جناح اور گاندھی: برصغیر کی خونیں تقسیم کے باوجود ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے رہنما
حالات اس سے تلخ کیا ہوتے۔ برطانیہ سے آزاد ہو کر برصغیر کو دو ملکوں، پاکستان اور انڈیا میں تقسیم ہوئے ابھی چند ہی ماہ ہوئے تھے۔ دونوں ملک سرحد پار خون آلود نقل مکانی کے باعث زخم زخم تھے مگر لہجوں میں کڑواہٹ کسی بھی ملک کے رہنما میں نہ تھی۔
تب کراچی پاکستان کا صدر مقام تھا۔ یہیں ساحل سمندر پر چلتے ہوئے، بانی پاکستان اور گورنر جنرل محمد علی جناح نے امریکی سفیر پال آلنگ سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ’امریکہ اور کینیڈا جیسے ہوں۔‘
اشارہ تقریباً نو ہزار کلومیٹر لمبی زمینی سرحد بانٹتے ان ملکوں کے درمیان اشیا اور لوگوں کے آنے جانے میں تعاون کی جانب تھا جس سے دونوں ممالک خوشحال ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ماہر ڈینس ککس نے امریکی محکمہ خارجہ میں 20 سال کام کیا اور چار سال پاکستان میں گزارے۔ککس اپنی کتاب ’امریکہ اور پاکستان (1947-2000): مایوس اتحادی‘ میں مارچ 1948 کی اس نجی ملاقات کو یاد کرتے ہیں جو آلنگ نے جناح کی سمندر کے کنارے رہائش گاہ پر کی۔آلنگ نے جناح سے کہا کہ ’امریکہ، انڈیا اور پاکستان کو دوستانہ پڑوسی دیکھنا چاہتا ہے۔‘
اندرونی یادداشتوں پر مبنی اس کتاب میں ککس نے لکھا کہ اس کے جواب میں جناح نے کہا ’کچھ بھی’ اس سے بڑھ کر ’(ان کے) دل کے قریب نہیں۔‘ اور وہ یہ بات خلوص سے کہہ رہے تھے۔تقسیم ہند سے تقریباً تین ماہ قبل محمد علی جناح نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل کو انٹرویو دیا۔22 مئی 1947 کو ڈان میں شائع ہونے والے اس انٹرویو کے مطابق ’جناح پاکستان اور انڈیا کے مابین دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کے خواہاں تھے۔ ان کے مطابق تقسیم ہند مستقل دشمنی اور تناؤ کی نہیں بلکہ باہمی کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد تھی۔‘
تقسیم پر جناح نے نئی دہلی میں اپنا گھر بیچ دیا لیکن جنوبی بمبئی (ممبئی) میں 2.5 ایکڑ پر محیط حویلی پاس ہی رکھی۔ جناح اطالوی سنگ مرمر اور اخروٹ کی لکڑی کے کام کے لیے مشہور اس گھر سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔
7 اگست 1947 کو تقسیم سے ایک ہفتہ قبل وہاں سے آتے ہوئے جناح نے بمبئی کے اس وقت کے وزیر اعظم بی جی کھیر کو جائیداد کی دیکھ بھال کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی چھٹی پر پاکستان سے واپس آئیں گے۔’گاندھی تو اصل میں پاکستان کے باپو تھےدوسری جانب انڈیا کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن اور ہم آہنگی کے لیے پاکستان کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
مہاتما کے پوتے اور 'دی گڈ بوٹ مین: اے پورٹریٹ آف گاندھی اینڈ انڈرسٹینڈنگ دی مسلم مائنڈ‘ کے مصنف راج موہن گاندھی کے مطابق ’اگست 1947 ہی سے گاندھی پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ 23 ستمبر کو انھوں نے کہا کہ ’میں لاہور جانا چاہتا ہوں۔ میں راولپنڈی جانا چاہتا ہوں۔‘’انھوں نے اس خواہش کے بارے میں جناح کو لکھا۔ 27 جنوری کو اس بات پر اتفاق ہوا کہ گاندھی 8 یا 9 فروری کو پاکستان پہنچیں گے۔‘
آؤٹ لک میگزین کے لیے اپنے مضمون میں راج موہن گاندھی نے لکھا کہ ’گاندھی اگر 40 کے اواخر اور 50 کی دہائی میں ہوتے تو پاکستان اور انڈیا تعلقات ٹھیک کر سکتے تھے۔‘
گاندھی کے قتل پر پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نازک وقت میں انڈین سیاست سے گاندھی کا اٹھ جانا ناقابل تلافی نقصان ہے-انڈیا کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قریبی ساتھی سدھیندر کلکرنی ’میوزک آف دی سپننگ وہیل‘ کے مصنف ہیں۔ان کے مطابق گاندھی کا کہنا تھا کہ ’جب مغرب ایک خوفناک تاریکی میں تھا، مشرق میں اسلام کا چمکتا ہوا ستارہ مصیبت زدہ دنیا کے لیے روشنی، امن اور راحت لے کر آیا۔ اسلام کوئی فتنہ انگیز مذہب نہیں۔‘’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام کا تیزی سے پھیلنا تلوار سے نہیں تھا۔ اس کے برعکس، یہ بنیادی طور پر اس کی سادگی، مدلل پیغام، اس کے پیغمبر کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے تھا کہ بہت سے لوگوں نے خوشی سے اسلام قبول کیا۔‘
