اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اوران پربرف کی چادر جمی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
عرش صدیقی

آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا
امجد اسلام امجد

دوسالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں
پچھلے سال بھی ایسی ہی اک
سرد دسمبر کی شب تھی جب
دو سالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا تھا
 سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی 
ماہ وسال کے پنکھ لگا کر 
اپنی ایک مخصوص ڈگر پر
 اڑتا ہے
دو سالوں کے سنگم پر میں 
بیتی باتیں یاد کروں تو
ڈرتا ہوں
ڈرتا ہوں کہ جانے والے سال کا سورج 
آنے والے سال کے پہلے سورج کو 
اپنے تن کی ساری حدت بخش نہ دے
ڈرتا ہوں کہ
آنے والا موسم بھی
جانے والی زرد رتوں کا عکس نہ ہو
موسم گل کی صورت کے برعکس نہ ہو
صحنِ چمن میں شعلوں ہی کارقص نہ ہو
سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے 
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
کیسے کیسے لوگ شریک ِ محفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے 
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
ازہر درانی
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی لوگوں سے روٹی کا نوالہ
چھین لینے کی حریصانہ پراگندہ سیاست
سیاہ کاروں کے ہاتھوں میں چیختی، سسکتی ہماری ریاست
جہاں مائیں۔۔۔۔جگر گوشوں کو
اپنے خون میں ڈوبی ہوئی
لوری سناتی ہیں
جہاں پر خواب میں سہمے ہوئے بچوں کی آہیں ڈوب جاتی ہیں
یہ میرے سامنے سے کیسا موسم جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی سہمے ہوئے وعدے
لہو میں تر دعائیں
لرزتی کانپتی روتی صدائیں
عبادت کرنے والوں کو بلاتی ہیں
بھلائی کی طرف آؤ
بھلائی کی طرف آؤ
مگر ایسا نہیں ہوتا
مگر ایسا نہیں ہوتا
خدا اور آدمی کے درمیان
ایک خوف کی دیوار چڑھتی اور بڑھتی جا رہی ہے
اسی جانب اندھیروں کا سمندر جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
میرا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے
اور ایسے لالچی لوگوں کو حاصل ساتھ کس کا ہے
وطن والوں کی خواہش ہے
کہ یہ سب لوگ
رسنِ صبح تک پہنچیں
یا دارِ شام تک پہنچیں
یہ جس انجام کے قابل ہیں
اس انجام تک پہنچیں
کہ ذلت کی طرف ان کا مقدر جا رہا ہے
فاروق اقدس

میں سال کا آخری سورج ہوں
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
کوئی کہتا ہے میں چل نہ سکا
کوئی کہتا ہے کیا خْوب چلا
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
اس رخصتِ عالم میں مجھ کو
اک لمحہ رخصت مل نہ سکی
جس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھا
اس شب کی چاہت مل نہ سکی
یہ سال کہاں، اک سال کا تھا
یہ سال تو اک جنجال کا تھا
یہ زیست جو اک اک پَل کی ہے
یہ اک اک پَل سے بنتی ہے
سب اک اک پَل میں جیتے ہیں
اور اک اک پَل میں مرتے ہیں
یہ پَل ہے میرے مرنے کا
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
اے شام مجھے تْو رخصت کر
تْو اپنی حد میں رہ لیکن
دروازے تک تو چھوڑ مجھے
وہ صبح جو کل کو آئے گی
اک نئی حقیقت لائے گی
تْو اْس کے لئے، وہ تیرے لئے
اے شا،م! تْو اتنا جانتی ہے
اک صبحِ امید، آثار میں ہے
اک در تیری دیوار میں ہے
اک صبحِ قیامت آنے تک
بس میرے لیے بس میرے لیے
یہ وقت ہی وقتِ قیامت ہے
اب آگے لمبی رخصت ہے
اے شام جو شمعیں جلاؤ تم
اک وعدہ کرو ان شمعوں سے
جو سورج کل کو آئے یہاں
وہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہو
وہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہو
وہ پْورے سال کا سورج ہو
اے شام مجھے تو رخصت کر!
لطیف ساحل
''دسمبر مجھے راس نہیں آتا''
کئی سال گزرے 
کئی سال بیتے 
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جان میں سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے 
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں
مگر میں اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر
اب تک وہی جستجو کا سفر کررہا ہوں 
گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن 
نہایت کٹھن ہیں
میرے ملنے والو!
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے
تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل
دھڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں
'' محسن نقوی''
ابھی سردی نہیں آئی!!
ابھی موسم نہیں بھیگا!!
ابھی ماحول بھی دھند میں نہیں ڈوبا
ابھی ناران کی بل کھاتی سڑکو ں پر ہے سناٹا!!
ابھی تو برف کی ڈولی فضاؤں میں معلق ہے
ابھی تو یہ نومبر ہے
نومبر میں تو شاعر اپنی چُھریاں تیز کرتے ہیں
نومبر جانے والا ہے
دسمبر تیری شامت آنے والی ہے!!
عابی مکھنوی

