آج کل کثرت کے ساتھ بچوں کی آوازوں کی بندش کی شکایات سننے میں آرہی ہیں، خاص طور پر ایسے بچوں کی طرف سے شکایات زیادہ ہیں جو حفظ کر رہے ہیں۔ چونکہ برخورداد محمد خبیب اسحاق کو اپنے حفظ کے دوران یہی شکایت تھی اور عرصہ 8 ماہ تک اس کی آواز بند رہی۔ تین چار سال قبل یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا، جس کی وجہ سے ساتھی رابطہ کرتے ہیں۔ ایسے تمام ساتھیوں کی خدمت میں چند گزارشات پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
1- یہ زیادہ بولنے یا چیخ چیخ کر پڑھنے کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے گلے میں موجود ساؤنڈ بکس متاثر ہوجاتا ہے، چنانچہ جن دو سائیڈوں کے ملنے سے حروف کی آواز بنتی ہے ان سائیڈوں میں فاصلہ آجاتا ہے۔ اب جب تک یہ فاصلہ رہے گا، آواز نہیں بنے گی۔
2- سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ یہ بات رسماً نہیں کر رہا،آپ نے واقعی نہیں گھبرانا۔ یہ ایک بیماری ہے لیکن اتنی ہلکی بیماری بھی نہیں کہ بچہ دو تین دن دوا کھائے اور آواز بحال ہوجائے۔ اس کا علاج اپنے وقت پر بہت آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ وقت کے تعین کا کوئی ڈاکٹر نہیں بتا سکتا۔ افاقہ ہونے میں میرے مشاہدہ کے مطابق عموماً تین سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ میں نے اب تک اس مرض کا کوئی ایسا مریض نہیں دیکھا جو ٹھیک نہ ہوا ہو، اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔
3- کسی اچھے ای این ٹی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ اگر وہ اسپیچ تھراپی کا مشورہ دے تو اس پر عمل کرلیا جائے۔ اپنے بیٹے کے علاج کے وقت مجھے جس ای این ٹی ڈاکٹر نے بہت زیادہ متاثر کیا وہ یہاں کراچی میں ڈاکٹر حیدر عباس رضوی ہیں جو بڑے ضیاء الدین اسپتال اور رضویہ سوسائٹی، ناظم آباد نمبر1 کے ایک مکان میں بیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ کسی اچھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے بھی دوا لی جاسکتی ہے۔ میری نظر میں اس کے لیے گلشن اقبال بلاک3 میں تابش کلینک کے ڈاکٹر سعادت بہتر ہیں، ان سے رجوع کرلیا جائے۔
4- اصل علاج یہ ہے کہ بچہ بولنا بالکل بند کردے۔ اس کے منہ پر ٹیپ لگادیں اور وہ ٹیپ صرف کھاتے اور پیتے وقت ہٹائیں۔
ایلوپیتھک ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہماری کتابوں میں اس کا علاج یہ لکھا ہوا ہے کہ متعلقہ شخص جو کام کر رہا ہے، وہ اس کام کو چھوڑ دے۔ مثلاً وہ مقرر ہے تو تقریر چھوڑ دے، بچہ حفظ کر رہا ہے تو حفظ چھوڑ دے، وغیرہ وغیرہ۔ جب افاقہ ہوجائے تو اس کے بعد بے شک اس کام کو دوبارہ شروع کر لے اگر آپ بچے کا علاج تو کروا رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ مدرسہ بھی جا رہا ہے تو یہ اپنے اور بچے دونوں کے ساتھ زیادتی ہے، ایسا ہرگز نہ کریں ورنہ نقصان اٹھائیں گے اور یقیناً پچھتائیں گے۔
5- اس دوران بچہ بھی اس بات کو کافی محسوس کرتا ہے کہ سارے بچے بول رہے ہیں اور ان کی باتیں سنائی بھی دے رہی ہیں لیکن میرے ساتھ ایسا معاملہ ہوگیا ہے بچہ مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو تسلی دیتے رہیں اور مختلف لوگوں کی مثالیں دے کر اسے سمجھائیں کہ وہ لوگ بھی اس بیماری سے صحت یاب ہوچکے ہیں، لہٰذا تم بھی لازمی ٹھیک ہوجاؤگے، بس ہمارا ساتھ دو، جیسے کہیں ویسے ہی عمل کرو۔میرا بیٹا بھی ایک وقت میری پریشانی دیکھتے ہوئے مختلف ڈاکٹروں کے پاس آجاکربہت مایوس ہوگیا تھا اور اپنی امی سے کہا ابو سے کہیں:پریشان نہ ہوں، بس مجھے یوں ہی چھوڑ دیں، جو ہوگا، ہونے دیں، یہ آواز اب شاید ٹھیک نہ ہو"-اہلیہ نے مجھے بتایا تو میں نے بیٹے کو بلاکر سمجھایا کہ دیکھو یہ بات ذہن سے نکال دو کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، یہ ہر صورت میں حل ہوگا ان شاءاللہ، اس بات کو ذہن پر سوار مت کرو کہ تمہارے ساتھ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ہے، معمولی بیماری ہے، کھیلو کودو اور اس طرف توجہ ہی مت دو، بس بولنے سے گریز کرو، اشاروں سے بات کیا کرو اور جب ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو راضی خوشی ساتھ چلا کرو تاکہ ڈاکٹر کی باتیں سن کر ہمیں تسلی رہے اور اندازہ رہے کہ کیا ہورہا ہے۔
6- یہ رو حانی مسئلہ بالکل نہیں ہے، لہٰذا ڈاکٹری علاج پر توجہ دیں اور نتائج میں جلدی نہ کریں۔ عاملوں کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت اور پیسہ ضائع مت کریں۔