گاندھی اور جناح مذاکرات کے ایک سلسلے کے بعد، کلکرنی کے مطابق ’گاندھی نے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں خود ارادیت کی بنیاد پر خودمختار ریاستوں کے اصول کی تائید کی۔ انھوں نے جناح سے کہا کہ ’اگر آپ چاہیں تو اسے پاکستان کہہ سکتے ہیں،‘ اس حد تک کہ انھوں نے قراردادِ لاہور کو تسلیم کر لیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس لیے میں نے ایک راستہ تجویز کیا ہے، دو بھائیوں کے درمیان تقسیم ہونے دو، اگر تقسیم ہونا ضروری ہے۔‘
کلکرنی لکھتے ہیں کہ اپنے قتل سے چند دن پہلے، گاندھی نے اپنے دعائیہ جلسوں میں یہ اعلان کرنے کی جرات کی تھی کہ ’انڈیا اور پاکستان دونوں میرے ملک ہیں۔ میں پاکستان جانے کے لیے پاسپورٹ نہیں لے کر جاؤں گا۔۔۔ اگرچہ جغرافیائی اور سیاسی طور پر ہندوستان دو حصوں میں بٹا ہوا ہے لیکن دل سے ہم دوست اور بھائی، ایک دوسرے کی مدد اور احترام کرنے والے ہوں گے اور بیرونی دنیا کے لیے ایک ہوں گے۔‘انڈین حکومت نے پاکستان کو اس کے حصے کے 55 کروڑ روپے اور فوجی سامان دینے سے انکار کیا تو گاندھی نے پاکستان کے حق میں بھوک ہڑتال کر دی تھی۔اس پر انڈین حکومت 16 جنوری کو پاکستان کو 55 کروڑ روپے دینے کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اس ’جرم‘ پر ایک انتہا پسند ہندو نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948 کو گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔گوڈسے نے عدالت میں یوں بیان دیا کہ ’گاندھی کو باپو کہا جاتا ہے۔۔۔ وہ تو اصل میں پاکستان کے باپو تھے۔ ان کے اندر کی آواز، ان کی روحانی طاقت، ان کا فلسفہ، سب کچھ جناح کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔‘بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس عظیم شخص کی موت سے جو جگہ خالی ہوئی اس کا پورا ہونا بہت مشکل ہے-
گاندھی کے قتل پر پاکستان میں بھی سوگ -ادیب اور محقق امجد سلیم علوی کا کہنا ہے کہ اسی کے ساتھ جڑا ایک اور واقعہ بھی گاندھی کے قتل کا باعث بنا۔’(مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ) حسین شہید سہروردی گاندھی کو تقسیم کے وقت بنگال لے گئے تھے تاکہ بنگالی مسلمانوں کو ہندوؤں کی نفرت سے بچایا جائے۔’یہی وجہ ہے کہ بنگال قتل و غارت سے محفوظ رہا۔ گاندھی جی نے دہلی میں بھی خون خرابہ بند کروایا۔ گاندھی جی منصوبہ بنا رہے تھے کہ انڈیا سے ہندوؤں کا ایک جتھہ لا کر واپس ماڈل ٹاؤن لاہور میں آباد کریں اور یہاں سے مسلمانوں کا ایک لشکر لے جا کر ان کو ان کے آبائی گھروں میں پہنچائیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’گاندھی جی کے دورے کا انتظام کرنے کے لیے سہروردی جنوری 1948 کے اواخر میں لاہور بھی آئے اور دو دن قیام کیا۔ اس دوران اربابِ اختیار سے ملاقاتیں بھی کیں اور ایک جلسے سے خطاب بھی کیا۔ ان کے واپس جانے کے دو تین دن بعد ہی گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا۔‘گاندھی کی موت پر پاکستان میں بھی سرکاری طور پر سوگ منایا گیا۔ 31 جنوری 1948 کو تمام سرکاری دفاتر بند رہے۔ انگریزی روزنامے پاکستان ٹائمز کی اسی روز کی اشاعت میں اخبار کے دفاتر بند ہونے کا اعلان چھپا۔
پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض نے گاندھی کی موت پر اداریہ میں لکھا کہ ’اس صدی میں بہت کم شخصیات اس بلندی تک پہنچیں جسے پسے ہوئے لوگوں کے اس رہنما نے چھوا۔ ہم سرحد پار دوستوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ گاندھی جی کی موت ایک مشترکہ نقصان ہے۔‘’اس کی گواہی لاہور کی سڑکوں پر اترے ہوئے چہرے اور سوگ میں کاروبار بند ہونے سے مل سکتی ہے۔ گاندھی جی کی روح کو تب ہی سکون مل سکتا ہے جب ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ انصاف اور رواداری کا سلوک ہو۔ اسی مقصد کے لیے گاندھی جی کی جان گئی۔‘
جناح نے گاندھی کے قتل کی خبر سن کر اسی روز اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’مجھے گاندھی پر حملے اور اس کے نتیجے میں ان کی موت کا جان کر صدمہ ہوا۔ ہمارے اختلافات اپنی جگہ مگر وہ ہندوؤں میں پیدا ہونے والی عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے۔‘
