ایک نفسیاتی اصطلاح کے طور پر نرگسیت یا نارسیت کا استعمال ایک سے زاید معنوں میں کیا جاتا ہے۔ عام معنوں میں نرگسیت ایسے احساسات، خیالات یا طرز عمل/کردار کے لئے مخصوص ہے جن پر خود پسندی یا اپنی ذات سے محبت کا شائبہ ہو۔ اگر ان خیالات و احساسات کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ فرد اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی زندگی اجیرن کر دے اور مروج اخلاقی، تہذیبی اور انسانی اقدار کی قطعاََ بھی پرواہ نہ کرے تو یہ نرگسیت ایک بیماری کی شکل میں ظاہر ہو گی، لیکن اگر اپنی ذات سے محبت کا نام نہاد جذبہ حدود میں رہے اور اس کی شدت سے قریبی افراد شدید مصائب کا شکار بھی نہ ہوں، تو یہ کجروی بیماری کی ذیل میں نہیں شمار ہو گی۔ ایسے فرد میں نرگسیت کی علامات تو ضرور ہوں گی اور دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات بھی ہمیشہ الجھے رہیں گے لیکن علامات کی شدت اور تعداد کم ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں کے لئے عذاب ثابت نہیں ہوتے اور اپنے نرگسی اوصاف کے باوجود زندگی میں بڑے بحران سے بھی بچے رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بھی عام طور پر نرگسیت کی ہی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
اس تعارفی باب کا موضوع نرگسیت کی بیماری ہے۔
نرگسیت کی وضاحت کرتے ہوئے عام طور پر یونانی دیو مالا کے کردار نارسس کی مثال دی جاتی ہے۔ روایت کے مطابق شہزادہ نارسس اپنی محبت میں ایک دیوانے کی طرح اس حد تک گم ہو گیا تھا کہ اسے خارجی دنیا کی بالکل بھی سدھ بدھ نہ رہی اور انجام کار پانی کے ایک تالاب میں اپنے ہی عکس پر فریفتہ ہو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس داستاں کے تکرار سے نرگسیت کا ایک یک رخا اور رومانوی تصور ابھرتا ہے جیسے کسی فرد واحد کی شخصیت اس قدر دلکش، دلفریب اور عمیق ہو کہ وہ پوری دنیا کو ٹھکرا کر محض اپنی ذات میں کھو جائے۔ یہ تصور نرگسیوں کی کشش کا سبب بھی ہے۔ فکشن میں نرگسیت کے اس رومانوی تصور کا بہت استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن فنی طور پر یہ ایک گمراہ کن اور ادھورا تصور ہے۔ نرگسیت محض اپنی ذات سے محبت کا نام نہیں۔ یہ اپنی ذات سے محبت کا ایسا موثر اور کامیاب ڈھونگ ہے جو شخصیت میں موجود بنیادی احساس اذیت سے چھٹکارے کے لئے رچایا جاتا ہے۔ خود نرگسی ہی تکلیف میں گرفتار نہیں ہوتا بلکہ اپنے قریبی افراد کو بھی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ اپنی بیماری کی پرورش ہو سکے۔ یہی نرگسیت کی بنیادی خصوصیت ہے کہ یہ دوسروں کی تکالیف اور اذیت پر پھلتی پھولتی ہے۔ نرگسی کے چُنگل میں پھنسنے والے قریبی افراد/فرد ہمیشہ تشویش، مایوسی اور دیگر نفسیاتی عارضوں کا شکار رہیں گے اور تعلق کی بعض صورتوں میں خود کشی کا امکان بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن نرگسی کے لئے یہ صورت حال قطعاََ بھی پریشانی کا ذریعہ نہیں ہو گی اور وہ دوسروں کی تکالیف سے بے حس ایک ظاہری اطمینان کے ساتھ مصروف کار رہے گا۔
اگر ہم نرگسی رد عمل کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں تو اس کی ماہیت سمجھنے میں ہمیں بہتر مدد مل سکتی ہے۔
