آئیے سب سے پہلے فیض احمد فیض کی یہ مشہور نظم پڑھتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں اس نظم کے پس منظر پر۔
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ امریکا اور سوویت یونین کے زیر اثر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک جانب سرمایہ دارانہ معاشرہ تھا اور دوسری جانب اشتراکی دنیا۔ایسے میں امریکا میں سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کے نام منظرعام پر آئے جنھیں دنیا بھر کی رحم کی اپیلوں کے باوجود برقی کرسی پر بٹھا کر سزائے موت دے دی گئی۔
اس کہانی کا آغاز سنہ 1950 سے ہوتا ہے جب امریکا کے شعبہ سراغ رسانی ایف بی آئی نے ہیری گولڈ نامی ایک جاسوس کو گرفتار کیا۔ہیری گولڈ پر الزام تھا کہ اس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا کے ایٹمی راز روس کو فراہم کیے۔ ہیری گولڈ نے الزام قبول کیا اور کہا کہ اس مہم میں اس کی معاونت ڈیوڈ گرین گلاس نامی ایک شخص نے کی تھی۔ یہ شخص امریکی فوج میں مشین مین تھا اور لاس الاموس میں اٹامک مینوفیکچرنگ کمپنی سے وابستہ تھا۔ڈیوڈ گرین گلاس گرفتار ہوا تو اس نے سلطانی گواہ بننے کی پیشکش کی اور اپنی جان بچانے کے لیے سارا الزام اپنی بہن ایتھل اور بہنوئی جولیس روزن برگ کے سر لگا دیا اور کہا کہ یہ دونوں کمیونسٹ ہیں اور انھوں نے اسے روس کو ایٹمی راز فراہم کرنے کے لیے مجبور کیا تھا۔
جولیس اور ایتھل کی شادی سنہ 1939 میں ہوئی تھی۔ دونوں میں کشش کا اصل سبب کمیونزم سے ان کی دلچسپی تھی۔ سنہ 1940 میں جولیس امریکی فوج کے سگنل کور سے وابستہ ہوئے۔ان پر الزام تھا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ریڈار اور ائیر کرافٹ ٹیکنالوجی سے متعلق حساس معلومات روس منتقل کرتے رہے ہیں۔
17 جولائی 1950 کو ایف بی آئی نے جولیس اور ایتھل روزن برگ کو بھی گرفتار کر لیا۔ جیل میں ان پر طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ وہ ان ساتھیوں کے نام بتا دیں جو ان کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن جولیس نے سب کچھ برداشت کیا مگر اپنی زبان نہ کھولی۔وہ اور ایتھل آخر وقت تک اپنے جرم سے انکار کرتے رہے۔ 29 مارچ 1951 کو عدالت نے ہیری گولڈ کو 30 سال اور ڈیوڈ گرین گلاس کو 15 سال قید کی سزا سنا دی اور چند دن بعد 5 اپریل 1951 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کو موت کی سزا کا حقدار قرار دیا۔اس سزا کے سنائے جانے کے بعد پوری عالمی رائے جولیس اور ایتھل روزن برگ کی رہائی کے لیے کوشاں ہو گئی۔عالمی رائے عامہ کے مطابق ان دونوں میاں بیوی کو کمیونسٹ ہونے کی سزا دی جا رہی تھی اور ان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر دنیا بھر کے رہنماؤں کی اپیلوں کے باوجود 19 جون 1953 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔ ان کی موت کا غم دنیا بھر میں منایا گیا۔
آغا ناصر نے اپنی کتاب ‘ہم جیتے جی مصروف رہے’ میں لکھا ہے کہ ‘عدالتی کارروائی کے دوران امریکی عوام میں ملزمان کے لیے ہمدردی کے جذبات فروغ پانے لگے۔ اس زمانے میں امریکہ میں کمیونسٹ دشمنی کی زبردست تحریک چلی جس کے روح و رواں امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی تھے۔’‘وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سوویت یونین کو ختم کر دیا جائے۔ ان کے اس فلسفے کو ‘میکارتھی ازم’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی تشہیر اس مؤثر انداز میں کی کہ دنیا بھر میں خاصی بڑی تعداد میں لوگ ان کے ہمنوا ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات سے امریکہ کی عدلیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔’آغا ناصر نے لکھا ہے کہ جس جج نے روزن برگ کو موت کی سزا سنائی اس کا یہ فقرہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ‘مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ کی حرکتوں اور کارکردگی کی وجہ ہی سے کوریا میں کیمونزم کو فروغ ملا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔’
آغا ناصر کے مطابق ‘سزائے موت کے اس فیصلے کو ساری دنیا کے روشن خیال لوگوں نے ایک سنگین فیصلہ قرار دیا۔ عدالتی فیصلے نے جولیس روزن برگ کو براہ راست اس جرم کے ارتکاب اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی راز ماسکو کے حکمرانوں کو فراہم کرنے کا مجرم قرار دیا۔ ساتھ ہی اس کی بیوی ایتھل کو بھی اس کا شریک جرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا دی گئی۔’