ایک اور دسمبر بیت گیا 
نہ تم آے نہ چین آیا 
دسمبر کی کہر کو دیکھ کر دل چاہتا ہے یہ
الہی ایسی کوئی دھند اسکی یاد پر بھی ہو
در دل پر دسمبر
دستکیں دے کر,
بس اب کچھ روز میں ہی
جانے والا ہے
خدارا, دل کا در کھولو
گھڑی پل ہی...چلے آؤ
عنبرین خان 

مُجھے وہ
جنوری ہو
فروری ہو
مارچ ہو
یا پِھر ہوں دِن اپریل کے
یا ہوں مئی یا جُون جولائی
اگست اور پھر ستمبر کے
یا اکتوبر نومبر کے
وہ اِن سب میں بھی مُجھ کو اِس قدر ہی یاد آتا ہے
کہ جِتنا اب دسمبر میں۔۔۔!
زین شکیل

دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اُس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا
پل بھرمہک اُٹھا
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرّے ستارے ہیں
گل و بلبل، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سُناتی ہے
دسمبر! ہم سیمت پوچھہ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
محبّت برف جیسی ہے یہاں، اور دھوپ کھیتوں میں اُگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو۔۔ شب کے
سارے سپنے راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سُنہرے خواب بُنتے ہیں پھر
اُن خوابوں میں جیتے ہیں
اُنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی۔۔
دسمبر! اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
فا خرہ بتول

زَخموں پہ ہے شباب، دِسمبر کے بعد بھی
مرہم ہُوا عذاب، دِسمبر کے بعد بھی
تاوانِ سادگی ہے کہ رِشتوں کا قرض ہے
چلتا رَہا حساب، دِسمبر کے بعد بھی
ہم دوستانہ طعنوں پہ، ساکِت کھڑے رِہے
چپ چاپ، لاجواب، دِسمبر کے بعد بھی
اَفسوس ‘‘جوئے خون’’ بھی نہ کام آ سکی
مَٹی کے ہیں گلاب، دِسمبر کے بعد بھی
تعبیر کی تلاش میں دوڑا ہُوں کانچ پر
ہے خواب اَب بھی خواب، دِسمبر کے بعد بھی
شاخوں پہ پھول، پتے، پرندے تک آ گئے
آیا نہیں جواب، دِسمبر کے بعد بھی
نمناک آنکھیں پڑھتی ہیں، بے آس ہو کے قیسؔ 
دِل کی دُکھی کتاب، ‘‘دِسمبر کے بعد بھی’’۔
شہزاد قیسؔ

