خود کو جو حق کی محبت میں مٹا دیتا ہے
اس کے ہاتھوں میں خدا ارض وسما دیتا ہے
شرک کی آگ جو سینے سے بجھا دیتا ہے
اس کا دل ظلمتِ شب میں بھی ضیا دیتا ہے
میں کہ اس خالقِ کونین کے در کا ہوں فقیر
جو فقیروں کو شہنشاہ بنا دیتا ہے
اس کی اس نعمتِ عظمیٰ کو بیاں کیسے کروں
سانس لینے کو جو ہر وقت ہوا دیتا ہے
جو بھی سہتا ہے علامت کو شکیبائی سے
ایسے بیمار کو اللہ شفا دیتا ہے
یہ تو ہم کہ جو جاتے ہی نہیں اس کے قریب
وہ تو ہر وقت ہی بخشش کی صدا دیتا ہے
جو بھی ہو جاتا ہے اس ذات کا ، اللہ اسے
اپنے دیدار کی صورت میں صلہ دیتا ہے
شکر میں اس کا تفاخر نہ کروں کیسے ادا
مجھ کو عزّت جو محافل جدا دیتا ہے