہ جاتی ہے اصل مختلف فیہ صورت کہ باقی تمام اشتہارات میں بھی تو میوزک اور عریانی ہیں اور یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی آمدنی بھی حرام ہونی چاہیے تو اس کی تحقیق یہ ہے کہ یوٹیوب اشتہارات دیکھنے کے پیسے نہیں لیتا دیتا بلکہ جب کوئی بندہ کسی اشتہار پر کلک کرکے اس کمپنی کی ویڈیو یا ویب سائٹ پر چلا جاتاہے تب اس کا معاوضہ یوٹیوب کمپنی سے لے کر اس کی کچھ پرسنٹیج یوٹیوبر کو دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اشتہار میں جو میوزک اور عریانی ہے وہ مقصود فی البیع نہیں ہے، بالفرض اگر صرف اشتہار دیکھنے کے پیسے ہوں تب بھی اشتہار میں پروڈیکٹ مقصود ہوتی ہے نہ کہ میوزک یا عریانی، لہذا اسے اشتہار میں شامل کرنے والا گنہگار تو ہوگا مگر اس کا اس معاملے پر براہ راست اثر نہیں پڑ رہا تو اس معاملے کو اور اس آمدنی کو حرام کہنا سمجھ سے باہر ہے۔
جیسے میڈیکل، کاسمیٹک اور دیگر جنرل آئٹمز کے بیچنے والوں کی آمدنی ان اشیاء پر موجود عریانی کی وجہ سے حرام نہیں ہوتی۔
ایک فقہی اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ یوٹیوبرز پر مجہول ہے، اسے پتا ہی نہیں کہ کتنے کلکس پر کتنے مل رہے تو اس جہالت کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہوگا، اس کا حل یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ سسٹم کے عرف کی وجہ سے
مجہول کے حکم سے نکل جاتا ہے کیونکہ جہالت مفضی الی النزاع ہوتی ہے جبکہ
یہاں ہر یوٹیوبر مطمئن ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب کمپیوٹر پروگرامنگ کے تحت ایک مربوط سسٹم سے چل رہا ہے۔
جواب:اسلام کے قانون وراثت کو اس کے درست تناظر میں آپ دیکھیں گی تو آپ کو یہ کسی پہلو سے بھی بے انصافی پر مبنی نہیں لگے گا بلکہ عین فطری اور عقلی قانون محسوس ہوگا۔ اس لیے پہلے اسلام کے قانون وراثت کی اساسات کو سمجھ لیجیے۔
اسلام کے قانون وراثت کی دو بنیادی اساسات ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قانون اسلام کے اس معاشرتی تصور پر مبنی ہے جو خاندان کے نظام پر قائم ہے۔ اس میں ماں باپ ہر طرح کی قربانی دے کر بچے کو پالتے ہیں۔ بھائی بہن ہر اچھے برے میں اس کا ساتھ دینے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کی شادی ہوجاتی ہے۔ اس سے یقینا ً نئے رشتے پیدا ہوتے ہیں۔ ان رشتوں میں بیوی کا رشتہ بڑا اہم ہے۔ اس بیوی سے انسان کی اولاد ہوتی ہے۔ جو اصل میں ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری اٹھانے کے اخلاقی اور دینی طور پر پابند ہوتے ہیں۔ بتدریج یہی رشتے اس کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔چنانچہ اس پس منظر میں اصل وارث اولاد ہے۔ لیکن ان سے قبل بیوی، ماں اور باپ ہر ایک کا ایک متعین حصہ بھی مقرر کیا گیا ہے جو اس انسان کے قریب ترین رشتے ہیں۔ اولاد اگر نہ ہو تو پھر مرنے والے کے بہن بھائی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر یہ بھائی بہن ہی ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر اچھے برے میں اس انسان کا ساتھ
دیں۔اسلام کے قانون وراثت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو نظرانداز ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام مرنے والے کو وصیت کا حق بھی دیتا ہے اور یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کسی کے نام کر دے۔ چنانچہ اگر کسی نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ اس کے بھائی بہن اس کا ساتھ نہیں دے رہے اور بیوی ہی اس کی تنہا غمخوار ہے تو اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنی کل جائیداد بیوی کے نام کر دے۔ اس میں کوئی چیز بھی مانع نہیں ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں راستے کھلے رکھے ہیں۔ ایک طرف کسی نے اگر زندگی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ کرکے لواحقین کے دل میں باہمی اختلاف پیدا ہونے کا امکان ختم کر دیا کہ کسی کو کم یا زیادہ حصہ ملنے کی شکایت ہو۔ دوسری طرف انھوں نے انسان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ صورتحال دیکھ کر اپنی جائیداد کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے۔ چنانچہ ایسی ہر صورتحال میں جہاں انسان اپنے خاص حالات میں یہ محسوس کر رہا ہو کہ کسی نے حق ادا نہیں کیا یا کسی نے بہت زیادہ کیا ہے تو وہ اپنی زندگی میں جو چاہے فیصلہ کر دے۔وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو بہرحال اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی نافذ ہوگا۔
اس تفصیل کے بعد اس خاص معاملے میں اسلامی قانون شریعت میں عرض کر دیتا ہوں کہ اگر اولاد نہ ہو تو عورت کو اپنے شوہر کے ترکے میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ والدین میں سے ہر ایک کو ایک بٹا چھ حصہ ملے گا۔ مرنے والے کے بھائی بہن اس کی اولاد کی جگہ لے لیں گے اور کل ترکے کو اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر بھائی کا حصہ بہن سے دوگنا ہوگا۔