مكافات عمل
وہ میری ہی نہیں بلکہ پورے محلے کی نانی تھیں-ان کا گھر نانی کا گھر تھا پوری گلی کے کسی بھی گھر میں کسی بھی بچے کوسالن پسند نہ آتا تو وہ بلا تکلف نانی کے گھر چلاآتا اور اسے خالی ہاتھ نہ لوٹایا جاتا-شام کے سائے جوں ہی ڈھلتے ان کے گھر قرآن پڑھنے والے بچوں کا تانتا بند ھ جاتااور نانی بڑے مزے سے بچوں کو عربی قرآن’’پنجابی‘‘ میں پڑھایا کرتیں- ان کے گھر آنے والے بچوں نے نانی کے گھر کے سارے کام اپنے ذمے لے ر کھے تھے - آنے والا ہر شاگرد چاہے وہ لڑ کا ہو یا لڑ کی پہلے اپنے حصے کا کام کرتا پھر قرآن پڑھتا- چند لڑ کیوں نے صفائی اپنے ذمے لے ر کھی تھی‘ چندنے برتن دھونااور کچھ نے گھرکے دیگر چھوٹے موٹے کام-گھر سے باہر کے تمام کام لڑ کوں کے ذمہ تھے -عجیب ’’دقیانوسی‘‘ زمانہ تھا جو بچہ اپنے استاد یا استاد کے گھر کے جتنے زیادہ کام کرتا اس کے والدین اتنا ہی زیادہ خوش ہوتے - استاد کی خدمت کے بدلے میں اللہ ایسے شاگردوں کو علم کا نور عطا فرماتے تھے - آج بھی شاگرد کہتے ہیں کہ ہم علم حاصل کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ علم نہیں معلومات ہوتی ہیں کیونکہ سچا علم تو یقیناً انسان کو مہذب اور بااخلاق بنا دیتا ہے جبکہ آج کل اس کے برعکس ہے -
نانی کے اسی گھر میں ان کی بیوہ بیٹی بھی رہتی تھی جس کی دو بیٹیاںبھی تھیں-اس بیوہ کا خاوند انتہائی شریف النفس اور نیک انسان تھا - قدرت کو ایسے ہی منظور تھا وہ شادی کے چند برس بعد ہی چل بسااور یہ بیٹی بیوہ ہو کر نانی کے گھر کی ہو رہی- نانی نے اس کی دوسری شادی کی کوشش کی مگر اس بیٹی نے سختی سے انکار کر دیا- اسے معاشی محتاجی سے بچانے کے لیے LHV کا کورس کروا دیا گیااور یوں وہ مڈ وائفری سے مناسب کمانے لگیں لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اپنی باقی بہنوں کے برعکس ان کا مزاج انتہائی جارحانہ تھا- لوگ سمجھتے تھے کہ شاید بیوگی کے صدمے نے انہیں ایسا کر دیا ہے لیکن نانی بتاتی تھیں کہ یہ اپنے خاوند کے ساتھ بھی ایسا ہی سلو ک کیا کرتی تھیںاور وہ اللہ کا ولی بخوشی اس کوبرداشت کیا کرتا تھا-ان کا اور ا ن کی بیٹیوں کا کھانا پینا بھی نانی کے ذمہ تھا - ہماری خالہ کھاتی بھی تھیں اور آنکھیں بھی د کھاتی تھیں- میں نے بھی اپنی عمر کے کم و بیش دس برس نانی کے گھر ہی گزارے تھے اور مجھےوہ منظر اچھی طرح یاد ہے کہ نانی انہیں کہا کرتی تھیں کہ تمہاری بیٹیاں بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی سلو ک کیاکریں گی جیساتم میرے ساتھ کرتی ہواور وہ نانی کی بات کو اپنی جارحانہ ’’ہوں‘‘ کہہ کر اڑا دیتیں- ہماری اس خالہ نے اپنا سب کچھ اپنی بیٹیوں پر لٹا دیا - انہیں اچھی تعلیم دلوائی ‘ان کا ہر ناز نخرہ پورا کیامگر ہوا پھر بھی وہی جو ہماری نانی کہا کرتی تھیں- بیٹیاں بڑی ہوئیں تو وہ اپنی ماں کے ساتھ ویسے ہی بدتمیزی کرنے لگیںجیسے خالہ ہماری نانی کے ساتھ کیا کرتی تھیں-اور ایک و قت آیا کہ ہم نے اسی خالہ کو اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں عاجز آ کر روتے ہوئے دیکھا- نانی اگرچہ یہ منظر نہ دیکھ سکیں لیکن ہوا بعینہ وہی جووہ کہا کرتی تھیں- خالہ کی دوبیٹیوں کو بھی اللہ نے خوب اولاد سے نوازا-بڑی بیٹی کوتو اللہ نے ماشا ء اللہ پانچ بیٹے عطا فرمائے اور چھوٹی کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں- اب ان بیٹیوں کی باری آ گئی جیسا یہ اپنی ماں کے ساتھ کیا کرتی تھیں ویسے ہی ان کی اولاد ان کے ساتھ کرنے لگی - ایک سے ایک بڑھ کر بد تمیز- اللہ رحم فرمائے ہم نے جیتے جی جاگتی آنکھوں سے تین نسلوں میں مکافات کا یہ عمل دیکھ لیا- اور اب چوتھی نسل کی باری ہے -تیسری نسل کو یہ فقیر بارہا خبر دار کر چکا ہے کہ تم لوگ اپنے والدین کے ساتھ اپنی روش بدل لو ورنہ وہ دن دور نہیں جب تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ وہی کچھ کیا کرے گی جو تم اپنے والدین سے کر رہے ہو- لیکن ہائےری قسمت وہ بھی بیچارے صم بکم عمی ہیں- کاش ہم یہ بات سمجھ لیں کہ والدین کے ساتھ کیا ہرعمل دیوار کی طر ف پھینکی اس گیند کی مانندہے جو لوٹ کر اسی کی طرف واپس آتی ہے جس نے اسے دیوار پہ مارا تھا- ا کثر اعمال کی جزاوسزا تو آخرت پر موقوف ہے لیکن والدین کے ساتھ کیا ہر عمل مکافات کی صورت یہاں بھی لوٹ کر واپس آتا ہے اور آخرت میں تو اور بھی شدت کے ساتھ لوٹنے والا ہےہی-