مانی

مصنف : توراکینہ قاضی

سلسلہ : مشاہیرِ عالم

شمارہ : مارچ 2010

شاید ہمارے ملک میں فن مصوری کے شائقین اور قدیم شاعری کی تاریخ سے واقف لوگوں کے نزدیک مانی کا نام اجنبی نہیں ہو گا۔ جو مصوری اور نقاشی کا سب سے بڑا کامل نمونہ اور اتنا باکمال مانا جاتا ہے کہ کوئی مصور چاہے کتنا عروج حاصل کر لے، عظمت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جائے، مانی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا۔ مانی کون تھا؟ کس زمانے کا تھا؟ کیا کرتا تھا؟ کہاں رہتا تھا؟ کہاں اور کیونکر مرا؟ یہ شاید ہی کسی کو معلوم ہو گا۔ یہ ہمارے لٹریچر کا بہت بڑا نقصا ن ہے کہ ہم ان لوگوں کے حالات سے بہت کم واقف ہیں جن کے نام بار بار ہماری زبان پر آتے ہیں۔ ہمارے قلموں سے نکلتے ہیں۔ او رجو انشا پردازی کا زیور بنے ہیں۔

یہ مشہور و معروف نقاش عجمی تھا جس کی سوانح عمری یہاں پیش کی جا رہی ہے۔

مانی ایک ایرانی نژاد اور مجوسی الاصل شخص تھا۔ اس کے سن ولادت کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات حاصل نہیں ہیں۔ مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس کی نشو و نما اور عروج تیسری صدی عیسوی میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً تین سو برس پیشتر ہوئی۔ اپنے وطن کے استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے اور اپنی ذاتی طباعی اور مناسبت سے کام لے کر وہ فن مصوری میں اس درجہ کمال کو پہنچ گیا کہ سارے ملک میں کسی کو اس کی ہمسری کا دعویٰ نہ رہا تھا۔ لیکن اس کے کمالات صرف اسی فن تک محدود نہ تھے۔ علمی ذوق نے اسے جتنا بڑا مصور بنایا تھا۔ اسے اتنا ہی بڑا فلسفی اور اسی درجہ کا نجومی اور ہیئت دان بھی بنادیا تھا۔ علوم فلسفہ اور الٰہیات میں غور و تدبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دنیا کی سیاسی و معاشرتی حالت پر بھی گہری نظر تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ دنیا میں پھیلے ہوئے مذہبی جھگڑوں کو ختم کرے اور اسے ایک اصول کا پابند بنانے کی کوشش کرے۔

ان دنوں دنیا کے سیاسی حالات یہ تھے کہ ممالک مشرق میں مسیحی مبلغین کی سر توڑ کوششوں کے باوجود دین عیسوی کو کسی طرح بھی کامیابی حاصل نہ ہو رہی تھی۔ مغرب میں تو مسیحیت کے پھیلاؤ میں کسی قسم کی رکاوٹیں اور مشکلات حائل نہ ہوئی تھیں، لیکن مشرق میں زرتشتی نے اسے ایسا روکا کہ و ہ دجلہ و فرات سے آگے نہ بڑھ پا رہی تھی۔ وہاں سرحدی اضلاع و صوبہ جات میں ان دونوں مذاہب کی خفیہ چپقلش جاری تھی اور ایران و روم کا سرحدی صوبہ آرمینیا ا س قسم کی معرکہ آرائیوں کا دنگل اور بڑی بڑی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہاں کا فرمانروا ایک مسیح واعظ کی تلقین سے عیسائی ہو گیا تھا، لیکن جب دولت عجم کے ساسانی تاجدار کو یہ حال معلوم ہوا تو اس نے عیسائی حاکم کو قتل کر کے وہاں آتش پرستی بحال کر دی۔ اتفاقاً ا ب مسیحیت کے فروغ پانے کا یہ ایک نیا سلسلہ جاری ہو گیا کہ خاص ساسانی خاندان کا ایک شہزادہ اور ایک شہزادی جو خسرو دخت کہلاتی تھی کسی پادری کی صحبت میں بیٹھ بیٹھ کر عیسائی ہو گئے۔ اور ان کی کوششوں سے مسیحیت دوبارہ آرمینیا میں فروغ پانے لگی۔ اگرچہ اب بھی تاجدارنِ عجم نے عیسائیوں پر بے حد ظلم و ستم کیا، مگر اب مسیحیت کے قدم آرمینیا میں مضبوطی سے جم گئے تھے اور اس کو مٹانا ممکن نہ تھا۔یہ انقلابات، یہ کشت و خون اور یہ خرابیاں دیکھ کر مانی کو خیال ہوا کہ کوئی ایسی کوشش کرنی چاہیے کہ جس کی بدولت یہ جھگڑے مٹ جائیں اور ایران و روم دونوں کسی نئے اصول کے تابع بن جائیں۔ اس اصول کو اس نے اپنے علم و فضل کے زور اور حسن تدبیر سے خود ہی قائم کرنا شروع کیا۔ مگر تاریخ سے بہت سی شہادتیں مل سکتی ہیں کہ ایسی کوششوں کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلا کہ بجائے اس کے کہ مذہبی اختلافات ختم ہوں، ایک نیا مذہب پیدا ہو گیا اور جھگڑے مٹنے کی بجائے اور بڑھ گئے۔ یہی نتیجہ مانی کی کوششوں کا ہوا۔

