1- پہلی کہانی
چوروں میں سے ایک چور نے اپنا قصہ سنایا کہ:میں پرائمری سکول کی چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، ایک دن میں سکول سے گھر آیا تو میری پنسل گم ہو گئی ، اور جب میری والدہ کو اس خبر کا علم ہوا تو اس نے میری خوب پٹائی کی ’خوب برا بھلا کہا گالیاں دیں۔مجھے احمق، غیر ذمہ دار اور نہ جانے کیا کچھ کہا۔میری والدہ کے اس سخت رویے اور پٹائی نے مجھے اس دن کے بعد یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ اب میں کبھی خالی ہاتھ گھر نہیں لوٹوں گا۔چنانچہ میں نے اپنے ساتھیوں کے قلم چرانے کا فیصلہ کر لیا۔اور پھر اگلے ہی دن سے پلان پر عمل شروع کر دیا۔
یہ عادت ایسی پختہ ہوئی کہ پھر مجھے ایک یا دو قلم چوری کرنے سے اطمینان نہ ہوتا تھا، چنانچہ میں نے اپنے تمام ہم جماعتوں کے قلم چرانے شروع کر دیے، پہلے میں ڈرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ مجھے حوصلہ ملتا گیا اور خوف اب میرے دل سے نکل گیا.
ایک مہینے کے بعد مجھے اس پر بھی کفایت نہ ہوئی تو میں نے پڑوسی کلاسز کی طرف جانے کا فیصلہ کیا، اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دن میں نے پرنسپل کے کمرے سے بھی چوری کی۔
میں سمجھتا ہوں وہ سال فیلڈ ٹریننگ کا سال تھا، جس میں میں نے نظریاتی اور عملی طور پر چوری کرنا سیکھا، پھر مجھے اتنا حوصلہ مل گیا کہ بالآخر میں پروفیشنل چور بن گیا۔
2- دوسری کہانی
ایک ماں نے قصہ بیان کیا کہ:جب میرا بیٹا پرائمری سکول کی دوسری جماعت میں پڑھتا تھا ایک دن وہ سکول سے واپس آیا تو اس کی پنسل گم ہو گئی تھی ۔میں نے اس سے پوچھا بیٹا تم نے پھر آج کیسے لکھا؟اس نے کہا: اماں میں نے اپنے ساتھی سے ایک قلم ادھار لے لیا تھا،میں نے اس سے کہا: بہتر
لیکن بیٹا جب آپ کے ساتھی نے آپ کو لکھنے کے لیے قلم دیا تو اسے کیا حاصل ہوا؟
کیا اس نے بدلہ میں تم سے کھانے، پینے کی کوئی چیز یا پیسے مانگے؟اس نے کہا: نہیں، اس نے تو کچھ بھی نہیں مانگا ۔میں نے اس سے کہا: تو آپ کو قلم دینے والے دوست نے توبہت ساری نیکیاں کما لیں، میرے بیٹے۔ وہ تم سے اتنا ذہین کیوں ہے؟
بیٹا تم بھی تو نیکیاں کما سکتے تھے؟ بیٹا بولا: وہ کیسے اماں جان؟میں نے کہا: ہم تمہیں دو قلم خرید کردیں گے۔ ایک قلم سے آپ لکھو گے اور دوسرا قلم جسے ہم نیکیوں کا قلم کہتے ہیں آپ کسی ایسے ساتھی کو دیں گے جو اپنا قلم بھول گیا ہو یا کھو گیا ہو۔ اور کلاس کے بعد اس سے لے لو۔ میرا بیٹا اس خیال سے بہت ہی خوش ہوا ۔
اس مشورہ کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے اس کی خوشی اس حد تک بڑھ گئی کہ اس نے اپنے بیگ میں خود لکھنے کے لیے ایک قلم جبکہ نیک کاموں کے لیے چھ قلم رکھ لیے۔
عجیب بات یہ ہے کہ میرے اس بیٹے کو سکول سے نفرت تھی اور اس کا تعلیمی لیول بھی ناقص تھا۔اور جب میں نے اس کے ساتھ یہ آئیڈیا آزمایا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ سکول سے محبت کرنے لگا۔ اس لیے کہ وہ کسی نہ کسی چیز میں کلاس کا سٹار بن گیا تھا، تمام اساتذہ اسے جانتے تھے اور اس کے ساتھی پریشانی میں اس کے پاس آتے تھے
اب جس کسی کو قلم کی ضرورت ہوتی ان میں سے ہر ایک اس سے ایک ایک قلم لے لیتا،
اب جب کسی استاد کو پتا چلتا کہ فلاں طالب علم اس لیے نہیں لکھتا کہ اس کا قلم اس کے پاس نہیں ہے، تو وہ کہتا کہ وہ طالب علم کہاں ہے جس کے پاس فالتو قلم ہیں۔میرے بیٹے کے مطالعے کے شوق کے نتیجے میں، اس کی تعلیمی سطح آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ آج وہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے، شادی شدہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد سے نوازا، اور وہ نیکیوں کا قلم کبھی نہیں بھولا۔
اس کا جذبہ اتنا بڑھا کہ آج وہ ہمارے شہر کے سب سے بڑے خیراتی ادارے کا ذمہ دار ہے۔
غورکیجیے! ایک ماں کے منفی رویہ نے بیٹے کو علاقے کا سب سے بڑا چور وڈاکو بنا دیا
جبکہ دوسری ماں کے مثبت رویے نے بیٹے کو علاقیکا سب سے بڑا غمخوار و سخی بنا دیا۔
آئیے ہم اپنے بچوں کی پرورش میں احتیاط برتیں، ان کے ساتھ رحم و کرم سے پیش آئیں، اور منفی رویوں کو ایک قابل قدر تعلیمی مقام میں بدل دیں۔ اور ان کے دلوں میں انسانیت کی نفع رسانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیں۔
اصلاح و دعوت
گم شدہ پنسل کی کہانی
مترجم و مرتب ’ صہیب فاروق