دیگر نفسیاتی امراض کی طرح نرگسی ردعمل کی جڑیں بھی فرد کے بچپن میں پیوست ہوتی ہیں۔ بچپن کے تلخ واقعات، گھریلو تناؤ یا دیگر عوامل کی وجہ سے فرد میں اپنی ذات کا صحت مند تصور نہیں بن پاتا اس کی جگہ ایک مسخ شدہ، روندا ہوا اور مسترد تصورِ ذات جڑ پکڑتا ہے۔ اس تصور ذات کی اذیت اور تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ بچے کے لئے زندگی گزارنی مشکل ہو جاتی ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کا خیال ہے کہ ''ایسی صورت میں بچہ اگر کسی متبادل تصور ذات کا سہارا نہ لے تو اس کی ذہنی و جذباتی صحت خطرے میں رہے گی۔'' چنانچہ بچہ اس جان لیوا احساس اذیت سے چھٹکارے کے لئے ایک ایسے فرد کا تصور تشکیل دے گا جو لامحدود حیثیت، قوت اور اختیار کا مالک ہو۔ اپنی ذات کا تصور نرگسیت کی بنیادی وجہ ہے۔ وہ اپنے ہر وصف میں لامحدودیت کا مالک ایک شخص ہو گا۔ لامحدودیت کا یہ جذبہ اس کے احساساتی و فکری نظام میں ایک منہ زور جذبے کی طرح متحرک ہو گا۔ مختصراََ نرگسی لامتناہی قوت کا مالک، پُر اسرار جوہر سے متصف، ہر واقعہ و علم سے آگاہ، ہمہ دان اور ہر جگہ حاضر کی صفت رکھنے والا فرد ہو گا۔ نرگسیت زدہ کی زندگی کا پراجیکٹ اسی جعلی تصور ذات کو زندہ و توانا رکھنا بن جاتا ہے۔
ایک سادہ مثال سے اسے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ کسی شخص میں مرض کی حد تک یہ احساس ہو کہ وہ خوب صورت نہیں ہے تو ایسی صورت میں ایک حل یہ ہو سکتا ہے وہ زندگی میں ہمیشہ اچھا لباس پہنے۔ اچھا لباس پہننا اس کے لئے زندگی میں اتنا اہم ہو گا کہ وہ اپنی ساری توانائی اسی پر صرف کرتا نظر آئے گا اور اگر کبھی اچھا لباس نہ پہن سکے تو اس پر بے چینی اور کم مائیگی کا حملہ ہو جائے گا۔ ایک نرگسی بھی اپنی ذات کی اذیت سے چھٹکارے کے لئے اسی طرح کی ذات کا تصور تشکیل دیتا ہے کہ لوگوں کے رد عمل کی وجہ سے اس کا احساس اذیت اپنی نظروں سے اوجھل رہے۔
مزید وضاحت سے پہلے ضروری ہو گا کہ یہاں پر شخصیت اور ذات کے تصور میں فرق کر لیا جائے۔ شخصیت آپ کی جملہ خصوصیات، رحجانات، عادات، صلاحیتوں اور طرز عمل کا کم و بیش ایک منظم مجموعہ ہے جو دوسروں کے لئے آپ کے طرز عمل، عادات، رویوں یا دوسری جزئیات کی شکل میں قابل مشاہدہ بھی ہے جبکہ ذات یا سیلف شخصیت کا مرکزہ ہے اور بالواسطہ طور پر قابل مشاہدہ بھی نہیں ہے۔ سیلف یا ذات اس سوال کا جواب ہے کہ ''آپ کون ہیں''۔ ایک معنوں میں یہ آپ کی نظر میں آپ کی بنیادی شناخت ہے۔ گو زندگی میں تبدیلیوں کے ساتھ اپنی اس شناخت میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن کوئی بڑی یا بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ شخصیت میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں لیکن آپ کے کچھ بنیادی تجربات میں تبدیلی نہیں آتی۔ یہ تجربات و واقعات جذبات کی شکل میں آپ کے سیلف میں کنڈلی مارے براجمان رہتے ہیں اور شخصیت کی فعالیت کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ فرض کریں کسی وجہ سے بچپن میں بے وقعتی کا شدید احساس ذات کا بنیادی حصہ بن گیا ہے تو یہ آپ کی زندگی کی بیشتر سرگرمیوں پر حاوی رہے گا۔ اگر پیشہ وارانہ طور پر آپ ایک کامیاب ڈاکٹر، انجینئر یا کچھ اور بن بھی جائیں تو بے بضاعتی اور بے وقعتی کا احساس دامن گیر رہے گا۔ آپ ان افراد سے مختلف ہوں گے جو اپنے پیشے کو بہت اہمیت دے رہے ہوں گے اور اس سے زندگی کی توانائی بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح اگر آپ کی ذات میں اپنے بجائے دوسروں پر انحصار کا جذبہ غالب ہو تو زندگی میں کچھ فیصلے کرنے میں دشواری محسوس کریں گے۔ آپ کے مشاہدے میں ایسے افراد ضرور آئے ہوں گے جو کبھی اپنے والدین سے الگ اپنا گھر نہیں بساتے اور اگر گھریلو دباؤ پر ایسا کرنا پڑ بھی جائے تو شدید کشمکش سے مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔
نرگسیت فرد کی ذات کا روگ ہے۔ یہ مایوسی یعنی ڈپریشن کی طرح احساسات کی بیماری نہیں کہ احساسات میں تبدیلیاں ڈپریشن کی صورت میں واضح طور پر قابل مشاہدہ ہوں۔ یا پھر تشویش کے مریض کی طرح وہ ناقابل برداشت بے چینی کا مظاہرہ نہیں کرتا کہ دیکھنے والا اسے نفسیاتی مریض کہہ سکے۔ اسی طرح شیزوفرینیا کے مریض کی طرح خطرناک واہموں کا شکار بھی نہیں ہوتا، جس بنا پر وہ ایک عام دیکھنے والے کو ذہنی مریض نظر آئے۔ نرگسیت سیلف یا ذات کی بیماری ہے اور دوسرے شخصیاتی امراض کی طرح اس کی زندگی کے معمول کے کاموں میں کوئی بڑا رخنہ پیدا نہیں کرتی۔ آپ کی شخصیت کے دوسرے پہلو عام افراد کی طرح بحال رہیں گے اور کسی بھی حوالے سے بغور مشاہدے کے باوجود آپ ذہنی مریض نہیں نظر آئیں گے۔ دلچسپی اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مریض اپنی نرگسیت کے اظہار کے لئے اپنی شخصیت کے جن پہلوؤں پر انحصار کر رہا ہو گا، وہی پہلو قریبی حلقوں میں مجموعی پذیرائی اور مقبولیت کی وجہ بن رہے ہوں گے۔ اس لئے کسی بھی عام فرد کے لئے نرگسی کی شناخت ناممکن حد تک مشکل ہے۔ اس کی ذہنی صلاحیتیں، جذباتی وظائف اور شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کی نشوونما عام افراد کی طرح ہو گی لیکن یہ ساری خصوصیات صرف اس کی اپنی ذات کی خدمت پر معمور ہوں گی۔
نرگسیت کی رسد
اسرائیلی ماہر نفسیات سام ویکنن نے اسے فنکشنل یا داستانوی سیلف کہا ہے۔ بلاشبہ نرگسی کے تصوراتی خصائص ایک داستان کی مانند ہوتے ہیں، لیکن اپنی اندرونی دنیا میں وہ حقیقت کی شکل میں محسوس کرے گا۔ چنانچہ عظمت کا بے پایاں احساس، اپنے پُراسرار جوہر پر گھمنڈ، دنیا فتح کرنے کے خواب وغیرہ شخصیت میں طوفان برپا کیے رکھیں گے، مگر وہ محض ان خصوصیات کی کہانی سنانے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ ایک بیمار کی مانند اس خواہش میں بھی مبتلا ہوتا ہے کہ دوسرے اس کے نرگسی سیلف کی تائید کریں۔ اگر نرگسی کے بنیادی احساسات و جذبات میں موجود جان لیوا کشمکش پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی شخصیت اندرونی توانائی یا حوالوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اس کی بیمار ذات اپنے ماحول سے تائید کی صورت میں زندہ رہے گی۔ اس تائیدی مواد کو نرگسیت کی سپلائی یا نرگسیت کی خوراک کہا گیا ہے۔ رسد ماحول میں موجود افراد یا فرد کی سوچ، رویوں اور اس طرز عمل پر مشتمل ہوتی ہے جن کا مرکز نرگسی کی اپنی ذات ہو۔ ایک نشئی کی طرح اپنی بنیادی تشنگی دور کرنے کی لئے اسے ایک تواتر کے ساتھ اس رسد کی ضرورت رہتی ہے اور اگر خوراک کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو تکلیف دہ احساسات/ ذات کا حملہ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ چنانچہ وہ دوسرے افراد سے ایسا طرز عمل اخذ کروانے کی طرف مائل ہو گا جس سے اس کی مریضانہ شخصیت کی تائید ہوتی رہے۔ اس تائید کے لئے وہ پیچیدہ نفسیاتی حربوں کا سہارا لیتا ہے۔ ان میں گیس لائٹنگ (1944 میں بننے والی اسی نام کی ایک فلم سے ماخوذ) سب سے پیچیدہ اور تکلیف دہ حربہ ہے۔ اس میں اپنے ٹارگٹ کو ذہنی اور جذباتی طور اس سطح پر لانا ہوتا ہے کہ وہ جذبات اور احساسات کی اپنی دنیا کو غلط اور جھوٹ قرار دے کر اس پر یقین لے آئے اور صرف اس کے وجود کا اثبات کرے۔ اس کے علاوہ کردار کُشی، تذلیل، نرگسی غصہ، ڈرامہ اور دیگر تیکنیک کا بے رحمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ (بعض اوقات ان حربوں کے نتیجے میں زیر تسلط افراد مایوسی اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔)