وہ اپنے جدید مذہب کو ابھی مضبوط بنیادوں پر استوار نہ کر پایا تھا کہ اپنی کوششوں میں اثر پیدا کرنے کے لیے اس نے ارادہ کیا کہ دولت ساسانی میں اثر و رسوخ پیدا کر کے اپنے ہاتھ میں حکمرانی کی قوت پیدا کر لے اور دولت عجم کو بھی اپنے جدید مذہب و آئین کا حامی بنائے۔ اور چونکہ وہ بڑا لائق فائق اور ہوشیار شخص تھا، اس کے علم و فضل کا ہر جگہ شہرہ تھا، لہٰذا اپنی اس غرض میں اسے بہت آسانی سے کامیابی حاصل ہو گئی۔ اور شہنشاہ ایران شاپور اول کے دربار میں پہنچ کے وہ سارے ملک میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اب ایسی عزت و وقعت حاصل کرنے کے بعد اس نے مذہب کے متعلق اپنے آزادانہ اور مصلحت آمیز خیالات ظاہر کرنا شروع دیے۔ اس کی ایران کے تمام کاہنوں اور ملت زرتشتی کے مقتداؤں نے بڑے زور و شور سے مخالفت کی۔ ایران میں ہر چند کہ شہنشاہی سطوت کے آگے ہر شخص کو غلاموں کی طرح سر جھکانا پڑتا تھا، مگر مذہب کا زور ا س قدر بڑھا ہوا تھا کہ اس کے مقابلے میں بادشاہ سے بھی کوئی مدد نہ مل سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مانی کو سخت ناکامی ہوئی جس کے بعد اسے دربار خسروی ہی کو نہیں، اپنے وطن کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔مگر ایسی ناکامیاں اس جیسی فطرت کے لوگوں کے لیے عموماً بجائے ضرر رساں ہونے کے مفید ثابت ہوا کرتی ہیں۔ مانی دربار ساسان سے نکلا تو سیدھا ارض مشرق کی طرف روانہ ہو گیا۔ پہلے وہ ترکستان پہنچا۔ وہاں کی اقوام اور ان کے مذاہب کا مطالعہ کیا۔ پھر ہندوستان اور چین کا سفر کیا وہاں کے مذاہب اور سیاسی حالات کا مطالعہ کیا۔ بدھ مذہب کی حقیقت دریافت کی۔ برہمنوں کے اخلاقی و مذہبی اصولوں سے واقفیت حاصل کی۔ اور یہ تمام تر معلومات حاصل کر کے ترکستان واپس آ گیا۔ وہاں اس نے ایک پہاڑی غار میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ اس جگہ ایک شفاف چشمہ رواں تھا او رجا بجا پھل دار درخت بھی موجود تھے۔ اس لیے کھانے پینے کی طرف سے پورا اطمینان تھا۔ اس وادی میں وہ ایک سال تک گوشہ نشین رہا۔ اور اس غار میں اس نے اپنی کتاب ‘‘ارتنگ’’ تحریر کی۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے بعد کوہ طور سے تورات کی الواح لے کر آئے تھے، اسی طرح وہ اس غار سے اپنی یہ کتاب لے کر برآمد ہوا او رلوگوں سے کہا: میں خدا کے پاس سے آ رہا ہوں، جس نے مجھے اپنا نبی مبعوث کیا ہے۔ اور یہ آسمانی کتاب وہ ہے جس پر ساری دنیا کو عمل کرنا چاہیے۔ دیگر آسمانی کتابوں کے خلاف اس کتاب میں نہایت ہی اعلیٰ درجے کی تصاویر بنی ہوئی تھیں جو اس زمانے کے لحاظ سے اتنی مہارت اور ہنرمندی کا جیتا جاگتا نمونہ دکھائی دیتی تھیں کہ کسی انسانی ہاتھ کا کمال ہی نہ لگتی تھیں۔ ان تصاویر کو مانی نے اپنی کتاب کے الہامی ہونے کا ثبوت اور معجزہ قرار دیا۔

