قسمت کی تلاش

مصنف : توقیر بھملہ

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : دسمبر 2021

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان تھا جس کی زندگی اس کی پیدائش کے دن سے ہی دکھوں سے بھری ہوئی تھی۔اپنے مدرسے میںاسے بیٹھنے کے لیے ہمیشہ آخری نشست ہی ملتی تھی، لکھتے ہوئے اس کا قلم ہمیشہ ٹوٹ جاتا تھا، فٹ بال کے کھیل میں کوئی بھی ٹیم اسے اپنے ساتھ کھیل میں شامل کرنے پر راضی نہ ہوتی تھی - وہ چلتے ہوئے اپنے جوتوں کے تسمے پر اپنا پاؤں آنے سے پھسل کر گر جاتا تھا، کوئی بھی لڑکی اس کی طرف نہ دیکھتی تھی، لیکن جب وہ خود کسی لڑکی کو دیکھتا تھا تو وہ اپنے دل کی انتہائی تیز ہوتی ہوئی دھڑکن سن سکتا تھا۔  حالانکہ ابھی تک اس کی داڑھی یا مونچھیں بھی صحیح طرح نہیں بڑھی تھیں۔
ایک دن مدرسے کی راہداریوں میں بیٹھ کر وہ اپنی دکھی زندگی پر غور کرنے لگا، اسے یاد آیا کہ ہر کوئی اسے بدنصیب کہتا تھا، بالآخر اس نے اپنے اچھے نصیب کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا، جو اس کی زندگی بدل دے اور اسے مصیبتوں سے نکال سکے۔ اس نے چاروں طرف دیکھا،میز کے نیچے، بکھرے سامان میں ، باورچی خانے کے برتنوں کے درمیان، اور الماری میں اپنے کپڑوں کے درمیان ہر جگہ دیکھا، اور بدقسمتی سے اسے کوئی نصیب نہیں ملا۔ نصیب کی تلاش میں وہ ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا اور لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا، آخر کار اس نے سوچا کہ مجھے نصیب کی تلاش میں سفر کرتے ہوئے دنیا کے آخری کونے تک جانا چاہیے
وہ غصے سے پاؤں کو زور زور سے زمین پر پٹختے ہوئے دن رات پیدل چلتا رہا، اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا گیا، مگر اسکا نصیب اسے کہیں نہ مل سکا، چلتے چلتے وہ ایک بہت بڑے گھنے جنگل تک جا پہنچا، جنگل کے داخلی رستے پر ایک تنگ و تاریک دہانہ تھا، اس تنگ راہداری کو عبور کرکے ہی کوئی اس جنگل میں داخل ہوسکتا تھا- اسے محسوس ہوا کہ اس دہانے پر کوئی چھوٹی اور بھدی سی چیز پڑی ہوئی ہے، اس نے قریب جاکر غور سے دیکھا تو جیسے ہڈیوں سے لپٹی ہوئی کوئی گندی کھال تھی - وہ اور قریب ہوا تو اسے کھال اور ہڈیوں کا مجموعہ سانس لیتا ہوا دکھائی دیا، اور اس نے دیکھا کہ وہ کھال جگہ جگہ سے دھوپ کی حدت سے جھلسی ہوئی تھی ، یہ ایک بھیڑیا تھا، وہ نہ زندہ تھا اور نہ ہی مردہ ۔  نوجوان نے دیکھا بھیڑیے کی دھنسی ہوئی آنکھیں اسے نیم وا دکھائی دے رہی تھیں۔ بھیڑیے نے آہ بھری اور پوچھا: "اوہ، اے نوجوان، تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟" نوجوان نے جواب دیا: "میں اپنی قسمت اپنا نصیب تلاش کر رہا ہوں؟ اور تم؟"  بھیڑیے نے کہا: میں بھی شاید خوش قسمت نہیں ہوں، سنو اگر آپ اپنے نصیب کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائیں تو براہ کرم وہاں سے میری قسمت کے بارے میں بھی پوچھیے گا.  نوجوان نے بھیڑیے سے اس کی قسمت کے بارے میں پوچھنے کا وعدہ کرنے کے بعد اسے وہیں چھوڑ دیا۔ اور خود جنگل میں داخل ہو گیا-بدقسمت نوجوان،طویل عرصے تک دن اور رات کی پرواہ کیے بغیر چلتا رہا، یہاں تک کہ وہ جنگل کے ایک ایسے حصے میں جاپہنچا، جہاں ایک تنہا بلند و بالا مگر کمزور سے درخت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا- اس درخت پر صرف دو پتے باقی رہ گئے تھے باقی کے تمام پتے جھڑ چکے تھے-