‘دنیا بھر میں اس ناانصافی پر احتجاج کی لہر دوڑ گئی حتیٰ کہ پاپائے روم نے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی مگر جب آنکھیں آہن پوش ہوں تو انصاف کیسے ممکن ہے۔ اس جوڑے کو ایک صبح امریکہ کے ایک زندان میں برقی کرسیوں پر بٹھا کر ہلاک کر دیا گیا۔ جولیس اور ایتھل روزن برگ سے امریکہ کی حکومت نے کہا تھا کہ اگر وہ اعتراف کر لیں تو ان کی سزا بدلی جا سکتی ہیں لیکن انھوں نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا۔’
اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض ان دنوں راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں منٹگمری جیل میں پابند سلاسل تھے۔ جیل میں روزن برگ جوڑے کے خطوط پر مشتمل ایک کتاب کسی طرح ان تک بھی پہنچی۔
وہ اس سانحے سے بے حد متاثر ہوئے اور 15 مئی 1954 کو انھوں نے اپنی وہ معرکہ آرا نظم لکھی جس کا پہلا مصرعہ تھا ‘ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔’
فیض کے مجموعہ کلام ‘زنداں نامہ’ میں شامل اس نظم کی تعارفی سطر میں لکھا ہے کہ ‘ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔’
ادبی ناقدین نے اس نظم کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کا نغمہ مرگ قرار دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فیض صاحب کے نزدیک اپنے آدرش کے لیے جان قربان کر دینے والوں کی کتنی قدر و منزلت تھی۔ایک ہفتے بعد 22 مئی 1954 کو انھوں نے ایلس فیض کو لکھا کہ ‘میں نے روزن برگ جوڑے کے خطوط ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔ اگرچہ بار بار دل زیادہ بھر آیا تو کتاب ہاتھ سے رکھنی پڑی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے الفاظ کا سوز اور ان کی عظمت اسی ادیب کو نصیب ہو سکتی ہے جس کی مرگ و حیات ایسی ہی عظیم اور درد انگیز ہو۔ ان کا اور ان کے بچوں کا خیال آتا ہے تو اپنی مصیبت کی بات کرنا (اگرچہ یہ مصیبت بھی کچھ کم نہیں) بے ہودہ پن معلوم ہوتا ہے۔’
فیض کا یہ خط ان کی کتاب ‘صلیبیں مرے دریچے میں’ میں شامل ہے۔
آغا ناصر نے مزید لکھا کہ ‘یہ ایک آفاقی نظم ہے جو وقت، زمانے اور جغرافیائی حدود سے آزاد ہے۔ جب بھی اور جہاں بھی کسی معصوم کو ناحق سولی پر لٹکایا جائے گا، اس نغمے کی گونج دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہے گی۔ سولی پر لٹکایا جانے والا پاکستان کا ذوالفقار علی بھٹو ہو، ترکی کا عدنان میندریس ہو یا لیبیا کا عمر مختار۔ ان سب کی موت، تاریخ اور وقت کو ایک ہی پیغام دیتی ہے کہ مستقبل میں آنے والی نسلیں امن اور جہد مسلسل کے پرچم بلند کرتی رہیں گی۔’
سید مظہر جمیل نے اپنی کتاب ‘ذکر فیض’ میں لکھا کہ ‘یہ 1955-56 کی بات ہے جب ضیا سرحدی، ہندوستان کی فلمی دنیا سے مایوس ہو کر پاکستان آئے تھے اور یہاں اپنی نئی فلم ‘آخر شب’ کی پیشکش کا اعلان کر چکے تھے۔ فیض سے ان کی پرانی یاد اللہ تھی اور وہ کسی زمانے میں اپنے ڈرامے بہ غرض اصلاح فیض کو دکھایا کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے فیض کی یہ نظم ‘ہم جو تاریک
راہوں میں مارے گئے’ اپنی ایک فلم کے ٹائٹل سونگ کے لیے حاصل کر لی۔ حسن لطیف نے اس کی دلکش اور پرتاثیر دھن بھی بنائی تھی لیکن مجوزہ فلم مکمل نہ ہو سکی۔’
فلم ‘آخر شب’ تو ریلیز نہ ہو سکی مگر سنہ 1964 میں خلیل قیصر نے فیض احمد فیض سے فلم فرنگی کے لیے اس نظم کے حقوق حاصل کر لیے۔ اس فلم کی موسیقی رشید عطرے نے مرتب کی تھی اور یہ نظم مالا کی آواز میں ریکارڈ کی گئی جو شمیم آرا پر فلم بند ہوئی۔فیض نے اپنی کتاب ‘مہ و سال آشنائی’ میں لکھا کہ ‘ماسکو کی ایک صحبت مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ سجاد ظہیر کے بڑے کمرے میں سب لوگ جمع تھے۔ مجھ سے شعر سنانے کی فرمائش ہوئی تو میں نے روزن برگ والی نظم ‘ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے’ کچھ تمہید کے ساتھ سنائی اور اس کے بعد جب اس کا انگریزی ترجمہ ختم ہوا تو ایک صاحب جو کونے میں خاموش بیٹھے تھے، اچانک اٹھے اور آنکھوں پر رومال رکھ کر روتے ہوئے باہر چلے گئے۔’‘کسی کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ امریکہ کے مشہور ترقی پسند سیاسی مبصر اور مصنف البرٹ کاہن ہیں جو روزن برگ کے ذاتی دوست تھے اور آج کل اس جوڑے کے یتیم بچے انھی کی تحویل میں ہیں۔’
جولیس اور ایتھل روزن برگ کو دنیا کے ترقی پسند سوچ رکھنے والے افراد آج بھی نہیں بھولے۔ جب بھی سرد جنگ کا ذکر ہوتا ہے ان کی یاد ہمیشہ آتی ہے۔ ان کی قربانی پر متعدد کتابیں بھی تحریر کی جا چکی ہیں اور سنہ 1978 میں کیوبا اور سنہ 2017 میں ری پبلک ٹوگو لیس نے ان کی تصاویر سے مزین ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے۔