6 مارچ1475ء ، ملک اٹلی، شہر فلورنس سے چالیس میل دور ایک سبزہ زار کوہ سار قصبے کیپرس میں قصبے کے میئر، لڈووک لینارڈو اور فرانسسکا کے ہاں مائکل اینجلو پیدا ہوا۔ اسی سال سارا خاندان کیپرس قصبے کو خیرآباد کہہ کے شہر فلورنس میں آباد ہوگیا۔ مائکل کی عمر ابھی 6 سال تھی کہ ماں چل بسی اور ابتدائی نگہداشت کے لیے اسے ایک سنگ تراش کی بیوی کے سپرد کردیا گیا۔ خاندانی سلسلہ بادشاہوں سے ملتا تھا، خُصُوصاًکاؤنٹ کنوسا سے۔ باپ کوفنون سے کوئی رغبت نہیں تھی لیکن بیٹا کاغذوں، رنگوں، قلم، موقلم، چاقو، چھینی لکڑی، دھاتوں اور پتھروں سے کھیلنے لگا تھا۔ تعلیم میں اس کا جی نہیں لگا۔ وہ تو شکلیں تراشتا رہتا تھا۔ 13 سال کی عمر میں تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ باپ نے اس کے اصرار پر بہ اکراہ فلورنس کے ایک مجسمہ ساز ڈومی نکوکے پاس بھیج دیا۔ یہاں بھی اس کی سیری نہ ہوئی۔ کچھ دنوں بعد ہی اس نے اپنے وقت کے نام ور مجسمہ ساز مصور لورينزو کے ادارے میڈیسی گارڈن کا رخ کیا۔ لورينزو نے اپنے نوخیز شاگرد کا اضطراب اور جوہر پنہاں پہچان لیا تھا۔ وہ اسے اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھنے لگا، کچھ اس کی سفارش، کچھ خود مائکل کے شوق فراواں کا صدق، حکومت نے بساط فن کے اس نوآموز کے لیے قلیل رقم کا ایک وظیفہ جاری کردیا۔ اس وقت مائکل کی عمر 15 سال تھی۔ اس نے لورينزو کے نگار خانے میں بہت سے ملبوس اور برہنہ مجسمے تراشے اور تصویریں، کینوس اور دیواروں پر نقش کیں۔ صبح و شام سے اسے کوئی سروکار نہ رہا، اس کے پاس دو ہی کام تھے، مطالعہ اور نقاشی۔ مصوری، شاعری اور موسیقی ایک ہی سلسلہ جمال و احساس، خیال و اظہار کی کڑیاں ہیں اور کوئی خیال آفریں نہ ہو تو کچھ بھی نہ ہو۔ وہ شعر بھی کہنے لگا تھا اور شاعر اعظم دانتے سے بے طرح متاثر تھا۔ نوجوانی ہی میں اس کے تخلیقی کرشموں کے چرچے اٹلی کے گلی کوچوں میں ہونے لگے تھے۔
1504ء میں اسے پلازوویکیو کے عظیم الشان کونسل ہال کی دیوار پر تصویریں بنانے کا کام سونپا گیا۔ کونسل کی دوسری دیوار اس وقت کے ایک اور مایۂ ناز، اٹلی کے سرمایہ افتخار مصور، مونالزا کے خالق لیونارڈو ڈاونچی کے سپرد کی گئی۔ ایک دیوار ڈاونچی نے جنگی مناظر، گھوڑوں اور شہسواروں کی تصویروں سے مزین کی، دوسری دیوار مائکل اینجلونے نیم برہنہ اور برہنہ سپاہیوں کے نقوش سے آراستہ کی۔ دونوں ہی دیواریں مغربی مصوری کا معیار تسلیم کی جاتی ہیں اور دنیا بھر کے مصوروں کے لیے زیارت گاہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
اس زمانے میں دو ادارے اقبال و اقتدار کا سرچشمہ تھے، کلیسا اور حکومت دونوں کی باہمی رنجش و رقابت نے جنگ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ 1505ء کی بات ہے۔ مائکل کی عمر تیس سال تھی۔ پوپ جولیئس نے اسے روم آنے کی دعوت دی اور اپنے لیے ایک عظیم مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔ عمارتوں کی تشکیل و تعمیر میں بھی مائکل اینجلو غیر معمولی درک رکھتا تھا۔ اس نے مقبرے کا خاکہ پوپ کی خدمت میں پیش کیا۔ پوپ کی پسندیدگی اور منظوری کے بعد مائکل نے ایک خاص قسم کے پتھروں کے حصول کے لیے سودا طے کرلیا۔ روم میں اس کے قیام کے آٹھ نو ماہ بعد پتھروں کی پہلی کھیپ جب بحری راستے سے روم آگئی تو اس نے ویٹے کن شہر آکے مقبرے کی تعمیر کی بنا ڈالی، اچانک اسے پوپ کے ارادے کی تبدیلی کی اطلاع دی گئی۔ یہ منسوخی نازک طبع مائکل کو بہت گراں گزری۔ پوپ کے ارادے کی تبدیلی کے متعلق طرح طرح کی داستانیں مشہور ہیں۔ سنا ہے لوگوں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ زندگی میں اپنا مقبر ہ بنوانا بدشگونی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ مائکل اینجلو سے عناد رکھنے والے پوپ کے کسی قریبی معمار نے اسے بدظن کیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ پوپ ان دنوں فوجی منصوبہ بندی میں الجھا ہوا تھا۔ وسطی اٹلی کے چند شہر دوبارہ چرچ میں شامل کرنے کا سودا کلیسائی ارباب اختیار کے سر میں سما گیا تھا۔ کوئی ایک وجہ ضرور ہوگی کہ پوپ نے مقبرے کی تعمیر رکوادی اور فرمان جاری کیاکہ مائکل اب سسٹائن گرجاکے اندرونی حصے پر مصوری کرے۔ پوپ کی تلون مزاجی اور مقبرے کے لیے پتھر کی ترسیل کے اخراجات کی عدم ادائی سے مائکل بہت دل برداشتہ ہوگیا تھا۔ اس دوران میں کلیسا کی طرف سے اس کے بارے میں گونجتی افواہوں اور خبروں نے اسے اور مضطرب و منتشر کیا۔ اسے اپنی زندگی خطرے میں محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ ایک روز فلورنس بھاگ آیا۔ یہ بے ادبی تھی۔ پوپ کے مزاج خسروانی کے لیے یہ گستاخی سبکی کا باعث ہونی چاہیے تھی۔ اسے آئے دن دھمکیاں ملنے لگیں کہ بہتر ہے، وہ روم واپس آجائے۔ پوپ کی جانب سے مائکل کی روم واپسی اور بارگاہ میں طلبی کے احکام میں جس قدر شدت آتی گئی، مائکل کی وحشت اتنی ہی سوا ہوئی۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ اس نے قسطنطنیہ کے سلطان کے ہاں پناہ لینے کا فیصلہ کرلیا لیکن فلورنس کے حکام اور اس کے مداحوں نے اسے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے اسے روم واپسی کی صورت میں جاں بخشی کی ضمانت دی اور باور کرایا کہ پوپ کی ناراضی سارے فلورنس شہر کے لیے عتاب نا ک ہوسکتی ہے یہی چارہ رہ گیا تھا کہ مائکل سرنگوں، دست بستہ، گردن میں روایتی طوق غلامی ڈال کے پوپ کے دربار میں حاضر ہو،
1506ء نومبر کے مہینے میں یہ تاریخی سانحہ پیش آیا اور یوں کہیں مائکل کو ذہنی آزادی نصیب ہوئی۔ دوبارہ اپنے بکھرے ہوئے حواس واعصاب مجتمع کرنے اور کام میں منہمک ہوجانے میں اسے کچھ وقت لگا۔ پوپ جولیئس کی خواہش کے مطابق سسٹائن کے گرجاکی چھت منقش کرنے کا کام اسے سونپ دیا گیا تھا۔ چار سال میں یہاں اس نے غیر معمولی تصویریں بنائیں یہ 350 تصویریں ایک ہزار اسکوائر فٹ کے رقبے پر محیط تھیں۔ مصوری کے ناقدوں کی رائے میں فلورنس شہر میں نصب سنگ مرمر سے بنایا ہوا حضرت داؤد کا مجسمہ مجسمہ سازی کے فن کا کمال ہے۔ حضرت موسیٰ کے مجسمے کا شمار بھی مائکل اینجلو کے یادگار مجسموں میں ہوتا ہے۔ ڈاونچی کی بنائی ہوئی میڈونا کی مشہور زمانہ تصویر کی طرح، کانسی سے تراشا ہوا مائکل اینجلو کا وہ مجسمہ بھی ناقدین، فن کا اعجاز قرار دیتے ہیں، جس میں میڈونا گھٹنوں پر اپنے بیٹے کو لیے بیٹھی ہے۔ یہ مجسمہ ماں اور بیٹے کی تمام تر کیفیات کا مظہرہے۔ نوعمری میں اسکول کے ایک ساتھی طالب علم سے اس کا جھگڑا ہوگیا تھا۔ اس لڑکے کے مکے کی کسی شدید ضرب سے اس کی ناک ٹیڑھی ہوگئی اور یہ سقم کبھی ٹھیک نہ ہوسکا۔ مائکل کا چہرہ پہلے جیسا نہ رہا تھا۔اس سانحے نے اس کی طبیعت میں حزن و ملال کا عنصر گہرا کردیا۔ تمام عمر وہ ایک بے نام سی افسردگی میں گھرا رہا اور تمام عمر پری جمالوں کے اندام، عارض و رخسار ترا شتا رہا اور ستم یہ کہ خود پری جمالوں سے دور رہا۔ اس کی زندگی عشق سے عاری رہی مگر ایک عشق کے بعد دوسرے کے لیے مہلت کہاں ملتی ہے۔ کوئی لیلی اور شیریں ہی عاشقی کے لیے لازم نہیں۔ اس نے شادی بھی نہیں کی۔ برملا کہتا تھا، میرا فن ہی میری محبوبہ ہے۔ میں نے اس سے شادی کرلی ہے۔ کسی خط میں اس نے اپنے ایک عزیز کو لکھا تھا کہ میرا کوئی دوست نہیں، میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ برباد کرسکوں اور شاید کوئی ہم دم و ہم راز ملنے کی دیر تھی کہ مائکل خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ 1532ء میں ایک نوجوان توماسو سے اس کی ملاقات ہوئی، پھر 1536ء میں ویٹوریا کولونا سے۔ دونوں ہی اس کے نفس ناطقہ، عزیز از جان بن گئے۔ ان دونوں سے دوستی عاشقانہ تیور لیے ہوئے تھی۔ مائکل کو ان کے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ یہی دونوں نہیں، باپ، بھائی اور اکلوتے بھتیجے سے محبت میں بڑی شدت تھی۔ اپنے آبا کی شاہی نسبتوں پر اسے بڑا ناز تھا۔ خاندان کی عزت و ناموس بڑھانے کے لیے وہ ابتدا ہی سے بے قرار رہنے لگا تھا۔ گھر کے لوگوں سے دور رہ کر وہ ان میں کسی نہ کسی طور شامل رہا۔ خاندان کے مختلف افراد کے نام، اس کے خطوط سے اس وارفتگی و شیفتگی کا اظہار ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے کسی عہد پارینہ کی منظر کشی کے لیے مصور اور سنگ تراش کو وسیع مطالعہ اور فکرو نظر چاہیے۔ امتداد زمانہ سے بہت کچھ بدل جاتا ہے بودوباش، رفتار، گفتار اور حرکات و سکنات بھی۔ مائکل اینجلونے پندرہ صدیوں بعد عیسائیت کے آغاز کے مناظر پورے اہتمام سے نقش کیے ہیں۔ اس نے کینوس، دیواروں اور پتھروں پر تاریخ رقم کی ہے یا یوں کہیے کہ زندہ کی ہے۔ ہر سال دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں مشتاقان فن فلورنس اور روم میں مائکل اینجلوکی شاہ کار تصویروں اور مجسموں کا نظارہ کرتے ہیں اور جزئیات نگاری دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ وہ ایک صاحب دیوان شاعر تھا۔ بعد میں اس کے دوستوں نے اپنے مثال آفریں محبوب کے کلام کی اشاعت کا بندوبست کیا۔ صاحبان نقد و نظر کی متفقہ رائے میں اس کا کلام خاصے کی چیزہے۔ . 18 فروری 1564ء کو 69 سال کی عمر میں وہ دوستوں کے ہم راہ تھا اور اپنے عزیز ترین دوست تو ماسوکے زانو پر سر رکھے ہوئے گھڑیاں گن
رہا تھا۔ چراغ کی لوٹمٹما رہی تھی، کہنے لگا۔ اپنی روح کے سکون کے لیے میں کچھ زیادہ نہ کرسکا۔ اب جب کہ اپنے فن کی ابجد سے واقف ہوا ہوں، زندگی مجھ سے روٹھ رہی ہے۔“ چراغ کتنا ہی ہواؤں کی زد سے دور ہو، لوکی تاب استقامت بھی تو شرط ہے۔ دو دن پہلے اس نے فلورنس میں دفن ہونے کی خواہش کی تھی۔ روم والے آمادہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے اسے پورے فوجی و شامی اعزاز سے روم میں سپرد خاک کیا لیکن مائکل کے جاں نثار بھتیجے نے خود کو داؤ پر لگا کے کسی نہ کسی طرح اپنے نادرہ کار عجوبہ روزگار چچا کا جسد خاکی چوری کرلیا اور فلورنس اسمگل کرنے میں کام یاب رہا۔ فلورنس میں مائکل اینجلو کی قبر سے ملحق اس کا تخلیق کیا ہوا مجسمہ بھی نصب ہے جو بولتا نہیں مگر اپنی عظمتوں کے اظہار پر قادر ہے-