یہ دسمبر ہے
سنو! میں جانتی ہوں یہ دسمبر ہے
وہاں سردی بہت ہوگی
اکیلے شام کو جب تم تھکے قدموں سے لوٹو گے
تو گھر میں کوئی بھی لڑکی
سلگتی مسکراہٹ سے
تمھاری اس تھکاوٹ کو
تمھارے کوٹ پر ٹھہری ہوئی بارش کی بوندوں کو
سمیٹے گی،نہ جھاڑے گی
نہ تم سے کوٹ لے کر وہ کسی کرسی کے ہتھے پر
اسے لٹکا کے اپنے نرم ہاتھوں سے
چھوئے گی اس طرح جیسے تمھارا لمس پاتی ہو
تم آتشدان کے آگے سمٹ کر بیٹھ جاؤ گے
تو ایسا بھی نہیں ہوگا
تمھارے پاس وہ آکر
بہت ہی گرم کافی کا ذرا سا گھونٹ خود لے کر
وہ کافی تم کو دے کر، تم سے یہ پوچھے
''کہو کیا تھک گئے ہو تم؟''
تم اپنی خالی آنکھوں سے
یوں اپنے سرد کمرے کو جو دیکھو گے تو سوچو گے
ٹھٹھر کر رہ گیا سب کچھ
تمھاری انگلیوں کی سرد پوروں پر
کسی رخسار کی نرمی
کسی کے ہونٹ کی گرمی
تمھیں بے ساختہ محسوس تو ہوگی
مگر پھر سرد موسم کی ہوا کا ایک ہی جھونکا
تمھیں بے حال کردے گا
تھکے ہارے ٹھٹھرتے سرد بستر پر
اکیلے لیٹ جاو گے
سیماغزل

اُسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہے
مرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہے ہنستی ہے
نظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہے
ان آنکھوں سے جھڑی ساون کی
پھر کچھ ایسی لگتی ہے
مرا دل رک سا جاتا ہے
مہینہ ہجر کا جب بھی
مرے آنگن میں آتا ہے
اداسی کے ہر اک منظر کو وہ موجود پاتا ہے
نگاہوں کو جھکا کر بس دسمبر لوٹ جاتا ہے
نجمہ شاہین کھوسہ

میری یہ چشمِ نَم دسمبر میں
نہ کہیں جائے جَم دسمبر میں
اُف یہ جور و ستم دسمبر میں
نہ نکل جائے دم دسمبر میں
جنوری میں گیا تھا یہ کہہ کر
لوٹ آئیں گے ہم دسمبر میں
ہے جو رودادِ ہجرِ گیارہ ماہ
کریں کیسے رقم دسمبر میں
جس کا وعدہ ہے مثلِ وعدہ حشر
اُس کا ٹوٹا بھرم دسمبر میں
کہیں پہنچا نہ دے یہ سرد ہوا
سوئے ملکِ عدم دسمبر میں
جادہ شوق طے کریں کیسے
ہوگئے شَل قدم دسمبر میں
جن کے زیرِ نگیں تھا کشورِ دل
بھر رہے ہیں چلم دسمبر میں
ہیں بہت صبر آزما برقیؔ 
اُن کے قول و قسم دسمبر میں
احمد علی برقی اعظمی

شوق دلچسپ ہیں دسمبر کے
دھندلی یادوں کی سرد راتوں میں
بیتی باتوں کو سوچتے رہنا,
چائے کے مگ کو لے کے ہاتھوں میں,
چاند تاروں کو کھوجتے رہنا,
اپنی آنکھوں سے اپنے خوابوں کو
لمبی راتوں میں نوچتے رہنا....
روگ دلچسپ ہیں دسمبر کے
عنبرین خان

دسمبر میں اداسی بڑھ رہی ہے
چلے آؤ کہ خاصی بڑھ رہی ہے
یہ دھندلا چاند کتنے بھید کھولے
مری فطرت شناسی بڑھ رہی ہے
تمہاری سرد مہری کے جلو میں
مری تقدیر پیاسی بڑھ رہی ہے
ستارے تھال میں رکھ کر فلک پر
کسی مندر کی داسی بڑھ رہی ہے
تمہارے ساتھ پہروں جاگنے کی
طلب پھر سے ذرا سی بڑھ رہی ہے
عنبرین خان

میرا درد دسمبر ہے
اور ہمدرد دسمبر ہے
بالکل تیرے لہجے جیسا
ٹھنڈا سرد دسمبر ہے
ہر ڈالی یرقان زدہ ہے
پیلا زرد دسمبر ہے
درد انوکھے دینے والا
ہر اک فرد دسمبر ہے
عنبرین خان

پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!
دل کے آنگن میں کھلا پھر تیرے چہرے کا غلاف!!
گجرے سے، پھول سے، صندل سے مہکتے ھوئے ھاتھ! 
پیش کرتے ھوئے کافی وہ چھلکتے ھوئے ھاتھ!
مُجھکو چھونے کی تمنا میں ججھکتے ھوئے ھاتھ!
اور ھاتھوں میں سِمٹتا ھوا وہ سارا حِجاب!!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!
یاد جب آیاوہ لب جاگ اُٹھا سارا بدن!
حُجلہء شب میں وہ سِمٹی ھویء سردی کی دُلہن!!
برف میں لِپٹا ھو جیسے کہ شعلوں کا شباب!!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!
یہ خِزاں اور یہ گِرتے ھوئے پتوں کا شور!!
جِسم شل کرتی ھویء خُشک ھواؤں کا یہ زور!! 
مُجھکو کھینچے ھوئے جاتی ھیں گھٹائیں پُر زور!!
تُو جہاں ھے ھو وہاں دِل کا میرے آداب!!!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!!
تُم گئے جب سے وہیں تھم گء سردی کی یہ آگ!
جیسے ھونٹوں پہ ھی رہ جائے ادھوری کوئی بات!!
جیسے آ کر کوئی ھاتھوں میں پِگھل جائے ھاتھ!!
جیسے دیکھے کوئی راتوں کو ادھورا سا خواب!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!
روٹھتی نرم، چمکتی ھوء جاڑوں کی وہ صُبح،
اوٹ سے جھانکتی شفاف پہاڑوں کی وہ صُبح،
ادھ کُھلے نیم دریچوں کے دراڑوں کی وہ صُبح،
نِکھرا نِکھرا سا تیری طرح وہ دِن کا شباب!!!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!
روز آنکھوں میں گُزرتی ھے تیرے بعد یہ رات!!
مُجھ سے کاٹے نہیں کٹتی ھے تیرے بعد یہ رات!!!
مُنہ لپیٹے پڑی ریہتی ھے تیرے بعد یہ رات!!
رات اِک بار کُھلا پِھر سے تیری یاد کا باب!!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!!
دل کے آنگن میں کھلا پھر تیرے چہرے کا غلاف!!
پِھر دِسمبر میں کُھلی گُزرے دِسمبر کی کِتاب!!!
میں ایک بوری میں لایا ہوں بھر کے مونگ پھلی 
کسی کے ساتھ دسمبر کی رات کاٹنی ہے 
عزیز فیصل
ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں
ریحانہ روحی
خالی کمرہ، ہیٹر،کمبل، فون اور میں
میرے لیے تو سارا سال دسمبر ہے 
میثم علی آغا
بِن ترے کائنات کا منظر
اِک دسمبر کی شام ہو جیسے
 ابنِ مُنیب
آنکھ میں آنسو نہیں ہیں پر رُلاتا ہے بہت
وہ دسمبر, ہر دسمبر, یاد آتا ہے بہت
ساتھ میرے بھیگتا ہے بارشوں میں بیٹھ کے
یاد کے سارے دریچے کھول جاتا ہے بہت
روندتا ہے یہ جہاں کی ساری دیواریں کھڑی ۔دو قدم پہ لا کے اس کو آزماتا ہے بہت
مسکراہٹ, گنگناہٹ, قہقہے, باتیں تری ۔خواب بن کے رات بھر مجھ کو جگاتا ہے بہت
مجھکو دے جاتا ہے چھپ کے اسکی خوشبو کا پتہ۔ایک دیوانے کو پاگل یہ بناتا ہے بہت
جانتا ہے جب نہ اب منزل کی مجھ کو آرزو
راہ میں اندھے کی کیوں شمعیں جلاتا ہے بہت۔خواہشوں کے بیج بو کے خود چلا جاتا ہے ۔یہ وہ دسمبر, ہر دسمبر دل دکھاتا ہے بہت۔اتباف ابرک

گوشہ دسمبر
دسمبر کی شاعری
عرش صدیقی ’ امجد اسلام امجد ’ ازہر درانی اور دیگر شعراء