فارسی اور اردو شاعری اور انشا پردازی میں مانی کو محض ایک مصور کی حیثیت سے یاد کیا گیا ہے۔ غیاث الاسفات کے مصنف نے خدا جانے کس بنیاد پر اسے ایک رومی نژاد مصور قرار دیا ہے جو بالکل غلط بات ہے۔ اس کے حالات میں لکھا ہے کہ اس نے کمال کی مصوری ہی کو اپنا معجزہ قرار دے کر دعوائے نبوت کیا تھا۔ اس کے اس کمال کی نسبت مولانا نظامی نے سکندر نامہ میں چند ایسے واقعات لکھے ہیں جو غالباً ان دنوں ایرانیوں میں مشہور تھے۔ کیونکہ قدیم تاریخوں میں ان واقعات کا کہیں بھی پتا نہیں چلتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مانی نے نقاشان چین کے اعلیٰ درجہ کے ہنر و فن کا تذکرہ سن کر سفر چین کیا۔ اس کی آمد کا حال جب چینیوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے ایک اندھے کنویں کی تہہ میں جو اس کے راستے میں پڑنے والا تھا، ایک آئینہ بنا دیا جو پانی کا دھوکہ دیتا تھا۔ مانی وہاں پہنچا تو پانی اور شیشہ کا امتیاز نہ کر سکا۔ اس نے پانی نکالنے کے لیے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو وہ شیشے سے ٹکرا گیا اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ اسے اپنی غلطی پر بڑی ندامت ہوئی۔ وہ سمجھ گیا کہ چینیوں نے اسے دھوکہ دینے کے لیے یہ چالاکی کی ہے۔ وہ فوراً کنویں میں اترا اور شیشے کی جگہ ایک مردہ کتا بنا دیا جس پر کیڑے کلبلاتے دکھائی دیتے تھے۔ یوں چینیوں کی معاندانہ کارروائی کا جواب دے کر وہ چین جا پہنچا۔ وہاں بادشاہ کے دربار میں اس کا چینی نقاشان سے مقابلہ ہوا۔ بادشاہ نے مقابلے کی یہ صورت نکالی کہ آمنے سامنے دو دیواریں مانی اور چینی نقاشوں کو دی گئیں اور ان کے درمیان ایک اونچی سی دیوار اٹھا دی گئی تاکہ کوئی اپنے حریف کی کارگزاری سے مطلع نہ ہو سکے۔ چینیوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اپنی دیوار کو عجیب و غریب تصاویر کا مرقع بنا دیا۔ مانی نے صرف یہ کیا کہ اپنی دیوار کو خوب کوٹ کوٹ کر آئینہ بنا دیا اور اس پر ایک پردہ ڈال دیا۔ پھرجب ممتحن اور مقابلہ کرنے والے آ کھڑے ہوئے اور بیچ کی دیوار توڑ دی گئی تو لوگوں کو طرفین کے کمالات دیکھنے کا موقع ملا۔ چینی نقاشوں کی تصاویر اور ان کے فن اور ہنر مندی کی سب نے خوب تعریف کی۔ پھر جب مانی نے اپنی دیوار پر سے پردہ ہٹایا تو چینیوں کی تصاویر کا عکس اس دیوا پر پڑا۔ لگتا تھا کہ گویا مانی نے ان کی تصاویر کی اس خوبی سے بغیر دیکھے نقل اتاری تھی کہ کسی قسم کا فرق نہ معلوم ہوتا تھا۔ سب نے اس کی بے حد تعریف کی اور اس کی ہنر مندی اور مہارت کو سراہا۔ یہ واقعات ایسے ہیں جن کی ایک کہانی سے زیادہ وقعت نہیں معلوم ہوتی۔

