2014کی بات ہے کہ سڈنی (آسٹریلیا) میں ایک ایرانی نژاد شخص نے چند لوگوں کو ایک ریستوران میں یرغمال بنا لیا اور بالآخر یہ ڈرامہ تین لوگوں کی موت پر منتج ہوا۔ چونکہ اس شخص کی شناخت ایک مسلمان کی حیثیت سے کی گئی تھی اس لیے میڈیا نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک عمومی فضا پیداکر دی جس سے آسٹریلین معاشر ے کی معصوم اقلیت یعنی مسلمان سہم کر رہ گئے ۔اسی دوران میں ایک با پردہ نقاب پوش مسلمان خاتون ٹرین میں سفر کر رہی تھی کہ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شر پسند لوگ اُسے تنگ کریں۔ اس لیے اس نے ٹرین سے اترتے ہوئے اپنا نقاب اتار کر جیب میں ڈال لیا۔اس کے سامنے بیٹھی ہوئی غیر مسلم خاتون(ریچل جیکبز) یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔ ریچل کا کہنا ہے کہ میں سٹیشن پر اتر کر اس کے پیچھے بھاگی اور اُسے کہا کہ اسے دوبارہ پہنو،اگر تمہیں ڈر لگتا ہے تو میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ریچل کہتی ہے کہ اس پر اس مسلمان خاتون نے رونا شروع کر دیا اور اس نے ایک منٹ تک مجھے گلے لگائے رکھااور پھر اکیلے ہی چلی گئی۔ریچل نے اس بات کو فیس بک پر پوسٹ کیا ۔اس بات کو ٹوئٹر کی ایک صارف خاتون ’ٹیسا کم ‘نے پڑھا ۔ یہ خاتون کہتی ہے کہ یہ پڑھ کر میرا دل ٹوٹ گیا اورمیں نے خیال کیا کہ کسی کوکیا حق ہے کہ کسی کے مذہبی لباس کی وجہ سے اسے تعصب اور نفرت کا نشانہ بنائے چنانچہ اس نے I shall ride with you کا ہیش ٹیگ شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے صرف چند گھنٹوں میں دنیا بھر سے لاکھوں لوگوںنے اس پر ٹویٹس کیں او ر آسٹریلیا کے مسلمانوں کی حمایت میں پیغامات لکھنے شروع کیے جنہیں اسلام سے نفر ت کرنے والوں کی طرف سے ردعمل کا خدشہ تھا۔
اس بات کو کتنے ہی روز گزر گئے ہیں لیکن میں ابھی تک سوچ رہاہوںکہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ کا مصداق صرف مسلمان معاشرے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم معاشرے بھی ہیں۔لیکن افسوس کہ جس زرخیزمٹی کو ہم مسلمانوں نے’’ نم‘‘ کر نا تھا اس کو ہم نے رد عمل کی نفسیات اور جہاد کی غلط تعبیرات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس کو’’ نم‘‘ کرنے کے بجائے مسلسل سخت اور خشک کیے جا رہے ہیں۔دنیا کے تمام غیر مسلم معاشرے اسی ’’نم ‘‘ کی تلاش میں ہیں، مگر ہم ہیں کہ انہیں یہ نم فراہم کرنے سے مسلسل انکار ی ہیں۔یہ سب غیر مسلم، غیر نہیں بلکہ ہمارے ہی باپ آدم کی اولاد ہیں مگر ہم انہیں دشمن تصور کیے دور کھڑے ہیں۔یہ حقیقت تسلیم کہ ان میں دشمن بھی ہیں مگر بہر حال قلیل تعداد میں، ان کی اکثریت آج بھی ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ انہیں ساتھ لیے چلنے پہ آمادہ ہی نہیں ہوپاتے۔کسی کو ساتھ لے کے چلنا ہو تو پیار سے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھناپڑتاہے ،دوڑ کے اس کے پیچھے جانا پڑتا ہے اور اسے کہنا پڑتا ہے کہ اپنا ’’نقاب‘‘ مت اتارو، ہم تمہارے ساتھ چلیں گے لیکن بندوق کے زور پہ کون ساتھ چلا کرتاہے اور اگر چل بھی پڑے تو کتنی دیر؟۔
اربوں انسانوں کی اس دنیا میں اربوں نہیں تو کروڑوں یقینا ًایسے ہیں کہ جنہیں یہ علم ہی نہیں کہ اسلام کو امن سے کتنا پیا رہے او رمحمد ﷺ ان کے کتنے بڑے خیر خو اہ ہیں ۔ یا تو ان کے پاس یہ معلومات ہی نہیں او ریا پھر ان بیچاروں کے پاس جھوٹی اور غلط معلومات ہیں۔ ان کی درستی اور تصحیح کو ن کرے گا؟لیکن بات پھر وہی ہے کہ اس کے لیے اُن کے ساتھ چلنا پڑے گا او رخوش قسمتی سے اگرایسا موقع آ جائے کہ وہ خود بھی ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن ہم پھربھی پیچھے کھڑے رہ جائیں تو قصور وار کون؟ یہ سوچنا ہر اس شخص کے ذمے ہے جو خود کو محمد ﷺ کا امتی کہلاتا ہے۔