میرے خیال میں نرگسی سپلائی کی وضاحت کے لئے درج ذیل مثال بے موقع نہ ہو گی۔ پنجاب کی ایک یونیورسٹی کی ایک نامور پروفیسر نے اپنا سارا کیرئیر ہم پیشہ پروفیسروں اور دوسرے سٹاف کے ساتھ لڑائی جھگڑے میں گزارا۔ اس لڑائی جھگڑے میں چیخنا چلانا، طعن و تشنیع سے لے کر قومی و بین الاقوامی اداروں کو شکایت کی چھٹیاں بھی شامل ہیں اور لڑائی جھگڑے کی وجہ عام اور معمول کے واقعات ہوتے۔ پھر خود صدر شعبہ بننے پر بھی اس رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ فرق صرف یہ پڑا کہ اب ان کا رخ انتظامی عملے کی طرف بھی ہو گیا۔ نتیجے میں انتظامی عملے نے چُھٹیاں لینی شروع کر دیں یا دوسرے شعبوں میں تبدیلی میں عافیت ڈھونڈی۔ وہ زیادہ عرصہ چیئرمین نہ رہ سکیں۔ بلاشبہ وہ قابل اور ذہین پروفیسر تھیں اور شاید عالمی سطح پر شائع ہونے والے ان کے پیپر کی تعداد بھی زیادہ ہو، لیکن اپنی اعلی صلاحیتوں کے باوجود ان کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کا سارا ماحول ہمیشہ تناؤ کا شکار رہا۔ چیخنا چلانا، لڑائی جھگڑا، چٹھیاں لکھنا منفی رسد کی واضح مثال ہے۔ کیونکہ معمولی واقعہ یا روز مرہ کی بات بھی ان کے لئے ایک اصولی اور اخلاقی مسئلہ ہوتا اور ان اقدار کو وجہ بنا کر جھگڑنا احساس عظمت کو اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ فرض کریں کہ اگر دوسری طرف سے کوئی جوابی حملہ کیا جائے تو نرگسی اس کے جواب میں برتری کے کسی اور نکتے کو بنیاد بنا کر نیا حملہ شروع کر سکتا ہے تاکہ اپنی احساس عظمت کے لئے خوراک جاری رہے۔ نرگسی اپنے شکار کو اپنے دائرے میں لے آتا ہے تاکہ طعن و تشنیع، گالی گلوچ سے اس کی نرگسی خوراک کا سلسلہ جاری رہے۔ بدقسمتی سے نرگسی کا شکار اس جال میں پھنس بھی جاتا ہے۔ اسی چکر میں پھنس کر ذہنی تناؤ اور مایوسی کا شکار ہو کر خود کشی بھی کر سکتا ہے۔ نرگسی اس لڑائی میں کردار کُشی، تذلیل، نرگسی غصہ، ڈرامہ اور دیگر تیکنیک کا بے رحمانہ استعمال کرتا ہے۔
گو بیمار منفی رسد سے توانا ہوتا ہے لیکن بیماری کی علامتیں بھی شدید ہو جاتی ہیں اور نرگسی کے انجام کا سبب بنتی ہیں۔
(زہریلی نرگسیت کے اس کیس میں وقوفی نخوت کے واضح آثار بھی نمایاں ہیں۔ وقوفی نرگسیت ایسی صورت حال کو کہتے ہیں جس میں کوئی فرد اپنے علم کی بنا پر گھمنڈ کا شکار ہو جائے۔ گو یہ ایک انفرادی کیس ہے لیکن ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ایک گروپ کی حثیت سے وقوفی گھمنڈ کا شکار ہے)
نرگسی اپنے لئے مثبت خوراک کا بندوبست بھی رکھتے ہیں۔ اس رسد کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد ایک ایسا ماحول تخلیق کرے جس میں سے ہر وقت مثبت سوچ اور رویوں کی سپلائی جاری رہے۔ یہ سپلائی ان افراد یا فرد کے رویوں پر مشتمل ہو گی جو نرگسی کے نام نہاد شخصی اوصاف پر کم و بیش ایمان لے آئے ہوں اور اپنے رویوں اور افعال سے اس کی عظمت کے شادیانے بجاتے رہیں اور ان سے اس کے برعکس فعل سرزرد ہونے کا
امکان تک نہ ہو۔ لیکن اصل مسئلہ منفی رسد ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی نفسیاتی ضرورت پوری کرنے کے لئے افراد یا ماحول کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گا، جس کے نتیجے میں ماحول یا افراد کے ساتھ اس کی کشمکش شروع ہو جائے گی۔ احتیاج کی دائمی ضرورت کے باعث اس کشمکش کی نوعیت بھی دائمی ہو گی اور یہی کشمکش نرگسیوں کے المناک انجام کا سبب بنتی ہے۔
نرگسی رسد کی مریض کے لئے وہی اہمیت ہوتی ہے جو بستر پر لیٹے ہوئے فرد کے لئے وینٹی لیٹر کی ہوتی ہے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے ایک نرگسی اپنے بستر پر (نام نہاد) شان و شوکت اور عظمت کے احساس کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