لٹل پیپل، بونے، کوڈو، چھوٹو (Dwarfism)
میں جب بچہ تھا۔ تو سنتا اور ایسا سمجھتا تھا۔ کہ زمین کے نیچے بونے رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی کہیں نلکے ٹیوب ویل کا بور ہوتا۔ میرا تجسس دیدنی ہوتا۔ کہ شاید کوئی بونا باہر نکل آئے۔ خیر یہ تو ایک مفروضہ تھا جو شاید اب بھی بچوں میں پایا جاتا ہو۔ یہ بونے ہمیں بظاہر تو ہنساتے ہیں۔ مگر اپنے پیٹ کا جہنم روٹی کے چند ٹکڑوں سے بھرنے کے لیے۔ زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے۔ حقیقت میں یہ ہم سے روٹھے ہوئے ہیں۔ یقین مانیں بڑے سخت ناراض ہیں۔ میری پانچ لوگوں سے بات ہوئی ہے۔ سب کو ہم بڑے قد والوں سے ایسے شکوے ہیں جنکا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ جب اور کوئی ان کو کام نہیں دے گا تو یہ کیا کریں گے؟ تماشے نہ کریں تو؟ مجھے یا آپکو ایک مسخرہ بنا دیا جائے؟ رنگ برنگے ملبوسات میں چہرے پر رنگ بھر کر لوگوں کے سامنے الٹے سیدھے کرتب کرنے قلابازیاں لگانے سٹیج پر بھیج دیا جائے تو کیسا لگے؟ جوکر سے انٹر ٹین ہونا بہت اچھا لگتا ہے۔ جوکر بننا آسان نہیں ہے یارو۔
یہ ایک جنیٹک ڈس آرڈر ہے۔ کوئی ایک اور مخصوص وجہ ڈوارف ازم کی ذمہ دار نہیں ہے۔ تقریباً ستر فیصد لٹل پیپلز کے قد چھوٹے رہنے کی وجہ ہے۔ Achondroplasia جس میں ایک جین fibroblast growth factor receptor 3 (FGFR3) کے اندر میوٹیشن ہوجاتی ہے۔ یہ والا جین جسم میں خاص پروٹین بنانے کی ہدایات جاری کرتا ہے. جو کہ ہڈیوں اور باڈی سٹرکچر کو بناتی ہے۔ جب اس جین میں کوئی تغیر آتا ہے تو ہڈیوں کی گروتھ رک جاتی ہے یا نارمل نہیں رہتی۔ یہ جین والدین میں سے کسی ایک میں سے بچے میں آسکتا ہے۔ دونوں والدین کو Achondroplasia نہ بھی ہو یعنی انکے جین ٹھیک ہوں۔ تو بھی بچے کا یہ جین متاثر ہو کر Dwarfism کی وجہ بن سکتا ہے۔ ہم حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ نہ اسے واقع ہونے سے کسی بھی طرح روک سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اکثر جوڑے حمل سے پہلے اپنی جنیٹک ٹیسٹنگ کراتے ہیں۔۔اس میں جینز میں موجود تغیرات اور انکی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے میں آنے والی ممکنہ وراثتی معذوری کو روکنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ ٹیسٹ ہماری تھوک اور خون کے سامپل سے کئے جاتے ہیں۔ اگلی مفصل تحریر انشا اللہ جنیٹک ٹیسٹنگ پر ہوگی۔ کچھ وجوہات میں میٹابولک اور ہارمونل تغیرات اس کی وجہ ہیں۔ جیسا کہ گروتھ ہارمون کی کمی ہونا۔ یہ ہارمون دماغ کی نچلی سطح میں واقع pituitary gland سے بنتا یے۔ اس کی کمی یا خرابی جسمانی گروتھ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لڑکیوں میں Dwarfism کی ایک وجہ ٹرنر سنڈروم بھی ہے۔ ٹرنر سنڈروم کا شکار صرف لڑکیاں ہوتی ہیں۔ عام حالات میں لڑکی والد اور والدہ دونوں سے ایکس کروموسوم کی ایک ایک کاپی لیتی ہے۔ مگر بچی میں دو کی بجائے ایک ایکس کروموسوم کی کاپی مس ہوجاتی ہے۔ اور بچی کا قد چار فٹ کے آس پاس رہ جاتا ہے۔