بہرکیف اس سفر اور ترکستان میں اپنی مذکورہ خلوت گزینی کو ترک کر کے جب مانی ایران واپس آ گیا تو وہ اپنے آپ کو صاحب نبوت اور صاحب کتاب بتا رہا تھا۔ ایران میں قدم رکھتے ہی اسے نمایاں کامیابی ہونے لگی۔ لوگوں کی ایک بھاری تعداد اس کی مطیع و معتقد بن گئی۔ زرتشتی علما سے اس کے بڑے بڑے مناظرے ہوئے۔ اس وقت شاپور اول انتقال کر چکا تھا۔ اور اس کی جگہ ہرمز بن شاپور تخت ایران پر جلوہ گر تھا۔ ہرمز نے مانی کی بڑی قدر و منزلت کی اور اس کے علم و فضل کا معترف ہوا اور اسے علاقہ بابل میں ارابیون نامی ایک قلعہ عطا کیا۔

اس قلعے میں بیٹھ کر مانی نے اپنے نئے مذہب کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس کی تبلیغی مساعی ایسی پر زور اور پر اثر تھیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہزار آدمی اس پر ایمان لے آئے اور مانوی مذہب روز افزوں ترقی کرنے لگا۔ مانی کا مذہب بادی النظر میں دین مسیحیت کی ایک شاخ معلوم ہوتا ہے۔ مگر اصل میں وہ دنیا کے تمام مذاہب کا معجون مرکب تھا۔ بظاہر مسیحیت کو مذہب حق تسلیم کر کے اس نے تمام مشرقی مذاہب کے فلسفہ الٰہی کو اپنا دستور العمل بنا لیا تھا۔ وہ وحدت الوجود کے نظریہ کا حامی و مدعی تھا۔ تخلیق کائنات کی نسبت اس کے خیالات کچھ نئے اور عجیب تھے۔ آتش پرستوں کے اصول کے مطابق اصلی بنیاد دو خداؤں یزداں اور اہرمن پر قائم کی تھی۔ اور انھی کے نتیجے میں نور و ظلمت کی اصطلاحوں سے بھی کچھ مذہبی اور روحانی کام لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم کیا اور بیشتر انبیا خصوصاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا قطعاً انکار کیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ یہودیت سے سخت نفرت کرتا تھا اور اس سے کوئی واسطہ نہ رکھنا چاہتا تھا۔ یہودیت میں اس قدر تنگ خیالی تھی اور وہ مذہب ایک قوم، ایک خاص سرزمین او رہزار ہا قسم کی سخت قیود کے ساتھ اس قدر وابستہ تھا کہ وہ تمام نئے بانیان مذاہب جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دین میں کوئی اجتہاد و تغیر کرنا چاہتا تھا، سب دین موسوی کے سخت خلاف تھے۔ مانی نے اپنے مذہب کے لیے اخلاقی اصول بدھ مذہب کے فلسفہ اخلاق سے لیے اور اسی سلسلے میں بعض باتیں ہندوستان کے اس مذہب سے بھی لیں جو برہمنوں کا مذہب ہے۔ الغرض مانی کے مذہب کی حقیقی شان یہ تھی کہ مجوسیت کے یزدان و اہرمن اور چین و ہند کے اخلاقی فلسفہ کو عیسوئیت کا جامہ پہنا دیا گیا۔ کتاب عہد عتیق (توراۃ) کو اس نے شیطانی وسوسوں کا نمونہ بنا دیا اور چند ان انجیلوں کے ساتھ جنھیں مسیحی جعلی بتاتے ہیں، مانی کی کتاب ‘‘ارتنگ’’ اس نئے دین کا دستور العمل قرار پائی۔ مگر باوجود اس کے کہ مانی نے مختلف مذاہب سے التفات و انتخاب کیا تھا، اس کے مذہب پر پھر بھی زرتشتیت غالب تھی۔ کیونکہ اس کا کہنا تھا: عالم مصنوع دو قدیم اورازلی اصولوں سے مرکب ہے۔ ایک نور اور دوسرا ظلم... یہ دونوں چیزیں ازلی ہیں۔ ہمیشہ تھیں۔ ہمیشہ رہیں گی۔ ان میں ہمیشہ سے حس، عقل اور دیکھنے سننے کی قوت تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ دونوں بااعتبار ذات، صورت، فعل اور تدابیر کے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور بلحاظ اپنی اپنی حیثیت کے ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی چیز کا سایہ اس کے مقابل رہا کرتا ہے۔ اور جتنی خوبیاں اور بھلائیاں ہیں سب نور سے منسوب ہیں۔ اور جتنی برائیاں اور خرابیاں ہیں سب ظلمت سے منسوب ہیں۔

