تعصب اور تنگ نظری
وہ ایک بڑے مفتی صاحب کا گھر تھا اور انگریزی کا استاد ان کے بچوں کو انگریزی پڑھا رہا تھا۔دوران تعلیم’ ابلیس‘ کا ذکر آیا تو مفتی صاحب کی بیٹی ،جو کہ آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے ، نے پوچھا ، سر، ابلیس کسے کہتے ہیں۔ استاد نے کہا بیٹا ، شیطان کو۔ بچی ایک لمحے کو چونکی ۔ استاد نے پوچھا کہ بیٹا کیا ہوا ؟ بچی نے کہا لیکن ۔۔ لیکن۔۔سر۔۔،وہ۔۔ میرے ابو توکہتے ہیں کہ شیطان ، غامدی کو کہتے ہیں۔استاد نے بات کا رخ بدل دیالیکن کتنے ہی دن وہ یہ سوچتا رہا کہ دنیا کی مختلف جامعات سے فارغ التحصیل ایک سند یافتہ عالم اور مفتی کل قیامت کو اللہ کے حضور اپنے الفا ظ کو کیسے ثابت کرے گا۔شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ خلا میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔اے کاش ایسا ہوتا۔۔! لیکن ایسا ہر گز نہیں کیونکہ ما یلفظ من قو ل الا لدیہ رقیب عتید۔
وہ سادہ سا نیک دل نو جوان بچپن سے ہی نماز روزے کا پابند تھا۔ ایف اے کے بعد اس نے سوچا کہ عالم دین بنا جائے ۔ چنانچہ اس نے ایک مخصوص مسلک کے مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ اس داخلے سے پہلے بھی وہ نمازی تھا اور اس کا چہر ہ بھی داڑھی آشنا تھا لیکن اس داخلے کے بعداس میں یہ تبدیلی آئی کہ وہ نماز کے لیے خاص مسلک کی مسجد ڈھونڈنے لگا اور پھر کچھ دیر بعد یہ تبدیلی بھی آئی کہ وہ امام مسجد کیِ داڑھی کا سائز بھی چیک کرنے لگا اورپھر کچھ عرصہ بعد وہ ٹوپی ، پگڑی کے رنگ کا دھیا ن بھی کرنے لگا ۔ جو ں جوں اس کے سال گزرتے گئے وہ ایک مخصوص رنگ میں رنگنے لگا اور آج جب کہ وہ اس مدرسے کے آخری سال میں پڑھ رہاہے ،اسے اپنے مسلک سے وابستہ لوگوں کے علاوہ باقی سب کے بارے میںیقین ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے کافر ہیں جبکہ مجھے یقین ہے کہ وہ جب مکمل فارغ التحصیل ہو جائے گا تو آج کے یہ چھوٹے چھوٹے کافراس کے لیے بڑے بڑے کافر بن چکے ہوں گے۔
مدارس میں پڑھنے والوں کے ہاں عمومی طور پر ایسی تبدیلی کیوں آ جاتی ہے، اس کی وجہ جاننے کی سنجیدہ کوشش قومی سطح پر کبھی نہیں کی گئی اور نہ ہی مستقبل میں ایسی کوئی امید نظر آتی ہے۔پہلے میرے جیسے لوگ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی د ے لیتے تھے کہ یہ تعصب اور تنگ نظری نچلی سطح پر پائی جاتی ہے مگر مفتی صاحب اور اس جیسی چند اور مثالیں دیکھ کر اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ خرابی اصل میں کہیں اور ہے اور جب تک رسی کے اس سرے تک نہ پہنچا جائے گا یہ ڈور سلجھنے والی نہیں۔
ہمارے خیال میں خرابی اصل میں، تصورِ دین میں پوشیدہ ہے ۔دین کیا ہوتا ہے ،دین او رفقہ میں کیا فرق ہے ، دین کا ماخذ کیا ہے اور دین کی وسعت کیا ہے ، ہر انسان کی زندگی میں دین کا کیا رول ہے اور یہ کہ کلچر اور دین میں کیا فرق ہے ؟ اس سب باتوں کا جواب ہر ہر طالب علم کو روز اول سے ہی مل جانا چاہیے ۔ یہ جوابات طالب علم کو جس شکل میں ملیں گے ، دین کی ویسی ہی تصویر اس کے ذہن پہ مرتسم ہو تی چلی جائے گی اور پوری زندگی وہ اسی کے گرد گھومتا رہے گا۔