بی بی سی-محمد زبیر خان
جب مسلمان افسر نے سکھ خاندان کی جانیں بچانے کے لیے قرآن پر حلف اٹھایا
تقسیم ہند سے قبل لاہور کی مقامی مسجد کے امام ایک سرکاری افسر سے پوچھتے ہیں کہ کئی دنوں سے علاقے میں خبر گرم ہے کہ آپ نے کسی کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے، وہ کون ہے۔تو جواب ملتا ہے کہ وہ میرا بھائی اور اس کا خاندان ہے۔امام مسجد کو ان کی بات پر شک ہوا اور انھوں نے قران منگوا کر اس افسر سے کہا کہ اس پر حلف اٹھائیں کہ آپ کے گھر میں رہائش پذیر آپ کا بھائی اور اس کا خاندان ہے۔ جس پر سرکاری افسر قرآن پر حلف دیتے ہیں کہ جس کو میں نے گھر میں پناہ دی ہے وہ میرا بھائی ہے۔
تقسیم ہند کے وقت ہندو، سکھ اور مسلمان موجودہ پاکستان اور انڈیا میں جہاں جہاں پر بھی اقلیت میں تھے اکثریت کے غیض و غضب کے شکار ہوئے تھے۔ بلوائیوں کے جتھے اپنے اپنے علاقوں سے مہاجر بننے والوں پر حملے کرتے تھے۔ کئی خوش نصیب مہاجر اپنے علاقے چھوڑ کر زندہ سلامت ہجرت کرنے میں کامیاب ہو گئے اور کئی اپنی جان و مال گنوا بیٹھے تھے۔جہاں پر اکثر افراد اقلیتوں پر حملے کر رہے تھے وہاں پر ایسے کئی واقعات بھی موجود ہیں جن میں ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کی جانیں اور مال بچایا اور مسلمانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ہندوؤں اور سکھوں کو مدد فراہم کی تھی۔
لاہور کا واقعہ جس میں ایک مسلمان سرکاری افسر قرآن پر حلف دیتے ہیں کہ ان کے گھر میں ان کا بھائی اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر ہے، کئی برسوں سے انڈیا اور پھر امریکہ میں سینہ در سینہ سنایا جاتا رہا تھا۔
اس واقعے کو امریکہ میں مقیم ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کو ان کی دادی نے سنایا تھا۔
ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ نے اپنے بچپن میں یہ واقعہ اتنی مرتبہ سنا تھا کہ ان کو اس کے سارے کردار، علاقے اور مناظر ازبر ہو گئے تھے۔ کئی برسوں بعد اس واقعے کے پس منظر اور مزید واقعات جاننے کے لیے انھوں نے پاکستان، پنجاب، لاہور اور گوجرانوالہ کے کئی دورے کیے تھے۔
ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کہتے ہیں کہ حلف اٹھانے والے نے جھوٹا حلف نہیں اٹھایا تھا بلکہ اس نے قیمتی انسانی زندگیاں بچا کر انسانیت کو زندہ کیا تھا اور جس کے لیے حلف اٹھایا تھا وہ واقعی ان کا بھائی تھا۔ وہ آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے۔ حلف اٹھانے والے نے جس کو بھائی بنایا تھا اس کی حفاظت اپنی جان پر کھیل کر کی تھی۔
اس سے پہلے کہ ہم تقسیم ہند کے اس واقعے پر مزید نظر ڈالیں پہلے دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ اور ان کا خاندان کون تھا۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کے خاندان نے تقسیم کے وقت گوجرانوالہ سے انڈیا ہجرت کی تھی۔ خود ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کئی برسوں سے امریکہ میں آباد ہیں۔
ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کے آباؤ اجداد پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے منسلک تھے۔ تقسیم سے قبل انھیں خطے کا بہت بڑا جاگیردار سمجھا جاتا تھا۔ گوجرانوالہ کے گاؤں بوتالا میں ان کی زمین تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب بھی ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں۔تقسیم ہند کے بعد بھی ان کے پاکستان میں کئی فوجی اور سول افسران کے خاندانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کے دادا کیپٹین اجیت سنگھ ایچیسن کالج لاہور کے طالب علم تھے۔ بہاولپور کے سابق نواب، نواب صادق خان، جنرل موسیٰ خان اور دیگر اہم شخصیات کے دوست اور کلاس فیلو تھے جبکہ ان کی دادی نریندر کور بوتالیہ علاقے کی مشہور و معروف سیاسی وسماجی شخصیت تھیں۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کہتے ہیں کہ مجھے میری دادی ہمیشہ تقسیم ہند کے وقت کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب تقسیم کا وقت آیا اور فسادات شروع ہوئے تو اس وقت لاہور میں رہائش پذیر ایک مسلمان سرکاری افسر اور ان کی اہلیہ نے دو ماہ تک انھیں پناہ دی تھی۔اس دوران پناہ دینے والا خاندان نہ صرف خود مشکلات سے گزرا بلکہ اس خاندان نے انسانیت کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی ہے جس پر نہ صرف میں نے ایک کتاب لکھی ہے بلکہ اس خاندان کو تلاش کرنے کے لیے کئی سال کوشش کرتا رہا تھا۔
ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی تحقیق اور اپنے آباؤ اجداد سے سنی ہوئی باتوں پر کتاب لکھی۔ اس کتاب کی تحقیق کے دوران میں نے لاہور، گوجرانولا اور بوتالا میں اپنے آباؤ اجداد کی حویلی کا بھی دورہ کیا۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ اب وہاں پر لڑکیوں کا ایک سکول ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی کتاب میں اپنے آباؤ اجداد سے سنی ہوئی کہانیاں بیان کی تھیں۔ یہ کتاب لاہور میں موجود ایک پروفیسر کیلاش نے پڑھی۔ پروفیسر کیلاش خود بھی تاریخ دان اور محقق ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بتایا کہ کتاب میں بیان کیے گے واقعات کی بنا پر یہ خاندان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایم این اے محمود بشیر ورک کا خاندان ہے۔
ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کا کہنا تھا کہ جس کے بعد میں نے محمود بشیر احمد ورک سے رابطہ قائم کیا۔ وہ اس ساری کہانی کے حوالے سے کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے، ماسوائے اس بات کے کہ ان کے آباؤ اجداد نے تقسیم ہند کے وقت کئی ہندوؤں اور سکھوں کی مدد کر کے ان کی جان بچائی تھی۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ محمود بشیر ورک کے ساتھ اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس پہنچا تو ایک ایم این اے کی عاجزی ہی نے سب سے پہلے مجھے متاثر کیا۔
’میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خاندان میں کوئی سرکاری افسر تھا تو انھوں نے بتایا کہ ہاں ان کے دادا صوبے خان تقسیم ہند کے بعد لاہور میں تحصیل دار تھے۔‘’مجھے بھی میری دادی نے بتایا تھا کہ ان کو پناہ دینے والے خاندان کے سربراہ ٹیکس کے محکمے میں سرکاری ملازم تھے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آمنہ بیگم کون تھیں۔ یہ سنتے ہی بشیر ورک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب میں اپنے دادا دادی کو بچانے والے اور مدد فراہم کرنے والے محسنوں کی اولادوں سے ملا تو اس وقت بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ یہ ہی حال محمود بشیر ورک کا بھی تھا۔ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کو بچانے والے عظیم لوگ تھے۔
’اگر میرے دادا دادی زندہ نہ رہتے تو ظاہر ہے میں اور میرا خاندان بھی اس دنیا میں نہ ہوتا۔‘ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کہتے ہیں کہ مجھے میری دادی نے بتایا کہ صوبے خان ہمارے خاندانی دوست تھے۔ جب فسادات شروع ہوئے تو اس وقت انتہائی کمپرسی کے حالات میں صوبے خان اور ان کی اہلیہ نے ہمیں لاہور میں اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ حالات تھے جب آج کے پاکستان اور انڈیا میں موجود اکثریت، اقلیتوں کو تلاش کر کے نقصان پہنچا رہی تھی۔ صورتحال یہاں تک تھی کہ دونوں اطراف میں موجود اکثریت کے لیے بھی کسی اقلیت کو پناہ دینا ممکن نہیں رہا تھا۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کا کہنا تھا میرے دادا دادی دو ماہ تک لاہور میں صوبے خان کی سرکاری رہائش گاہ پر چھپے رہے تھے۔ اس دوران آس پاس اور پڑوس میں یہ بات پھیلی کہ سکھ یا ہندوؤں نے صوبے خان کے ہاں پناہ حاصل کر رکھی ہیں تو مقامی امام مسجد نے صوبے خان سے باز پرس کی تھی۔صوبے خان نے جھوٹا حلف نہیں اٹھایا تھا۔ انھوں نے میرے دادا کو بھائی بنا رکھا تھا۔ دو ماہ تک بھائیوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے سکھوں کی مذہبی روایات کا بھی پاس رکھا تھا۔
ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کہتے ہیں کہ میری دادی بتاتی ہیں کہ جب اپنی حویلی کو چھوڑا تو اس وقت میرے ایک چچا اڑھائی ماہ اور دوسرے چچا صرف اڑھائی سال کے تھے۔ وہ لوگ سخت گرمی میں کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ گئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کے کہ ان کی دادی کہا کرتی تھی کہ لاہور پہنچ کر انھیں ایسا لگا کہ جیسے وہ محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گئے ہوں۔ صوبے خان کی اہلیہ اور محمود بشیر احمد ورک کی دادی محترمہ میرے دونوں چچاؤں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کے مطابق دادی محترمہ دونوں بچوں کو اپنے پاس سلاتی تھیں۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ میرے دادا دادی کے کپڑے بھی دھو دیا کرتی تھیں۔ وہ جو کچھ کرسکتے تھے۔ اس سے بڑھ کر کرتی تھیں۔ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ کا کہنا تھا کہ رواداری اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کے گھر میں ان کے مذہب اور طریقہ کار کے مطابق حلال کھانا پکتا تھا جب کہ میرے دادا دادی کے لیے ہماری مذہبی روایات کے مطابق کھانا پکتا تھا۔یہ ہی وجہ ہے کہ جب میں اپنے محسنوں کے گاؤں میں ان کے آباؤ اجداد کی قبروں پر گیا تو وہاں پر ماتھا نہیں ٹیکا بلکہ محبت اور عقیدت میں ان کی قبروں کو چوم کر عظیم لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ترونجیت سنگھ بوتالیہ سے ملاقات سے پہلے ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والے واقعات کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ مگر یہ ضرور پتا تھا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے تقسیم ہند کے وقت اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے ہندووں اور سکھوں کی جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
جب تقسیم ہند ہوئی تو اس وقت میں کم عمر تھا مگر اس وقت کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ ہمارے گاؤں ابن والا اور ارد گرد کے گاؤں، دیہات میں سکھ اور ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے۔ سکھ زمینداری کرتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے زمیندار بھی شامل تھے جبکہ ہندو کاروبار کرتے تھے، زیادہ تر ساہوکاری یعنی سود پر قرض دینے کا کام کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ارد گرد کے دیہاتوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی مگر سب مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق تھا۔ ہمارا گھرانہ اور برادری بھی علاقے میں زمیندارہ کرتے تھے۔ میرے والد محترم بشیر احمد ورک اس کی دیکھ بھال کرتے تھے جبکہ دادا متحرم چوہدری صوبے خان تحصیل دار تھے۔
محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ تقسیم کے دن جیسے جیسے قریب آتے جا رہے تھے ویسے ویسے تناؤ پیدا ہو رہا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ والد محترم کچھ متکفر رہتے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بات چیت کرتے تھے۔ اب ہر وقت اپنے ساتھ اپنا اسلحہ رکھتے تھے۔ یہ بارہ بور بندوق اور ریوالور ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ریوالور ایسے ہی تھا جیسے آج کا ایٹم بم۔
محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ جب تقسیم کے دن بالکل قریب آ گئے اور تقسیم کا اعلان ہو گیا تو اس وقت یہ خبریں سننے کو مل رہی تھیں کہ لوٹ مار کا بازار گرم ہو چکا ہے، مسلمان، ہندو اور سکھ لڑ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں میرے والد محترم نے گاؤں میں اعلان کیا کہ ہمارے گاؤں میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہو گی۔والد محترم نے باقاعدہ پہرے داری کا نظام نافذ کر دیا تھا جہاں پر مسلمان تو ہوتے ہی تھے مگر گاؤں کے سکھ بھی اگر سکھ حملہ کرنے کی کوشش کرتے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ افواہ اڑی کہ قریب کے دیہاتوں کے سکھ ہمارے گاؤں پر حملہ کر سکتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے گاؤں کے لوگ اکھٹے ہوئے۔ سب نے بندوقیں، کلہاڑیاں اور ڈنڈے اکھٹا کرنا شروع کر دیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے گاؤں کے سکھ بھی پوری تیاری کے ساتھ موقع پر پہنچ گے۔ انھوں نے کڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کی کرپانیں ان کے پاس تھیں، دیگر اسلحہ بھی ساتھ تھا۔ سکھوں نے کہا کہ اگر سکھ اس گاؤں پر حملہ کریں گے تو ان کو سب سے پہلے ہمارے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔پھر کیا ہوا مجھے یاد نہیں ہے۔ مگر اس کے بعد یہ ہوا کہ قریب کے دیہاتوں کے ہندوؤں اور سکھوں نے بھی ہمارے گاؤں میں پناہ لینا شروع کردی تھی۔
محمود بشیر ورک کے مطابق مجھے یاد ہے اور میں نے دیکھا تھا کہ ہمارے گھر میں بھی کچھ خواتین اور بچوں نے پناہ حاصل کر رکھی تھی۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری میری والدہ آمنہ بیگم کی تھی۔ وہ ساری رات اپنے پاس خنجر رکھ کر دروزے پر پہرہ دیتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں دو یتیم بچے بھی شامل تھے۔ پتا نہیں وہ ہندو تھے یا سکھ مگر والدہ محترمہ ان کو اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ ان کی دیکھ بھال بالکل ایک ماں کی طرح کرتی تھیں۔ہمارے گاؤں میں اس بات کی بھی پابندی تھی کہ ہمارے گاؤں کا کوئی شخص لوٹ مار میں شریک نہیں ہو گا۔ڈاکٹر ترنجیت سنگھ نے اپنی کتاب میں ہٹوارے کے دوران اپنے خاندان سے سنی ہوئی کہانیاں بیان کی ہیں-لوٹ مار کا مال بر آمد کرکے بیت المال میں جمع کروایا-محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ صورتحال یہ تھی کہ ہمارے گاؤں میں تو مکمل امن و امان تھا جب کہ ہمارے گاؤں کے ارد گرد روزانہ دنگے فساد، لوٹ مار کی اطلاعات ملتی تھی۔ ایسے میں ایک دن پتا چلاکہ ہمارے گاؤں کے کسی شخص نے دوسرے گاؤں میں جا کر لوٹ مار میں حصہ لیا ہے۔اس پر والد محترم نے گاؤں والوں کے ساتھ فی الفور ایکشن لیا اور اس کے گھر سے لوٹ مار کا مال بر آمد کر کے بیت المال میں جمع کروا دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے وجود میں آنے کے بعد کئی دن تک ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کی گئی تھی۔ ہندو اور سکھ انڈیا جانا چاہتے تھے۔ والد محترم نے ان کو حفاظت کے ساتھ مہاجر کیمپ پہنچایا، کئی ایک کو ٹرینوں میں سوار کروایا اور ان کے گھروں اور مال مویشی کی حفاظت کرتے رہے تھے۔مجھے اچھے سے یاد ہے والد محترم ایک ایک کو گلے مل کر الوداع کہہ رہے تھے۔ انھیں یقین دلا رہے تھے کہ ان کے مال و متاع کی حفاظت کی جائے گی اور اگر حالات اچھے ہوئے وہ واپس آئے تو ان کی امانتیں ان کو لوٹا دی جائیں گی۔
محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ کچھ خاندان تقسیم کے وقت گئے اور کچھ خاندانوں نے تقسیم کے کئی مہینوں بعد علاقے کو چھوڑا مگر جانے والے واپس نہیں آئے۔ اسی طرح جب انڈیا سے مسلمان مہاجر آئے تو یہاں سے چھوڑ کر جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کی زمین، جائیداد مال مویشی ان لوگوں کے حصے میں آئی تھیں جس سے ان لوگوں کا روزگار چلا تھا۔’والد محترم زندگی کے آخری دونوں میں اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ میری بخشش کی وجہ انسانی جانوں کی حفاظت کی وجہ سے ہو گی۔‘
بی بی سی دو‘ دسمبر 2021