علامہ ابو جعفر محمد ابن حبیب بغدادی (متوفیٰ ۲۴۵ ہجری) اپنی کتاب المحبر کے صفحہ ۱۷۳ پر "الندماء من قریش" کی سرخی کے ذیل میں ان حضرات کا ذکر کرتے ہیں جن میں ایامِ جاہلیت و ایامِ اسلام میں نہایت قریبی دوستی پائی جاتی تھی۔
تمہید اس دوستی کی کچھ یوں ہے کہ قریش کے مختلف قبیلے کے لوگوں کے درمیان ندیمی کا رشتہ ہوتا تھا یعنی کوئی ایک شخص تا زندگی کسی دوسرے شخص کا سب سے قریبی و جگری دوست تصور کیا جاتا تھا۔ یہ دوستی مقام و مرتبہ میں ہم رتبہ اشخاص کے مابین ہوا کرتی تھی۔الندماء من قریش" کی سرخی کے ذیل میں ابن حبیب بغدادی سب سے اول نبیﷺ کے دادا عبدالمطلب بن ہاشم اور سیدنا ابو سفیانؓ کے والد حرب بن امیہ کا ذکر لائے ہیں: کان عبدالمطلب بن ہاشم ندیماً لحرب بن امیہ یعنی عبدالمطلب بن ہاشم حرب بن امیہ کے ندیم تھے۔ بقول مولف کتاب المحبر۱۲۰سال کی عمر میں عبدالمطلب کے انتقال کے بعد حرب بن امیہ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓکے خاندان کے معزز و شریف ترین شخص عبداللہ بن جدعان تیمی سے ندیمی کرلی تھی۔اسی طرح ابن حبیب بغدادی لکھتے ہیں کہ سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب اور سیدنا ابو سفیانؓ بن حرب میں بھی ندیمی کا رشتہ تھا ۔ بعینہٖ ابو سفیان کے بھائی حارث بن حرب بن امیہ اور عباس بن عبدالمطلب کے بھائی حارث بن عبدالمطلب کے مابین بھی ندیمی کا رشتہ استوار تھا۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے نبیﷺ کے چچازاد بھائی ابو سفیانؓ بن حارث بن عبدالمطلب اور سیدنا عمرو ؓ بن العاص سہمی بھی آپس میں گہرے ندیم و دوست تھے۔ ندیمی کے اس رشتے میں ایک دلچسپ قصہ یہ بھی ہے کہ ابو طالب کا رشتہ ندیمی بنی عامر بن لوئ کے عمرو بن عبدود سے تھا۔ یہ عمرو بن عبدود وہی شخص تھا جس کو ابو طالب کے فرزند سیدنا علیؓنے غزوۂ خندق میں قتل کیا تھا۔ اس وقت عمرو بن عبدود کی عمر ۱۴۰سال تھی اور وہ قریش کے پہلوانوں اور مضبوط ترین جانبازوں میں شمار ہوتا تھا جبکہ سیدنا علیؓ نہایت شجاع ہونے کے باوصف خلقی طور پر کمزور تصور کیے جاتے تھے۔
یاد رہے کہ ندیمی کے اس رشتے میں دونوں فریقین کے درمیان رتبہ ومنزلت کے مساوی ہونے کے علاوہ ہم مزاجی کا عنصر بھی نمایاں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل بن اسد، جن کا ذکر علامہ ابن قتیبہ الدینوری (متوفیٰ ۲۷۶ ہجری) نے اپنی کتاب المعارف میں "ذکر من کان علی دین قبل مبعث النبیﷺ" یعنی "بعثتِ نبویﷺ سے قبل دینِ حق کے پیرو" کی سرخی کے ذیل میں (بطور حنفائے مکہ) کیا ہے ، میں بھی باہم ندیمی تھی اور یہ دونوں آپس میں نہایت قریبی دوست تھے۔ یہ زید بن عمرو بن نفیل سیدنا عمرؓ کے چچا اور عشرۂ مبشرہ صحابی سیدنا سعیدؓ بن زید کے والد تھے جبکہ ورقہ بن نوفل ام المومنین سیدہ خدیجہؓ بنت خویلد بن اسد کے چچازاد بھائی تھے۔ ندیمی کے اس رشتے میں ہم مزاجی کی دوسری مثال سیدنا حمزہؓ بنت عبدالمطلب ہاشمی اور سیدنا عبداللہ بن سائب مخزومیؓ کی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں ندیمی کا رشتہ استوار کرنے والے ان دونوں اشخاص نے اسلام قبول کرکے صحبت رسولﷺ کا شرف بھی یکساں حاصل کیا ہم مزاجی کی تیسری مثال سیدہ ھند ؓ کے والد عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبدمناف اور مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف کے مابین ندیمی کا رشتہ تھا۔ یہ دونوں اشخاص نہایت مدبر تھے اور ہمیشہ نبیﷺ کے خلاف قریش کو کوئی بھی انتہائی اقدام کرنے سے حتی المقدور روکا کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ نے قریش کو نبیﷺ کے حال پر چھوڑ دینے کے ساتھ ساتھ بدر کے موقع پر نبیﷺ کے مد مقابل نہ آنے کا مشورہ دے کر جہاں جنگ ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی تو وہیں بقول ابن ہشام متوفیٰ ۲۱۳ ہجری) فی السیرۃ النبویۃ الجزء الثانی صفحہ ۶۸ بذیل سعی الرسول الی الطائف و موقف ثقیف منہ" طائف سے واپسی پر اہل طائف کی ایذا رسانیوں سے بچنے کی خاطر زخمی حالت میں جب آپ ﷺنے ابنائے ربیعہ بن عبد شمس عتبہ و شیبہ کے باغ میں پناہ لی تو فلما رآہ ابنا ربیعۃ، عتبۃ و شیبۃ، وما لقی، تحرکت لہ رحِمھما فدعوا غلاماً لھما نصرانیاً یقال لہ عدّاس، فقالا لہ: خذ قطفا من ھذا الؑنب، فضعہ فی ھذا الطبق، ثم اذھب بہ الی ذلک الرجل فقل لہ یاکل منہ یعنی جب عتبہ اور شیبہ نے نبیﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو ان کو آپﷺ پر رحم آیا اور انہوں نے اپنے ایک نصرانی غلام جس کا نام عدّاس تھا کو حکم دیا کہ وہ انگور کے خوشے ایک طشتری میں رکھ کر آپﷺ کے پاس لے جائے اور آپﷺ سے کہیں کہ ان کو تناول فرمائیں۔ اس کے بعد جب نبیﷺ نے مکے میں داخل ہونے کے لیے بنو خزاعہ کے اخنس بن شریق اور بنی عامر بن لوئ کے سیدنا سہیل بن عمروؓ کو پناہ کے لیے پیغام بھیجا تو دونوں نے معقول عذر بیان کرکے پناہ دینے سے معذرت کرلی - ان دونوں حضرات سے مایوس ہوکر نبیﷺ نے مطعم بن عدی کو پناہ کے لیے پیغام بھیجا ۔ مطعم نے نہ صرف آپﷺ کو پناہ دی بلکہ ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور خاندان کے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجاؤ کیونکہ میں نے محمد ﷺ کو پناہ دے دی ہے۔ اس کے بعد مطعم نے نبیﷺ کو پیام بجھوایا کہ مکے میں داخل ہوجائیں- آپﷺ مکے تشریف لائے اور مسجدِ حرام میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو! میں نے محمدﷺ کو پناہ دے دی ہے۔ اب کوئی ان سے تعرض نہ کرے ابن ہشام نے السیرۃ النبویۃ میں اور واقدی نے کتاب المغازی میں عتبہ بن ربیعہ کی امن پسندی اور نبیﷺ کی طرف صلح جو میلان کے کئی واقعات مختلف مواقع پر نقل کیے ہیں۔ کبھی فرصت ہوئی تو ان پر الگ سے ایک مستقل مضمون لکھ رکھنے کا ارادہ ہے ان شاءاللہ۔
اسی ہم مزاجی کی چوتھی مثال سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب اور سیدنا ابو سفیانؓ بن حرب اموی کے رشتہ ندیمی کی بھی ہے۔ جہاں سیدنا عباسؓ نے فتح مکہ سے چند روز قبل تک اپنے اسلام کے اظہار کو موخر رکھنے کے باوجودہر طریقے سےنبیﷺکی بھر پو ر تائید کی اور کبھی ان کے معاندانہ مخالف نہ آئے بعینہٖ اسی طرح سے سیدنا ابو سفیانؓ ہر ممکن طریقے سے نبیﷺ کی ایذا دہی سے خود کو باز رکھنے کی کوشش کرتے جیسا کہ ابن سعد اور مقریزی نے اپنی تالیفات میں ذکر کیا ہے کہ جب قریش کے شرارتی لونڈے نبیﷺ کو پریشان کرتے تو سیدنا ابو سفیانؓ نبیﷺ کو ان کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر اپنے گھر میں پناہ دیتے اور اسی احسان کے بدلے کے طور پر آپﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر دارِ ابو سفیان کو دار الامن قرار دیا تھا۔ اسی طرح عتبہ بن ربیعہ اور دیگر امن پسند قریشیوں کی طرح سیدنا ابو سفیانؓ نے بھی قریش کو پیغام بھیج کر بدر کے موقع پر جنگ سے احتراز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے مکہ واپس لوٹ جانے کا عندیہ دیا تھا۔ یہی نہیں غزوۂ بدر جس میں سیدنا ابو سفیانؓ کا بیٹا حنظلہ ،جو ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ کا سگا بھائی اور سیدنا ابو سفیانؓ کی زوجہ صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ کے بطن سے تھا، مسلمان لشکر کے ہاتھوں مقتول ہوا، اس واقعہ کے بعد جب سیدنا ابو العاص بن ربیعؓنے سیدہ زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے مدینہ اپنے بھائی کنانہ بن ربیع کی معیت میں نبیﷺ کے پاس بھیجنا چاہا تو قریش آڑے آئے اور معاملہ خونزیری تک پہنچنے لگا۔ یہاں تک کہ بقول ابن ہشام فی السیرۃ النبویۃ الجزء الثانی بذیل خروج زینب الی المدینۃ" صفحہ ۲۹۶ ، سیدنا ابو سفیانؓکنانہ بن ربیع اور قریش کے درمیان بیچ بچاؤ کروانے آئے اور کنانہ کو مخاطب کرکے برملا کہا کہ ان کے والد کی طرف سے ہم کو جو مشکلات درپیش آئی ہیں، تم ان سے واقف ہو۔ اب اگر تم ان کو دن دھاڑے قریش کے سامنے علانیہ لیکر جاؤگے تو لوگ اس کو ہماری کمزوری پر محمول کریں گے اور یہ ہماری رسوائی کا باعث ہوگا۔ پھر سیدنا ابو سفیانؓنے فرمایا: ولعمری مالنا بحبسھا عن ابیھا من حاجۃ، ومالنا فی ذلک من ثؤرۃ ولکن ارجع بالمراۃ حتی اذا ھدات الاصوات، وتحدث الناس ان قد رددناھا، فسُلّھا سرّاً، والحقھا بابیھا۔ قال: ففعل یعنی اپنی عمر کی قسم! ہمیں ان کو ان کے والد سےملنے سے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہمیں کوئی انتقام مطلوب ہے لیکن اس وقت تم ان خاتون کو لے کر لوٹ جاؤ، یہاں تک کہ جب آوازیں خاموش ہوجائیں اور لوگ یہ کہنے لگیں کہ ہم نے ان کو لوٹادیا تو پھر ان کو چپکے سے لے کر نکل جانا اور ان کو ان کے والد کے پاس پہنچادینا۔ راوی کہتا ہے کہ کنانہ بن ربیع نے ایسا ہی کیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ابن ہشام نے اس سے چند سطریں قبل یہ بات بھی لکھی ہے کہ جب مکہ سے مدینہ روانہ ہونے کی خاطر سیدہ زینبؓ بنت رسول اللہﷺ اپنا زادِ راہ باندھ رہی تھیں تو سیدنا ابو سفیانؓ کی زوجہ اور عتبہ بن ربیعہ کی صاحبزادی سیدہ ہند بنت عتبہؓ سیدہ زینبؓ سے ملنے آئیں اور بقول سیدہ زینب ؓ ان سے کہا: یا بنت محمد، الم یبلغنی انک تریدین اللحوق بابیک؟ قالت : ما اردت ذلک، فقالت : ای ابنۃ عمی، لا تفعلی، ان کانت لک حاجۃ بمتاع مما یرفق بک فی سفرک او بمال تتبلغین بہ الی ابیک، فان عندی حاجتک، فلا تضطنی منی، فانہ لا یدخل بین النساء ما بین الرجال۔ قالت واللہ ما اراھا قالت ذلک الا لتفعل یعنی اے دخترِ محمدﷺ! میں نے سنا ہے کہ تم اپنے والد سے ملنے جارہی ہو۔ سیدہ زینبؓ کہتی ہیں کہ میں نے ارادئے اخفاء کے سبب ان سے کہا کہ ایسا تو نہیں ہے۔ اس پر سیدہ ہندؓ بولیں کہ اے میری چچا کی لڑکی ایسا مت کہو (یعنی مجھ سے یہ بات مت چھپاؤ)۔ اگر تمہیں زادِ راہ کے طور پر کسی متاع کی ضرورت ہے جو سفر میں تمہارے کام آسکے یا پھر تم کو تمہارے والد تک پہنچنے میں بطور مدد مال کی ضرورت ہے تو مجھ سے کہو۔میرےپاس تمہاری ضرورت کا سامان موجود ہے۔پس مجھ سے کہنے میں بخل سے کام نہ لو۔ مردوں کے معاملات الگ ہیں اور ہم عورتوں کے معاملات الگ۔ سیدہ زینبؓ فرماتی ہیں کہ واللہ میں نے یہی خیال کیا کہ ھندؓ نے جو کہا وہ اخلاص سے کرنے کے لیے ہی کہا تھا۔(یعنی سچ کہا تھا)۔