ہمارے ہاں ان سوالات کو ایڈریس ہی نہیں کیاجاتااور طالب علم عمر بھر یہی سمجھتا رہتا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے کا عرب کلچر یا قرون اولیٰ میں لکھی گئیں فقہی کتب میں در ج آر ا یا اس کے اساتذہ کے ارشادات ہی اصل دین ہیں۔دین کا ماخذ صر ف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ انہی سے قرآن ملا ہے اور انہی سے سنت۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہو گیاہے کہ دین کا ماخذپہلے رسول اللہ سے کم ہو کر اماموں تک محدود ہوا ،ا ور اب رو بہ زوال ہوتے ہوتے حالت یہاں تک آ گئی ہے کہ دین کا ماخذ ہرطالب علم کا اپنا مسلک ،اپنا مدرسہ یااپنا استاد رہ گیاہے ۔جس طرح دین کا ماخذ سکڑتے سکڑتے ایک مدرسے تک محدود ہو گیا ہے اسی طرح وہ دین جو پوری انسانیت کا دین تھا ،سمٹتے سمٹتے ایک مسلک یاجماعت کا دین بن کر رہ گیاہے۔
دین اور دینداروں کی وسعت قلبی کا کیا عالم تھا اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبا کو صحابہ کی زندگی اور ان کے خیالات سے آشنا کروایا جائے ۔
خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے مصر کے دارالخلافے کا محاصرہ کیا ہوا تھا،، آپ کو مخبروں نے اطلاع دی کہ شہر کا شہر مسلمان ہونے کو بیتاب ہے مگر انہیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ایک ترقی یافتہ قوم صحراء کے بدوؤں کا کلچر کیسے اختیار کرے گی۔ یہ سن کر آپ نے شہر کے تمام رؤساء کی دعوت کا انتظام کیا۔ خود بھی مصری لباس پہنا، باورچیوں کو بھی مصری باورچیوں کا سا رسمی لباس پہنایا اور کھانے بھی خالص مصری انداز کے پکائے ۔دسترخوان تک کی ہیئت میں مصری انداز اختیار کیا۔ مصری رؤساء جب دعوت میں آئے تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہیں لگا گویا وہ کسی مصری تقریب میں ہی شریک ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد خالد بن ولیدؓ نے چھوٹا سا خطاب فرمایا جس میں ارشاد فرمایا ’’ مصر والو، جب ہم تم میں آئیں گے تو تمہارا لباس اور کلچر اختیار کریں گے ۔مصر میں ہم یوں ہونگے جیسا کہ تم نے ہمیں دیکھا ہے، صحرا میں ہم یوں ہونگے جیسا کہ تم نے ہمارے بارے میں سنا ہے اور میدان جنگ میں ہم یوں ہونگے جیسا کہ تم نے ہمیں آزمایا ہے۔ فیصلہ تمہارا اپنا ہے‘‘۔ اگلے دن شہر نے خالد ابن ولیدؓ کے لئے دروازے کھول دیئے۔
صحابہ کے تصورِ دین کی وضاحت کے ساتھ ساتھ دین کے ہر طالب علم کویہ بات ازبر کروانے کی اشدضرورت ہے کہ یہ دین، ایک عالمگیر دین ہے ، سب زمانوں کے لیے ہے اور سب انسانوں کے لیے ہے ۔ اس لیے کسی امر کو دین کہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس معیار پرپورا اترے یعنی وہ امر ایسا ہو کہ جسے سب انسان پورا کر سکیں،ہر زمانے میں کر سکیں اور ہرعلاقے میں کر سکیں۔ اگردین کے نام پر کوئی ایسی ہدایت دی جارہی ہے کہ جسے کسی خاص علاقے کے لوگ کسی خاص موسم یا حالات میں ادا کر سکتے ہیں تو وہ رسم ، رواج ، کلچر یا معاشرتی آداب جیسی کوئی چیز تو ہو سکتی ہے دین نہیں۔ یہی وہ اصل بات ہے کہ جسے ذہن نشین نہ کروانے کی وجہ سے وہ تعصب اور تنگ نظری جنم لے رہی ہے کہ جس کی مثال مفتی صاحب اور وہ سادہ سا نیک دل نوجوان ہے ۔