وہ بدقسمت نوجوان اپنی قسمت کی تلاش میں مگن سیٹیاں بجاتا ہوا جا رہا تھا، کہ اس درخت سے ایک اور پتا گرگیا، اس گرتے ہوئے پتے کے ساتھ ہی درخت نے کہا: ارے، ارے، ہیلو، اے نوجوان، کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا، "میں اپنی قسمت اپنے نصیب کی تلاش میں ہوں۔ تو درخت نے پوچھا، کیا تم اپنے ساتھ میری قسمت بھی تلاش کر سکتے ہو؟ یا پھر وہاں سے دریافت کرسکتے ہو کہ میں اتنا کمزور کیوں ہوں؟ میرے جھڑتے ہوئے پتوں پر میرا اختیار کیوں نہیں ہے؟نوجوان راضی ہو گیا، اور اپنی خوش قسمتی کی تلاش میں چل دیا، چلتے چلتے اس کا گزر گھنے جنگلوں سے نکل کر ایک حسین و جمیل وادی میں جا ہوا، جہاں تاحد نگاہ وسیع سرسبز کھیت لہرا رہے تھے ، وہاں اس نے دور سے ایک خوبصورت جھونپڑی کو دیکھا جس کے چاروں طرف ایک چھوٹی سی دیوار تھی، جس کے ساتھ ملحقہ باغات پھولوں، پھلوں کے درختوں اور پکی سبزیوں سے لدے ہوئے تھے ۔ باغ کے درمیان سے صاف و شفاف پانی کی ایک ندی گزر رہی تھی ، جھونپڑی کو اطراف سے سفید رنگ والے کپڑوں سے ڈھانپ کر،  اس کے دروازے کو سرخ گلابوں سے سجایا گیا تھا، جھونپڑی نہایت خوبصورت تھی، اور شاید دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ بھی یہی تھی۔باغ کی دیکھ بھال کرنے والی لڑکی نے اسے دیکھ کر کہا: "خوش آمدید"، "خوش آمدید۔" اے اجنبی نوجوان میری ملکیت کی زمینوں پر آپ کا خیر مقدم ہے ، "آپ جو چاہیں کھا سکتے ہیں۔" اور جب تک چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں، اس نوجوان نے کہا، ’’بہتر ہے کہ آپ صرف مجھے قہوے کا ایک کپ پلا دیں ۔ لڑکی اس کی بات سن کر مسکرا دی، وہ اسے اپنی جھونپڑی کے اندر لے گئی، جہاں دونوں نے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا، اور ایک دوسرے کی باتوں پر دیر تک اکٹھے ہنستے رہے ، لڑکی کی مسکراہٹ طوفان کے بعد طلوع ہونے والے سورج جیسی تھی، باتوں کے دوران ہی لڑکی نے اداسی سے آہ بھری، اور کہا، "آ ہا۔"  نوجوان نے پوچھا کیا بات ہے؟  اس نے کہا، "مجھے خوشی ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں، لیکن آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی بات کا ملال ہے جو مجھے اداس کرگیا ہے ، شاید ایسا میری قسمت کی وجہ سے ہے۔" نوجوان نے اس لڑکی سے کہا، "میں اپنی قسمت کی تلاش میں جا رہا ہوں، اگر آپ چاہتی ہیں تو میں وہاں آپ کی قسمت بھی تلاش کروں گا، بلکہ میں ایسا ضرور کروں گا."
وہ نوجوان طویل دن، لمبی راتیں، جنگلوں، دریاؤں، میدانوں اور وادیوں سے ہوتا ہوا چلتا رہا، یہاں تک کہ وہ دنیا کے آخری کنارے پر پہنچا، اس نے دنیا کے کنارے پر کھڑا ہوکر، خلا میں دیکھا، اور پکارا۔ کیا یہاں کوئی ہے جو مجھے بتائے کہ میں اپنی گمشدہ قسمت تلاش کرنے کے لیے کیا کروں؟" اچانک اس نے ایک اونچی آواز سنی جو اسے پکار رہی تھی، "تمہیں ہر حال میں اپنا سفر مکمل کرنا چاہیے، تم اپنی تلاش جاری رکھو، آنکھیں کھولو، اپنے دماغ میں سوئی ہوئی عقل کو جگا کر اسے استعمال میں لاؤ، تمہاری قسمت خودبخود تمہارے پاس آئے گی۔"  نوجوان نے کہا: "شکریہ اور چلا گیا۔  آواز نے کہا، "سنو سنو، کیا تم کچھ بھول نہیں گئے؟" اچانک نوجوان کو یاد آیا کہ اسے بھیڑیے، درخت اور لڑکی کے بارے میں بھی پوچھنا تھا ، پھر اس نے ،باری باری سب کے جوابات لیے، واپس مڑا، اپنے پاؤں خوشی سے زمین پر مارتا ہوا، سورج کی جانب رخ کیا اور چلتا رہا، اور اس وقت تک چلتا رہا جب تک حسین وادی کے اندر سفید جھونپڑی تک نہ جا پہنچا۔ خوبصورت لڑکی نے جب اسے دیکھا تو خوشی سے چلاتے ہوئے پوچھا کیا تم نے اپنی قسمت پالی؟ اور کیا میرے نصیب کا بھی پتا کیا؟ اس نوجوان نے کہا، "تم اکیلی ہو کیونکہ تمہارا شوہر نہیں ہے۔" اس نے کہا، " ہاں یہ تو سچ ہے کیونکہ یہاں کوئی مرد نہیں ہے، اور یہاں سے گزرنے والے تمام مرد شاید مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔" پھر اس لڑکی نے کہا، مجھے اپنی اداس قسمت کی سمجھ آگئی ہے "کیا تم مجھ سے شادی کرو گے ؟ " میں سارا کام کروں گی، میں آپ کے لیے کھانا بناؤں گی، میں گھر کی ہر ضرورت کا بندوبست کروں گی، اور وہ سب کچھ کروں گی جس سے ہم دونوں خوش رہ کر اس خوبصورت زندگی سے لطف اٹھا سکیں ۔ نوجوان نے کہا: “نہیں، نہیں، نہیں، مجھے افسوس ہے کہ مجھے اپنا سفر ہر حال میں جاری رکھنا ہے، اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں اور اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے قسمت کو تلاش کرنا ہے۔ "نوجوان اس لڑکی کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا، اور چلتا رہا یہاں تک کہ اسے جنگل  کے وسط میں وہی جگہ مل گئی ، جہاں اسے ٹنڈ منڈ درخت نظر آیا جس پر صرف ایک پتا باقی تھا، جب نوجوان اس کے قریب پہنچا تو اس کا آخری پتا بھی گر گیا۔ درخت نے کہا، کیا آپ نے اپنی قسمت کو پالیا تھا؟  اُس  نوجوان نے کہا، ہاں ’’مجھے سفر جاری رکھنا ہے، آنکھیں کھولنی ہیں، اور اپنے دماغ کو استعمال کرنا ہے۔‘‘  اور میرا کیا ہوگا؟ درخت نے پوچھا۔ نوجوان نے کہا: "طویل عرصے سے تمھارے نیچے زمین میں خزانہ  دفن ہے، اس لیے تمہاری جڑوں کے پروان چڑھنے اور بڑھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، تمہیں کوئی ایسا شخص تلاش کرنا ہو گا، جو کھود کر خزانے کو اپنے پاس لے جائے۔" درخت نے کہا "وہاں دیکھو میرے قریب کلہاڑی اور دوسرے اوزار پڑے ہوئے ہیں ، تم ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے خزانہ کھود سکتے ہو، مجھے اس سے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ نوجوان نے اس  درخت سے کہا، "میرے پاس اتنا وقت نہیں
 ہے، مجھے اپنا سفر ہر حالت میں مکمل کرنا ہے۔"اور وہ وہاں سے چلا گیا، طویل مدت تک چلتا رہا یہاں تک کہ اس دہانے پر پہنچ گیا جہاں ایک لاغر بھیڑیا رہتا تھا ، اس کی نظر کمزور ہوتے بھیڑیے پر پڑی جو مزید کمزور ہو گیا تھا اور موت کے دہانے پر تھا،  شدید کمزوری کے باعث بھیڑیا آنکھیں نہ کھول سکا،  بڑی مشکل سے اس نے ایک آنکھ آدھی وا کی، نوجوان کو دیکھا اور اس سے پوچھا، کیا آپ نے اپنی قسمت کے بارے میں کسی سے پوچھا؟  نوجوان نے جواب دیا، "ہاں مجھے اپنا سفر جاری رکھنا ہے، اپنی آنکھیں کھولنی ہیں، اور اپنے دماغ کو استعمال کرنا ہے۔"  اور بھیڑیے نے کہا، تو میرے متعلق کیا پتا چلا؟  نوجوان نے کہا، " تم نے شکار چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے، طویل عرصے سے تم بھوکے اور پیاسے ہو ، اسی بھوک کے ہاتھوں عنقریب تم ہلاک ہو جاؤ گے، اس لیے اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو تمھیں اس پہلے احمق کو ضرور کھانا چاہیے جو آپ کے راستے سے دو بار گزرتا ہے۔" اور پھر بھیڑیے نے بالکل ایسا ہی کیا۔

 

بشکریہ : عربی ادب سے انتخاب