وہ اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ بیرون ملک مقیم تھاجبکہ اس کا ایک بیٹا حصول تعلیم کے سبب بھائی اور بھابی کے ساتھ وطن ہی میں رہایش پذیر تھا - وقت ہنسی خو شی کٹ رہا تھا-دیور بھابھی کے تعلقات بھی بہت اچھے تھے اور بھائی کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیا ں بھی اپنے چچا سے بہت مانوس تھیں اور چچا بھی ان پر جان چھڑکتا تھا-تقریباً دو سال بیت چکے تھے -اسی اثنا میں بھائیوں میں کسی با ت پر اختلاف ہوا جودو چار روز کی وقتی ناراضی پر منتج ہوکر ختم ہو گیامگر بھابھی نے اس اختلاف کومخالفت سمجھا اور اپنے دل پہ لے لیا اور پھر رائی کاپہاڑ بنانے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے دیور کے ارد گرد پراپیگنڈے کی دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی-وہ دن میں کئی کئی با ر اپنی ساس کو فون کیاکرتی اور دیور کی نافرمانی اور ہٹ دھرمی کا رونا رویا کرتی- وہ اس ساری صورت حال سے بے خبر تھا- ایک دن وہ دفتر سے گھر آیا تو دیکھا کہ بیوی انتہائی رنجیدہ بیٹھی ہے جبکہ دوسرے روز اسی وقت دیکھا کہ اہلیہ محترمہ باقاعد ہ آنسو بہا رہی ہیں- تب اسے تشویش ہوئی اور اس نے اہلیہ سے اس گریہ کا سبب پوچھا تو ساری صورت حال اس کے علم میں آئی - اس نے اہلیہ کو تسلی دی اور کہا کہ یہ تو تم نے ایک طرف کی کہانی سنی ہے دوسرے کا موقف تو تمہارے علم میں ہےہی نہیں اس لیے کوئی حتمی رائے کیسے قائم کی جا سکتی ہے -اس نے کہا کہ صبر کرو یہ ساری سٹوری آدھا سچ ہے - جس کے بارے میں بات ہورہی ہے وہ بھی ہمارا بیٹا ہے- وہ اس حدتک نہیں گر سکتا یقینا ً کوئی اور بات بھی ہے جسے اپنے مفاد اورپراپیگنڈہ کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے -پا کستان جائیں گے تو تب ہی بات کریں گے اور تب ہی اصل صورت حال تک پہنچنا ممکن ہو گا- بہر حال دو ما ہ گزرے اور وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ پا کستان پہنچا- دونوں فریقین کا موقف سناتو اس کا خیا ل سچ ثابت ہوا کہ رائی کا پہاڑ بنایا جارہا تھا‘ اصل میں بات کچھ بھی نہ تھی-اس نے مسکرا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا اب بتاؤ-
پراپیگنڈہ انفرادی سے لے کراجتماعی ‘ شخصی سے لے کرقومی اور ملکی سطح سے عالمی لیول تک قلوب و اذہان کو کس طرح آلودہ اور وقتی طور پر حقیقت کو کس طرح مسخ کر کے ر کھ دیتا ہے‘ یہ اس کی ایک چھوٹی سی گھریلو مثال ہے مگر اس کی روشنی میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ پراپیگنڈہ کی آڑ میں کس طرح اپنے من پسند ثمرات سمیٹے جا سکتے ہیںاور عا لمی طاقتیں سمیٹ بھی رہی ہیں-نہ صرف گھریلو سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی اس سلسلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے- کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے کہ ہم کہیں پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر تو فیصلہ نہیں کر رہے -اور اگر کبھی ایسا محسوس ہو تو قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ پر غور کرنا یقیناً بہت فائدے کا باعث ہو گا - ان السمع والبصروالفواد کل اولئک کان عن مسئولا بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا-اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان بھی اس مرض کا شافی علاج بن سکتا ہے - من حسن الاسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے -