جو چھوڑتا نہیں مجھے تنہا‘ وہی تو ہے
جو میرے پاس ہوتا ہے ہر جا‘ وہی تو ہے
رحمٰن ہے کریم و رؤوف و رحیم ہے
اپنے ہر ایک وصف میں یکتا وہی تو ہے
سنتا ہے دیکھتا ہے سمیع و بصیر ہے
واقف دلوں کی بات سے رہتا وہی تو ہے
وہ جس کا ذکر قلب کو کرتا ہے مطمئن
ہر رنج ہر الم کا مداوا وہی تو ہے
سرکش جو اپنے رب سے ہیں بندے ہمیں تو ہیں
جو پھر بھی ہم کو پالے وہ داتا وہی تو ہے
ہم خود کو بے سہارا سمجھتے نہیں کبھی
قدرت جسے ہے اپنا سہارا وہی تو ہے
محکم یقیں ہے اُس پہ تو کس بات کا ہے غم
دیتا ہے غم تو غم کو مٹاتا وہی تو ہے
محشر میں اپنے عیب کھلیں گے تو کس طرح
ستّار جو ہے حشر اُٹھاتا وہی تو ہے
الفاظِ حمد سارے اُسی کے لئے تو ہیں
خالق وہی ہے مالکِ دنیا وہی تو ہے
سر خم کریں جو اپنا کریں اُس کے سامنے
سجدہ کریں کہ لائقِ سجدہ وہی تو ہے
عارفؔ محیطِ کون و مکاں اُس کی ذات ہے
بندہ اُسی کا ہوں مرا آقا وہی تو ہے