تاہم مشرقی مذاہب کے ان خیالات و عقائد کے ساتھ اس نے انجیل سے یہ فائدہ اٹھایا کہ فارقلیط جس کے ظہور کی بشارت حضرت مسیح علیہ السلام نے دی تھی اور مسلمان جس کا مورد آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے ہیں، خود اپنے آپ کو بتایا اور اعلانیہ کہہ دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے میرے ہی آنے کی پیش گوئی کی تھی۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مانی نے اگرچہ اپنے مذہب میں زیادہ تر اصول آتش پرستی ہی کے داخل کر رکھے تھے۔ مگر اسے سب سے زیادہ نقصان اور صدمہ زرتشتیوں ہی کے ہاتھوں سے پہنچا۔ علمائے مجوس اس کے سخت مخالف اور دشمن تھے۔ جب تک ہرمز بن شاپور زندہ رہا، اس وقت تک تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا۔ اس لیے کہ وہ مانی کا دوست تھا اور اسی کی مہربانی سے وہ قلعہ ارابیون میں بیٹھ کر اپنا نیا مذہب ایجاد کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف رہا تھا۔ مگر جب ہرمز کی موت کے بعد اس کا بیٹا بہرام شاہ ایران کا بادشاہ بنا تو اسے آتش پرستوں کے موبدوں اور دستوروں نے مانی کے خلاف ایسا بھڑکایا اور اکسایا کہ وہ اس کا شدید دشمن اور خون کا پیاسا بن گیا۔ آخر ۲۷۷ بعد مسیح وہ اپنے قلعہ سے گرفتار کر کے بہرام کے سامنے لایا گیا۔ جس نے اسے نہایت ہی ہولناک سزا دی یعنی زندہ حالت میں ہی اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا دیا۔ مانی کی کھال کا یہ پتلا مدت دراز تک ‘‘مجھے دیکھو جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو’’ کی تصویر بنا شہر شاپور کے پھاٹک پر، جو ساسانیوں کا دار الحکومت تھا، لٹکا رہا۔لیکن مانی نے اپنی زندگی ہی میں اپنے مذہب کو اس حد تک عروج و ترقی پر پہنچا دیا تھا کہ وہ اس کی موت کے بعد بھی پورے استقلال کے ساتھ قائم رہا۔ اور اس نے عروج حاصل کرتے کرتے کیتھولک مذہب یعنی پولوس کے پیروکاروں کے مقابلے میں ایک طاقتور اور مستقل حریف کی حیثیت حاصل کر لی اور رومی فرقہ کا سب سے بڑا حریف فرقہ بن گیا۔ مانوی لوگ اپنی توحید پر نازاں تھے اور اپنے حریف عیسائیوں کو کافر اور مشرک بتاتے تھے۔ جو انتظامات رومی کلیسا کی ترقی و ترویج کے لیے عمل میں آتے تھے وہی زیادہ قوت اور اثر کے ساتھ مانویوں میں بھی قائم ہو گئے۔ چنانچہ بارہ بڑے بڑے عہدیدار رسولوں اور حواریوں کے نام سے معین ہوئے ان کے ماتحت بہتر اسقف اعظم تھے۔ پھر ان کے ماتحت دیگر عہدیداران اور راہب تھے جو مسلسل سفر میں رہتے ہوئے شہر شہر، قریہ قریہ مانوی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرتے پھرتے تھے۔مانی کا قائم کیا ہوا مانوی مذہب ایک ہزار برس تک دنیا میں قائم رہا۔ ہر چند کہ روم کی مسیحی شہنشاہت اور پطرس کے جانشین پاپاؤں نے اس کی بیخ کنی کے لیے ہر ممکن حربہ آزمایا اور اس کے پیروؤں پر بے انتہا ظلم ڈھائے، مگر یہ مذہب مٹائے نہ مٹ سکا۔ اسلامی فتوحات سے بھی اس مذہب کو بڑا ضرر پہنچا تھا، لیکن مسلمانوں کی حکومت میں بھی یہ عرصہ دراز تک قائم رہا۔ لیکن بالآخر مسلمانوں ہی کی کوششوں سے اس مذہب کا خاتمہ ہو گیا۔٭٭٭