دل پر مرے احساس نے جو حرف لکھا ہے
ہے تیرے سوا کون کہ جس نے وہ پڑھا ہے
تصویر تری کثرتِ جلوہ سے ہے معدوم
آئینۂ حیرت ہے کہ آغوش کشا ہے
ہر آنکھ ہے رنگوں کی فراوانی سے خیرہ
وحدت کا تری بھید کھلا تھا نہ کھلا ہے
تو نے ہی تو ہر مرحلۂ شوق میں یارَبّ!
اِس چشمِ تماشا کو نیا عزم دیا ہے
جو تو نہیں چاہے وہ کبھی ہو نہیں سکتا
ہر کام فقط تیرے ارادے سے ہوا ہے
ہر جاں کو تسلی کہ حفاظت میں ہے تیری
ہر زخم تری چشمِ عنایت سے بھرا ہے
ایماں ترے ہونے کا، مری جاں کا اثاثہ
ایقان ترے قُرب کا اس دل کی جِلا ہے
تو نے ہی مجھے نُطق کی دولت سے نوازا
تو نے مرے احساس کو اظہار دیا ہے
احسنؔ پہ عنایات کے دَر باز ہوں یاربّ
یہ دشتِ تحیّر میں تجھے ڈھونڈ رہا ہے