ماں کی دوران حمل غذا اور بچے کی بچپن میں غذائی کمی بھی قد چھوٹا ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔ ان افراد کی جسمانی ساخت کیسی ہوتی ہے؟ یوں تو اس ڈس آرڈر کی 400 اقسام ہیں۔ میں صرف بڑی 2 پر مختصر بات کروں گا۔ پہلی قسم جسے Disproportionate dwarfism کہتے ہیں میں لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کا دھڑ (torso) بلکل نارمل لوگوں کی طرح ہوتا ہے۔ بازو اور ٹانگیں چھوٹی رہ جاتی ہیں۔ ہاتھ پاؤں بہت چھوٹے رہ جاتے اور ہاتھ کی مٹھی بند کرنا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ سر کافی بڑا ہوجاتا ہے۔ بازوں میں کہنی کا جوڑ 20 سے 25 فیصد حرکت کرتا ہے۔ پورا بازو ہی حرکت کرتا ہے درمیان سے مڑتا نہیں۔ کمر عمر کے ساتھ ساتھ پیٹ کی طرف دھنسنا شروع ہو جاتی ہے۔ پیٹ آگے کو اور کولہے پیچھے کو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اسے Swayed lower back کہتے ہیں۔ ٹانگیں بھی عمر کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں باہر کی جانب ٹیڑھی ہونا شروع جاتی ہیں (bowed legs) جو مسلسل ہوتی رہتی ہیں۔ بڑھاپے میں چلنا پھرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
کانوں کے انفیکشن بڑے عام ہوتے ہیں۔
دوسری قسم proportionate dwarfism میں دھڑ بھی چھوٹا ہی رہتا ہے اور سارے اعضاء بھی چھوٹے رہ جاتے۔ اس میں متاثرہ فرد کا قد دو فٹ سے لیکر زیادہ سے زیادہ چار فٹ تک جا سکتا ہے۔ جبکہ پہلی قسم میں 3 فٹ سے لیکر 4 فٹ دس انچ تک جا سکتا ہے۔ ان افراد کا ایورج قد دنیا بھر میں 4 فٹ ہے۔ دنیا کا سب سے چھوٹا چلنے پھرنے والا مرد کولمبیا کا رہائشی ایڈورڈ نینو ہرنانڈیز Edward Niño Hernández ہے۔ اس کی عمر 35 سال ہے۔۔قد 2 فٹ چار اشاریہ 39 انچ ہے۔ اور دنیا کی سب سے چھوٹی عورت جیوتی Jyoti Amge ہے۔ اسکی عمر 27 سال اور قد 2 فٹ ہے۔ یہ ٹھیک چلتی پھرتی اور بولتی ہے۔
انکے مسائل کیا ہیں؟
میرا تعلق کیونکہ ایک مشہور و معروف میلے والے گاؤں (بھڑی شاہ رحمان، ضلع گوجرانولہ، پنجاب) سے ہے۔ جہاں لکی ایرانی سرکس، جوبلی سرکس، پاک چائنہ سرکس، موت کے کنویں، موت کے گولے، تھیٹر، کنجریوں کے ڈانس کے اکھاڑے، وغیرہ لگتے تھے۔ یہ سب تماشوں کی جگہ ہیں۔ اور ہوش سنبھالتے ہی ان سب تماشوں کی جگہوں پر بونوں کو اپنے دکھ درد چھپا کر تماشے کرتے لوگوں کو ہنساتے دیکھا ہے۔ دنیا بھر میں سرکس اور بونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیونکہ بونوں کی شادیاں بھی بونی لڑکیوں سے ہوتی ہیں۔ انکے بچے بھی ایک آدھ لمبے اور ایک آدھ بونے ہو جاتے ہیں۔ تو سرکس سے انکا تعلق کئی پیڑھیوں تک چلتا رہتا ہے۔ باپ کی جگہ بونا بیٹا اور ماں کی جگہ بونی بیٹی یا بہو لے لیتی ہے-اسکے علاوہ سٹیج پرفارمنس میں جہاں لوگوں کو انٹرٹین کرنا ہوں بونوں کو بھی ایک آدھ رول مل جاتا ہے۔ آگے بڑھیں تو ہوٹلوں کے دروازے کھولنے کے لیے بڑی پگ پہنا کر انکو رکھا جاتا ہے۔ اور آگے چلیں دفتروں ہوٹلوں میں جھاڑ پونچھ کرنے یا پانی چائے دینے کے لیے انکو چھوٹے" کا نام اور رول دیا جاتا۔ اور آگے چلیں ناچنے گانے والے شی میل کے ساتھ انکا جوڑ ہوتا۔ کسی کے گھر لڑکا ہو یا کوئی شادی یہ ناچنے جاتے۔ بونوں کو دیکھ کر لوگ خوش ہوتے ہیں۔ تو انہیں کہا جاتا آپ نے کوئی اوٹ پٹانگ ڈانس کا سٹیپ کرنا ہے۔ جس سے لوگ ہنسیں۔ اس سب کے سوا کوئی بونا چھوٹا موٹا ٹھیلا لگائے نظر آئے گا۔ بونے اپنے لیے لفظ بونا، کوڈو، چھوٹا، ٹینا، سننا اچھا نہیں سمجھتے اور نہ ہی یہ الفاظ مناسب ہیں۔ لٹل پیپل گو انگریزی میں چھوٹے لوگ کا ہی ترجمہ ہے۔ مگر کچھ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ ان کی ساری زندگی بچپن سے بڑھاپے تک بلیئنگ Bullying سہتے ہی گزر جاتی ہے۔ انکے نام رکھے جاتے انکی سیلف اسٹیم اور مورال کو گرایا جاتا ہے۔ اور یہ تاثر دیا جاتا ہے۔ کہ دنیا صرف لمبوں کی ہے۔ آپ تو بس ہماری چھیڑ چھاڑ اور ہمیں انٹرٹین کرنے ہی دنیا میں آئے ہیں۔۔عزت و وقار کی زندگی آپکے نصیب میں نہیں۔ کہیں آس پاس کسی بڑی پوزیشن یا اچھی ملازمت پر کوئی بونا دیکھا؟ بونے تو بہت دیکھے ہونگے؟ اگر ہونگے بھی تو آٹے میں نمک برابر تعداد ہوگی۔ اس ڈس آرڈر کی نہ کوئی روک تھام ہے۔ نہ کوئی دنیا بھر میں علاج ہے۔ لٹل پیپل ہمیشہ لٹل ہی رہیں گے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قبول نہ کیا جانا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ گھر چھوڑ کر سرکسوں اور تماش بینوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیتے۔ سکول میں بھی دوسرے بچے برے نام رکھتے ہیں۔ چھیڑتے ہیں۔ بلئینگ کرتے ہیں۔ تو تعلیم مکمل نہیں ہو پاتی۔ معاشرے میں بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہمیشہ تمسخر ہی اڑایا جاتا ہے۔ شادی کا معاملہ آتا تو دنیا بھر میں 60 فیصد لٹل پیپلز کی شادیاں کبھی بھی ہو نہیں پاتیں۔ جبکہ جرنل آف سیکسوئل میڈیسن 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق ان میں جنسی تعلق قائم کرنے کی صلاحیت عام افراد سے زیادہ ہوتی ہے۔ اور پرائیوٹ پارٹس میں کوئی نقص نہیں ہوتا۔ خواتین بھی بلکل نارمل طریقے سے ماں بن سکتی ہیں۔ ایک لٹل گرل اگر نارمل قد کے مرد سے شادی کرے تو صرف 25 فیصد چانس ہوتا کہ بچہ
بھی چھوٹا پیدا ہوگا۔ جو کہ دونوں میاں بیوی کے بلکل ٹھیک ہونے پر بھی موجود ہی ہے۔ اکثریت میں لٹل پیپل نارمل قد کے جوڑوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔
جب ان سے نارمل قد کے لوگ شادی نہیں کرتے۔ تو یہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں۔ اب انکے بچوں میں 50 فیصد چانسز ہوتے ہیں کہ بچہ بھی ان جیسا ہی ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان کے ہاں اکثریت میں ایک دو بچے بونے ہی پیدا ہوتے۔ اور انکی زندگی بھی اپنے والدین کی طرح معاشرے کے متعصب و غیر منصفانہ غیر انسانی رویے برداشت کرتے گزرتی ہے۔
پاکستان کے قانون میں چار فٹ دس انچ ("4.10) یا اس سے چھوٹے قد والے بالغ افراد سپیشل پرسنز (لٹل پیپل) کی فہرست میں آتے ہیں؟ ان کو حکومت پاکستان محکمہ سوشل ویلفیئر "سپیشل سیٹزن آف پاکستان" کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے۔ اور یہ لوگ 3 فیصد سپیشل کوٹہ پر اپنی تعلیم کے مطابق سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں ملازمت کر سکتے ہیں۔ چھوٹے افراد کی ریشو عموماً 25 ہزار میں سے ایک فرد ہے۔ اس میں وہ لوگ آتے ہیں جن کا قد چار فٹ سے بھی کم ہے۔ جبکہ دو فٹ سے لیکر 4.10 انچ تک کے لٹل پیپلز کی ایک نجی ادارے لٹل پیپل آف پاکستان کے مطابق تعداد پاکستان میں 50 سے 60 ہزار ہے۔
آئیے عہد کریں۔ ان کو قبول کریں گے۔ ان کو اپنا بیسٹ فرینڈ ترس یا رحم کھا نہیں بلکہ برابری کی بنیادوں پر بنائیں گے۔ انکے لیے تعلیمی اداروں میں رسائی کو آسان کریں گے۔ ان کو سرکسوں موت کے کنوؤں شی میل سے الگ کرکے ایک بامقصد زندگی کی طرف لے کر آئیں گے۔ ان کو ملازمت کے یکساں مواقع فراہم کریں گے۔ ان کو ہنر سکھائیں گے۔ انکو کھیلنے میں شامل کریں گے۔ انکو اپنے ساتھ ٹورز پر لے کر جائیں گے۔ ان کے لیے بائیکس اور گاڑیوں کو ایسا بنائیں گے کہ یہ خود چلا سکیں۔ یہ مانگنا نہیں چاہتے۔ نہ یہ مانگنے والے ہیں۔ ہم انہیں باعزت و باوقار ذریعہ روزگار فراہم کرنے میں بحثیت قوم اپنا بھرپور کردار انشاء اللہ ادا کریں گے۔
دوبئی میں ایک عربی بونا بائیس ویلر ٹرک ڈرائیور ہے۔ اسکے پاس دوبئی کا انٹرنیشنل ہیوی لائسنس ہے۔ ایک پاکستانی ٹرک
مکینک نے اسے ٹرک کا کلچ ریس اور سٹیرنگ ایسے بنا دیا ہے کہ وہ آسانی سے چلا سکتا ہے۔ یہاں ہم ان کو کیوں آسانی نہیں دے سکتے؟ یہ تحریر معلوماتی سے زیادہ اخلاقی رنگ اختیار کر گئی ہے۔ طوالت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ نم آنکھوں کے ساتھ جذبات میں بہتا ہی چلا گیا۔