بچے کی پیدائش والے ہی دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی عمر میں سو فیصد بچوں کی سماعت کا
automated otoacoustic emission (AOAE) test
ٹیسٹ کروائیں۔ یہ بات آپکو کوئی گائناکالوجسٹ پورے نو ماہ اسکے پاس ریگولر چکر لگانے پر بھی نہیں بتاتی۔ نہ پیدائش کے بعد کسی بھی ہسپتال میں یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ شاید ڈاکٹروں کو بھی اسکا شعور نہیں ہے۔ یا شعور ہے تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ بچہ ایک یا دونوں کانوں سے سماعت مکمل یا جزوی محروم ہے یا آواز سننے میں اسے مشکلات کا سامنا ہے تو زندگی کے پہلے مہینے سے ہی اسے ارلی انٹروینشن فراہم کی جائے گی۔ Early Intervention جتنی جلدی شروع ہوگی۔ بچے کے نارمل ہونے کے چانسز اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔
انٹروینشن میں کیا ہوتا ہے؟
والدین کی کاؤنسلنگ اور ٹریننگ سب سے پہلے ہے۔ کہ وہ اس صورت حال کو سمجھیں۔ اور بچے کو حکیموں، دم درود والے پیروں کے پاس لیجانے کے جذباتی ری ایکشن کی بجائے بچے کی ان معنوں میں مدد کریں۔ جس سے بہتری ممکن ہے۔ نوے فیصد والدین کو جس بھی عمر میں بچے کی کسی معذوری کا پتا چلتا ہے۔ وہ رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ گھر میں ماتم شروع ہوجاتا ہے۔ اور معذوری کو قبول کرنے کے بجائے اسکا انکار کر دیتے ہیں۔ یوں وہ اس بچے کو ٹھیک کرنے کی روایتی علاجوں سے کوشش کرتے ہیں۔ کہ بچہ کسی طرح بالکل نارمل دوسرے بچوں کی طرح ہو جائے جو اس نے نہیں ہونا ہوتا۔ ہو بھی سکتا ہے البتہ جب ہمارے ہاں یہ بات مکمل طور پر معلوم ہوتی ہے کہ بچہ بہراہے۔ تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
بچے کو فوراً سننے میں مددگار اگر ڈیوائس کی ضرورت ہے تو کسی مستند آڈیالوجسٹ سے مشورہ کر کے آلہ سماعت لگوائیں۔ یاد رہے اپنے آپ یا جگہ جگہ بیٹھے آلہ سماعت بیچنے والے ٹھگوں کے پاس نہیں جانا۔ جس کو نہیں بھی ضرورت ہوتی وہ اسے بھی لگا دیتے ہیں۔ یا اسکی سیٹنگ کا انہیں سطحی علم ہوتا ہے جو کافی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر کی فیس بچانے کے لیے بچے کی زندگی نہ برباد کریں۔ اگر ڈیوائس کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر بتاتا ہے کہ محض عام آواز سے ابھی تھوڑا سا اونچا بولنا ہے۔ تو ہدایات پر عمل کریں۔
نیوٹریشن پلان بنوائیں۔
ایک سال کی عمر میں سپیچ تھراپی شروع کروائیں۔ سماعت سے محرومی اگر دونوں کانوں میں Profound لیول کی ہو یعنی 95 ڈیسی بل کی آواز سنی جا سکتی ہو۔ تو زندگی کے پہلے سال میں ہی کاکلئیر امپلانٹ کروائیں۔ آرٹی فیشل کاکلیا دماغ کا آپریشن کرکے لگایا جاتا ہے۔ جس سے بچہ نارمل سننا شروع کر دیتا ہے۔ کاکلیئر امپلانٹ کے بعد فوراً ریگولر ایک سال تک بچے کو کسی ماہر سپیچ تھراپسٹ سے سپیچ تھراپی کروائیں۔ خود استاد بننے کی کوشش نہ کریں۔ نہ یہ سمجھیں کاکلیا لگ گیا ہے تو بچہ بولنے لگ جائے گا۔ کاکلئیرامپلانٹ زندگی کی ابتدائی 5 سالوں تک ہو سکتا ہے۔ جتنا تاخیر سے ہوگا۔ بچے کو بولنا سیکھنے میں اتنا ہی زیادہ وقت لگے گا۔ اسکے بعد بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جتنی جلدی ممکن ہو کروا لیں۔ ایسا کرنے سے امید کی جا سکتی ہے کہ بچہ انشاء اللہ نارمل لوگوں کی طرح آلہ سماعت کی مدد سے یا کاکلئیر امپلانٹ سے سننے کے قابل ہو جائے گا۔ جب سنے گا تو ظاہر ہے سپیچ تھراپی سے انشاء اللہ بولے گا بھی۔
غلطی یہاں ہوتی ہے کہ کسی بھی مددگار ڈیوائس کے بغیر لوگ بچے کو نارمل سنانا چاہتے ہیں اسے بلوانا چاہتے ہیں۔ جو کسی طرح بھی ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اور سماعت سے محروم لوگوں کی تعداد دن بدن خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ سپیشل ایجوکیشن کے سکول مشہور ہی ان بچوں کے نام سے ہیں کہ گونگے بہرے بچوں کا سکول ہے۔ باقی سپیشل بچوں کی بھی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ ہمیں بتانا پڑتا ہے۔ سکول میں سب سے زیادہ تعداد سماعت سے محروم بچوں کی ہی ہوتی ہے۔۔میرے اپنے سکول میں 85 ہیں۔ ہر 600 میں سے ایک بچہ کسی نہ لیول کے سماعتی نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کسی بھی ملک کی 5 فیصد آبادی (تمام عمر کے افراد) کسی نہ کسی سطح پر سماعت سے محرومی کا شکار ہیں۔ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ بھی مانیں تو ایک کروڑ سماعت سے محروم لوگ ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیدا ہوتے ہیں سماعت کا ٹیسٹ ہر صورت کروائیں۔ بچہ رسپانس نہیں کرتا ایک ماہ کی عمر میں دو ماہ کی عمر میں پھر کروا لیں۔ یہ باتیں اپنے سرکل میں عام کریں۔ انکو ڈسکشن کا حصہ بنائیں۔ تاکہ آنے والی نسل کو اس معذوری سے بچایا جا سکے۔