’انھیں اپنے لوگوں کا مکمل احترام اور اعتماد حاصل تھا۔ انڈیا کے لیے یہ نقصانِ عظیم ہے۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا پُر ہونا بہت دشوار ہے۔‘
پاکستان کی پارلیمان نے بھی گاندھی کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
چار فروری 1948 کے اجلاس میں قائد ایوان لیاقت علی خان نے کہا کہ ’میں گہرے دکھ کے ساتھ گاندھی جی کی المناک موت کا حوالہ دینے کے لیے اٹھا ہوں۔ وہ ہمارے دور کے عظیم آدمیوں میں سے ایک تھے۔‘انھوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام کیا کہ ’ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ گاندھی اپنی زندگی میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکے، وہ ان کی موت کے بعد پورا ہو جائے یعنی اس برصغیر میں بسنے والی مختلف قوموں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کا قیام۔‘
’جناح اینٹی ہندو تھے نہ اینٹی انڈیا‘
محمد علی جناح کی وفات 11 ستمبر 1948 کو ہوئی۔ 13 ستمبر 1948 کے اخبار دی ہندو کا اداریہ ’مسٹر جناح‘ کے عنوان سے چھپا۔انھیں ’گاندھی جی کے بعد، غیر منقسم ہندوستان کے سب سے طاقتور رہنما‘ کے طور پر یاد کیا گیا۔اداریے میں کہا گیا کہ ’مسٹر جناح تلخی کے باوجود کبھی نہیں بھولے کہ دونوں ریاستوں (پاکستان اور انڈیا) کے درمیان مضبوط دوستی نہ صرف ممکن بلکہ ناگزیر تھی۔‘کلکرنی کا کہنا ہے کہ جناح ’اینٹی ہندو‘ تھے نہ ہی ’اینٹی انڈیا‘۔ سال 1948 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کے دار الحکومت ڈھاکہ کے دورے کے دوران انھوں نے ہندو برادری کو یقین دلایا تھا کہ ’گھبراؤ نہیں، پاکستان کو نہ چھوڑو کیونکہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گا اور ہندوؤں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔‘
پلوی راگھون کی تحقیق ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں تعلقات نہ صرف رہنماؤں کے اچھے تھے بلکہ بیوروکریسی کے بھی تھے کیونکہ ساتھ کام کر چکے تھے۔
راگھون نے اپنی کتاب ’دشمنی ایک طرف: .انڈیا-پاکستان تعلقات کی متبادل تاریخ، 1947-1952‘ میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ابتدائی پانچ برسوں پر تحقیق کی ہے۔
ان کی کتاب اسی دور میں امن کے لیے لیاقت-نہرو معاہدے جیسی کوششوں کا جائزہ لیتی ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ’تقسیم سے جنم لینے والے مسائل، جیسے نقل مکانی یا اقلیتی حقوق یا متروکہ جائیداد، کے حل کے لیے دونوں ممالک میں ایک بہت ہی عجیب قسم کی قربت اور ناقابل یقین حد تک سنجیدہ کوشش دیکھی گئی۔ جنوبی ایشیا میں اس قسم کی آمادگی حیران کن ہے۔‘
تاہم تاریخ دان معراج حسن کے مطابق یہ محض ’فارمیلٹی‘ تھی۔
’ابتدا میں [کشمیر پر] جنگ تھی اور انڈین رہنما یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان جلد واپس آ جائے گا انڈیا میں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد نہرو-لیاقت معاہدے نے راہ ہموار کی۔‘
معراج حسن کا ماننا ہے کہ یہ محض فارمیلٹی تھی جو اب بھی ہے۔ ’ورنہ برطانوی راج کے آخری مہینوں میں انڈین بیوروکریسی نے بہت جگہوں پہ مسلمان افسروں کا دفتروں سے سامان باہر نکال دیا تھا۔‘
’ایک میٹنگ میں لیاقت اور نہرو کی لڑائی ہونے والی تھی۔ رنجش دور نہ ہوئی لیکن فارمیلٹی آ گئی۔‘
سدھیندر کلکرنی کہتے ہیں کہ تقسیم کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔
’پاکستان ایک الگ اور خودمختار ملک ہے اور رہے گا۔ انڈیا میں رہنے والوں کو نہ صرف اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے بلکہ یہ مخلصانہ خواہش بھی کرنی چاہیے کہ پاکستان متحد رہے اور مزید مستحکم، مربوط، جمہوری اور خوشحال بنے۔‘
کلکرنی اپنی دلیل کا اختتام یوں کرتے ہیں کہ ’کیا ہمیں تاریخ سے صحیح سبق نہیں سیکھنا چاہیے اور گاندھی اور جناح کے خوابوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے اچھے پڑوسیوں کے طور پر زندگی گزارنا نہیں شروع کر دینا چاہیے؟‘
بشکریہ : بی بی سی 8 اگست 2022