چین میں آن لائن کھانا آرڈر کرنا بہت ہی آسان ہے۔ کئی کمپنیوں نے آن لائن کھانا منگوانے کی ایپس بنائی ہوئی ہیں جن کی مدد سے دس سے 30 منٹ کے دوران اپنے پسندیدہ قریبی ریستوران سے جب دل چاہے کھانا منگوایا جا سکتا ہے۔ہمیں پہلے ان ایپس کا پتا نہیں تھا۔ ہم روز کھانا پکاتے تھے، جس دن نہ پکا پاتے، اس دن کیفےٹیریا جا کر پیٹ پوجا کر لیتے تھے۔ اب پی ایچ ڈی کا کام اور اسے کرنے کا سوچ کر جو ٹینشن ہوتی ہے، اس میں کھانا تو ہرگز نہیں بنایا جا سکتا۔ جب بھوک لگے موبائل پکڑتے ہیں اور کچھ نہ کچھ منگوا کر کھا لیتے ہیں۔ آسانی ہی آسانی۔۔ ہے نا؟پر نہیں۔۔ رکیں۔۔ہم اکیلے ہی آن لائن فوڈ ڈیلیوری ایپس کا استعمال نہیں کرتے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ یہاں روزانہ کھانے کے پانچ کروڑ آن لائن آرڈر کیے جاتے ہیں۔ ہر سال ان آرڈرز کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ یہاں لوگوں کی زندگی اتنی تیز رفتار اور مصروف ہے کہ ان کے لیے روزانہ اپنے لیے تازہ کھانا بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ ایک عام چینی صبح چھ بجے اٹھتا ہے، سات بجے سب وے لیتا ہے اور آٹھ بجے دفتر پہنچتا ہے۔ اس کے پاس وقت ہو تو دفتر یا گھر کے قریب سے ناشتے کے لیے ایک بن، ابلا ہوا انڈا، سینڈوچ، چائے یا کافی خرید لیتا ہے ورنہ دفتر پہنچ کر آن لائن ناشتہ منگوا لیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کھانا پیک کرنے کے لیے ایک جتنے پلاسٹک کا استعمال ہوتا ہے۔ دوپہر میں پھر سے آن لائن کھانا منگوا لیا جاتا ہے۔ شام میں اگر وقت ہو تو کھانا بنا لیا ورنہ دوستوں کے ساتھ باہر چلے گئے یا پھر سے آن لائن آرڈر کر دیا۔
آن لائن منگوائے جانے والے کھانے کی پیکنگ پر جو پلاسٹک استعمال ہوتا ہے اگر اسے اکٹھا کیا جائے تو اس سے فٹ بال کے 420 گراؤنڈ بھرے جا سکتے ہیں۔ یہ روزانہ کی بات ہو رہی ہے۔یہ اعداد و شمار کسی کو بھی پریشان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ چینی حکومت اس کچرے سے نبٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔ یہاں کچھ کچرا تو ری سائیکل کیا جاتا ہے اور چینی حکومت اس کی تعداد میں اضافے کے لیے سخت کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سا کچرا پلانٹس میں جلایا جاتا ہے لیکن بہت سا کچرا ابھی بھی لینڈ فلز یعنی بڑے بڑے گڑھوں میں پھینکا جاتا ہے یا دریا کے ذریعے سمندر میں بہایا جاتا ہے۔
ماحول دوست افراد اپنے تئیں ماحول بچانے کے لیے بہت ساکام کر رہے ہیں۔ یہاں کچھ ایسی موبائل ایپس بنائی گئی ہیں جن کی مدد سے صارفین اپنے قریب ایسے سٹور تلاش کر سکتے ہیں جہاں ایسی اشیا پر ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے جن کی معیاد عنقریب ختم ہونے والی ہو۔ ماحول دوست افراد اپنے فوری استعمال کے لیے ایسی اشیا خریدتے ہیں۔ اس سے ان کی پیسوں کی بچت بھی ہو جاتی ہے اور وہ اس شے کو کچرے میں جانے سے بھی بچا لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ ایپس کی مدد سے صارفین اپنے قریبی کافی اور چائے کی ایسی دکانیں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں جہاں انہیں ان کا پسندیدہ مشروب ان کے لائے ہوئے کپ میں تیار کر کے دیا جاتا ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ماحول دوست چینی بہت سا کچرا اس کے بننے سے پہلے ہی ختم کر دیتے ہیں۔
اس سے مجھے اپنے بچپن کا وقت یاد آ رہا ہے جب ہم لاہور کے ایک پرانے محلے میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں ہر اتوار کو نان چنے کا ناشتہ ہوتا تھا۔ یہ روایت اب بھی قائم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بابا ناشتے کے لیے گھر سے دسترخوان لے کر جاتے تھے تاکہ انہیں نان کاغذ اور پلاسٹک میں لپیٹ کر نہ لانے پڑیں۔ اس کے پیچھے ان کی نیت ماحول دوستی سے زیادہ پیٹ دوستی کی ہوتی تھی کہ ایسے نان کی تازگی اور خستگی دیر تک برقرار رہتی تھی۔ گرچہ ان کی نیت ماحول بچانے کی نہیں ہوتی تھی لیکن آج دیکھیں تو وہی ترکیب دنیا کے سب سے بڑے ملک میں ماحول بچانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ یہاں آن لائن ادائیگی اتنی عام ہے کہ رسیدوں کا چکر بھی ختم ہو چکا ہے۔ لوگ وی چیٹ یا علی پے نامی ایپس کی مدد سے آن لائن ادائیگی کرتے ہیں۔ ادائیگی کے ساتھ ہی انہیں اس کی رسید اسی
ایپ میں موصول ہو جاتی ہے۔ سوچیں اس ایک قدم سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں کتنا کاغذ بچتا ہو گا۔
اب آن لائن فوڈ ڈیلیوری ایپس کھانے کا آرڈر لیتے ہوئے یہ بھی پوچھتی ہیں کہ آیا کھانے کے ساتھ چاپ سٹکس یا چمچ وغیرہ چاہیے۔ ماحول دوست چینی یہاں انکار لکھ دیتے ہیں اور اپنے پاس پہلے سے موجود چاپ سٹکس سے ہی کھانا کھاتے ہیں۔ اس سے بھی بہت سا کچرا پیدا ہونے سے بچ جاتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کو دیکھتی ہوں تو وہاں ڈیجیٹل دور ابھی شروع ہو رہا ہے۔ آن لائن آرڈرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یعنی کچرے کا جو مسئلہ آج چین کو درپیش ہے وہ عنقریب پاکستان کے سامنے بھی آئے گا۔ گرچہ اب بھی کچرا پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہم اس کچرے سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